ابومعاویہ رحمانی چوہان
صوفی محمد سلیم صاحب سدھو جٹ برادری سے تعلق تھا، ۱۹۵۳ گڑھ مہاراجہ ضلع جھنگ میں پیداہوئے، ابتدائی تعلیم بھی وہیں سے حاصل کی۔ ان کے والد صاحب ملازمت کے سلسلہ میں رحیم یار خان آئے اور عباسی ٹیکسٹائل ملز میں ملازمت اختیار کی اور رحیم یار خان میں قیام پذیر ہوگئے۔ صوفی صاحب بھی والد کے ہمراہ یہاں آگئے اور کالونی ہائی سکول میں اچھی پوزیشن کے ساتھ میٹرک پاس کیا، تعلیم میں بی اے ، بی ایڈ کی ڈگری حاصل کی۔
پھر آپ نے پاک فوج میں ملازمت اختیار کی اور ملتان میں تعیناتی ہوئی، ملتان میں قیام کے دوران آپ فارغ اوقات میں کثرت کے ساتھ حضرت مولانا سید ابومعاویہ ابوذر بخاری رحمتہ اﷲ علیہ کی خدمت اقدس میں حاضر ہوتے رہتے۔ چونکہ حضرت شاہ جی رحمہ اﷲ سے صوفی صاحب کو والہانہ عقیدت و محبت پہلے سے ہی تھی اب اس میں کچھ اور ہی اضافہ ہوا کہ صوفی صاحب نے حضرت شاہ جی کی خدمت میں بیعت ہونے کی درخواست پیش کی جو کہ منظور ہوگئی اور حضرت نے صوفی صاٖحب کو بیعت کر لیا۔ اتفاقاً صوفی صاحب کے گردے میں پتھری ہوگئی جس کا آپریشن ہوا اور خرابیٔ صحت کی بنیاد پر فوج کی ملازمت سے فارغ کردیے گئے۔ پھر آپ نے کوشش کر کے ۱۹۷۹ء میں محکمہ تعلیم میں ملازمت اختیار کر لی۔صوفی صاحب نہایت سادگی پسند اور ملنسار تھے۔ آپ میں دینی جذبہ بھی نہایت اجاگر تھا اور بیعت ہونے کے بعد اپنے مرشد سے بے پناہ محبت ہوگئی۔ مجلس احرارِ اسلام کے اجتماعات میں بڑی باقاعدگی اور اہتمام سے شریک ہوتے تھے اور خدمت کے جذبہ کے ساتھ آپ کی خدمت میں کثرت سے حاضر ہوتے تھے۔
دینی فہم کے لیے مغرب کے بعد مدرسہ شمس العلوم رحیم یارخان میں تفسیر کے سبق میں شرکت اختیار کر لی اور قرآن مجید کا ترجمہ پڑھا۔
۱۹۸۵ء میں آپ کی شادی مشہور عالم دین اور احرار کے بانی رہنمارئیس الاحرار مولانا حبیب الرحمن لدھیانوی رحمتہ اﷲ علیہ کے فرزند حضرت مولانا انیس الرحمن لدھیانوی رحمہ اﷲ کی دختر نیک اختر سے ہوئی جس سے ایک بیٹا محمد معاویہ اور دو بیٹیاں ہیں۔ وہ ماہنامہ ملیہ فیصل آباد کے مدیر مولانا حبیب الرحمن لدھیانوی کے بہنوئی تھے۔
آپ اپنے فرائض کو بڑی پابندی کے ساتھ نبھاتے رہے جس سکول میں بھی گئے امتیازی حیثیت سے رہے اور شاگردان عزیز کی تعلیم اور اخلاق کا بڑا خیال کرتے تھے اور ان میں دینی جذبہ پیدا کرنے کی خاص کوشش کرتے تھے پورا پیریڈ کلاس میں ہی گزارتے۔
۱۹۸۷ء میں پائلٹ سیکنڈری سکول میں آئے اور ۲۰۱۶ء میں یہیں سے ریٹائر ہوئے۔ ریٹائرمنٹ کے بعد سوچ رہے تھے کہ بچے کو کاروبار کرائیں بچے کو الیکٹریشن کی دکان شروع کرائی لیکن تجربہ نہ ہونے کی وجہ سے وہ کامیاب نہ ہوسکا پھر اسے ایک کریانہ کی دکان پر کام سیکھنے کے لیے مقرر کرایا۔ ابھی تھوڑے ہی دن گزرے تھے کہ بچہ کام پر جانے لگااور خود اس کے مستقبل کی سوچ میں احباب سے مشورہ کرتے رہتے انسان کی کچھ سوچ ہوتی ہے اور قدرت کو کچھ اور منظور ہوتا ہے۔
مادرچہ خیالیم و فلک درچہ خیال کا معاملہ ہوا کہ مورخہ ۲۴؍ مئی ۲۰۱۷ کو اپنے محلہ کی مسجد معاویہ میں عصر کی نماز پڑھنے گئے، دوران نماز اچانک دل کی تکلیف ہوئی اور نماز میں ہی درد کی وجہ سے بے ہوش ہو کر گرپڑے فوری طور پر آپ کو ایمرجنسی میں لے جایا گیا مغرب کے بعد ہوش آیا تو کہا کہ میں ٹھیک ہوں مجھے گھر لے چلیں ڈاکٹروں نے منع کیا لیکن نہ مانے اور گھر آگئے رات کو گیارہ بجے پھر تکلیف ہوئی تو بچوں کو اکٹھے کر کے کلمہ شریف پڑھا اور پھر زور سے اﷲ اﷲ کا ذکر کرتے ہوئے ساڑھے گیارہ بجے آخرت کے سفر پر روانہ ہوگئے۔ انا ﷲ وانا الیہ راجعون۔ اگلے روز ۲۵؍ مئی کو دس بجے صبح مدرسہ شمس العلوم میں مولانا خلیل اﷲ نے نماز جنازہ پڑھائی اور رفقاء نے آہوں اور سسکیوں کے ساتھ اپنے محبوب دوست کو اخروی سفر پر روانہ کردیا۔ ضلع بھر سے احرار ساتھی جنازہ میں شریک ہوئے۔ خصوصاً مرزاواصف خان پور، حافظ کریم اﷲ ظاہر پیر، فقیر اﷲ رحمانی و مولوی محمد طارق چوہان بستی مولویان، جام یعقوب ٹب چوہان، حافظ محمد اشرف، حافظ محمد عباس، حافظ محمد صدیق،حافظ زبیر احمداور محمدعاصم رحیم یار خان سے شریک ہوئے۔ دوسرے روز احباب نے صوفی صاحب کے گھر جا کر ان کے بچوں اور داماد سے تعزیت مسنون کی۔ آپ مجلس احرار اسلام سے وابستہ ہوئے تو پھر عمر بھر ساتھ رہے۔ وہ ایک باوفا، مخلص، ایثار پیشہ، صالح، بہادر، جفاکش اور مزدور کارکن تھے۔ انھوں نے کبھی نام و نمود کی کوشش نہیں کی اور خاموش کارکن بن کر جماعت کی خدمت کرتے رہے۔ حقیقت میں وہ احرار کا اثاثہ تھے۔ مجلس احرارِ اسلام پاکستان کے نائب امیر سید محمد کفیل بخاری نے ان کے گھر حاضر ہو کر ان کے بیٹے محمد معاویہ اور اہل خانہ سے تعزیت اور دعاءِ مغفرت کی۔ اﷲ تعالیٰ ان کی مغفرت فرمائے اور حسنات قبول فرما کر اعلیٰ علیین میں جگہ عطاء فرمائے۔ (آمین)