شاہ بلیغ الدین رحمتہ اﷲ علیہ
حضرت عبداﷲ بن مبارک جنگل میں سے گزر رہے تھے ایک لڑکے پر نظر پڑی۔ لڑکا بڑا ذہین اور سمجھ دار معلوم ہورہا تھا۔ حضرت عبداﷲ کے ذہن میں آیا کہ یہ لڑکا صاحبانِ علم کی صحبت میں نہیں بیٹھتا یہ اﷲ تعالیٰ کو کیسے جانے گا؟
حضرت عبداﷲ بن مبارک اپنے زمانے کے بہت بڑے امامِ علم و عمل تھے۔ حدیث، فقہ اور تفسیر پر بڑی گہری نظر تھی اﷲ تعالیٰ نے دولت علم کے ساتھ ساتھ دنیاوی دولت سے بھی خوب سرفراز فرمایا تھا تجارت کرتے تھے مگر ایسی تجارت جس میں سودی لین دین نہ تھا۔ چور بازاری اور ذخیرہ اندوزی نہ تھی کم سے کم منافع پر بہتر سے بہتر مال فروخت کرتے تھے۔ اﷲ تعالیٰ نے تجارت میں دیانت، امانت کے صلے میں ان کے بیوپار میں ایسی برکت عطا فرمائی تھی کہ روزانہ ہزاروں کے وارے نیارے ہوجاتے تھے۔ تجارت روزگار کے تمام ذریعوں میں سب سے اچھا ذریعہ ہے اس لیے کہ یہ سنت نبوی صلی اﷲ علیہ وسلم بھی ہے۔ حضرت ابوبکر، حضرت عمر، حضرت عثمان رضی اﷲ عنہم ، امام ابوحنیفہ اور بھی بہت سے بزرگ تجارت کرتے تھے یہ سب اﷲ کو پہچاننے والے اور اﷲ سے ڈرنے والے تھے اس لیے بہت اعلیٰ پیمانے پر کاروبار کرنے کے باوجود ناجائز طور پر منافع کمانے کا خیال بھی کبھی دل میں نہ لاتے۔یہ نہیں کہ انھیں اس کے مواقع نہیں تھے۔ مواقع تو خوب تھے لیکن اپنے نفس کو قابو میں رکھتے تھے۔ دنیاوی راحتوں کے لیے حریص نہ تھے بلکہ انجام آخرت پر نظر رکھتے تھے اس لیے چیزوں کو مہنگا کر کے بیچنے اور زیادہ نفع کمانے سے پرہیز کرتے تھے کہ اس سے اﷲ نے اور اﷲ کے رسول صلی اﷲ علیہ وسلم نے منع کیا ہے۔
حضرت عبداﷲ بن مبارک رحمتہ اﷲ علیہ کو جو لڑکا جنگل میں ملا اس سے انھوں نے پوچھا کہ میاں صاحبزادے! آپ نے کچھ تعلیم بھی پائی ہے یا وقت یونہی گزارتے پھرتے ہو۔ اس نے جواب دیا کچھ بہت زیادہ تو نہیں پڑھا لیکن چار باتوں کا علم مجھے حاصل ہوا ہے ابن مبارک نے پوچھا وہ کیا؟ جواب ملا کہ مجھے سرکا علم ، کانوں کا علم، زبان کا علم اور دل کا علم آتا ہے۔ عبداﷲ بن مبارک نے فرمایا اگر ایسا ہے تو مجھے بھی کچھ بتاؤ کہ یہ کیا ہے؟
علم ایک سمندر ہے۔ سب اس کے کنارے سے خزف ریزے اٹھا لیتے ہیں۔ کوئی نہیں جو یہ کہہ سکے کہ میں سب کچھ جانتا ہوں۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام بڑے جلیل القدر پیغمبر تھے۔ انھیں بھی علم حاصل کرنے کا حکم ہوا اور رہنمائی کی گئی کہ حضرت خضر علیہ السلام سے ملیں۔ اس لیے کہ سورہ طٰہ میں ارشادِ ربانی ہوا کہ رَبِّ زِدنِیْ عِلْمًا کا ورد ہمیشہ جاری رکھو کہ اے مولا! ہمارے علم کو بڑھا!
حضرت عبداﷲ بن مبارک رحمتہ اﷲ علیہ کے اصرار پر اس لڑکے نے کہا، سر! اﷲ تعالیٰ کے حضور جھکانے کے لیے ہے۔ کان! اس کا کلام سننے کے لیے۔ زبان اس کا ذکر کرنے کے لیے اور دل اس کی یاد بسانے کے لیے۔ انسان کو چاہیے کہ وہ کسی وقت بھی اﷲ تعالیٰ کے خیال سے غافل نہ رہے۔ ابن مبارک کبھی لڑکے کو دیکھتے کبھی اس کی باتوں پر غور کرتے پھر اﷲ تعالیٰ کی ثنا کرتے کہ اس نے اس نوجوان کو کیسا اچھا ذہن عطا فرمایا تھا۔ آخر اس سے فرمایا کہ اے نوجوان مجھے کوئی نصیحت کر! اس لڑکے نے کہا اے شیخ! آپ عالم معلوم ہوتے ہیں اگر علم اﷲ تعالیٰ کے لیے پڑھا ہے تو دنیا والوں سے کسی بات کی امید نہ رکھیے اور اگر دنیا داری کے لیے پڑھا ہے تو پھر اﷲ تعالیٰ سے امیدیں نہ باندھیے۔
حضرت عبداﷲ بن مبارک رحمتہ اﷲ علیہ عمر میں بھی اس لڑکے سے بڑے تھے اور ان کی علمیت کا شہرہ بھی دور دور تھا لیکن انھوں نے لڑکے میں جوہر قابل پایا تو اس سے خواہش کی کہ انھیں نصیحت کرے۔ معلوم ہوا کہ نصیحت کسی عمر کے آدمی کو بھی کی جاسکتی ہے۔ صاحبان علم کو بھی نصیحت کی ضرورت ہوتی۔ اسی لیے ہمیں حکم ہے یہ نہ دیکھو کہ کون نصیحت کررہا ہے یہ دیکھو کہ کیا نصیحت کی جارہی ہے۔