مولانا زاہد الراشدی
جمعیۃ علماء اسلام پاکستان کے امیر مولانا فضل الرحمان نے گزشتہ روز وفاق المدارس العربیہ پاکستان کے سیکرٹری جنرل مولانا قاری محمد حنیف جالندھری اور مختلف مکاتب فکر کے دیگر سرکردہ علماء کرام کے ہمراہ پنجاب کے وزیراعلیٰ میاں شہباز شریف سے ملاقات کر کے بہت سے قومی و ملکی مسائل کے علاوہ ان سے دینی مدارس کو درپیش مشکلات و معاملات پر بھی گفتگو کی۔ جبکہ مولانا قاری محمد حنیف جالندھری کی سربراہی میں ’’اتحاد تنظیمات مدارس دینیہ‘‘ کے راہنماؤں کے ایک وفد نے چیف سیکرٹری پنجاب، ہوم سیکرٹری، آئی جی پولیس اور دیگر افسران بالا کے ساتھ تفصیلی ملاقات کر کے انہیں دینی مدارس کے حوالہ سے اپنے تحفظات و خدشات سے آگاہ کیا۔ ان ملاقاتوں کا عملی نتیجہ کیا نکلتا ہے اس کے بارے میں چند روز تک صورتحال سامنے آجائے گی اور خاص طور پر عید الاضحیٰ کے موقع پر قربانی کی کھالوں کے مسئلہ پر دینی مدارس کے ساتھ مختلف اضلاع کی انتظامیہ کے طرزعمل سے اس کا اندازہ ہو جائے گا۔ مگر دینی مدارس کے ساتھ ملک بھر میں بالعموم اور سندھ و پنجاب میں خاص طور پر انتظامی افسران کا موجودہ رویہ بہرحال توجہ طلب ہے۔
بدقسمتی سے ہماری سول انتظامیہ کی تشکیل نوآبادیاتی دور میں ہوئی تھی جبکہ آزادی اور قیام پاکستان کے بعد بھی مسلسل 70 برس سے اس کی تعلیم و تربیت کے سانچے بدستور وہی چلے آرہے ہیں۔ اس لیے مغرب سے آنے والی ہوا ہی اسے راس آتی ہے اور اسی فضا میں ملک کے نظام و قانون کو ابھی تک چلایا جا رہا ہے۔
جناب نبی اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم نے ایک حدیث مبارکہ میں پیشگوئی کے طور پر اپنی امت کے بارے میں ارشاد فرمایا تھا کہ تم بھی یہود و نصارٰی کے نقش قدم پر چلو گے اور جو کچھ وہ کرتے ہیں یا کریں گے تم اس سے بالشت بھر بھی پیچھے نہیں رہو گے۔ چنانچہ یہی کچھ ہو رہا ہے، مغربی اقوام جو کچھ کرتی ہیں وہی کچھ کرنا ہمارے ہاں معاشرتی فریضہ قرار پا جاتا ہے اور مغرب کی بالادستی میں چلنے والے ادارے جو کہہ دیتے ہیں اس پر عملدرآمد ہماری ذمہ داری سمجھا جاتا ہے۔ حتیٰ کہ اس تعمیل حکم میں ہم معاشرتی ضروریات اور زمینی حقائق تک کو پس پشت ڈال دیتے ہیں۔ کچھ عرصہ قبل ہمارے حکمرانوں کو یہ بات سوجھی کہ مغربی ممالک میں موسم سرما کے دوران گھڑی کی سوئیوں کو ایک گھنٹہ پیچھے کر لیا جاتا ہے اس لیے ہمیں بھی یہ ضرور کرنا چاہیے۔ حکمرانوں کی خدمت میں ہم فقیروں کی طرف سے گزارش کی گئی کہ ان ممالک کی ضرورت تو کسی حد تک سمجھ میں آتی ہے کہ برطانیہ میں موسم گرما اور موسم سرما کے درمیان دن رات کا فرق کم و بیش آٹھ گھنٹے تک پہنچ جاتا ہے اس لیے انہیں اس دوران اس کی ضرورت پڑ جاتی ہے جبکہ ہمارے ہاں دن رات کا یہ فرق چار گھنٹے کے اردگرد ہی رہتا ہے، ہمیں اس کی کچھ خاص ضرورت نہیں ہے۔ ہماری اس گزارش کو ’’مولویانہ‘‘ سمجھ کر نظر انداز کر دیا گیا کہ جب مغرب میں ایسا ہوتا ہے تو ہمیں بھی ایسا کرنا چاہیے۔ چنانچہ ایسا کر دیا گیا مگر یہ سلسلہ ایک سال سے آگے نہ بڑھ سکا اور یہ آرڈر اگلے سال ہی واپس لے لیا گیا۔
دینی مدارس کے حوالہ سے بھی کچھ اسی قسم کی آنکھ مچولی جاری ہے۔ مغربی فلسفہ و نظام اور عالمی اداروں کو پاکستان بلکہ جنوبی ایشیا میں دینی مدارس کا یہ تعلیمی نظام اپنے تہذیبی و فکری اہداف میں رکاوٹ دکھائی دے رہا ہے اور وہ انہیں ختم کرنے یا ان کے تعلیمی و معاشرتی کردار کو غیر مؤثر بنانے کے درپے ہیں۔ اس مقصد کے لیے ایک مہم یہ تھی کہ سرکاری اور بین الاقوامی امداد کے نام پر ان کے مالیاتی معاملات کو اپنے ہاتھ میں لے لیا جائے اور اس کے ذریعہ تعلیمی و انتظامی کنٹرول کے دائرے میں انہیں جکڑ دیا جائے۔ مگر پاکستان کے دینی مدارس کے تمام وفاقوں نے ملکی اور بین الاقوامی دونوں حوالوں سے سرکاری امداد قبول کرنے سے انکار کر کے اپنی تعلیمی و انتظامی خودمختاری کا تحفظ کیا۔ پھر اس کے بعد دوسرا حربہ یہ اختیار کیا گیا ہے کہ مدارس کے ساتھ مالی تعاون کی سپلائی لائن کاٹ دی جائے اور مختلف حوالوں سے ایسا ماحول پیدا کر دیا جائے کہ لوگ ان کے ساتھ تعاون کرنا چھوڑ دیں۔
عید الاضحیٰ کے موقع پر قربانی کی کھالیں دینی مدارس کا ایک بڑا ذریعہ آمدن ہوتی ہیں مگر گزشتہ چند سالوں سے مختلف علاقوں میں دینی مدارس پر یہ ناجائز قدغن عائد کر دی گئی ہے کہ وہ انتظامیہ کی طرف سے باقاعدہ اجازت نامہ کے بغیر یہ کھالیں وصول نہیں کر سکتے۔ حالانکہ قربانی کی کھال اگر کھال ہی کی شکل میں دی جائے تو وہ قربانی کے باقی گوشت کی طرح ہدیہ ہوتی ہے، قربانی کرنے والے کی ذاتی مرضی ہے کہ وہ جس کو چاہے دے۔ گویا یہ پابندی قربانی کرنے والوں پر عائد کی جا رہی ہے کہ وہ قربانی کے جانور کا کوئی حصہ سرکاری افسر کی مرضی کے بغیر کسی کو نہیں دے سکتے۔ یا قربانی کے گوشت یا پائے وغیرہ وصول کرنے والوں کو پابند کیا جا رہا ہے کہ وہ کسی گھر سے قربانی کے جانور کا گوشت یا پائے وغیرہ حاصل کرنے سے پہلے ڈپٹی کمشنر صاحب سے اجازت نامہ لیں۔
اسی طرح اب حکومت پنجاب چیریٹی ایکٹ کے نام سے ایک قانون لا رہی ہے کہ کوئی شخص زکوٰۃ بھی سرکاری اجازت کے بغیر کسی کو نہیں دے سکے گا۔ جبکہ زکوٰۃ و صدقات کے بارے میں قران کریم کا ارشاد ہے کہ وہ ظاہر کر کے بھی دیے جا سکتے ہیں مگر ’’وان تخفوھا وتوتوھا الفقراء فھو خیر لکم‘‘ کہ چھپا کر مستحقین کو دینا زیادہ بہتر ہے۔ اور جناب نبی اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم کا زکوٰۃ و صدقات کے بارے میں فرمان ہے کہ ’’لا تعلم شمالہ ما تنفق یمینہ‘‘ کہ بائیں ہاتھ کو پتہ نہ چلے کہ دائیں ہاتھ نے کیا خرچ کیا ہے۔ امیر المومنین حضرت عثمان بن عفانؓ نے اپنے دور خلافت میں ’’اموال ظاہرہ‘‘ اور ’’اموال باطنہ‘‘ کا فرق قائم کر کے ’’اموال باطنہ‘‘ کی زکوٰۃ ہر شخص کو اپنی مرضی کے مطابق کہیں بھی خرچ کرنے کا حق دے دیا تھا جو آج تک امت میں اجماعی طور پر چلا آرہا ہے۔ اموال باطنہ سے مراد کسی بھی شخص کی وہ دولت ہے جو سرکل میں نہیں ہے اور وہ اسے اپنے محفوظ اثاثے کے طور پر بچا کر رکھے ہوئے ہے۔ اس حکم کا بنیادی مقصد یہ بیان کیا گیا ہے کہ کسی شخص کے ذاتی اور محفوظ اثاثوں میں زکوٰۃ کی وصولی کے نام پر سرکاری افسران کو مداخلت کے حق دینے سے اس کی ’’سیکریسی‘‘ مجروح ہوتی ہے جس کا تحفظ اس کے حقوق میں شمار ہوتا ہے۔
پھر نماز کی طرح زکوٰۃ ایک عبادت ہے اور قرآن کریم نے دونوں کو جابجا اکٹھے ذکر کیا ہے۔ زکوٰۃ کی ادائیگی کو سرکاری اجازت نامے پر موقوف کرنے کا مطلب یہ ہے کہ کل نمازیوں کی فہرست مرتب کرنے کے لیے بھی کوئی محکمہ قائم کر دیا جائے گا اور اس کی ادائیگی کے لیے این او سی کا حصول ضروری قرار دے دیا جائے گا۔ مگر ہمارے افسران کرام کو اس مجوزہ ’’چیریٹی ایکٹ‘‘ کی شرعی نزاکتوں اور معاشرتی اثرات سے کوئی غرض نہیں، ان کا مقصد تو دینی مدارس کے ذرائع آمدنی کو کنٹرول کرنا ہے اور دینی مدارس کے خلاف بین الاقوامی اداروں کے حکم کی تعمیل کرنی ہے جس کے لیے وہ ہر وقت تیار ہیں۔
لیکن کیا اس قسم کے اقدامات سے یہ مقصد حل ہو جائے گا؟ یہ بات بجائے خود محل نظر ہے۔ اس سلسلہ میں دو ذاتی مشاہدے عرض کرنا چاہوں گا۔ ابھی چند روز قبل جوہر ٹاؤن لاہور کے مدرسہ مفتاح العلوم میں نئے تعمیر ہونے والے ’’قرآن ہال‘‘ کی افتتاحی تقریب میں شرکت کی سعادت حاصل ہوئی، میں نے مدرسہ کے منتظمین سے ’’قرآن ہال‘‘ کی تعمیر کے اخراجات کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے بتایا کہ ایک صاحب خیر نے یہ ہال خود تعمیر کرا کے دیا ہیاور وہ اپنا نام ظاہر کرنے کو پسند نہیں کرتے۔ اسی طرح ہمارے گوجرانوالہ کے ایک دوست اسلام آباد میں سرکاری افسر تھے جن کا انتقال ہوگیا ہے، اﷲ تعالیٰ انہیں غریق رحمت کرے، آمین۔ وہ دیگر مدارس کی خدمت کے ساتھ الشریعہ اکادمی گوجرانوالہ کے مدرسہ کو بھی دس ہزار روپے سالانہ دیا کرتے تھے جس کی انہیں رسید دی جاتی تھی۔ گزشتہ رمضان المبارک میں ان کے بھانجے نے دس کی بجائے بیس ہزار روپے دیے اور بتایا کہ ماموں نے بھجوائے ہیں اور کہا ہے کہ اس کی رسید نہیں کاٹنی۔
چنانچہ ہماری بیوروکریسی کو اس بات کا اندازہ نہیں ہے کہ ان کے اس ’’چیریٹی بل‘‘ کا مدارس کے نظام پر کچھ خاص فرق نہیں پڑے گا کہ جس نے مدرسہ کو رقم دینی ہے اس نے بہرحال دینی ہے، البتہ وہ احتیاط کے پیش نظر اپنے نام کی رسید نہیں کاٹنے دے گا۔ لیکن اس سے دینی مدارس کو ’’ریگولرائز‘‘ کرنے اور ان کے حسابات کو چیکنگ کے دائرے میں لانے کے سرکاری منصوبے غیر مؤثر ہو جائیں گے۔ اصل بات یہ ہے کہ عامۃ المسلمین اپنے بچوں کو دینی تعلیم دلوانا چاہتے ہیں اور ان کے دلوں میں دینی تعلیم کی ضرورت کا احساس دن بدن گہرا ہوتا جا رہا ہیجس کے لیے دینی مدارس کے علاوہ اور کوئی انتظام موجود نہیں ہے۔ اس لیے جب تک دینی مدارس کی یہ معاشرتی ضرورت برقرار رہے گی ان کے ساتھ عوام الناس کے تعاون کا سلسلہ بھی برقرار رہے گا، اور ہماری سرکار کے ذریعے سے کیے جانے والے بین الاقوامی اقدام وقتی اور ناپائیدار ثابت ہوتے رہیں گے۔ لہٰذا بیوروکریسی کے افسران کو اتنی بات تو ضرور سمجھ لینی چاہیے کہ ’’زکوٰۃ‘‘ ایک عبادت ہے اور عبادت کے لیے کسی سرکاری افسر کی اجازت کی ضرورت نہیں ہوتی کہ جناب والا! مجھے یہ عبادت کتنی، کب اور کہاں ادا کرنی ہے؟‘‘