محمد یوسف شیخوپوری
ہندوستان میں تحریک آزادی سے لے کر قیام پاکستان تک علماء حق نے جو کردار ادا کیا ہے وہ تاریخ کا ایک درخشندہ باب ہے جو آنے والی نسلوں کے لیے تاریکیوں کے ہجوم میں روشنیوں کا مینارہ ہے۔ آئیے اختصار کے ساتھ اس بارے چند باتیں ذہن نشین کریں۔
اس برصغیر پاک و ہند میں مسلمانوں کی حکومت تھی ۱۶۰۰ء کو ایسٹ انڈیا کمپنی کے نام پر تجارت کی غرض سے انگریز ایشیا میں داخل ہوا رفتہ رفتہ سازشوں کا جال بچھا کر انگریز نے اپنی حالت کو مستحکم کیا، اورنگ زیب عالمگیر کی وفات کے بعد مغلیہ سلطنت کے ٹکڑے ٹکڑے ہوگئے اور بہت سے علاقوں پر انگریز قابض ہوگیا اور اپنی سازشوں کو وسیع کرتے ہوئے بنگال اور میسور کی طرف بڑھا۔ میر جعفر کی غداری سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ۱۷۵۷ء میں نواب سراج الدولہ اور میر صادق غدار کو ساتھ ملا کر حیدر علی کے بیٹے فتح علی سلطان ٹیپو کو شہید کر کے اپنا تسلط جمایا حتیٰ کہ۱۸۴۳ء میں سندھ پر حکومت کی، پھر پنجاب کی طرف بڑھا اور ۱۸۵۷ء تک پورے جنوبی ایشیا پر حکومت کر لی، جو سوداگر بن کرآئے تھے اب پورے ہندستان اور جنوبی ایشیا پر قابض ہو چکے تھے۔ ان حالات میں آزادی کا تصور کسی کے حاشیہ خیال میں نہ تھا۔ سات سمندر پار آنے والے گورے نے یہ نعرہ لگایا کہ آج سے ہندوستان ہمارا ہے بلکہ تکبر و غرور میں ایک گورے نے یوں کہا ’’اگر آسمان بھی اس پر گرنا چاہے تو ہم اسے اپنے سینگوں کی نوک پر روک لیں گے‘‘ لیکن لِکُلّ فرعَوْن موسیٰکے تحت ۱۷۲۸ء میں حضرت شاہ ولی اﷲ محدث دہلوی رحمہ اﷲ اور آپ کا خاندان اسلام اور مسلمانوں کی سربلندی کے لیے میدان میں آئے اور شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی نے انگریز کے خلاف فتوی دیاکہ مسلمان اب دارالحرب میں ہیں۔ یہ حقیقت میں جنگ آزادی کا پہلا نعرہ تھا۔ چلتے چلتے سید احمد شہید ؒ اور شاہ اسماعیل شہیدؒ کی قیادت میں اہل حق کا قافلہ دہلی سے تاجکستان کے راستے سے ہوتا ہوا سندھ میں داخل ہوا اور کوئٹہ چمن کے راستے سے افغانستان پہنچا وہاں قندھار کے جانبازوں کو ہمراہ لے کر یہی لوگ پشاور اور بالاکوٹ کی وادیوں میں نعرۂ آزادی بلند کرتے ہیں لیکن چند غداروں کی غداری کی وجہ سے ۱۸۳۰ء میں ان سپہ سالاروں کو خاک و خون میں تڑپا دیا گیا اور آزادی کی شمع گل ہو کے رہ گئی۔
لیکن ابھی زیادہ عرصہ نہیں بیتا تھا کہ ۱۸۵۷ء میں علماء اہل حق کی کوششوں سے مسلم امہ پوری طرح بیدار ہوچکی تھی۔ انگریز کے خلاف نفرت و بغض کا جذبہ کھولتے ہوئے پانی کی طرح ابل رہا تھا اور انگریز ظالم نے مسلمانوں کو ہر طرح سے کمزور کرنے کی کوشش کی ہوئی تھی بالخصوص گورنرجنرل لارڈ ڈلہوزی کی چالاکیاں بڑھتی جارہی تھیں حتیٰ کہ انھوں نے مذہبی معاملات میں بھی مداخلت شروع کردی تھی۔ بالآخر میرٹھ سے جنگ کے شعلے بھڑکے اور پورے جنوبی ایشیاء میں پھیل گئے۔ علماء حق علَم حریت لے کر اٹھ کھڑے ہوئے، تھانہ بھون کی بستی میں علماء کرام جمع ہوئے کہ انگریز کو کس طرح یہاں سے نکالا جائے اس موقع پر ایک بزرگ یوں گویا ہوئے کہ انگریز سے مقابلہ کرنا ہمارے بس کی بات نہیں ان کی بات سنتے ہوئے ایک ستائیس سالہ نوجوان جذبہ جہاد سے سرشار مولانا محمد قاسم نانوتوی رحمہ اﷲ تڑپ کر بولے ’’کیا ہم بدر میں لڑنے والوں سے بھی زیادہ بے سروسامان ہیں‘‘ تو حضرت حاجی امداد اﷲ مہاجر مکی رحمہاﷲ کو امام اور حضرت نانوتوی رحمہ اﷲ کو سپہ سالار اور مولانا رشید احمد گنگوہی رحمہ اﷲ کو قاضی مقرر کر کے مولانا منیر نانوتوی اور حافظ ضامن شہید رحمہما اﷲ کو افواج کے دو حصوں کا افسر متعین کر کے جہاد کی کارروائیاں شروع کردیں گئیں۔ لیکن اسباب و وسائل کی قلت اور سکھوں کی مخالفت کی وجہ سے انگریز کے خلاف عَلَمِ بغاوت بلند کرنے والے ان اہل حق کی کوششیں کامیابی کو نہ چھو سکیں اور پھر انگریز کی ظلم کی چکیاں ان پر مزید تیز تر ہوگئیں۔
انگریز نے موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے نظریاتی طور پر مسلم امہ کو اپنا غلام بنانے کے لیے ایسے لوگ تیار کیے جو اسلام کا لبادہ اوڑھ کر انگریز کے نظریات کی ترویج کریں اور مرزا غلام احمد قادیانی، سرسید احمد جیسے لوگوں کو تیار کیا جنھوں نے جہاد کی تنسیخ کا اعلان کرنے کے ساتھ ساتھ قافلہ اہل حق کو غدار قرار دیا اور قولاً عملاً انگریز کے نظریات کی اشاعت کی۔ حتی کہ لارڈمیکالے نے نعرہ لگایا کہ ’’ہماری تعلیم کا مقصد ایسے نوجوان تیار کرنا ہے جو رنگ و نسل کے اعتبار سے ہندوستانی ہوں اور ذہن و دماغ کے اعتبار سے انگلستانی ہوں‘‘۔
مسلمانوں پر یہ بڑا سخت وقت تھا کہ ان کو محض اسلام سے وابستگی کی سزا دی جارہی تھی۔ کہیں پر کالا پانی، کہیں پر کال کوٹھڑیاں کھول دی گئیں۔ علماء اہل حق نے نظریاتی سرحدات کی حفاظت کرتے ہوئے اور اپنی ذمہ داریوں کا احساس کرتے ہوئے غلبۂ اسلام کا بیڑا اٹھایا اور مولانا محمد قاسم نانوتوی رحمتہ اﷲ علیہ نے ۳۱؍ مئی ۱۸۶۷ء کو یوپی کے علاقے دیوبند میں ایک مدرسہ کی بنیاد ڈالی اور یہ اعلان کیا ’’ہماری تعلیم کا مقصد ایسے نوجوان تیار کرنا ہے جو رنگ و نسل کے اعتبار سے ہندوستانی ہوں اور ذہن و دماغ کے اعتبار سے اسلامی ہوں‘‘ اور انار کے درخت کے نیچے بیٹھ کر محمود نامی استاد نے محمود نامی شاگرد کو پہلا سبق پڑھایا۔ علماء اہل حق کی محنت سے مولانا محمد قاسم نانوتوی کا لگایا ہوا پودا انگریز کے خلاف بہت بڑا محاذ ثابت ہوا اور ایسا تناور درخت بنتا جارہا تھا جس کے پھلوں سے پورے برصغیرمیں بستی بستی اسلام سے لوگوں کا رشتہ مضبوط ہو رہا تھا حتیٰ کہ پہلا پہلا طالب علم جو بعدمیں شیخ الہند مولانا محمود حسن کے نام سے مشہور ہوئے انگریزوں کو برصغیر سے نکالنے کے لیے باقاعدہ تحریک ریشمی رومال چلا کر کارروائیاں شروع کرتے ہیں۔ جب یہ مکہ میں پہنچتے ہیں تو سلطنت عثمانیہ کے تاجدار چل کر آتے ہیں اور ملاقات کر کے یہ طے کرتے ہیں کہ نہ صرف ہندوستان بلکہ پورے عالم سے انگریز کا خاتمہ کیا جائے۔
ان اکابر کی محنت سے انگریز کی حکومت کمزور اور ہندوستان میں آزادی کی تحریک شروع ہو چکی تھی جن میں ایک مسلم لیگ کے نام سے تحریک تھی جبکہ دوسری طرف کانگریس سیاسی جماعت بھی تھی جو تمام اقوام کی نمائندگی کی دعویدار تھی۔ ۱۹۱۵ء میں لکھنؤ کے مقام پر مسلم لیگ اور کانگریس کا مشترکہ اجلاس ہوا جس کے فیصلے کومیثاقِ لکھنؤ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ مسلم لیگ دو قومی نظریے کی حامل تھی جس کا مطلب یہ تھا کہ ہندوستان میں دو قومیں یعنی مسلم اور کافر اکٹھے نہیں رہ سکتے۔ ہم علیحدہ ملک بنائیں گے جس میں مسلمان آزادی سے اپنے دین پر چلیں گے۔ ان کی قیادت جناب مسٹر محمد علی جناح، لیاقت علی خان، نواب سلیم اﷲ، خواجہ ناظم الدین وغیرہ دیگر حضرات کر رہے تھے جن کی اکثریت دینی زندگی سے عاری تھی۔ صرف روایتی مسلمان تھے اسلام کے تقدس اور اس کی اہمیت وقیمت سے واقف نہ تھے۔ جب ان حضرات نے نعرہ لگایا پاکستان کا مطلب کیا؟ لا اِلٰہ اِلاَ اللّٰہ تو لوگ حیران تھے جن کی اپنی شکل و صورت اور بودوباش اسلامی نہیں وہ اسلام کے دعویدار کیسے ہیں؟ چنانچہ مذہب کے راستے مسلمانوں کی حمایت اور مقبولیت حاصل کرنے کے لیے لیگی رہنماؤں نے علماء کو ساتھ ملایا، بالآخر حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رحمتہ اﷲ علیہ اور آپ کے متوسلین نے ان کی حمایت کا اعلان کیا تو اب تحریک آزادی و تقسیم ہند کو عروج ملا۔ آگے علماء ہوتے پیچھے یہ لوگ تو عوام الناس میں مقبولیت ملی اور یہ تحریک زور پکڑتی گئی۔ حتیٰ کہ ۱۹۴۵ء میں جمعیت علماء اسلام کے نام پر ایک تنظیم کی بنیاد ڈالی اور اس تحریک کو مزید تیز کیا۔ جناب محمد علی جناح جو سیاست کو مذہب سے الگ رکھنے پر مصر تھے حضرت تھانوی اور ان کے وفد مثلاً مولانا ظفر احمد عثمانی، مولانا شبیر علی تھانوی اور مولانا مفتی محمد شفیع نے ملاقاتیں کیں اور ان سے منوایا کہ سیاست مذہب سے الگ نہیں بلکہ مذہب کے تابع ہے۔ (تعبیر پاکستان و علماء ربانی ص:۳۸) یہ تمام حضرات دراصل اسی زنجیر کی کڑی ہیں جس میں حضرت شاہ ولی اﷲ، شاہ عبدالعزیز، شاہ اسماعیل شہید، سید احمد شہید، حاجی امداد اﷲ مکی، مولانا محمد قاسم نانوتوی، مولانا رشید احمد گنگوہی، مولانا رحمت اﷲ کیرانوی اور مولانا عبیداﷲ سندھی رحمہم اﷲ وغیرہ شامل تھے۔ علماء کے فیصلے سے برصغیر کے طول وعرض میں یہ نعرہ گونجنے لگا ’’مسلم ہے تو مسلم لیگ میں آ‘‘ اور وہ شخص جس کے سوٹ بوٹ پر انگریز رشک کرتے تھے ٹوپی شیروانی اور شلوار قمیص میں ملبوس نظر آنے لگا۔ (بے تیغ سپاہی ۴۵۹۔۴۱۳) ان علماء نے ملک بھر میں طوفانی دورے کیے جن کی وجہ سے مسلم لیگ کو ایک نمائندہ جماعت تسلیم کیا گیا ۱۹۴۶ء کے ریفرنڈم میں توقع سے زیادہ کامیابی حاصل ہوئی۔ انہی علمائے حق کی انتھک محنتوں اور قربانیوں سے ۱۴؍اگست ۱۹۴۷ء کو پاکستان کا خواب شرمندۂ تعبیر ہوا۔ مغربی پاکستان کراچی میں سب سے پہلے علامہ شبیر احمد عثمانی رحمہ اﷲ اورمشرقی پاکستان ڈھاکہ میں مولانا ظفر احمد عثمانی رحمہ اﷲ نے پرچم کشائی کی جو ان علماء کرام کی پُر خلوص قربانیوں کا منہ بولتا ثبوت تھا۔ قیام پاکستان کے بعد مبارکبادی کے لیے مولانا ظفر احمد عثمانی، مولانا شبیر علی تھانوی اور مولانا مفتی محمد شفیع رحمہم اﷲ وغیرہ کی قیادت میں ایک وفد بانیٔ پاکستان جناب محمد علی جناح کے پاس پہنچا تو انھوں نے کھڑے ہو کر استقبال کیا اور کہا حضرات مبارکباد کے مستحق حقیقت میں آپ لوگ ہیں۔ اگر آپ کی کاوشیں اور محنتیں نہ ہوتیں تو کبھی پاکستان وجود میں نہ آتا۔ حتیٰ کہ ایک سال کے بعد جب ۱۱؍ستمبر ۱۹۴۸ء کوبانیٔ پاکستان محمد علی جناح کا انتقال ہوا تو ان کی وصیت کے مطابق نماز جنازہ بھی علامہ شبیر احمد عثمانی نے پڑھائی۔ ان عاملینِ قرآن و سنت نے ایسے سینہ سپر ہو کر میدان میں اتر کر قربانیاں دیں جس نے تاریخ کے دھاروں کے رخ موڑ دیے اور اپنی حق گوئی اور بے باکی ، جانبازی و جانثاری سے وہ تاریخ رقم کی جو رہتی دنیا تک مشعل راہ ثابت ہوگی۔
سوال کیا جاتا ہے کہ علماء دیوبند سے تعلق رکھنے والے حضرات پاکستان کے وجود کے مخالف تھے؟
حقیقت یہ ہے کہ علماء دیوبند میں سے بعض حضرات بالخصوص شیخ العرب والعجم مولانا سید حسین احمد مدنی، مولانا حفظ الرحمن سیوہاروی اور امیر شریعت سید عطاء اﷲ شاہ بخاری رحمہم اﷲ مسلم عوام کی اخلاقی حالت سے مطمئن نہ تھے اور یہ کہتے تھے کہ مسلمانوں میں ابھی ایک مملکت کو اسلامی حیثیت سے چلانے کی استعداد پیدا نہیں ہوئی۔لیگی رہنما جب اپنی ذاتی زندگیوں میں اسلام نافذ نہیں کرسکے تو اجتماعی زندگی میں اسلامی قانون کا نفاذ کیسے ہوگا؟ اور بعد میں پیش آنے والے واقعات نے ان حضرات کے موقف کی تائید بھی کردی ہے۔ یہ حضرات اسلامی مملکت کے قیام کے ہرگز ہرگز مخالف نہ تھے یہ تو ایسا پاکیزہ مقصد ہے کہ کسی ادنیٰ سے مسلمان کو بھی اس میں اختلاف نہیں ہوسکتا بلکہ یہ دیانت داری سے یہ سمجھتے تھے کہ جن حضرات کے ہاتھ میں مطالبہ پاکستان کی نکیل ہے کیا وہ واقعۃً اسلامی حکومت قائم کرسکیں گے؟ اس کے لیے جس جرأت، ﷲیت، تقویٰ و اخلاص، علم و فضل، عقیدہ و عمل اور عزیمت و قربانی کی ضرورت ہے وہ چونکہ ان حضرات میں مفقود ہے اس لیے تقسیم ہند کے نتیجہ میں ایک خطہ تو ضرور مل جائے گا مگر اس میں احکام الٰہیہ اور شریعت محمدیہ کا اجراء نہیں ہوسکے گا۔ چنانچہ ۲۶؍ اپریل ۱۹۴۶ء کو اردو پارک دہلی میں مجلس احرار اسلام کا ایک عظیم الشان جلسہ منعقد ہوا جس میں پانچ لاکھ کے قریب لوگ جمع تھے۔ یہ دہلی کی تاریخ کا منفرد اجتماع تھا جس میں اسٹیج پر مولانا ابوالکلام آزاد مولانا حسین احمد مدنی، مولانا حفظ الرحمن سیوہاروی مولانا حبیب الرحمن لدھیانوی، ماسٹر تاج الدین انصاری اور شیخ حسام الدین رحمہم اﷲ جیسے حضرات موجود تھے۔ حضرت امیر شریعت نے اپنے مخصوص انداز سے خطاب کرتے ہوئے کہا:
’’ اس وقت تقسیم ہند کی باتیں چل رہی ہیں قطع نظر اس کے کہ اس کا انجام کیا ہوگا مجھے پاکستان بن جانے کا اتناہی یقین ہے جتنا اس بات پر کہ صبح سورج مشرق سے طلوع ہوگا لیکن یاد رکھو یہ وہ پاکستان نہیں ہوگا جو دس کروڑ مسلمانانِ ہند کے ذہن میں ہے ان مخلص نوجوانوں کو کیا معلوم کل ان کے ساتھ کیا ہونے والا ہے۔ کوئی آج مجھے اس بات کا یقین دلادے کہ کل کو اس کی کسی ایک گلی میں بھی شریعت اسلامیہ کا نفاذ ہونیوالا ہے تو رب کعبہ کی قسم میں آج ہی اپنا مشن تبدیل کرنے کو تیار ہوں‘‘ (روزنامہ الجمعیت دہلی)۔
جہاں تک مسلمانوں سے محبت اور ان کی حفاظت کا تعلق ہے تو اس کا اندازہ اس بات سے ظاہر ہوتا ہے جب اکالی لیڈر ماسٹر تارا سنگھ نے تلوار گھما کر مسلمانوں کو خون کی ندیاں بہانے کی دھمکی دی تو حضرت امیر شریعت نے فرمایا:
’’او ماسٹر جی! ہوش کے ناخن لو! کیا کہتے ہو؟ جس قوم کے فرزند خون کے سمندر میں تیرتے ہوں تیری ننھی منی ندیوں سے نہیں ڈرتے‘‘ پھر فرمایا ’’مسٹر محمدعلی جناح کے مقابلے میں تارا سنگھ کی تلوار اٹھے گی تو اس کے مقابلے میں پہلے بخاری آئے گا‘‘ (فرموداتِ امیر شریعت،ص:۷۵)
یہی وجہ ہے کہ قیام پاکستان کو ان حضرات نے بسرو چشم تسلیم کیا بلکہ اسے مسجد کی حیثیت دے کر اس کے تقدس کو اجاگر کیا اور پاکستان کی سلامتی اور استحکام کے تحفظ کو مسلمانوں کا ملی فریضہ قراردیا۔ ایک موقع پر شاہ جی نے فرمایا:
’’تم میری رائے کو خود فروشی کا نام نہ دو، میری رائے ہار گئی اور اس کہانی کو یہیں دفن کردو۔ اب پاکستان نے جب بھی پکارا واﷲ! باﷲ! میں اس کے ذرے ذرے کی حفاظت کروں گا۔ الغرض یہ صرف رائے کا اختلاف تھا، یہ حضرات فرماتے تھے تھوڑی ہمت اور کر لیں انگریز دم توڑ چکا ہے اور پورے برصغیر کی آزادی ہو ضرر کو دفع کرنا منفعت حاصل کرنے سے پہلے ضروری ہے اگر آگ لگ جائے تو پہلے آگ بجھائیے پھر اپنی زمینوں کو تقسیم کیجئے۔اگر آپ مریض ہیں تو پہلے مرض کو دفع کیجئے پھر تقویت کی فکر کیجئے گا (مکتوبات شیخ الاسلام ، ص:۱۰۶)