محمدفیاض عادل فاروقی
جو تصور میں کبھی آتا نہیں
دل کی دنیا سے بھی تو جاتا نہیں
کیا ہی پردہ ہے جہاں کا درمیاں
اک جھلک جس سے وہ دکھلاتا نہیں
آنکھ والے پھر بھی اس کو دیکھ لیں
آنکھ سے گو وہ نظر آتا نہیں
اس کی الفت جس کے دل میں بھر گئی
اس کو عالم میں کوئی بھاتا نہیں
اس کا ہے یہ بار بار انکار کیوں؟
ڈر ہے اس کا جو کبھی جاتا نہیں
جو نہ مانے اس کو ، وہ اس کو بھی دے
کون ہے جس کا کہ وہ داتا نہیں
سب کو دے کر خود مگر کچھ بھی نہ لے
ہے کھلاتا سب کو ، خود کھاتا نہیں
نیند کیسی ، عجز کیسا ، کیا تھکن؟
جاگتا ہے ، نیند کا ماتا نہیں
نقص کیا ؟ مجبوری کیا ؟ کمزوری کیا؟
سامنے اس کے کوئی آتا نہیں
’’نیستی و حاجت و عذر و گنہ‘‘
عادلؔ اس کے پاس کچھ جاتا نہیں