مکتوب نمبر:۳
ڈاکٹر محمدآصف
عزیز احمدی دوستو!
محمد کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے جیسے اپنے سے پہلے پیش آنے والے بہت سے واقعات ہمیں سنائے اور ہم ان واقعات پر اسی طرح یقین رکھتے ہیں جس طرح جن الفاظ کے ساتھ آپؐ نے سنائے اسی طرح آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے مستقبل میں پیش آنے والے واقعات و حادثات کے بارے میں خبریں دیں ہیں ان میں سے خاص طور پر علاماتِ قیامت اور قیامت کے قریب پیش آنے والے واقعات ہیں اس کے بارے میں بہت سی احادیث موجود ہیں انہی علامات میں سے ایک علامت حضور نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے یہ بیان فرمائی ہے کہ قیامت سے پہلے ایک شخص مسلمانوں کا امیر اور خلیفہ بنے گا جو زمین کو عدل و انصاف سے ایسے بھر دے گا جیسے کہ وہ اس سے پہلے ظلم و ستم سے بھر چکی ہوگی اور وہ شخص حضرت فاطمہرضی اﷲ عنہا کی اولاد میں سے ہوگا اور اسی خلیفہ یا امیر کے زمانے میں ہی حضرت عیسیٰؑ بن مریم نازل ہوں گے اور پہلی نماز مسلمانوں کے اسی امیر کی اقتداء میں ادا فرمائیں گے، اس کا نام حضور اقدسؐ کے نام مبارک جیسا ’’محمد‘‘ اور والد کا نام آپ کے والد جیسا ’’عبداﷲ‘‘ ہوگا اسی امیر کے لیے مختلف احادیث میں ’’مہدی‘‘ کے الفاظ آئے ہیں۔
اہلِ سنت و الجماعت کے مطابق یہ ’’مہدی‘‘ نبی کریمؐ کے متبع ہوں گے اور خلفاء راشدین میں سے ایک خلیفہ راشد ہوں گے، آپ نہ ہی نبوت کے مدعی ہوں گے اور نہ ہی انبیاء کی طرح معصوم، احادیث میں ان کے اوصاف بیان ہوئے ہیں، نیز ہماری معلومات کے مطابق کسی صحیح حدیث میں آپ کے لیے ’’امام مہدی‘‘ کے الفاظ نہیں ملتے بلکہ صرف ’’المہدی‘‘ کہا گیا ہے انہیں ’’امام مہدی‘‘ صرف اس وجہ سے کہا جاتا ہے کہ وہ اپنے وقت میں مسلمانوں کے امام بمعنی پیشوا، امیر اور حاکم ہوں گے۔
میں نے ایک مرتبہ ایک احمدی دوست سے کہا کہ کیا آپ مجھے صحیح احادیث میں سے کوئی حدیث ایسی دکھا سکتے ہیں کہ جس میں کہا گیا ہو کہ امت میں آنے والے ’’مہدی‘‘ پر ایمان لانا ہوگا اور اس کا انکار کرنے والا مسلمان نہیں ہوگا۔ اس دوست نے مجھے ایک جماعتی فولڈر دیا اس کا موضوع تھا ’’مسیح اور مہدی کا مقام‘‘ آپ یقین کریں اس فولڈر میں میرے سوال سے متعلقہ صرف ایک بات پیش کی ہوئی تھی لیکن وہ بھی میرے کام کی نہیں تھی بلکہ وہ جماعت احمدیہ کے کام کی بھی نہیں تھی کیونکہ وہ روایت اہل سنت کے مجموعے احادیث میں کہیں نہیں ہے۔ میں نے اس دوست سے کہا کہ جس مجموعے سے آپ نے یہ روایت پیش کی ہے مرزا صاحب کے نزدیک ان کا مقام کیا ہے۔ مرزا صاحب کی رائے اس حوالے میں ملاحظہ فرمالیں۔ (ملفوظات جلد 1 صفحات 97-96 )
کسی صحیح حدیث میں یہ نہیں ملتا کہ وہ شخصیت لوگوں کو اپنی ’’مہدویت‘‘ پر ایمان لانے کی دعوت دے گی اور نہ ہی کہیں یہ آیا ہے کہ لوگوں کے لیے کسی خاص معین شخصیت کی مہدیت پر ایمان لانا لازم ہے جیسے انبیاء کی نبوت پر ایمان لانا لازم ہے۔ اسی طرح تجدید دین کے لیے جو مجددین آتے رہے ان میں سے بھی کسی مجدد نے یہ دعویٰ نہیں کیا کہ میں اس دور کا مجدد ہوں یا مجھے پہچاننا یا مجھ پر ایمان لانا ضروری ہے۔ اسی طرح ’’حضرت مہدی‘‘ اور عیسیٰ بن مریم نے بھی آنا ہے اور اپنے حصہ کا کام کرکے چلے جانا ہے۔ لہٰذا تمام ذخیرہ احادیث میں سے ایک بھی صحیح حدیث ایسی نہیں جس میں بتایا گیا ہو کہ حضرت مہدی اور حضرت عیسیٰ بن مریمؑ نے آکر نبوت کا دعویٰ کرنا ہے اور ان پر ایمان لانا ضروری ہو۔ لہٰذا احمدی دوست اس بات پر غورو فکر فرما لیں کہ جس مسیح اور مہدی پر وہ ایمان لائے ہوئے ہیں وہ ساری زندگی مسیح اور مہدی ہونے کا دعویٰ کرتا رہا۔
آپ کا خیر خواہ
ڈاکٹر محمد آصف