عبدالمنان معاویہ
اگست کا مہینہ آتے ہی تقریبات بسلسلہ یوم آزادی بڑے زور وشور سے منعقد کی جاتی ہیں اور اسلامی جمہوریہ پاکستان کے ساتھ تجدید ِعہد وفا کیا جاتا ہے ۔لیکن ہم نے جب اپنی بساط کے مطابق تاریخ پاکستان کا مطالعہ کیا، تو ہم پر یہ منکشف ہوا کہ جس پاکستان کے لیے ہمارے بزرگوں نے قربانیاں دی تھیں وہ یہ پاکستان نہیں ہے ،بلکہ وہ گُم ہوگیا ہے ۔ہوسکتا ہے کوئی صاحب ِ بصیرت ہماری باتوں کو دیوانے کی بڑ سمجھے، اس لیے مناسب ہے کہ ہم یہ بتائیں کہ کس پاکستان کا وعدہ کیا گیا تھا ۔ بانی پاکستان جناب محمد علی جناح مرحوم کی تقریروں سے چند اقتباسات ملاحظہ فرمالیجئے ۔
بانیٔ پاکستان نے نومبر ۱۹۳۹ء بروز عید الفطر بمبیٔ میں فرمایا:’’ مسلمانو! ہمارا پروگرام قرآن پاک میں موجودہے ،ہم مسلمانوں کو لازم ہے کہ قرآن پاک کو غورسے پڑھیں ،قرآنی پروگرام کے ہوتے ہوئے مسلم لیگ ،مسلمانوں کے سامنے کوئی دوسرا پروگرام پیش نہیں کرسکتی ‘‘۔(کردارِ قائداعظم ،از منشی عبدالرحمن خان:۱۵۸)
ایک دوسرے موقع پر مزید واشگاف الفاظ میں فرمایا :’’قرآن مسلمانوں کا ہمہ گیر ضابطہ حیات ہے، مذہبی، سماجی، شہری، فوجی، کاروباری، عدالتی، تعزیری اور قانونی ضابطہ حیات، جو مذہبی تقاریب سے لے کر جسم کی صحت تک تمام افراد سے لے کر ایک فرد کے حقوق تک ،اخلاق سے لے کر جرم تک ۔اس دنیا میں جزاوسزا سے لے کر اگلے جہان کی جزاوسزا تک حد بندی کرتا ہے ‘‘۔(پیام عید ،۱۹۴۵ء بحوالہ ایضاً )
آل انڈیا مسلم سٹوڈنٹس فیڈریشن جالندھر کی صدارتی تقریر کرتے ہوئے ۱۹۴۳ء میں جناب محمد علی جناح نے واضح اعلان کیا کہ :’’مجھ سے اکثر پوچھا جاتا ہے کہ پاکستان کا طر زِ حکومت کیا ہوگا ․؟پاکستان کا طر زِ حکومت متعین کرنے والا میں کون ہوں؟یہ کام پاکستان کے رہنے والوں کاہے اور میرے خیال میں مسلمانوں کے طرزِ حکومت کا آج سے ساڑھے تیرہ سو سال قبل قرآن حکیم نے فیصلہ کردیا تھا ‘‘۔ (ایضاً:۱۵۹)
بانیٔ پاکستان محمد علی جناح کے علاوہ نوابزادہ لیاقت علی خان جنرل سیکرٹری آل انڈیا مسلم لیگ نے جلسہ تقسیم اسناد مسلم یونیورسٹی علی گڑھ کے موقع پر تقریر کرتے ہوئے کہا کہ :’’ اس وقت ہماری قوم کے سامنے سب سے اہم سوال یہ ہے کہ کن اصولوں پر اسلامی سلطنت کی بنیاد رکھی جائے گی ․؟اس سوال کا جواب مسلمان کے پاس اس کے سوا کچھ نہیں ہے جو حضرت محمد صلی اﷲ علیہ وسلم نے آج سے تیرہ سو سال قبل دنیا کے سامنے پیش کیا تھا ۔آپ صلی اﷲ علیہ وسلم جو پیغام الہٰی لائے تھے وہ اب ہمارے پاس موجود ہے وہ دنیا کی عظیم المرتبت کتاب قرآن مجید ہے جو بنی نوع انسان کی ہدایت ورہنمائی کے لئے موجود ہے ۔اﷲ ہی ہمارا بادشاہ ہے اور وہی ہمارا حکمران ہے‘‘۔(ایضاً:۱۶۰)
اسی طرح نواب محمد اسماعیل خان صدر مجلس عمل آل انڈیا مسلم لیگ نے ۱۱ نومبر ۱۹۴۵ء کو علماء کرام سے اپیل کرتے ہوئے کہاکہ:’’ لیگ کا نصب العین پاکستان ہے اور لیگ اس پر تلی ہوئی ہے کہ اس سر زمین میں اسلام کی اساسی بنیادوں پر شریعت مطہرہ کی حکومت قائم کرے ‘‘۔(ایضاً:۱۶۱)
بانیانِ پاکستان کے ان بیانات سے واضح ہوتا ہے کہ ملک پاکستان کو بنانے کا واحد مقصد اس سرزمین پر اسلامی نظام حکومت کا عملی نفاذ تھا اسی لیے مسلم لیگی رہنما قرآن حکیم ،حدیث نبویہ اور خلافت راشدہ کی مثالیں اپنی عوامی تقریروں میں بکثرت دیا کرتے تھے ۔لیکن ان بیانات والا پاکستان کہیں مل نہیں رہا ،اگر کسی صاحب کو ملے تو برائے مہربانی اسلام کے نام پر ہجرت کرنے والے لوگوں کی نسلِ نو کو مطلع فرماکر ثواب دارین حاصل کریں ۔
یہ ایک حقیقت ہے کہ جیسابھی ہے ، پاکستان ایک اسلامی ملک ہے۔اور نفاذ اسلام ہی کے لئے لوگوں نے مسلم لیگ کو ووٹ دیے تھے۔ تاریخ کے اوراق ہمیں بتاتے ہیں کہ ۳۶- ۱۹۳۵ء کے الیکشن مسلم لیگ ہار گئی تھی ۔اور کانگریس بھاری سیٹوں سے جیتی، اُس وقت تک مسلم لیگ نے پاکستان کا مطلب کیا لا الہ الا اللّٰہ کا نعرہ بلند نہیں کیا تھا ۔لیکن اِس کے بعد جب مسلم لیگ نے نعرہ بلند کیا کہ پاکستان کا مطلب کیا لا الہ الا اللّٰہ تو مسلمانوں نے بغیر کسی جھجک کے مسلم لیگ کو ووٹ دئیے، اور ۴۶- ۱۹۴۵ء کے الیکشن میں مسلم لیگ بھاری سیٹوں سے جیتی بالآخر ۱۹۴۷ء میں پاکستان معرض وجود میں آیا۔
لاکھوں جانوں کی قربانیوں اور ہزاروں خواتین کی عصمتوں کے لٹ جانے کے بعد ملک پاکستان بنا اور مسلمان اپناسب کچھ چھوڑ کر اس خطہ میں آکر آباد ہوئے لیکن باعث افسوس امر ہے کہ۷۰ سال مکمل ہونے کے بعد بھی اس خطۂ زمین پر اسلامی نظام نافذ نہ ہو سکا،سودی نظام کو ختم کرنے کے بجائے مسلم لیگ ہی کی حکومت سودی نظام کی وکیل صفائی بنی ہوئی ہے اور دفاع کررہی ہے ۔ دو قومی نظریہ جسے بڑے شَد ومَد سے پیش کیا گیا تھا ،آج اُسی پاکستان میں پاکستان پیپلز پارٹی کے بلاول بھٹو زرداری صاحب نے ہولی میں شریک ہوکر ہندوؤں کی ثقافت میں شریک محفل نہیں بلکہ جانِ محفل بن کر دو قومی نظریہ کی دھجیاں اڑا دیں ،جب علماء کرام کہتے تھے کہ ہندو اور مسلم اس سرزمین پر صدیوں سے رہ رہے ہیں ،اور آئندہ بھی رہتے رہیں گے، تو دو قومی نظریہ پیش کیا گیا ،اب وہ دو قومی نظریہ کہاں ہے ․․؟ مقصد وجود ِپاکستان اب تک مفقود ہے تو دوسرے لفظوں میں پاکستان کو اس کے قیام کے مقصد سے ہٹا دیا گیا ہے، بقول فیض
یہ داغ داغ اُجالا یہ شب گزیدہ سحر وہ انتظار تھا جس کا یہ وہ سحر تو نہیں
Tہم تو وہی پاکستان دیکھنے کے لیے تڑپ رہے ہیں جس کے لیے ہمارے بزرگوں نے ایک صدی پر محیط طویل جنگ لڑی، کروڑوں لوگ بے گھر ہوئے ،لاکھوں نے جانیں دیں ، ماؤں بہنوں ، بیٹیوں نے عزتیں لٹوائیں کہ ہم ایک اسلامی فلاحی ریاست کے قیام کی طرف جا رہے ہیں،لیکن واحسرتا !کہ ہم آج تک منزل کی تلاش میں سرگردا ں ہیں،
جب تک کہ غیر حق کی یونہی بندگی ہے دوست یہ زندگی بھی میری کوئی زندگی ہے دوست