سید محمد کفیل بخاری
سپریم کورٹ آف پاکستان نے وزیراعظم نواز شریف کو پانامہ لیکس کیس میں نااہل قرار دے دیاہے۔ جسٹس آصف سعید خان کھوسہ کی سربراہی میں جسٹس گلزار احمد، جسٹس اعجاز افضل خان، جسٹس شیخ عظمت سعید اور جسٹس اعجاز الاحسن پر مشتمل عدالت عظمیٰ کے پانچ رکنی لارجر بینچ نے گزشتہ کئی ماہ کی سماعت کے بعد متفقہ طور پر ملکی تاریخ کا اہم ترین فیصلہ کھلی عدالت میں سنادیا۔ ۲۴؍ صفحات پر مشتمل فیصلے میں لکھا کہ:
’’نواز شریف نے انتخابی گوشواروں میں ایف زیڈ ای کمپنی دبئی کو اثاثوں میں ظاہر نہیں کیا۔ کاغذاتِ نامزدگی میں اثاثوں کے متعلق جھوٹا بیان حلفی جمع کرایا۔جس کے باعث وہ صادق وامین نہیں رہے۔ لہٰذا آرٹیکل ۶۲؍ کے تحت انھیں نا اہل قرار دیا جاتا ہے۔ احتساب عدالت، نواز شریف، مریم، حسن، حسین کیپٹن (ر) صفدر اور اسحق ڈار کے خلاف ۶؍ ہفتوں میں ریفرنس دائر اور ۶ ماہ میں فیصلہ کرے۔ صدر مملکت جمہوری عمل کے تسلسل کے لیے آئینی تقاضے پورے کریں۔‘‘
نواز شریف تین بار وزیراعظم منتخب ہوئے اور تینوں مرتبہ آئینی مدت پوری ہونے سے پہلے برطرف کیے گئے۔ آج تک معلوم نہیں ہوسکا کہ یہ ہمارے سیاسی نظام کی روایت ہے یا جمہوریت کا حسن کہ پاکستان کے کسی بھی وزیراعظم نے اپنے عہدے کی آئینی مدت پوری نہیں کی۔ البتہ ڈکٹیٹرز ملکی آئین معطل کر کے دس دس سال اپنی مرضی سے ملک و قوم پر مسلط رہے۔ جن میں سے کسی کا بھی محاسبہ نہیں ہوا۔ کیا وہ سب صادق و امین تھے؟ کیا ڈکٹیٹرز کے اقتدار کو آئینی جواز بخشنے والے ججز بھی صادق و امین تھے؟
ہمیں نواز شریف سے کوئی ہمدردی نہیں، ہماری ہمدردیاں اور محبتیں صرف اسلام اور پاکستان کے لیے ہیں۔ عدالت عظمیٰ کے فیصلے کے بعد سیاسی رہنماؤں، تجزیہ نگاروں اور عوام کے مختلف طبقات کا جو ردِ عمل سامنے آیا ہے، اپنے اپنے دائرے میں بعض باتیں قابل توجہ اور اہم ہیں۔
احتساب کا عمل صرف نواز شریف اور ان کے خاندان تک ہی محدود کیوں ہے؟ کیاآصف علی زرداری کے دورِ حکومت میں کرپشن نہیں ہوئی؟ لندن فلیٹس تو احتساب کی زد میں آگئے لیکن سرے محل کا حساب کون لے گا؟
منی لانڈرنگ کے مقدمے میں ملوث ’’ایان علی‘‘ سر عام دندناتی پھر رہی ہے۔ ۴۵۰؍ارب کی کرپشن میں ملوث پیپلز پارٹی کاڈاکٹر عاصم نماز کی امامت کرا رہا ہے۔
زرداری پر ۲۵۰؍ ارب کی کرپشن کا الزام ہے، نذر گوندل پر۴۵؍ ارب اور بابر اعوان پر ۲۱؍ارب کی کرپشن کے الزامات ہیں۔ عدل کا تقاضا ہے کہ احتساب سب کا ہونا چاہیے۔ جنرل پرویز مشرف پر مقدمات قائم ہیں اور وہ بیرون ملک بیٹھ کر بڑھکیں مار رہا ہے۔ قاتل ریمنڈ ڈیوس کو عدالت سے آزادی کا پروانہ دے کر باعزت طور پر امریکہ پہنچایا گیا۔
کیا ہمارے ہاں امتیازی فیصلے ہوتے ہیں؟ ملک کا مفاد تو اسی میں ہے کہ بلا امتیاز سب کا احتساب ہونا چاہیے۔ ورنہ ’’بیس سال تک یاد رکھا جانے والا فیصلہ‘‘ بھی مولوی تمیزالدین کیس، بھٹو کیس اور جام ساقی کیس کی طرح ہی یاد رکھا جائے گا۔ہماری رائے میں نواز شریف مکافاتِ عمل کی زد میں آئے ہیں۔ اﷲ تعالیٰ کی پکڑ بہت سخت ہے۔ نواز شریف تیسری بار معزول ہوئے ہیں لیکن انھوں نے اپنے جرائم سے توبہ نہیں کی۔انھیں جب بھی اقتدار ملا، انھوں نے سابقہ غلطیوں او رجرائم کا اعادہ ہی کیا بلکہ اور جری ہوگئے۔ ان کی نااہلی کے جو بھی اسباب و جواز بیان کیے جارہے ہیں وہ اپنی جگہ درست ہوں گے لیکن ہمارے نزدیک ان کا سب سے بڑا جرم اسلام اور پاکستان سے بے وفائی ہے۔ قیام پاکستان کے مقاصد سے انحراف و روگردانی، نظریہ پاکستان کے مقابلے میں سیکولرازم کا فروغ، مسجد نبوی میں بیٹھ کر سودی نظام ختم کرنے کا وعدہ کر کے پھر سود کے حق میں سینہ سپر ہونا۔اسلام، وطن اور حضور خاتم النبیین سیدنا محمد کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کے دشمنوں، امتِ مسلمہ کے دشمنوں، قادیانیوں کو اپنا بھائی کہہ کر سانحۂ دوالمیال (چکوال) میں مظلوم مسلمانوں کے مقابلے میں قادیانیوں کی سپورٹ کر کے پوری اُمت مسلمہ کے ایمانی جذبات کو مجروح اور دلوں کو زخمی کرنا ہے۔ حضور صلی اﷲ علیہ وسلم کو تکلیف پہنچا کر اﷲ کے غضب کو دعوت دینا ہے۔ انھوں نے قائد اعظم یونیوررسٹی اسلام آباد کے ’’فزکس سنٹر‘‘ میں ایک مسلمان سائنس دان ڈاکٹر ریاض کے نام سے منسوب شعبہ کو تبدیل کر کے ایک غدارِاسلام و وطن ڈاکٹر عبدالسلام قادیانی کے نام سے منسوب کیا۔ نواز شریف کے حلیف قائد جمعیت مولانافضل الرحمن نے یکم فروری ۲۰۱۷ء کو اسلام آباد میں کل جماعتی تحفظ ناموس رسالت کانفرنس منعقد کی اور اس کے ۶؍ مطالبات کی منظوری کے لیے نواز شریف کو ایک ماہ کی مدت دی۔ مولانا فضل الرحمن نے ایک ملاقات میں نواز شریف کو متوجہ کرتے ہوئے کہا کہ آپ نے فزکس سنٹر قادیانی کے نام منسوب کردیا ہے۔ اسے تبدیل کریں اور فیصلہ واپس لیں۔ نواز شریف نے جواباً کہا کہ وہ ایک پاکستانی ہے۔ مولانا نے کہا کہ جو پاکستان کے آئین کو تسلیم نہیں کرتا اور جس نے پاکستان کو ایک لعنتی ملک کہا،آپ کے نزدیک وہ پاکستانی ہے؟ تب سے اب تک نواز شریف خاموشی کے ساتھ قادیانیت نوازی پر ڈٹے ہوئے ہیں۔یہی مطالبہ مولانا فضل الرحمن نے شہباز شریف سے کیا تو انھوں نے کہا :مولانا! میں توآپ کو سیکولر لیڈر سمجھتا تھا۔ مولانا نے جواباً کہا کہ: جو پاکستان کے آئین کو مانتا ہے میں اس کے لیے سیکولر ہوں۔
مولانا فضل الرحمن اپنی دوستی، قربت اور تمام تر کوشش کے باوجود نواز شریف سے اپنی ہی صدارت میں منعقدہ اے پی سی کے مطالبات نہ منوا سکے۔ اگر آئندہ انتخابات تک ن لیگ کی حکومت باقی رہتی ہے تو اس کی قیادت موقع کو غنیمت اور اﷲ کی مہلت جانتے ہوئے ان معاملات کو حل کر کے اﷲ کو راضی کر لے۔ اﷲ کے رسول صلی اﷲ علیہ وسلم کو راضی کر لے۔ نواز شریف اور ان کی ن لیگ کے لیے یہ سرپرائز ہے کہ وعظ و نصیحت، یاد دہانی اور رہنمائی کے لیے مولانا فضل الرحمن اب بھی ان کے حلیف ہیں۔
ہمارا یقین ہے کہ جو آدمی دین میں خیانت کرتا ہے وہ دنیا کے معاملات میں بھی خیانت کا مرتکب ہوتا ہے۔ ن لیگ دونوں خیانتوں کی مرتکب ہوئی ہے۔ اﷲ سے معافی مانگیں، اسلام اور وطن سے وفاداری کا حلف پورا کریں توعزت بحال ہوسکتی ہے۔ ورنہ خسرالدنیا والآخرہ۔اﷲ تعالیٰ وطن عزیز پاکستان کی حفاظت فرمائے اور قوم کو صالح اور محب وطن قیادت عطا فرمائے۔ (آمین)