ڈاکٹرعمرفاروق احرار
ترکی میں جمہوری حکومتوں کے خلاف فوج نے 1960،1971اور 1980میں تین مرتبہ شب خون مارا،اورحکومت پر قبضہ کیا۔گزشتہ سال بھی 15؍جولائی2016کو ترک فوج کے ایک گروہ نے بیرونی طاقتوں کی مددسے طیب اردوان کی حکومت کے خلاف بغاوت کی ۔بظاہراِس بغاوت کا سبب یہ تھا کہ کچھ ہی دن پہلے حکومت نے فوج کے اختیارات میں کمی لانے کا بِل منظورکیاتھا۔جس کے تحت لامحدوداِختیارات کی مالک ترک فوج کے ترکی کی داخلی سیکورٹی میں اختیارات میں کمی لائی گئی اورجس کے تحت فوجی افسران کے ساتھ ساتھ فوجی جوانوں کے خلاف بھی صدرکی منظوری کے بعدمقدمات چلائے جاسکتے ہیں۔ اِس بغاوت میں نہ صرف فوج کا ایک طبقہ ،بلکہ کئی خفیہ بیرونی عناصرکارفرماتھے ۔باغیوں نے باسفورس برج کو ٹینکوں اور بکتربند گاڑیوں سے بند کردیا۔ استنبول میں اتاترک ایئرپورٹ پر قبضہ کرلیا۔ایوانِ صدراورپارلیمان محاصرہ میں آگئے۔باغی فوج نے سرکاری ٹی وی کی نشریات بند کردیں اور تمام سرکاری نشریاتی ادارے قبضے میں لے لیے گئے۔ اس بغاوت میں کرنل رینک کے افسران شامل تھے ۔ جنہوں نے استنبول کے فوجی مرکز میں ترک فوج کے سربراہ جنرل خلوصی آکار سمیت دیگر جرنیلوں کو یرغمال بنایالیاتھا۔ بعدازاں حکومتی حامی فوج نے کارروائی کرکے باغی فوجیوں سے یرغمالیوں کو چھڑا لیا۔صدرطیب اردوان نے اس بغاوت کے خلاف عوام سے سڑکوں پر نکلنے کی اپیل کی۔جس پر عوام گھروں سے باہر آئے اورمزاحمت کرتے ہوئے فوجی ٹینکوں کے آگے لیٹ گئے۔بالآخربغاوت پر مکمل قابوپالیاگیا۔ ترک قوم نے اپنے آئینی حق کو اِستعمال کرتے ہوئے جمہوریت اور ملک کو تحفظ دیا اور فیتو کی بغاوت کی کوشش کو ناکام بنادیا۔ناکام بغاوت کے ایک سال مکمل ہونے کی خوشی میں صدرطیب اردوان نے ترک عوام سے یومِ فتح کورَقص وسرود کی بجائے درودوسلام پڑھ کرمنانے کی اپیل کی۔ عام تعطیل کی گئی، جبکہ ملک میں مختلف تقریبات منعقد کی گئیں ۔ ترکی کے اِکیاسی شہروں میں 86 ہزار 792 جامع مساجدمیں بڑے بڑے اجتماعات میں لاؤڈ سپیکروں پر اﷲ اکبر، سبحان اﷲ اور درودِ پاک کا مسلسل وِرد کیا جاتارہا۔
ترک صدر طیب اردوان نے قصر صدارت میں ناکام بغاوت کی پہلی سالگرہ کے موقع پر اپنے خطاب میں کہا کہ ترک عوام کی بہادری کا یہ اعلیٰ نمونہ ہماری جنگ آزادی کے جذبے اور وَلولے کی غمازی کرتا ہے، جبکہ ہماری قوم ایمانی طاقت و دین اسلام کی بقا وحرمت کی خاطر، عزم و اِتحاد سے دشمنانِ وطن کے عزائم ناکام بنانے کی پوری طاقت رکھتی ہے ۔ انہوں نے کہا کہ گولن تنظیم کی بغاوت کی کوشش ناکام بنانے والے عوام خراج تحسین کے مستحق ہیں۔ برطانوی اخبار “گارڈین” میں چھپنے والے ایک مضمون میں ترک صدر نے مغربی ملکوں سے ناراضی کااظہارکیا۔انہوں نے کہاکہ اِن ممالک نے ترکی کی دوستی کو دھوکا دیا اور یہ انتظار کرتے رہے کہ بغاوت کا کیا نیتجہ نکلتا ہے ۔ انھوں نے کہ کچھ ممالک نے تو فتح اﷲ گولن کے ساتھیوں کو پناہ تک دے دی۔ انھوں نے بغاوت کی ناکامی کے بعد بڑے پیمانے پر ہونے والی گرفتاریوں پر کی گئی تنقید کو مسترد کرنے ہوئے کہا کہ یہ ناکامی جمہوریت کی تاریخ کا ایک اہم موڑ ثابت ہواہے۔ناکام بغاوت کوایک سال مکمل ہونے پرپارلیمنٹ کاخصوصی اجلاس ہوا۔جس سے تر ک صدرنے خطاب بھی کیا۔
صدرطیب اردوان کا یورپی ممالک سے اظہارِ ناراضی اورگلہ کرناحق بجانب ہے،کیونکہ بغاوت کے دوران تمام یورپی ممالک نے مکمل چپ سادھ رکھی تھی اورعوام کی ایک منتخب کردہ حکومت کے خلاف غیرجمہوری اوردہشت گردانہ کارروائی پرخاموش رہ کر اِن بیرونی قوتوں نے نہ صرف باغیوں کا ساتھ دیاتھا،بلکہ تمام مغربی اخبارات وجرائدبشمول الیکٹرانک میڈیا باغیوں کے متشددانہ کارروائی کی مکمل حمایت کررہے تھے۔حالانکہ ترکی نیٹو کا حصہ تھا،مگر امریکہ اوراُس کے اتحادی ترکی کی صورتِ حال پرمہربلب، خاموش تماشائی تھے،بلکہ صدرطیب اردوان کے بقول بغاوت کی ابتداہی ترکی کے امریکی ہوائی اڈے سے ہوئی تھی۔اُس نازک گھڑی میں عوامی قوت ہی نے طیب اردوان کا ساتھ دے کرحکومت کی بحالی میں اُن کا ساتھ دیاتھا،طیب اردوان عوام کی اس قربانی کاتذکرہ کرتے ہوئے اُسے ایمانی قوت سے تعبیرکرتے ہوئے کہتے ہیں کہ’’اُس بغاوت کی رات لوگوں کے پاس بندوقیں نہیں تھیں، اُن کے پاس پرچم تھے اور اِس سے بڑھ کر اُن کے پاس ایمان تھا۔‘‘سچ ہے کہ ایمانی قوت ہی ٹینکوں کے آگے لیٹ جانے کا حوصلہ پیداکرتی ہے۔
ترکی اردوان کی قیادت میں مسلسل ترقی کی منازل طے کررہاہے۔ملکی معیشت مضبوط سے مضبوط ترین ہورہی ہے۔ 2023کا سال ترک حکومت کا ہدف ہے۔ جس کے بارے میں طیب اردوان نے اعلان کیا ہے کہ ترکی اس سال دنیا کی سب سے پہلی اقتصادی اور سیاسی قوت بن جائے گی۔ ترکی اب جی 20ممالک کے گروپ میں بھی شامل ہوچکا ہے۔دفاعی اعتبارسے ترکی کا شمار دنیا کی آٹھویں بڑی فوجی طاقت میں ہوتاہے۔ انسانی امدادی و ترقیاتی امور میں عالمی سطح پراَمریکہ کے بعدترکی کا دوسرا نمبر ہے۔داخلی مسائل سے نمٹنے کے بعداَب بیرونی دنیاسے بھی ترکی کے تعلقات میں بہتری آئی ہے۔باہم تعلقات کے فروغ اورقطرکے قضیہ کے حل کے لیے اردوان خلیجی ممالک کے دورہ پر روانہ ہورہے ہیں۔ ترکی اوراُس کے مغربی حلیفوں کے درمیان اختلافات کی خلیج وسیع ہوچکی ہے۔بغاوت کی ناکامی پر ایک سال گزرنے پر جب ترک نژادباشندوں نے تقریبات منانا چاہیں تویورپ کے بیشترملکوں نے اُن کو اَیساکرنے سے روک دیا۔جس سے واضح ہوتاہے کہ امریکہ اوریورپی دنیاترکی کی بڑھتی ہوئی طاقت سے خائف ہیں اوراُسے اپنے تزویراتی دام میں جکڑے رکھنے کے خواہش منداَوردوستانہ تعلقات کی بجائے محاذآرائی جاری رکھنے کے خواہاں ہیں۔ترکی ایک عرصہ سے یورپی یونین کا حصہ بننے کی تگ ودومیں مصروف رہاہے،مگر اَب ترکی نے یورپی یونین پراَپنا دوٹوک مؤقف واضح کردیاہے ۔ صدر رجب طیب اردوان نے بی بی سی کو بتایا ہے کہ اگر یورپی یونین یہ کہتی ہے کہ وہ ترکی کو ایک رکن کے طور پر قبول نہیں کر سکتی تو یہ ترکی کے لیے اِطمینان کا باعث ہو گا۔یورپی یونین ترکی کیلئے ناگزیر نہیں۔یورپ اتحاد نے ترکی کا وقت ضائع کیا ہے ۔ اُن کا کہنا تھا ترکی اپنے پاؤں پر کھڑا ہونے کے قابل ہے ۔ اِس کے بعد ہم اپنے پلان بی اور سی کا آغاز کریں گے ۔اردوان کا کہنا تھا کہ’’ ترکی کی اکثریت اب یورپی یونین میں شمولیت نہیں چاہتی، اور انھیں یقین ہے کہ یورپی یونین کی ترکی کے حوالے سے سوچ مخلص نہیں ہے ۔‘‘اب جبکہ دنیامیں مکالمہ اورمفاہمانہ رجحانات کی فضاہموارکرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔امریکہ اوریورپی ممالک کوبھی ترکی کے ساتھ اختلافات کادائرہ کم کرنے اورخیرسگالی کا ماحول پیداکرنے کی طرف قدم بڑھانے کی ضرورت ہے۔