مفتی منیب الرحمان کے مضمون کا تحقیقی و تنقیدی جائزہ
پروفیسر محمد حمزہ نعیم
محترم مولانا مفتی منیب الرحمان (چیئر مین رویت ہلال کمیٹی پاکستان) نے روزنامہ اسلام 13؍ جولائی 2017ء کی اشاعت میں ایک اچھا مضمون لکھا ، اسباق و نتائج بھی عمدہ لکھے۔مثلاً یہ کہ جب خود اﷲ پاک نے فرما دیا کہ”اے ایمان والو! غیروں کو اپنا راز دار مت بناو ، وہ تمہاری بربا دی میں کوئی کسر نہ چھوڑیں گے انہیں تووہی چیز پسند ہے جس سے تمہیں تکلیف پہنچے ۔اُن کی دشمنی اُن کی با توں سے ظاہر ہوچکی اور جو (نفرت )انہوں نے اپنے دلوں میں چھپا رکھی ہے وہ اس سے بھی بہت زیادہ ہے۔۔۔”
موصوف نے لکھا “آج امت کے زوال کا سبب یہی ہے کہ اپنوں کے بارے میں بے اعتمادی کا شکار ہے اور ملت کفر باطل کو اپنا حلیف بنائے ہوئے ہے۔ اپنے اقتدار کی بقاء کے لیے اغیار پر اعتماد کرتے ہیں۔اُن کی سرپرستی اور اشیرباد کے خواہاں ہوتے ہیں”۔ ۔۔”تمام اسلامی ممالک اسی عہد زوال سے گذر رہے ہیں”۔غزوہ احد کے موقع پر جنگی حکمت عملی کے اعتبار سے جبل عینین (دو چشموں والی پہاڑی)جسے بعد میں تیر اندازوں کے نام پر جبل رماۃ کہا گیا۔یہاں پچاس تیر اندازوں کو مقرر کرنا نبی مکرم صلی اﷲ علیہ وسلم کی حربی مہارت کا واضح ثبوت تھا۔حضرت مفتی صاحب نے بجا لکھا کہ جب کفار شکست کھا کر بھاگے تو مذکور تیر انداز صحابہ کی اکثریت سے اجتہادی غلطی ہوئی۔ انہوں نے کہا اب جب کہ فتح ہو چکی ہے کفار بھاگ رہے ہیں تو ہمیں بھی اُن کا پیچھا کرنا چاہیے جب کہ نبوی فرمان یہاں جم کر کھڑے رہنے اور عقب سے مسلمان مجاہدین کا تحفظ تھا ، اُن صحابہ کی نیت درست تھی، رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کی حکم عدولی اُن کے گمان میں بھی نہ تھی۔مگر نبوی چشم بصیرت نے جو خطرہ بھانپ لیا تھا تیر اندازوں کے جبل عینین چھوڑنے پر وہ وقوع پذیر ہوگیا۔ خالد بن ولید جو ابھی تک داخل اسلام نہ ہوئے تھے، درہ خالی دیکھ کر پیچھے سے حملہ آور ہوگئے اور نبی مکرم اور اصحاب نبی علیہ وعلیہم السلام وقتی طور پر سخت پریشانی میں مبتلا ہوگئے۔ ستر چوٹی کے اصحاب رسول رضی اﷲعنہم بشمول عم الرسول سید نا حمزہ بن عبدالمطلبؓ شہید ہوگئے۔
ـبقول شخصے : عیب ِمے جملہ بگفتی ہنر ش نیز بگو
مفتی صاحب کے مضمون کا دوسرا رخ ملاحظہ فرمائیے، لکھا ہے کہ: ’’حضرت حمزہ رضی اﷲ عنہ نہ صرف شہید ہوئے بلکہ اُن کے اعضاء مبارکہ کا مثلہ کیا گیا یعنی اُن کی آنکھیں ، ناک و کان کاٹ دیے گئے اور کلیجہ نکال دیا گیا‘‘۔ یہاں تک لکھے پر تو کسی کو کوئی اعتراض نہ تھا مگر آگے موصوف محترم نے ایک مجروح منقطع گھسیِ پٹَی روایت پیش کردی جس کی اُن جیسے اہل علم سے توقع نہ تھی۔وہ لکھتے ہیں: ’’ہندَبنت عتبہ زوجہ ابوسفیان نے آپ کا کلیجہ چبا یا اور اُسے گلے کا ہار بنا یا۔
یہ روایت بقول محقق عصرمولانامحمد منظور نعمانی رحمتہ اﷲ علیہ ’’سنَدَی اعتبار سے کمزور اور غیر متصل (یعنی منقطع) ہے‘‘ (معارف الحدیث مطبوعہ کراچی جلد 8 تحت شہادت حمزہ)نیزعرب محقق ڈاکٹر مہدی رزق اﷲ نے ان تمام روایات کو مجروح اور منقطع قرار دیا ہے(السیرت النبویہ تحت ضوء المصادرالاصلیہ ۔ جلد 2) صحیحین میں اس روایت کا کوئی ذکر نہیں۔ صحیح بخاری باب شہادت حمزہ میں خود قاتل حمزہ وحشی نے جو بعد میں مسلمان ہوچکے تھے تفصیل کے ساتھ اپنی اس کارگذاری کا ذکر کیا ہے مگر سائل عبید اﷲ بن عدی بن خیاربن عدی کے جواب میں اُس نے اپنے آقا جبیر بن مطعم کے بارے میں کہا ہے کہ اُس نے اپنے چچا طعیمہ بن عدی کے بدر میں حضرت حمزہ کے ہاتھوں قتل کے بدلے میں مجھ سے کہا کہ اگر تو میرے چچا کے قاتل کو قتل کردے تو تو آزاد ہے۔وحشی بن حرب نے ہندَ بنت عتبہ کا کوئی ذکر نہیں کیا۔
حاضرین اُحد میں خالد بن ولید، عکرمہ بن ابی جہل ، حارث بن ہشام (برادر ابی جہل)، عمرو بن عاص ، صفوان بن امیہ ، ابو سفیان بن حرب (سالار اعلیٰ لشکر قریش)، ابو سفیان بن حارث بن عبدالمطلب ہاشمی اور وحشی کے علاوہ قریشی خواتین اُم حکیم بنت حارث بن ہشام، فاطمہ بنت ولید، ہندَبنت عتبہ،زوجہ ابو سفیان۔۔۔۔بعد میں یہ سب مذکور خواتین و مرد مشرف بہ اسلام ہوکر صحابیات و اصحاب رسول کی مقد س صف میں نظر آتے ہیں۔ یہ سارے کے سارے میدان اُحد میں مخالف اسلام کیمپ میں چشم دید گواہ ہیں۔اس موقع پر موجود اصحاب رسول پریشانی کے عالم میں رسول پاک صلی اﷲ علیہ وسلم کے لیے اور خود اپنے لیے محفوظ جگہ اور جنگی حکمت عملی کے تحت پہاڑ کی چوٹی کی طرف بڑھ رہے ہیں، ان اپنوں اور اُس وقت کے دشمن کیمپ کے چشم دید گواہان میں سے کسی کو نہیں معلوم کہ سید نا حمزہ اور بعض دیگر شہدا کا مثلہ کس نے کیا۔حضرت ابو سفیان جو ابھی مسلمان نہ ہوئے تھے بلکہ لشکر کفار کے سالار تھے صرف اتنا کہتے ہیں کہ تمہارے مقتو لوں کا مثلہ کیا گیا ہے مگر نہ میں نے اس کا حکم دیا تھا اور نہ میں اسے بُرا سمجھتا ہوں۔
موقع پر موجود اپنوں اور پرایوں میں سے کوئی بھی نبی مکرم صلی اﷲ علیہ وسلم کی خوشدامن ، اُم المومنین اُم حبیبہ رضی اﷲ عنہا کی محترم ماں ہندبنت عتبہ رضی اﷲ عنہا کو الزام نہیں دیتا۔۔۔ ابن اسحاق کا اکلوتا راوی صالح بن کیسان اپنی منقطع روایت میں اپنی پیدائش سے ستر سال پہلے کی بات بیان کرتا ہے کہ ہند نے وحشی کو انعام دینے اور آزادی دینے کا لالچ دیا تھا۔مگر سوال یہ ہے کہ وہ غلام بنی نوفل کے سردار جبیر بن مطعم کا ہے، اُس کی آزادی کا تعلق جبیر بن مطعم کے ساتھ ہے۔ جیسا کہ الجا مع الصحیح کا حوالہ اوپر مذکور ہوا ۔ ۷۰ ہجری سے پہلے اس کہانی سے کوئی واقف نہ تھا، چشم دید گواہ کیوں نہیں بولتے؟ جناب وحشی رضی اﷲ عنہ یہ واقعہ بتاتے ہوئے اپنی آخری عمر میں درست بات کا ذکر کیوں نہیں کرتے ؟ابن اسحاق، ائمہ حدیث کے نزدیک کذاب، مدلس، مجوسی النسل، بد مذہب اور منکر تقدیر الہیٰ ہے۔ اُسے یہ ایک ہی راوی ۷۰ سال بعد والا ہی کیوں ملا ہے ؟ کیا ہم اس بد مذہب ، مجوسی ، مدلس، کذاب، منکر تقدیر، ابن اسحاق کو درست اور ام المومنین ام حبیبہ کی محترم ماں کو مطعون مان لیں؟
فیصلہ تیرا تیرے ہاتھوں میں ہے دل یا شکم ؟
اب ذرا جدید تحقیقات (انٹر نیٹ)پر بھی ملاحظہ فرما لیجئے(www.kulalsalafiyeen.com)
تخریج الحدیث او تزنی الحرۃ ۔۔۔کے تحت اور دیگر روایات پر بحث کی گئی ہے ۔ ہند نے حمزہ کا کلیجہ نکالا لیکن اُسے نگل نہ سکی(ابن اسحاق ص ۳۳۳) یہ سند ارسال ہے درست نہیں۔ صالح بن کیسان صغار تابعین میں سے ہے اُس کی تمام روایتیں تابعین سے ہیں(التہذیب(399-400/4واقدی کہتا ہے کہ وحشی نے کہا میں نے حمزہ کے قتل کے بعد اُس کا پیٹ چاک کیا، اُس کا کلیجہ نکالا پھر ہند کے پاس گیا۔ اُس نے کہا”تو مکہ آئے گاتو تجھے دس دینار دوں گی”۔۔۔۔یہ روایت باطل ہے ، منکر ہے، واقدی کی بات ناقابل اعتبار ہے ۔امام نسائی، امام شا فعی، امام احمد نے اُسے جھوٹا کہا۔ اسحاق بن راہویہہ کہتے ہیں کہ یہ واقدی میرے نزدیک اُن لوگوں میں سے ہے جو حدیثیں گھڑتے ہیں(تہذیب التہذیب326/9)۔امام بیہقی نے لکھا ۔۔۔لوگوں نے دیکھا کہ حمزہ کا پیٹ چاک کیا گیا ہے۔۔ یہ اسناد ضعیف بھی ہیں اور مُرسل بھی۔امام ابن کثیر نے کہا کہ موسیٰ بن عقبہ نے کہا کہ جس نے حمزہ کا پیٹ چاک کیا اور کلیجہ نکالا وہ وحشی تھا، وہ اُسے ہند کے پاس لے گیا(البدایہ و النہا یہ 419/5)۔ یہ روایت بھی مرسل ہے ۔ابن عساکر کی روایت بھی ضعیف ہے اور مسند عمر بن عبدالعزیز کے راوی بھی ضعیف ہیں۔
خلاصہ کلام: ’’سیدنا حمزہ رضی اﷲ عنہ کا مثلہ کیا جانا ،شہادت کے بعد پیٹ چاک کیا جاناتو ثابت ہے مگر اُن کے کلیجہ کا نکالا جانا اور ہندَ بنت عتبہ کا اُس کو چبا نا اور اُس کو نگل نہ سکنا ۔ان باتوں میں سے کچھ بھی ثابت نہیں”۔تو گویا یہ ساری باتیں خاندان نبوت بنی عبدمناف کی دو شاخوں بنی ہاشم اور بنی عبد شمس کی فرضی عدوات اور نفرت کے لیے گھڑی گئی ہیں۔)اصل مقصود عداوت اسلام ہے ۔( مولانا محمد نافع سیرت امیر معاویہ میں اور علامہ ڈاکٹرخا لد محمود اپنی تالیف خلفاء راشدین میں لکھتے ہیں ،’’ بنی ہاشم اور بنی امیہ/بنی عبد شمس میں عداوتیں اور رقابتیں تھیں؟افسوس ! ہم اس سے اتفاق نہیں کرسکتے ۔‘‘
محترم قارئین ! اسلامی شریعت کا ایک مسلمہ قانون ہے کہ ’’الاسلام یھدم ما کان قبلہ والتوبۃ تھدم ما کان قبلھا‘‘ آدمی جب اسلام قبول کرلیتا ہے یا گنہگار بندہ جب توبہ کرلیتا ہے تو اس کے سابقہ گناہ،جو بھی ہوں، مٹادئیے جاتے ہیں۔ مذکور بالا تمام ضعیف اور منقطع روایات کو اگردرست بھی تسلیم کر لیا جائے تو غزوۂ مکہ کے موقع پر سیدہ ہند کااسلام لانا اور صحابیت رسول کے شرف سے مشرف ہونا ایک کھلی حقیقت ہے جس پر کتبِ حدیث و تفسیر شاہد عدل ہیں۔پھر کیا ضروری ہے کہ ان کی قبل از اسلام برائیوں اور غلطیوں کا بار بار عوام میں ذکر کیا جائے، اگر وہ تھیں بھی تو، داخلۂ اسلام پر وہ مٹ چکیں۔و حسن اسلامھا ان کا اسلام بخیرو خوبی اچھا رہا۔
مخدومی مفتی صاحب! کسی شخص کے بچپن اور جوانی کی غلطیوں کا ذکر سرِ عام لوگوں میں بار بار کیا جائے، جن سے وہ صدقِ دل سے توبہ کر چکے اور تقویٰ و طہارت اختیار کرچکے ہیں۔ ان کی موجودہ عالمانہ وقار والی زندگی کے پیشِ نظر ان کی سابقہ غلطیوں کا ، اگر کوئی ہوں بھی تو، ان کا عام ذکر کرناکوئی مناسب بات تو نہیں۔فافہم و تدبر!