پروفیسر خالد شبیر احمد
حضرت امیر شریعت سید عطاء اﷲ شاہ بخاری کا وجود ہمارے لیے رحمت خداوندی کا درجہ رکھتا تھا۔ اس گراں قدر سرمایہ کا چھن جانا ایک عظیم سانحہ ہے۔ حضرت شاہ صاحب رحمتہ اﷲ علیہ نے اس سرزمین پاک و ہند کے عوام میں انگریزی سامراج کے خلاف جس ہمت اور شجاعت سے کام کیا ہے۔اس کی مثال تحریک حُر ّیت میں نہیں ملتی۔ انھوں نے انگریزی سلطنت کے خلاف ایک ذہن پیدا کیا پھر یہاں تک ہی محدود نہیں بلکہ عوام میں حکومت برطانیہ کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرنے کا جذبہ پیدا کیا۔ جب حریت پسندوں کے سینے گولیوں سے چھلنی کر دیے جاتے تھے۔ جب انگریزی رعب ودبدبہ عوام کے دل و دماغ پر مسلط ہوچکا تھا۔ امیر شریعت سید عطاء اﷲ شاہ بخاری رحمتہ اﷲ علیہ نے خیبر سے لے کر کلکتہ تک اور مدراس سے لے کر ہمالیہ تک ایک آگ لگادی۔ ملک کی فضا کو انقلاب زندہ باد کی گونج میں تبدیل کر دیا۔ آپ کے ان تھک ارادوں کے سامنے کوئی طاقت نہ ٹھہر سکی اور چند ہی برسوں میں اس دھرتی کے لوگوں میں عظیم جذبہ حریت پیدا کردیا۔ اس میدان میں مولانا ابوالکلام آزاد رحمتہ اﷲ علیہ کا ’’البلاغ‘‘ و ’’الہلال‘‘ مولانا محمد علی جوہر کا ’’ہمدرد‘‘ و ’’ کامریڈ‘‘ مولانا ظفر علی خان کا ’’زمیندار‘‘ اور شاہ صاحب رحمتہ اﷲ علیہ کی قوت گفتار یہ سب یکساں درجہ رکھتے ہیں بلکہ یوں کہنا مبنی برحقیقت ہوگا کہ وہ دیہاتی اور غیر ترقی یافتہ علاقے جہاں لوگ ان پڑھ اور اخباری دنیا سے ناواقف لوگ تھے، ان تینوں بزرگوں (مولانا آزاد، مولانا جوہر اور مولانا ظفر علی خان)کی سرتوڑ کوششیں اپنا اثر پیدا نہ کر سکیں وہاں بخاری کے زمزمے فضا میں گونج گئے۔ یہ تینوں حریت پسند عظیم رہنما جو کام اپنی قلم سے سرانجام دیتے رہے وہی کام یہ مرد مجاہد یہ بطل حریت اپنی قوت گفتار سے سرانجام دیتا رہا۔ تحریک ترکِ موالات، تحریک خلافت ہو یا پھر تحریک کشمیر، تحریک نمکین، تحریک ختم نبوت، تحریک فوجی بھرتی بائیکاٹ (۱۹۳۹ء) امیر شریعت سید عطاء اﷲ شاہ بخاری رحمتہ اﷲ علیہ کی آزاد آواز صور اسرافیل کی طرح ہر بار پورے ملک کے اندر گونج گئی۔ لاکھوں مجاہدین اپنے اس محبوب اور سرفروش رہنما کی آواز پر سربکف اپنے گھروں سے نکل پڑے اور پورے ہندوستان میں انگریز سامراج کی جیلوں کو بھردیا۔
حضرت امیر شریعت رحمتہ اﷲ علیہ کے کام اور انداز اور اس کے ساتھ ساتھ آپ کے جذبہ اور ولولۂ حریت کا اندازہ آپ اس ایک تاریخی کارنامے سے لگا سکتے ہیں کہ جب ۱۳؍مارچ ۱۹۳۰ء کو ملک کے اندر انگریزوں کے خلاف تحریک نمکین شروع ہوئی تو حضرت شاہ صاحب نے اپنا طوفانی دورہ لاہور سے شروع کیا۔ لاہور سے چل کر یہ بطل حریت امرتسر، جالندھر، لدھیانہ میں اپنے نعرہ ہائے حریت سے فضا کو مسحور کرتا ہوا سہارن پور پہنچا یہاں سے پھر امروہہ پورایوپی۔سی پی کو روندتا ہوا بہار میں داخل ہوا اور یہاں سے پھر بنگال میں دیناج پور کے مقام میں اپنے آپ کو گرفتاری کے لیے پیش کردیا اور گرفتاری کے وقت ایک تاریخی فقرہ کہا کہ ’’میں نے پورے ہندوستان کی سرزمین کو انگریزوں کے خلاف کھڑا کردیا ہے اور اب آگے سمندر ہے لہٰذا اپنے آپ کو گرفتاری کے لیے پیش کرتا ہوں‘‘۔
یاد رہے کہ لاہور میں پہلے ہی خطاب سے ہندوستان بھر کی پولیس آپ کو گرفتار کرنے کی سر توڑ کوشش کرتی رہی لیکن آپ پولیس کو جل دے کر آگے نکل جاتے کہیں پر بھی ہندوستانی پولیس آپ کو گرفتار نہ کرسکی۔
رئیس الاحرار مولانا حبیب الرحمن لدھیانوی کے فرزند جناب عزیزالرحمن لدھیانوی اپنی کتاب ’’رئیس الاحرار اور ہندوستان کی جنگ آزادی‘‘ میں تحریر فرماتے ہیں: ’’کہ اس سارے دورے میں حضرت شاہ صاحب کی تقریروں سے متاثر ہو کر ایک لاکھ سے زیادہ فرزندان توحید نے اپنے آپ کو گرفتاری کے لیے پیش کیا‘‘
کانگریس کے سب سے بڑے رہنما پنڈت موتی لعل نے کہا:
’’اس تحریک نمکین کی کامیابی کا سہرا صرف سید عطاء اﷲ شاہ بخاری کے سر ہے‘‘
یہ تھا حضرت شاہ صاحب کے کام کرنے کا انداز او رجذبہ کہ جس کے آگے ہندوستان جیسے وسیع ملک کے طول و عرض سکٹر تے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔ ایک سیلِ رواں تھا کہ جس کا روکنا حکومت کے بس کی بات نہ تھی۔ جس کے آگے گورنمنٹ کی تمام تدبیریں خس و خاشاک کی طرح بہہ جاتی رہیں۔ آسمان حریت پر امیر شریعت کا نام نامی درخشندہ ستارے کی طرح ہمیشہ روشن اور منور رہے گا اور آنے والی نسلیں اس بطل حریت کے احترام میں اپنی گرد نیں خم کرتی رہیں گی۔
وہ دیوانے آزادی کے تھے کون کہ جانوں پر کھیلے
Uکنجشکِ حریت کو کس نے شہپر باندھا شہباز کیا
4 حضرت شاہ صاحب کہا کرتے تھے کہ دنیا میں مجھے ایک چیز سے محبت ہے اور ایک چیز سے نفرت، قرآن سے محبت اور انگریز سے نفرت۔ دراصل آپ کے اس ارشاد میں آپ کی زندگی کے دو بڑے مشن اور نصب العین پوشیدہ تھے جن کو کامیاب بنانے کے لیے آپ نے اپنی زندگی کے تقریباً دس سال قید افرنگ کی نذر کردیے۔
(اوّل) انگریزوں کی غلامی کے خلاف آواز اور انگریزوں کے حامیوں کی سرکوبی۔
(دوم) منکرین عقیدہ ختم نبوت، قادیانیوں کی سرکوبی اور ان کا تعاقب۔
چنانچہ جہاں تک آپ کے دوسرے نصب العین کا تعلق ہے اس میں صاف نظر آتا ہے کہ آپ کو حضور اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم کی ذاتِ والا صفات سے عشق تھا آپ فرمایا کرتے تھے ’’خدا کے بارے میں جو چاہے کہو لیکن یاد رہے کہ وہ ذات مجھ سے بھی اپنے سب سے بڑے دشمن کو ذلیل و خوار کرسکتا ہے لیکن حضور اکرم کے بارے میں گستاخی کرنے والی زبان گدی کھینچ لی جائے گی۔ پھر یہ نہیں دیکھا جائے گا کہ کیا ہوگا۔ پھر جو ہوگا وہ دیکھا جائے گا۔ وہ عقیدے کا معاملہ ہے اور یہ عقیدت اور عقیدت تم جاتنے ہو کیا ہوتی ہے۔‘‘پھر آپ کی زندگی سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ جس گوشے سے بھی حضور اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم کے خلاف کوئی زبان حرکت میں آئی آپ کے جذبات و احساسات میں ایک کھلبلی سی مچ گئی اور آپ اس کے خلاف سپر ہوگئے پھر کبھی یہ نہیں دیکھا کہ مخالف کتنا بڑا اور طاقت ور ہے۔
بے خطر کود پڑا آتشِ نمرود میں عشق
=عقل ہے محو تماشائے لب بام ابھی
: غرض آپ مخالفین اسلام کے لیے دو دھاری تلوار تھے جو ہمیشہ کفر و باطل کی طاقتوں کے سر پر لٹکتی رہی۔ آپ آسمانی بجلی تھے جو منکرین ختم نبوت پر عذاب الٰہی بن کر گری اور کام کر گئی۔ آپ کی للکار، آپ کی گفتار اور آپ کے کردار کے آگے بڑے بڑے فرعون نہ ٹھہر سکے۔ آپ کے عزم و استقلال کی قسمیں صدیوں تک کھائی جاتی رہیں گی۔ آپ حق گوئی، بہادری، شجاعت، خودداری اور غیرت کی ایک جیتی جاگتی تصویر تھے جو اب بھی لاکھوں انسانوں کے دل و دماغ پر نقش ہو کر انھیں دین کے لیے کچھ کر گزرنے پر اکساتی رہتی ہے۔ اس لیے بھی کہ ہزاروں مشکلات و مصائب آپ کے پائے استقلال میں تزلزل پیدا نہ کرسکے۔ بڑے سے بڑا لالچ آپ کو آپ کے مقصد عالی سے جدا نہ کرسکا۔ شاہوں کے گریبانوں سے کھیلنے والا یہ مردِ درویش و حق پرست، جس نے بڑے وقار اور تمکنت سے شاہی شان و شوکت کے رخسار پر طمانچے مارے آج اسے اس جہان فانی سے رخصت ہوئے چھپن سال بیت گئے جس کے ساتھ تاریخ پاک و ہند کا وہ دور بھی ختم ہوگیا جو آپ کی انوکھی خطیبانہ خوبیوں اور آپ کے عزم و استقلال سے روشن ہے۔
آپ ہمارے درمیان نہ رہے تو کیا۔ آپ کا نام آپ کا کام اور آپ کا حسن کلام ہمیشہ زندہ و باقی رہے گا۔
اس پختہ حقیقت سے مگر کس کو مفر ہے
Eمحفوظ نہیں دام اجل سے کوئی جان دار
Kادنیٰ ہو کہ اعلیٰ ہو ولی ہو کہ پیغمبر
I اس راہ سے گزرنا ہے ہر شخص کو اک بار