نام کتاب:احمدیت، اسلام کیوں نہیں؟ مصنف: مولانا منیر احمد علوی مبصر:سید محمد کفیل بخاری
برائے رابطہ: 0321-8823953
فتنہ، فتنہ ہی ہوتا ہے اس کی اپنی کوئی پہچان ہوتی ہے نہ شناخت۔ وہ کسی روپ کا بہروپ دھار کر، دھوکا دہی کی بیساکھیوں پر زندہ رہنے کی ناکام کوشش کرتا ہے لیکن بالآخر روپ نکھر کر روشن ہوجاتا ہے اور بہروپ اپنی حقیقت میں واضح ہو کر تاریکیوں میں گم ہو جاتا ہے۔
اسلام کے خلاف جتنے فتنے اٹھے، وہ اسلام کا نام لے کر اٹھے،لیکن نبی خاتم سیدنا محمد صلی اﷲ علیہ وسلم کے فرمان ’’میری امت کبھی گمراہی پر اکٹھی نہیں ہوگی‘‘ کے مطابق امتِ مسلمہ کی اکثریت نے انھیں ہمیشہ مسترد کیا اور اسلام کی دعوت پوری قوت کے ساتھ جاری رکھی۔ اسلام ہی واحد دین ہے جو مہد سے لحد تک ایک مکمل نظام حیات عطا کرتا ہے۔ قیامت تک ہر زمانے میں زندہ و قائم رہنے کی پوری صلاحیت و طاقت رکھتا ہے اور اپنے پیروکاروں کو کسی بھی زمانے اور کسی بھی مقام پر تنہا نہیں چھوڑتا۔ اسی لیے نبی خاتم سیدنا محمد کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کے فرمان ’’بَلّغْوَا عَنِّی وَلَوا آیہ‘‘ کے تحت اسلام کی دعوت و تبلیغ چودہ سو اڑتیس برس سے جاری ہے اور تا قیامت جاری رہے گی۔
خاتم النبیین سیدنا محمد رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کے عہدِ مبارک میں بھی فتنے اٹھے۔ مسیلمہ کذاب اور اسود عنی نے عقیدۂ ختم نبوت کے انکار اور اجراءِ نبوت کے باطل نظریے اور فتنۂ ارتداد کی بنیاد رکھی۔ انھوں نے سیدنا محمد رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کو نبی و رسول مانتے ہوئے اپنی جھوٹی نبوت کا اعلان کیا لیکن حضور صلی اﷲ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ رضی اﷲ عنہم نے ان کے خلاف جہاد و قتال کر کے انھیں ختم کیا۔ ایک سیدھا اور سادہ سوال ہے کہ نبی خاتم محمد کریم صلی اﷲ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ رضی اﷲ عنہم نے ان مدعیان نبوت کے مؤقف اور کسی تاویل کو کیوں تسلیم نہیں کیا؟ یہی سوال تحقیق اور غور و فکر کی بنیاد ہے۔
عہد صحابہ میں ہی دو مدعیان نبوت، طلیحہ اور سجاح نامی عورت نے اس سوال پر غور و فکر کیا تو انھیں حق کی روشنی مل گئی۔ دونوں نے اپنے باطل عقیدہ و دعویٰ سے توبہ کی، اسلام کے دائرۂ امن و سلامتی میں پھر سے داخل ہوئے اور ایمان پر موت نصیب ہوئی۔
فتنہ قادیانیت ، دراصل مسیلمہ کذاب اور اسود عنی کے فتنۂ ارتداد کی کڑی اور تسلسل ہے۔ قادیانی دوستوں سے سوال ہے کہ اگر مسیلمہ اور اسود کے دعاویٔ نبوت، اسلام نہیں تو مرزا غلام احمد قادیانی کا دعویٰ نبوت کیونکر اسلام کہلا سکتا ہے؟جبکہ مرزا غلام احمد قادیانی بھی مسیلمہ کذاب کی طرح سیدنا محمد رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کو نبی ورسول مانتا ہے۔
مولانا منیر احمد علوی کا نام چند برس پہلے سنا، غائبانہ تعارف ہوا، بعض اجتماعات میں ان کی عالمانہ، مناظرانہ اور داعیانہ تقاریر سنیں اور پھر بالمشافہ ملاقاتوں میں ان کے مطالعہ و تحقیق کے جوہر دیکھے۔ میں پورے وثوق سے کہہ سکتا ہوں کہ مرزا قادیانی کی کتابوں کا جتنا مطالعہ انھوں نے کیا ہے، خود احمدیوں (قادیانیوں) نے بھی نہیں کیا۔ ان کی تازہ تصنیف ’’احمدیت‘‘ اسلام کیوں نہیں؟‘‘ دراصل ان کے ایک سکول و کالج فیلو مسعود احمد نامی احمدی دوست کے دعوے کا جوابی سوال ہے۔ مسعود احمد نے مولانا کو احمدیت قبول کرنے کی دعوت دیتے ہوئے کہا کہ: ’’احمدیت ہی حقیقی اسلام ہے اور یہ کہ جس امام کے آنے کی بشارت حضرت رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے دی تھی وہ آ چکا ہے۔‘‘
مولانا منیر احمد علوی نے اپنے احمدی دوست کے دعوے پر غور و فکر شروع کیا، مرزا غلام احمد قادیانی کی کتابوں اور ان کے پیرو کار قادیانیوں کی تحریروں کا مطالعہ کیا تو تحقیق کی کئی راہیں ان پر کھلتی چلی گئیں۔ ’’احمدیت اسلام کیوں نہیں؟‘‘ احمدی دوست مسعود احمد اور جماعتِ احمدیہ کے تمام دوستوں کے اسی دعوے کا طویل جوابی بیانیہ ہے جو دو سو سات صفحات پر پھیلا ہوا ہے۔
مولانا منیر احمد علوی نے اپنی اس شاہکار تحقیقی تصنیف میں بڑی درد مندی اور خلوص کے ساتھ احمدی دوستوں کو اسلام کی دعوت دی ہے۔ انھوں نے مرزا قادیانی کی تحریروں سے پیدا ہونے والے اس گمراہ کن مغالطے کہ ’’احمدیت ہی حقیقی اسلام ہے‘‘ کا خودبانی سلسلہ مرزا غلام احمد کی تحریروں سے ہی رد کر کے سوال اٹھایا ہے کہ ’’احمدیت، اسلام کیوں نہیں؟‘‘ انھوں نے احمدی دوستوں سے درخواست کی ہے کہ وہ سلسلہ احمدیت کے بانی مرزا غلام احمد قادیانی، ان کے فرزندان مرزا بشیر احمد ایم اے، مرزا بشیرالدین محمود اور دیگر قادیانی مصنفین کی کتابوں کا مطالعہ کریں۔ خاص طور پر ان احمدی حضرات جنھوں نے مرزا صاحب کی کتابوں کا مطالعہ کیا اور تحقیق و غور و فکر کے بعد احمدیت ترک کر کے اسلام قبول کیا۔ پھر اپنی تحقیق کو کتابی شکل میں احمدی دوستوں کے سامنے پیش کیا۔ جن میں سابق احمدی رہنما شیخ راحیل احمد رحمتہ اﷲ علیہ کی تالیف، ’’مضامین راحیل‘‘ احمدی دوستوں کی صحیح رہنمائی کرتی ہے اور انھیں تحقیق کی طرف متوجہ کرتی ہے۔
مولانا منیرا حمدی علوی نے احمدی دوستوں کو قرآنی و نبوی اسلوب میں اسلام کی دعوت دیتے ہوئے درخواست کی ہے کہ وہ اپنے آباء و اجداد کے باطل عقائد کی اندھی اور جامد تقلید کو چھوڑ کر غور و فکر اور تحقیق کی کوشش کریں تو اسلام کے نورِ ہدایت سے ان کے قلوب منور ہوجائیں گے۔ اس کتاب میں موجود بہت ساری مثالوں میں سے صرف ایک پیشِ خدمت ہے۔
۱۹۷۴ء میں پاکستان کی قومی اسمبلی میں احمدیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دینے کے حوالے سے ہونے والی کارروائی میں جماعت احمدیہ کے رہنما مرزا ناصر احمد اپنی ٹیم کے ساتھ شریک تھے۔ اسی ٹیم میں شامل ایک معروف احمدی مرزا سلیم اختر چند ہفتوں بعد احمد سے تائب ہو کر مسلمان ہوگئے (ص:۲۰۰)
’’احمدیوں کو دعوتِ اسلام‘‘ کے عنوان سے لکھی جانے والی کتابوں میں مولانا منیرا حمد علوی کی یہ کتاب مؤثر ترین کتاب ہے۔ مولانا نے قرآنی و نبوی اسلوب دعوت کو اختیار کرتے ہوئے حکمت و نصیحت، محبت و دل سوزی اور دلائل و براہین کے ساتھ احمدی دوستوں کے درِ دل پر دستک دی ہے۔
شاید کہ اتر جائے ترے دل میں میری بات
مولانا منیر احمد کی دعوت پر اب تک درجنوں احمدی، مسلمان ہوچکے ہیں۔ مولانا کی یہ کتاب زیادہ سے زیادہ احمدی دوستوں تک پہنچنی چاہیے۔ مجھے قوی امید ہے کہ احمدی دوست اس کتاب کے مطالعے سے ضرور ہدایت پائیں گے۔ ان پر یہ حقیقت ظاہر ہوجائے گی کہ ’’احمدیت، اسلام نہیں؟‘‘ اﷲ تعالیٰ، مولانا کی اس مخلصانہ کاوش کو قبولیت عطاء فرمائے اور انھیں آخرت میں اجرِ عظیم عطاء فرمائے۔ (آمین)