سید محمد کفیل بخاری
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے 22؍اگست کو آر لنگٹن کے فوجی اڈے پر اپنے خطاب میں جنوبی ایشیا اور افغانستان کے لیے نئی امریکی پالیسی جاری کرتے ہوئے کہا ہے کہ:
’’پاکستان، افغانستان میں ہمارا ساتھ دے ورنہ نقصان ہوگا۔ پاکستان اربوں ڈالر لینے کے باوجود دہشت گردوں کو پناہ گاہیں فراہم کرتا ہے۔ 20؍دہشت گرد تنظیمیں پاکستان میں کام کررہی ہیں۔ جو ہری ہتھیار اور ان کی تیاری میں استعمال ہونے والا مواد دہشت گردوں کے ہاتھ نہیں لگنا چاہیے۔ اسلام آباد ہمارا ساتھ دے ورنہ سختی کے ساتھ نمٹیں گے۔ نان نیٹو اتحاد سے نکال کر اقتصادی پابندیاں لگائیں گے اور خطے میں بھارت کا اثر و رسوخ بڑھائیں گے۔ ہماری قوم کو فوجیوں کی قربانیوں کاصلہ چاہیے۔‘‘
امریکی صدر کی پاکستان کو دھمکی کے بعد سب سے پہلا رد عمل چین اور پھر روس کی طرف سے آیا۔ دونوں ملکوں نے پاکستان کے خلاف امریکی الزامات کو مسترد کرتے ہوئے نئی پالیسی کو بھی غلط قرار دیا۔ اسی روز پاکستان میں امریکی سفیر ڈیوڈہیل نے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ سے ملاقات کر کے انھیں امریکہ کی نئی افغان پالیسی پر اعتماد میں لینے کی کوشش کی۔ جبکہ وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے سعودی عرب پہنچ کر معاملات کو سلجھانے اور پاکستان کے لیے حمایت حاصل کرنے کی کوشش کی۔ معلوم نہیں کہ وزیراعظم اپنے مشن میں کس حد تک کامیاب ہوئے؟ جنرل باوجوہ نے امریکی الزامات مسترد کرتے ہوئے کہا کہ: ’’ہم امریکہ سے کسی بھی قسم کا مالی و مادی فائدے کی بجائے اپنی کوششوں پر اعتماد و اعتراف چاہتے ہیں۔ کسی بھی دوسرے ملک کی طرح پاکستان بھی افغانستان میں امن کا خواہش مند ہے۔ پاکستان میں دہشت گردوں کی کوئی پناہ گاہ نہیں۔ وزیراعظم کی صدارت میں منعقدہ قومی سلامتی کونسل نے بھی امریکی الزامات مسترد کرتے ہوئے اپنے اعلامیے میں کہا کہ: امریکہ افغانستان میں دہشت گردوں کی پناہ گاہیں ختم کرے۔ پاکستان کو قربانی کا بکرا بنا کر افغانستان میں امن و استحکام نہیں لایا جاسکتا اور نہ ہی افغان جنگ پاکستان میں لڑی جاسکتی ہے۔اربوں ڈالر امداد کے دعوے گمراہ کن ہیں۔ بھارت خطے میں امن کا ضامن نہیں ہوسکتا۔
اس وقت پاکستان کو شدید مشکلات اور تشویش ناک صورت حال کا سامانا ہے۔ ہمارے حکمرانوں کو بڑی سنجیدگی کے ساتھ غور و فکر کر کے وطن عزیز کو مستقبل کے خطرات سے محفوظ کرنا ہوگا۔ وزیراعظم لیاقت علی خان مرحوم کے دور سے امریکہ کے ساتھ شروع ہونے والا رومانس اپنے منطقی انجام کو پہنچ رہا ہے۔ پاکستان 70؍برس سے امریکہ کا ساتھ دے رہا ہے۔ امریکہ نے ہر موقع پر اپنے مفادات کے لیے ہمیں استعمال کیا۔ پھر طوطا چشمی کرتے ہوئے وعدوں سے انحراف کیا، دھوکہ دیا اور نیا ایجنڈا پیش کر کے ڈومور کا مطالبہ کیا۔ یہی امریکہ کی تاریخ ہے۔
ٹرمپ کی دھمکی حکمرانوں کی غلط اور کمزور پالیسیوں کا نتیجہ ہے جس کا خمیازہ آج پوری قوم بھگت رہی ہے۔ تمام سٹیک ہولڈرز کو ماضی کی ان غلطیوں کا اعتراف کرنا ہوگا جن کی وجہ سے حالات اس نہج پر پہنچے۔ حقیقت یہی ہے کہ ماضی میں ڈالروں کے عرض قومی غیرت اور ایمانی حمیت کا سودا کیا گیا۔ امریکہ نے ہمیشہ اپنے مفادات کے لیے پاکستان میں سول حکمرانوں کی بجائے ڈکٹیٹروں کو ترجیح دی اور بڑی آسانی اور کامیابی کے ساتھ اپنے اہداف حاصل کیے۔ خاص طور پر جنرل پرویز مشرف جس طرح امریکہ کے سامنے سپر انداز ہوئے وہ ہماری تاریخ کی بد ترین اور سیاہ ترین مثال ہے۔ انھوں نے بیس کروڑ عوام کی دینی و قومی شناخت اور پاکستان کی نظریاتی اساس کی ’’ارتھی‘‘ نکال کر ملک و قوم کو استعمار کی غلامی کے قعرمذلت میں پھینک دیا۔ قومی سلامتی کونسل جس نتیجے پر آج پہنچی ہے ، اگر یہ بات اس وقت کہی جاتی تو نتائج مختلف ہوتے لیکن یہاں ریمنڈ ڈیوس اور بلیک واٹر کو آزادی کے ساتھ دہشت گردی کرنے کا موقع فراہم کیا گیا۔ امریکی فرماں برداری میں اپنے مسلمان بھائیوں کے قتل میں لاجسٹک سپورٹ فراہم کی گئی اور اپنے ہوائی اڈے امریکی فورسز کو دیے گئے۔
اب امریکی تھیلے سے باگڑ بلا باہر آگیا ہے۔ یہ حکمرانوں کے لیے آخری موقع ہے کہ اسلام کے نام پر معرض وجود میں آنے والے پاکستان کی بقا و سلامتی کے لیے آخری بازی لگادیں۔ محض جذباتی نعروں اور بڑھکوں کی بجائے قومی اتفاق رائے سے ایک مضبوط مؤقف اور مستحکم پالیسی طے کر کے ہمیں آگے بڑھنا ہوگا۔ ٹرمپ نے جس امداد کا ذلت آمیز طعنہ دیا ہے وہ 17؍سالوں میں 25؍ارب ڈالر بنتی ہے جبکہ پاکستان نے امریکی جنگ کا حصہ بن کر 150؍ارب ڈالر کا نقصان اٹھایا اور 70؍ہزار انسانی جانوں کا ضیاع اس پر مستزاد ہے۔ اس طویل عرصے میں امریکہ اور اس کے اتحادیوں کو عبرتناک شکست کے سوا کچھ نہیں ملا۔
امریکہ اپنی شکست کا ملبہ پاکستان پر گرانا چاہتا ہے۔ جنگ امریکی ایجنڈہ، افغانستان مورچہ اور پاکستان ہدف ہے۔آرمی چیف اور قومی سلامتی کونسل نے جرأت مندانہ مؤقف اختیار کیا ہے، اگر دیانت داری کے ساتھ اس پر استقامت اختیار کر یں تو اس مشکل اور بحران سے پاکستان کامیابی کے ساتھ نکل سکتاہے۔ چین، روس اور ایران کی حمایت حوصلہ افزا ہے اور ہمارے لیے آگے بڑھنے کے راستے موجود ہیں۔ عارضی اور وقتی فیصلے دیرپا نہیں ہوتے ہمیں مستقل بنیادوں پر فیصلہ کرتے ہوئے دہشت گردی کے خلاف امریکہ کی نام نہاد جنگ سے علیحدہ ہوجانا چاہیے۔خارجی محاذ پر بھر پور محنت کر کے دیگر ممالک کی حمایت بھی حاصل کرنی چاہیے اور ہمسایہ ممالک سے برادرانہ تعلقات میں بہتری لانی چاہیے۔ ان شاء اﷲ پاکستان قائم رہے گا اور وطن کے ہر دشمن کا منہ کالا ہوگا۔