امام عبدالوہاب شعرانی ؒ/ترجمہ مولانا حبیب الرحمن کیرانویؒ
اﷲ والوں کے اخلاق میں سے ایک یہ بھی ہے کہ وہ آپس میں ایک دوسرے کو وصیتیں کرتے ہیں اور نصیحتوں کو قبول کرتے ہیں اور نصیحت کرنے والے کا احسان بھی مانتے ہیں۔ خواہ وہ اپنے نصیحت کرنے والے کے ساتھ عمر بھر سلوک کریں۔ مگر باوجود اس کے یہ بھی سمجھتے ہیں کہ ان سے اس کی نصیحت کا حق و اجب ادا نہیں ہوا اور وجہ اس کی یہ ہے کہ نصیحت کا تعلق امور اخرویہ سے ہے اور امور اخروی کا معاوضہ اغراض دنیوی سے نہیں ہوسکتا اب ہم ان امور کے متعلق بزرگوں کے بعض واقعات اور ملفوظات ذکر کرتے ہیں غور سے سنو۔ ایک شخص نے حسن بصری رحمتہ اﷲ علیہ سے عرض کیا کہ مجھے کچھ وصیت فرمائیے آپ نے فرمایا کہ جہاں کہیں بھی تم ہو حق سبحانہ کے حکم کی عزت کرو اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ جہاں بھی تم ہوگے خدا تمہیں عزت دے گا۔
ایک شخص نے عمر بن عبدالعزیز رحمتہ اﷲ علیہ سے عرض کیا کہ مجھے کچھ وصیت فرمائیے آپ نے فرمایا کہ اس سے احتراز کرو کہ تم نیکوں سے ملو اور ان کی صحبت سے فائدہ نہ اٹھاؤ یا گنہگاروں کو ملامت کرو کہ اور خود گنہاہوں سے نہ بچو یا بظاہر شیطان پر لعنت کرو اور پوشیدہ طور پر اس کی اطاعت کرو۔
ایک شخص نے فضیل بن عیاض رحمتہ اﷲ علیہ سے عرض کیا کہ مجھے کچھ وصیت فرمایے آپ نے فرمایا کہ کیا تیرا باپ مرگیا ہے۔ اس نے کہا جی ہاں! آپ نے فرمایا تو میرے پاس سے اٹھ جاؤ۔ کیونکہ جو باپ کے مرنے کے بعد نصیحت کا محتاج ہو اسے نصیحت نافع نہ ہوگی (کیونکہ اوّل تو موت مطلقا ہر نصیحت کرنے والے سے بڑھ کر نصیحت کرنے والی ہے۔ پھر موت بھی باپ کی موت وہ تو اور بھی زیادہ نصیحت کرنے والی ہے کیونکہ بہ نسبت دوسری موتوں کے اس کا زیادہ خیال ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ اس سے بے فکری بھی جاتی رہتی ہے۔ جو باپ کی حیات میں ہوتی ہے پس جب اس کی نصیحت تمہیں سود مند نہ ہوگی۔ تو اور کس کی ہو گی۔)
ایک شخص نے محمدبن واسع رحمتہ اﷲ علیہ سے درخواست کی کہ آپ مجھے کچھ نصیحت فرمائیے آپ نے فرمایا کہ تم دنیا اور آخرت کی بادشاہی حاصل کرو۔ اس نے عرض کیا حضرت یہ کس طرح آپ نے فرمایا کہ تم دنیا سے رغبت نہ رکھو۔ اس نے عرض کیا کہ اور کچھ فرمائیے آپ نے فرمایا تم تابع بنومتبوع نہ بنو اور لوگوں کے پاس خود بیٹھو اور اپنے کو بڑا بنا کر یہ نہ چاہو کہ لوگ تمہارے پاس آکر بیٹھیں۔
عمر بن عبدالعزیز رحمتہ اﷲ علیہ فرماتے کہ میں نے حضرت خضر علیہ السلام کو مدینہ شریف میں دیکھا اور عرض کیا کہ مجھے کچھ وصیت فرمائیے تو آپ نے فرمایا کہ اے عمر اس کا بہت خیال رکھو کہ تم ظاہر میں خداکے دوست اور پوشیدہ طور پر اس کے دشمن نہ ہو مطلب یہ تھا کہ اپنے ظاہر و باطن کو یکساں رکھو۔ او رجس طرح لوگوں کے سامنے اعمال صالحہ کا اہتمام کرتے ہو اور بری باتوں سے بچتے ہو یونہی تنہائی میں بھی رہو۔
ایک شخص نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام سے عرض کیا کہ اے روح اﷲ مجھے کچھ وصیت فرمائیے۔ آپ نے فرمایا کہ آخر یہ حالت کب تک رہے گی کہ تم کو نصیحت کی جاتی ہے اور تم نہیں مانتے تم لوگوں نے نصیحت کرنے والوں کو مصیبت اور زحمت میں ڈال دیا کہ وہ کہتے کہتے تھک گئے مگر تم نے ایک نہ سنی۔
کسی نے حسن بصری رحمتہ اﷲ علیہ سے عرض کیا کہ مجھے کچھ نصیحت فرمائیے آپ نے فرمایا کہ گناہ نہ کرو کہ اپنے آپ کو آگ میں جھونک دو باوجود یہ کہ تمہاری حالت یہ ہے کہ اگر کوئی تمہارے سامنے ایک پسو کو آگ میں ڈال دے تو تم اس پر اعتراض کرو۔ مگر باایں ہمہ تم گناہ کر کے اپنے آپ کو ہر روز بہت سی مرتبہ آگ میں جھونکتے ہو اور تمہیں اپنے اوپر کچھ اعتراض نہیں ہوتا۔
ایک شخص نے عبداﷲ بن مبارک رحمتہ اﷲ علیہ سے عرض کیا کہ مجھے کچھ وصیت فرمائیے آپ نے فرمایا کہ نظر کے بے فائدہ استعمال سے احتراز کرو تمہیں خشوع کی توفیق ہوگی اور فضول کھانے سے احتراز کرو تم کو عبادت کی توفیق ہوگی اور لوگوں کے عیب نکالنے چھوڑ دو تم کو اپنے عیوب پر اطلاع کی توفیق ہوگی اور حق تعالیٰ کی ذات و صفات میں غور و خوض چھوڑ دو شک اور نفاق سے محفوظ ہوجاؤ گے۔
محمد بن سیرین رحمتہ اﷲ علیہ سے کسی نے کہا کہ مجھے وصیت فرمائیے آپ نے فرمایا کسی پر حسد نہ کرو کیونکہ اگر وہ دوزخی ہے تو اس پر حسد کا اس لیے موقع نہیں ہے کہ دنیا اس کے پاس چند روز ہے۔ اس کے بعد وہ دوزخ میں چلاجائے گا تو اس پر حسد فضول ہے اور اگر وہ جنتی ہے تو اس کے اعمال کا اتباع اور اس کی حالت پر غبط کرنا چاہیے نہ کہ اس کی دنیا پر حسد کیا جائے۔
حسن بصری رحمتہ اﷲ علیہ سے کسی نے کہا کہ مجھے نصیحت فرمائیے آپ نے فرمایا کہ تعجب ہے کہ زبانیں اچھی باتوں کی اچھائی اور بری باتوں کی برائی بیان کرتی ہیں اور دل ان کو جانتے ہیں۔(پس اعمال کو دل و زبان کے موافق بنانا چاہیے)
ابوالدرداء رضی اﷲ عنہ سے کسی نے عرض کیا کہ مجھے وصیت فرمائیے آپ نے فرمایا کہ اس دن کو یاد رکھو جس میں چھپی باتیں آشکارا ہوجائیں گی۔ (اور پوشیدہ طور پر بھی کوئی ایسا کام نہ کرو جس کے ظاہر ہوجانے میں تم کو رسوائی کا اندیشہ ہو۔)
ایک شخص نے سفیان بن عُیینہ رحمتہ اﷲ علیہ سے عرض کیا کہ مجھے وصیت فرمائیے آپ نے فرمایا خبردار تکبر نہ کرنا اور نہ ناحق لوگوں کے مال کھانا کیونکہ جو لوگوں پر بڑائی جتاتا ہے وہ ان کی نظروں میں ذلیل ہوجاتا ہے۔ اور جولوگوں کے مال لوٹتا ہے آخر کار محتاج ہوجاتاہے۔
حسن بصری رحمتہ اﷲ علیہ نے ایک شخص کو کہتے سنا کہ اَلْمَرْءُ مَعَ مَنْ اَحَبَّ َّ یعنی آدمی قیامت میں اسی کے ساتھ ہوگا جس سے وہ محبت کرتا ہے۔ تو فرمایا کہ بھائی تم اس قول سے دھوکہ نہ کھانا اور یہ نہ سمجھنا کہ میں بغیر کچھ کیے ہی نیکوں کے ساتھ شامل ہوجاؤں گا کیونکہ تم ان کے ساتھ اسی وقت شامل ہوسکتے ہو جب کہ ان جیسے اعمال کرو دیکھو یہود و نصاریٰ اپنے انبیاء سے محبت کرتے ہیں مگر وہ ان کے ساتھ شامل نہ ہوں گے کیونکہ اعمال میں ان سے علیحدہ ہوں گے۔ اور ان کے مخالف بن گئے ہیں۔ (پس ثابت ہوا کہ نفس محبت بدون اتباع فی العمل کافی نہیں اس لیے اعمال کی ضرورت ہے اور راز اس میں یہ ہے کہ بدون اتباع کے واقعی محبت متحقق ہی نہیں ہوتی اس لیے مدعی محبت بغیر اتباع محب ہی نہیں تاکہ وہ المرء مع من احب میں داخل ہوسکے۔)پھر فرمایا کہ ان لوگوں کی حالت پر تعجب ہے جن کو توشہ کی تیاری کا حکم دے دیا گیا اور کوچ کا اعلان سنادیا گیا اور وہ اب بھی بیٹھے ہنس رہے ہیں۔ دیکھو جن کی سواری رات اور دن ہیں وہ ان کے ساتھ چل رہے ہیں کیونکہ جتنے دن گزرتے جاتے ہیں اسی قدر وہ موت سے قریب ہوتے جاتے ہیں مگر انھیں اس چلنے کا احساس نہیں۔ (پس لوگوں کو چاہیے کہ وہ متنبہ ہو کر سفر آخرت کی تیاری کریں کیونکہ موت کا وقت ہر لحظہ نزدیک ہوتا جاتا ہے اور غفلت کو چھوڑیں)
شفیق بلخی رحمتہ اﷲ علیہ اپنے مریدوں کو موت کے لیے ہر وقت تیار رہنے کا حکم دیتے تھے اور فرماتے تھے کہ بعض لوگ پچاس برس تک تیاری کرتے رہتے ہیں اور تیار نہیں ہوچکتے بات یہ ہے کہ تیاری تو ان لوگوں کی ہے جو دنیا سے بے تعلق ہوجائیں جیسے امیرالمومنین عمر بن الخطاب رضی اﷲ عنہ کیونکہ وہ ہر صبح و شام فرماتے تھے کہ اے ملک الموت (میں موت کے لیے ہر وقت تیار ہوں) جب تمہارا جی چاہے مجھے آکر لے جاؤ۔
صوفیاء کی دلیل اس خُلق پر یہ ہے کہ جناب رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ پانچ باتوں کو پانچ باتوں سے پہلے غنیمت سمجھو۔ جوانی کو بڑھاپے سے پہلے، تندرستی کو بیماری سے پہلے، تونگری کو محتاجی سے پہلے، فرصت کو مشغولی سے پہلے، زندگی کو موت سے پہلے(حدیث)۔
بس اس کو خوب سمجھ لینا چاہیے اور اپنے نفس کی خبر رکھنی چاہیے۔
(مطبوعہ: احوال الصادقین)