علی ہلال
بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی چار جون کو تین روزہ سرکاری دورے پر اسرائیل پہنچے جہاں ان کا ستقبال کرنے والوں میں مقبوضہ فلسطینی شہر حیفا کے قادیانی مرکز کی پوری قیادت سب سے نمایاں تھی۔ عبرانی ذرائع ابلاغ میں الکبابیر کے قادیانی مرکز کے امیر شریف عودہ کی مودی کے ساتھ ملاقات کی تصاویر شہ سرخیوں کے ساتھ شائع اور نشر ہوئیں ۔عرب ذرائع ابلاغ کے مطابق حیفا مشرق وسطی میں قادیانیت کے فروغ کا مرکزی پوائنٹ ہے جہاں سے پورے مشرق وسطی میں قادیانیت پھیلانے کی کوشش کی جاتی ہے ۔حیفا میں قادیانیت کی بنیاد1924ء میں قادیانیوں کے دوسرے خلیفہ مرزا بشیر الدین محمود نے رکھی تھی۔مرزا بشیر نے اسرائیل کے باقاعدہ قیام سے قبل برطانوی تعاون سے فلسطینی شہروں خلیل،رملہ ،القدس اور حیفا کا دورہ کیاتھا ۔یہ وہ زمانہ تھا جب فلسطینی علماء قادیانیت کے فریب سے واقف نہ تھے جس کا فائدہ اٹھا کر قادیانی خلیفہ کو فلسطینی مفتی اعظم کے گھر پر چائے کی دعوت میں مدعو کیا گیا تاکہ فلسطینی مسلمان دھوکے میں آکر قادیانیت کے جال میں پھنس جائیں۔فلسطین کے کامیاب دورے کے بعد مرزا بشیر الدین دمشق چلاگیا۔ تاہم دمشق کے مسلمان فلسطینیوں کی طرح بے خبر نہ تھے۔انہوں نے اس ہوٹل کو گھیرا جہاں نبوت کے جھوٹے دعویدار کو ٹھہرایا گیا تھا ۔ایک گروپ نے ہوٹل کودھماکہ خیزموادسے اڑانے کی منصوبہ بندی بھی کررکھی تھی، انٹیلی جنس رپورٹ سامنے آنے کے بعد اس وقت شام پر قابض فرانسیسی استعماری انتظامیہ نے مرزا بشیر الدین کی میزبانی سے معذرت کی اور اسے نکل جانے کو کہا ،قادیانی وفد نے دمشق چھوڑ کر بیروت کا رخ کیا، وہاں سے فلسطینی شہر رملہ اور پھر دوبارہ حیفا سے ہوتے ہوئے مصر کے پورٹ سعید کا دورہ کیا ۔مرزا بشیرالدین نے واپس آکر جلال الدین شمس نامی ایک قادیانی مبلغ کو فلسطین اور شام کے لئے نمائندہ بنا کر روانہ کیا جہاں اس نے برطانوی اور فرانسیسی انتظامیہ کے تعاون سے قادیانیت کے فروغ کے لئے کام کیا۔رپورٹ کے مطابق اس وقت حیفا کے الکبابیر مرکز سے وابستہ قادیانیوں کی تعدادقادیانی ذرائع کے دعوؤں کے مطابق 5ہزارہے جن میں سے 3ہزار حیفا جبکہ باقی ملکا،طولکرم،نابلس اوررملہ میں ہیں۔ چونکہ اسرئیل میں قادیانیوں کی اکثریت بھارتی ہے اس وجہ سے ان کے بھارتی حکومت اور انٹیلی جنس کے ساتھ مضبوط روابط ہیں یہ لوگ اسرائیلی حکومت اور عسکری اداروں میں انتہائی حساس اور اہم ترین عہدوں پر فائز ہیں۔یہاں تک کہ اسرائیلی پارلیمنٹ کے عرب گروپ میں بھی کئی قادیانی ممبران بھی شامل ہیں جو مقبوضہ علاقوں کے مسلمانوں کو دھوکہ دے کر ووٹ لیتے ہیں ۔خیال رہے کہ بھارتی وزیر اعظم نے دورہ اسرائیل کے موقع پر 5ہزار بھارتی باشندوں سے خطاب کیا جبکہ ان یہودی نمائندوں سے بھی خصوصی ملاقاتیں کیں جو اسرائیل کے قیام کے بعد بھارت چھوڑ کر اسرائیل چلے گئے تھے۔ اسرائیل میں بھارت سے جانے والے یہودیوں کی اس وقت تعداد70ہزارسے 1لاکھ کے درمیان ہے۔ بھارتی وزیراعظم نے ممبئی حملے میں بچ جانے والے اسرائیلی شہری ہولزبرگ موشے سے ملاقات بھی کی اس کے والدین ان آٹھ اسرائیلیوں میں شامل تھے جونومبر 2008ء کے دہشت گرد حملوں میں ہلاک ہوگئے تھے بھارتی وزیراعظم رملہ نہیں گئے جہاں سے فلسطینی انتظامیہ فلسطینی علاقوں کاانتظام سنبھالتی ہے اور جوفلسطین کاغیر سرکاری دارالحکومت بھی ہے۔ اسرائیل کادورہ کرنے والے غیر ملکی رہنمااکثر رملہ کا دورہ کرتے ہیں تاکہ سیاسی تعلقات میں ایک توازن رکھا جا سکے اور بہت سے رہنماؤں نے مودی کے فسلطینی علاقوں کو نظر انداز کرنے کے فیصلے پر تنقید کی ہے ۔خیال رہے کہ بھارت کے کسی بھی وزیر اعظم کا یہ پہلا دورہ اسرائیل ہے جس کے باعث دونوں ممالک کے تجربہ کار ذرائع ابلاغ اور سیاسی اور دفاعی ماہرین اس دورے کو ایک غیر معمولی اہمیت کا حامل قرار دے رہے ہیں۔ دونوں ممالک کے رہنماؤں کی طرف سے دیئے گئے بیانات میں اس دورے کو تاریخی کہا جارہا ہے۔ مودی کا دورۂ اسرائیل ایک خصوصی مناسبت سے ہے، چار جون کو بھارت اسرائیل سفارتی تعلقات کے باقاعدہ قیام کی پچیسیویں سالگرہ تھی ۔فلسطینی قیادت بھارت اور اسرائیل کے درمیان عسکری معاہدوں اور انٹیلی جنس شیئرنگ پرشدید خوف زدہ ہے اور ان کو خدشہ لاحق ہو اہے کہ بھارت اسرائیل کے ساتھ بڑھتی ہوئی دوستی میں مسئلہ فلسطین پر اپنے سابقہ مؤقف سے ہٹ سکتا ہے۔ اسی خدشے کی بنا پر عرب ذرائع ابلاغ نے شاید پہلی مرتبہ بھارتی حکومت کی پالیسی پر تنقید ی ہے۔اس سے قبل فلسطین عرب سمیت تمام عرب ممالک بھارت کی عظمت کے قصیدے گاتے رہے ہیں تاہم یہ پہلی مرتبہ ہے کہ فلسطینی ذرائع ابلاغ میں بھارت کے خلاف تنقید دیکھی جارہی ہے ۔ماضی میں پاکستان مخالف سرگرمیوں میں ملوث رہنے والی فلسطینی تنظیم پاپولر فرنٹ برائے فلسطین لبریشن کی قیادت کو بھی بھارت کی اسرائیل نوازی پر شدید ندامت اور پریشانی ہے۔ یاد رہے کہ فلسطینی تنظیم پی ایل اوسے وابستہ پاپولر فرنٹ کا جارج حبش ونگ ماضی میں بلوچستان کے بلوچ باغیوں کوپاکستان کے خلاف عسکری تربیت دیتا رہا ہے ۔رپورٹ کے مطابق اسرائیلی وزارت خارجہ کے ڈپٹی ڈائریکٹرجنرل مارک سوفر نے کہا کہ بھارت اور اسرائیل دونوں کو ایک جیسے دشمن کا سامنا ہے۔ ہماری نظر میں حماس اور لشکر طیبہ میں کوئی فرق نہیں ہے ۔
(مطبوعہ: روزنامہ ’’اوصاف کراچی‘‘ 9جولائی 2017)