شورش کاشمیریؒ
’’اج او ہنداتے ایناں کرگساں نوں دسدا کہ بخاری غدار اے کہ فداکار، میں کنوں کواں، میرے تے یار ای میرے کولوں وچھڑ گئے نے۔‘‘
علامہ اقبال کا ذکرہورہا تھا، شاہ جی نے ایک سرد آہ بھری او رکہا ’’اقبال زندہ ہوتا تو پھر ان کر گسوں کو بتاتا کہ بخاری غدار ہے یا فداکار میں کسے کہوں میرے تو ساتھی ہی مجھ سے بچھڑ اور پچھڑ گئے ہیں‘‘۔ شاہ جی فرماتے تھے جب کبھی میں علامہ کے ہاں حاضر ہوتا وہ چارپائی پر گاؤ تکیہ کا سہارا لے کر بیٹھے ہوتے، حقہ سامنے ہوتا دو چار کرسیاں بچھی ہوتیں، صدا دیتا یا مرشد! فرماتے، آبھئی پیرا! بہت دناں بعد آیا ایں (بہت دنوں بعد آئے ہو)علی بخش سے کہتے حقہ لے جاؤ اور کلی کے لیے پانی لاؤ۔ کلی فرماتے پھر ارشاد ہوتا ایک رکوع سناؤ۔ میں پوچھتا حضرت! کوئی تازہ کلام؟ فرماتے ہوتا ہی رہتا ہے۔ عرض کرتا سنایے کاپی منگواتے، پہلے رکوع سنتے، پھر وہ اشعار جو حضور سے وابستہ ہوتے۔ قرآن پاک سنتے وقت کانپنے لگتے لیکن جب حضور صلی اﷲ علیہ وسلم کا ذکر ہوتا یا ان سے متلعق کلام پڑھا جاتا تو چہرہ اشکبار ہوجاتا۔ حضور صلی اﷲ علیہ وسلم کا ذکر ہمیشہ باوضو شخص سے سنتے اور خود ان کا نام بھی باوضو ہو کر لیتے۔ حضور صلی اﷲ علیہ وسلم کے ذکر پر اس طرح روتے جس طرح ایک معصوم بچہ ماں بغیر روتا ہے۔
افراد، اشخاص اور واقعات و حالات کے بارے میں ان کا تجزیہ حیرت انگیز طور پر درست ہوتا تھا۔ شاہ جی کا بیان ہے کہ مجھ سے اکثر لوگوں کے بارے میں گفتگو فرمایا کرتے اور ان کی سیرتوں کا اجمالی خاکہ پیش فرماتے۔ سرکار کی بیشتر باتیں انھی کی وساطت سے ہم تک پہنچتی تھیں۔ پہلے خود ہی طرح دیتے پھر احتراز فرماتے۔ بھئی دلی دروازے کے باغ میں لوگوں کو بتا دو گے؟ پھر بتا بھی دیتے۔ فرماتے ’’اپنی ذلت تک محدود رکھنا لطف یہ تھا کہ اپنے سبھی معتمدین کو بتاتے چلے جاتے اور سبھی کو یہ مشورہ دیتے کہ اپنے آپ تک محدود رکھنا اور جب بات بکھر جاتی تو فرماتے تم لوگ راز نہیں رکھ سکتے ہو؟ عرض کی جاتی کہ آپ ہی نے تو فلاں فلاں کو بتایا ہے پھر مسکراتے اچھا تو عام ہوجانے دو اس میں راز کی کون سی بات ہے؟ ایک وفعہ (بروایت شاہ جی) جلسوں کی رونق پر گفتگو کرتے رہے۔ کہنے لگے عامتہ المسلمین میں بڑی جان ہے۔ اس قوم کا مزاج حرارت سے بنا ہے، یہ بجھنے کے لیے پیدا نہیں کی گئی، ساری خرابی لیڈر شپ کی ہے۔ خواص نوخیز عضو معطل ہیں انھیں اپنے جسم کا عیش چاہیے لیڈر گم کردہ راہ ہیں لوگوں کو صحیح راستہ پر نہیں لاتے۔ عرض کیا حضرت یہ بھی آپ نے مفروضہ قائم کرلیا ہے، قوم خود ہی صحیح راہ پر نہیں آتی؟ آپ کے لیے عامۃ المسلمین کس طرح تڑپتے ہیں لیکن آپ مجمع میں آتے ہی نہیں؟
’’نہیں پیر جی، یہ بات نہیں میرا مجمع میری کتابیں ہیں، میں ہجوم و افکار میں اس طرح کھڑا رہتا ہوں کہ بسا اوقات فرصت کے اوقات ہی عنقا ہوجاتے ہیں۔‘‘ ٹھیک ہے مرشد! میں نے تو کبھی اپنی کتابوں کی گرد بھی نہیں جھاڑی ہے۔
’’او شاہ جی تُسی تے دلاں تے دماغاں دی مٹی جھاڑ دے او (شاہ جی آپ تو دلوں اور دماغوں کی گرد جھاڑتے ہو)
شاہ جی نے یہ بیان کیا تو ان کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔ فرمایا، ہائے کیا انسان تھا جدید دانش اور قدیم حکمت کا نقطۂ معراج چونکہ میاں صلی اﷲ علیہ وسلم سے محبت کرتے تھے اس لیے اﷲ نے ان پر علم و دانش اور فکر و نظر کی سبھی راہیں کھول دی تھیں۔ وہ میدان کا کھلاڑی نہیں تھا لیکن علم اس کا خانہ زاد تھا۔
آج جو پشتینی وفادار! شاہ جی نے فرمایا اس کا نام لے لے کر اس کے ہم نشینوں کی فہرست میں اپنا نام لکھوا رہے ہیں۔ کسی علمی مسئلہ پر اقبال نے کبھی ان سے مخاطبت کی؟ کبھی مسلمانوں کے مستقبل کا سوال ان سے زیر بحث لاتے رہے؟ ان کے ساتھ تو ان کے زیادہ سے زیادہ لاغر قسم کے مجلسی روابط تھے۔
شاہ جی نے کہا یہی وہ لوگ ہیں جو اقبال کی راہ میں ہمیشہ مزاحم ہوتے رہے۔ انھی لوگوں نے اقبال کے خلاف مخبریاں کی تھیں اور انھیں کسی منصب پر فائز نہیں ہونے دیتے تھے۔ اقبال نے مجھ سے آنکھوں میں آنسو لا کر کہا تھا شاہ جی ان خاندان فروشوں کی سیاہ دلی کی حد ہوگئی یہ خوفِ خدا سے بھی عاری ہو چکے ہیں۔
شاہ جی کی روایت ہے کہ فرنگ دشمنی سے ان کے خون کا قطرہ قطرہ انگاروں میں ڈھلا ہوا تھا۔ وہ یورپی تہذیب، یورپی دانش، یورپی سیاست اور یورپی سج دھج کے سخت دشمن تھے۔ کہا کرتے تھے کہ ہمارا مغرب زدہ طبقہ اپنے خصائص کھو چکا ہے۔ اس کے اندر مشرق کی روح باطل نہیں رہی۔ یہی وجہ ہے کہ قوم کی خودی اپنی قیمت کھو بیٹھی ہے۔ لوگ علم کی سنجیدگی سے ہاتھ اٹھا کر نٹوں کا تماشا دیکھنے میں غلطاں ہیں۔
کاسہ لیس خاندانوں کا ذکر بڑی حقارت سے کرتے طنطنہ میں نے صرف انھی میں دیکھا کہ جن سے نفرت کرتے انھیں اپنے گھر میں گھسنے نہیں دیتے اور اگر کسی بہانے چلا آتا تو اسے دھتکار کر نکال دیتے ورنہ منہ نہیں لگاتے تھے۔
ایک دفعہ فرمایا: شاہ جی میں مطمئن ہوں کہ میرا کلام لوگوں کے رگ وپے میں اتر رہا ہے لیکن ابھی کارواں تیار ہو رہا ہے ابھی کارواں بنا نہیں۔ سفر، راستہ اور منزل تو دور کی چیزیں ہیں جب تک مشرق مغرب کی ذہانت کو للکارے گا نہیں اس وقت تک مشرق کی عظمت کا سورج نہ کبھی ابھر سکتا ہے اور نہ اس کے نصف النہار پر پہنچنے کا سوال ہی زیر غور آسکتا ہے۔ شاہ جی یہ عموماً فرماتے۔
کاش اقبال آج زندہ ہوتے ان کا دماغ ایک عظیم الشان تنہائی کا عظیم الشان کتب خانہ تھا۔ جب کبھی ان کی ہم نشینی کا موقع ملتا معلوم ہوتا تھا کہ لالہ زار کھل گیا ہے۔