(قسط:۱۱)
ظفر جی
سول لائن تھانہ کا بھوت
2 مارچ ․․․ 1953ء ․․․ لاہور !!!!
دن کے 1 بجے تھانہ سول لائن کے سامنے ایک گاڑی آکر رکی۔
” آئی جی ساب آ گئے ․․ آئی جی ساب ! ” باہر سے ایک سنتری بھاگتا ہوا اندر آیا۔
ایس ایس پی نعیم مرزا جو میز پر ٹانگیں پھیلائے قیلولہ کر رہا تھا ، ہڑبڑا کر اُٹّھا اور ٹوپی پہن کر اَلرٹ ہو گیا۔ باقی عملہ بھی اُٹھ کر آنکھیں ملنے لگا۔
” سیدھے ہو جاؤ ۔بلاء نازل ہونے والی ہے ۔” ایس ایس پی عملے کو ہدایات دیتا ہوا باہر دوڑا۔
آئی جی نے گاڑی سے اترتے ہی پوچھا: ” سب لوگ آ گئے ؟”
” کک ․․․ کون لوگ سر ! ” ایس ایس پی ہکلایا۔
” سینئر مجسٹریٹ، کمشنر صاحب، ہوم سیکرٹری ؟ ”
” نن ․․․․ نو سر ․! ”
” میٹنگ روم تیار کراؤ۔ ارجنٹ میٹنگ ہے ۔! ”
یہ کہہ کرآئی جی صاحب لان میں کھڑے ہو کر سگریٹ سلگانے لگے اور ایس ایس پی مرزا نعیم میٹنگ روم کی طرف دوڑا۔کوئی نصف گھنٹہ بعد کمشنر لاہور ، ہوم سیکرٹری اور مجسٹریٹ بھی پہنچ گئے ۔دو بجے تھانہ سول لائن میں اعلیٰ سطح کا اجلاس شروع ہو چکا تھا۔
” آج شام کا جلوس بہت سرکش تھا۔ ” آئی جی نے کہا۔ “مظاہرین کی طرف سے اینٹوں ،ڈنڈوں، بوتلوں کا آزادانہ استعمال ہوا ہے کراؤڈ) (crowdکے تیور اَب بدل رہے ہیں ۔”
” پولیس لاٹھی چارج نہ کرتی تو ہجوم اتنا مشتعل نہ ہوتا ۔”کمشنر نے کہا۔
” کیا کرے پولیس ؟لاٹھی چارج نہ کرتی تو یہ لوگ گورنمنٹ ہاؤس پہنچ جاتے۔اتنے بڑے کراؤڈ کو ہینڈل کرنا آسان کام ہے ؟ ”
” فکر نہ کریں، ہم بارڈر پولیس منگوا رہے ہیں۔وہ لوگ ہائی رسک میں کام کرنے کے عادی ہیں ” ہوم سیکرٹری نے کہا۔
” غیاث الدین صاحب ! پوزیشن یہ ہے کہ پنجاب حکومت کی کوئی سنتا نہیں ، اور مرکز کو پرواہ نہیں۔ ان حالات میں پولیس جانوں کا رسک کیوں لے ؟ ” آئی جی کا لہجہ تلخ ہو گیا۔
” پنجاب حکومت تمہیں ہتھیار اوراختیار تو دے چکی اور کیا کرے؟” ہوم سیکرٹری نے کہا۔
” تو اب کیا بندوق لے کر موب (Mob)پر گولیاں چلانا شروع کر دوں ؟ ”
” آف کورس! بندوق کا اگر کوئی اور استعمال ہے تو مجھے سمجھا دیجئے ! ”
” دیکھئے گولیاں چلانا اتنا آسان نہیں ہوتا ۔ایک بار خون کے چھینٹے اس وردی پہ لگ گئے تو عمر بھر نہیں دھل سکیں گے۔ ”
” پھر کھاتے رہو ڈنڈے اور بوتلیں ! ” ہوم سیکرٹری نے طنز کیا۔
” میرے خیال میں آئی جی صاحب ٹھیک کہ رہے ہیں۔ ” کمشنر نے کہا۔ ” آج ہم اپنی قوم پر فائر کھولیں گے تو کل ہمیں اپنا سر کھلوانے کے لئے بھی تیّار رہنا پڑے گا ۔”کمشنر نے کہا۔
“تو پھر حل کیا ہے ؟ ” ہوم سیکرٹری نے پوچھا۔
” مارشل لاء ! ”
” مارشل لاء ؟ ․․․․ آر یو میڈ ․․․․ ؟ “ہوم سیکرٹری نے کہا۔
” رسوائی سے بچنا ہے تو فوج کو بلاؤ اور اپنی جان چھڑاؤ ! ” کمشنر نے کہا۔
” دیکھو مارشل لاء اِز ناٹ اے گیم ۔یہ مسئلے کا حل ․․․․ ”
” دیکھئے غیاث الدین صاحب ! مارشل لاء ہی اس مسئلے کا واحد حل ہے ۔پبلک فوج کی گولی آرام سے کھا لیتی ہے ،لیکن پولیس کی لاٹھی ہضم نہیں کر سکتی۔ ایک سال پہلے ملتان میں پولیس نے ایسے ہی ایک کراؤڈ پر تشدّد کیا تھا ، اور لوگ تھانے کو آگ لگانے پہنچ گئے تھے ! ”
“” تجویز تو اچھی ہے ․․․․ لیکن ․․․․ چیف منسٹر نہیں مانیں گے ۔” ہوم سیکرٹری نے خیال ظاہر کیا۔
” چیف منسٹر کا اس میں کیا رول ہے ؟ ، آئی ایم اتھارٹی ! ” سینئر مجسٹریٹ نے کہا۔
” ٹھیک ہے، کل مشورہ کریں گے جنرل اعظم سے ” ہوم سیکرٹری نے کچھ سوچتے ہوئے کہا۔
” کل تک بہت دیر ہو جائے گی۔ ابھی بات کریں۔ مرزا نعیم فون اٹھا کے لاؤ۔ ” آئی جی نے کہا۔
ایس ایس پی مرزا دوسرے کمرے سے فون اور ڈائریکٹری اٹھا لایا۔
آئی جی سگریٹ پینے باہر لان میں چلے گئے ۔ کمشنر اور مجسٹریٹ معاملے سے لاتعلق ہو کر آپس میں گپ شپ کرنے لگے ۔ہوم سیکرٹری ٹیلی فون ملانے میں مصروف ہو گئے ۔ تقریباً دس منٹ تک مبہم گفتگو کے بعد انہوں نے کریڈل رکھتے ہوئے کہا :
” کمال ہے ۔جنرل صاحب مان گئے ! ”
کمشنر اور مجسٹریٹ یک زبان ہو کر بولے : کانگریٹ ! ”
” جنرل صاحب کو یہیں مدعو کر لیتے تو بات پکّی ہو جاتی۔” باہر برآمدے سے آئی جی صاحب نے آواز لگائی۔
” جی میں نے کی ہے بات۔ وہ خود تو نہیں آ رہے ۔کرنل شیریں خان کو بھیج رہے ہیں ۔”
“کرنل شیریں کون ؟ “کمشنر نے پوچھا۔
“میں جانتا ہوں اسے، پکا احمدی ہے۔ جہاد سمجھ کر لڑے گا۔ دو دن میں شہر صاف کرا دے گا۔” ہوم سیکرٹری نے کہا۔
تقریباً تیس منٹ بعد کرنل شیریں دو فوجی افسران کے ہمراہ تھانے پہنچ گئے ۔
” دیکھو آیا یہ کیسا زمانہ ․․․․ یہ دنیا عجائب خانہ ” کرنل صاحب گنگناتے ہوئے میٹنگ روم میں پہنچے ۔ وہ توقع سے زیادہ پرجوش تھے ۔
” کاہے کو دیر لگائی رے ․․․․ آئے نہ اب تک بلما ” ہوم سیکرٹری بھی گنگناتے ہوئے اٹھ کھڑے ہوئے ۔
“لگتا ہے آپ نے بھی’’ داغ ‘‘فلم دیکھ رکھی ہے۔ ” کرنل نے ہنستے ہوئے کہا۔
” ارے صاحب ہم تو دِل پر داغ لگائے بیٹھے ہیں۔ ” مجسٹریٹ نے قہقہہ لگایا۔
“ہم کافر نصف صدی سے اس داغ کو سہہ رہے ہیں ۔ ” کرنل شیریں خان نے کہا۔ ” بھرے مجمع میں ایک مولوی گھس آئے تو امن تباہ ہو جاتا ہے۔ تم لوگوں نے پورا شہر مولویوں سے بھر دیا ۔ ”
” یہ میلہ حکومت خود لگائے بیٹھی ہے ،اگر ان کے کچھ مطالبات مان لیے جاتے تو آج یہ حالات نہ ہوتے۔ ” کمشنر نے کہا۔
” کیا ہیں ان کے مطالبات ؟پہلے سرسیّد کو کافر کہتے تھے۔ پھر جناح صاحب کی باری آئی اور اب احمدیوں کے پیچھے پڑے ہیں۔پہلے تقسیم کے مخالف تھے۔ اب قوم کو تقسیم کرنے پہ تُلے ہیں۔ ”
“ارے صاحب حکومت کی بھی مجبوری ہے۔ ” ہوم سیکرٹری نے لقمہ دیا۔
” کاہے کی مجبوری صاحب !حکومت شروع سے انہیں قابو کرتی تو آج سانپ کے منہ میں چھچھوندر نہ پھنسا ہوتا، لیکن حکومت بھی تو دودھ میں لیموں نچوڑ کر شربت بناتی ہے !
“یہی خیالات یہ لوگ آپ کے بارے میں رکھتے ہیں۔ بس لیموں کی جگہ پیشاب کا قطرہ کر لیجئے۔ “کمشنر نے جواب دیا۔
“میں اس سے بھی برے خیالات رکھتا ہوں، ان کے بارے میں۔آگاہ کروں آپ کو ؟ ” کرنل بھڑک اُٹّھا۔
” یار خُدارا! اس لاحاصل بحث کو چھوڑو۔ یہ بتاؤ پلان کیا ہے ” ہوم سیکرٹری نے کہا۔
” پلان تو تب بنے گا، جب حکومت فوج سے باضابطہ درخواست کرے گی۔”کرنل نے جواب دیا۔
” ابھی کر لیتے ہیں ۔سینئر مجسٹریٹ ہیں ناں ․․․نعیم مرزا ․․․․ پیپر لے کر آؤ ۔”
” ناں جناب ناں !!! ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ کے بلانے سے نہیں آتیں فوجیں! “کرنل شیریں نے کہا۔
” پھر کیسے آتی ہیں جناب ؟آئین میں مجسٹریٹ کو اختیار ہے کہ ․․․․ ”
” آئین گیا تیل لینے۔ فوج بلانے سے پہلے آئین کو لپیٹ کر صندوق میں رکھنا پڑتا ہے۔ ”
“تو کیا اب بِگل بجانا پڑے گا ؟ ” مجسٹریٹ زچ ہو کر بولا۔
” دیکھئے جناب !فوج کا اپنا ایک بجٹ ہوتا ہے۔ موومنٹ الاؤنس ہوتا ہے۔ میسنگ الاؤنس ہوتا ہے۔ ڈسٹربنس الاؤنس ہوتا ہے۔مفت میں نہیں آتی فوج۔آپ ایسا کریں ۔چیف منسٹر سے ایک تحریری درخواست بنام کمانڈر 10 ڈویژن بھجوائیں۔ تاکہ بعد میں اخراجات کا مسئلہ پیدا نہ ہو۔ ”
” دیکھئے ہم ہندوستان سے فوج نہیں منگوا رہے جو آپ ایڈوانس خرچہ مانگ رہے ہیں۔ ” آئی جی نے کہا۔ ” میں حکومتِ پنجاب کی طرف سے تحریری مطالبہ پیش کئے دیتا ہوں ۔ہوم سیکرٹری اور ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ اس پر ابھی سائن کر دیں گے۔باقی رہا رَاشن پانی کا مسئلہ تو کابینہ ہے نا۔کنپٹی پر پستول رکھ جتنا چاہے راشن اٹھا لیجئے گا ! ”
“چلیں ٹھیک ہے تو کب سے لگوانا ہے مارشل لا؟ ”
” شام کو سی ایم کی میٹنگ ہے۔ ان سے پرچہ سائن کرا کے آپ کو بھجوا دیں گے۔ کل صبح سے ٹیک اووَر کر لیجئے گا۔” ہوم سیکرٹری نے کہا۔
کون جانتا تھا کہ سول لائن تھانہ میں بیٹھے چند سرکاری ملازمین تاویلات کا چراغ رگڑ رگڑ کر مارشل لاء کے جس جِن کو برآمد کرنے میں لگے ہیں ، اسے واپس دوبارہ چراغ میں کبھی بند نہ کیا جا سکے گا۔
کالا سورج:
رات 9 بجے آئی جی، کمشنر اور ہوم سیکرٹری وزیر اعلیٰ کی کوٹھی پر پہنچے ۔گاڑی پارکنگ میں کھڑی کر کے انہوں نے دروازے پر کھڑے گارڈز سے سلیوٹ وصول کیا اور اندر چلے گئے۔ وزیراعلیٰ میٹنگ روم میں دونوں کا انتظار کر رہے تھے ۔ کابینہ کے کچھ ممبران بھی یہاں موجود تھے۔
“ہاں آئی جی صاحب !کیا صورتحال ہے ؟ ” وزیراعلیٰ نے پوچھا۔
“صورتحال بہت گھمبیر ہے سر ! ”
“کیا مطلب ؟ ” وزیراعلیٰ پریشان ہو گئے ۔
” پولیس کی رکاوٹوں کے باوجود ایک لاکھ آدمی لاہور پہنچ چکا ہے۔ ” آئی جی نے بتایا۔
“یہ تو پرانی بات ہو گئی ․․․․ اور کچھ ؟ ”
” دفعہ 144 لگنے کے باوجود مظاہرین مسجد وزیرخان میں مورچہ بنائے بیٹھے ہیں۔ آئے روز وہاں سے جلوس نکلتے ہیں۔ نعرے لگتے ہیں۔ گرفتاریاں ہوتی ہیں۔ ”
“یہ سب کچھ تو میں سی آئی ڈی بریفنگ میں روز سنتا ہوں۔ کوئی نئی بات ہے تو بتاؤ ؟” وزیر اعلیٰ نے کہا۔
” نئی خبر یہ ہے کہ آج پولیس پر ڈنڈے اور بوتلیں پھینکی گئیں، جن سے گیارہ پولیس افسرز زخمی ہوئے ہیں۔”
“سی آئی ڈی بریفنگ میں سن چکا ہوں ․․ اور کچھ ؟ ”
اتنے بڑے کراؤڈ کو ہینڈل کرنا شاہی پولیس کے بس کی بات نہیں۔ ”
” بارڈر پولیس بھی آ جائے گی ․․․ اور ؟ ”
“کل سے لاہور فوج کے حوالے کرنا ہوگا! ”
” وَٹ نان سینس؟ ”
” ایڈ ٹو سول پاور ․․․ سر! انٹرنیشنل رُول ہے! ” ہوم سیکرٹری کرسی کھینچتے ہوئے قریب ہوئے ۔
“ناٹ ایٹ آل ․․․ نو ملٹری رُول ․․․نیور! ” وزیراعلیٰ بے ساختہ کرسی پر بیٹھے بیٹھے سکڑ گئے ۔
” دیکھئے سر ! جب سول اتھارٹیز ناکام ہو جاتی ہیں تو فوج کوآگے آنا ہی پڑتا ہے۔ ” کمشنر نے سمجھانے کی کوشش کی۔
” جانتا ہوں۔ بٹ سول اتھارٹیز آر سٹِل اِن ورک۔ ہم پولیس کی نفری بڑھا دیتے ہیں۔” وزیراعلیٰ نے کہا۔
” مسئلہ نفری کا نہیں ہے سر! حکومت کی بدنامی کا ہے۔”
” وہ کیسے؟ ”
” پولیس تشدد کرے گی تو حکومت بدنام ہو گی۔ فوج تشدد کرے گی تو ریاست ․․․ یقیناً ہم میں سے کوئی نہیں چاہے گا کہ حکومت بدنام ہو۔ ” ہوم سیکرٹری نے کہا۔
“دیکھو فوج کو سر پہ مت بٹھاؤ۔ جلیانوالا باغ بھول گئے ؟ کیا ہوا تھا ،مارشل لاء کے دوران؟ اور قائدِ اعظم نے کہا تھاآرمڈ فورسز آر دی سرونٹ آف پیوپل ․․․ دے ڈونٹ میک دی نیشنل پالیسیز۔ ” وزیرِ اعلیٰ نے کہا۔
” ایسا کچھ نہیں ہوگا سر․․․فوج تین دن میں شہر صاف کرے گی اور واپس چلی جائے گی۔ ”
” فوج کو بلانا آسان ہے ۔واپس بیرکس میں بھیجنا بہت مشکل۔ یہ نہ ہو کہ کل فوج ایوان کے اندر ہو اور مسلم لیگ باہر ․․․ سوچ لو ! ” وزیرِاعلیٰ نے فکر مندی کا اظہار کیا۔
” بے فکر رہیں سر! زیادہ سے زیادہ ایک ہفتہ لگے گا۔ ادھر شہرصاف، ادھر فوج بیرکوں میں واپس۔جنرل اعظم سے ہماری بات ہو چکی ہے۔ ”
“لیکن پھر بھی اس میں خطرہ تو ہے حکومت کے لئے ۔”
” حکومت کو فوج سے نہیں ․․․ مجلس احرار سے زیادہ خطرہ ہے سر ! ” آئی جی نے پتا پھینکا۔
” وہ کیسے ؟” وزیر اعلیٰ متفکّر ہو گئے ۔
“سر یہ رہیCID کی وہ خُفیہ رپورٹ جو آپ تک نہیں پہنچ سکی۔” آئی جی نے جیب سے ایک پلندہ نکال کر وزیراعلیٰ کے سامنے رکھ دیا۔
“کیا ہے اس رپورٹ میں ؟ ” وزیراعلیٰ نے تشویش سے پوچھا۔
“مجلس احرار جو تحریک پاکستان کی مخالفت کی وجہ سے پنجاب کے عوام کی نظروں سے گر گئی تھی۔ پاکستان کو دل و جان سے قبول کرنے اور مسلم لیگی قیادت کی طرف رجحان رکھنے کی وجہ سے دوبارہ اپنے پاؤں پر کھڑی ہو چکی ہے ۔موجودہ اینٹی احمدی تحریک مجلس احرار کو بہت سُوٹکر رہی ہے اور اس کی وجہ سے اس کا گراف بڑی تیزی سے اوپر جا رہا ہے۔ اگر یہ تحریک کامیاب ہو گئی تو ملک بھر میں احرار کا ڈنکا بج اُٹھے گا۔ اس کے بعد وہ مسلم لیگ کو ماریں گے لات اور اگلے الیکشن میں مسلم لیگ کا بینڈ بجا کر رکھ دیں گے۔ ”
“اووہ ․․․آئی․․․ سی! ” وزیر اعلیٰ نے حیرت سے ہونٹ سکیڑ لئے ۔
“مسلم لیگ جس نے خون کی ندیاں بہا کر یہ ملک بنایا۔وہ اسی ملک میں اجنبی ہو کر رہ جائے گی اور مجلسِ احرار جو شروع سے تقسیم کی مخالف تھی۔ پاکستان پر راج کرے گی۔ ”
” یس ․․․ یو آررائٹ! ”
” اس لئے اس تحریک کو ہر صورت ناکام ہونا چاہئے۔ ” آئی جی نے فیصلہ کن انداز میں کہا۔
“بھلے اس کے لئے تھوڑا بہت تشدّد بھی کرنا پڑے! ” ہوم سیکرٹری نے موافقت فرمائی۔
” اور یہ کام فوج سے بہتر کوئی نہیں کر سکتا! ” وزیراعلیٰ نے قائل ہوتے ہوئے کہا۔
” آف کورس ! یہ رہی مارشل لاء کی درخواست ۔اس پر سائن کر دیجئے۔ تاکہ پاک فوج کل سے لاہور کا انتظام سنبھال سکے۔ ” آئی جی نے پرچہ آگے بڑھایا۔
وزیر اعلیٰ نے اتنی تیزی سے دستخط کئے کہ قلم کاغذ میں شگاف ڈال گیا۔
آئی جی اورہوم سیکرٹری واپس گاڑی میں آبیٹھے ۔
” بندر کی بلاء طویلے کے سر ! ” آئی جی نے گاڑی سٹارٹ کرتے ہوئے کہا۔
” کمال کے بندے ہو یار!کیا رپورٹ تراشی ہے، ماں قسم ؟ ” ہوم سیکرٹری نے کہا۔
” کرنا پڑتا ہے حضور! پولیس کا فرض ہے ،مدد سرکار کی۔ ”
” بے چاری عوام قیامت تک کے لئے مسلم لیگ کے نکاح میں چلی گئی “ہوم سیکرٹری بوتل کھولتے ہوئے بولا۔
” بھاگ کر جو آئی ہے۔ اب بھگتے ۔․ حکومت میں احراری آ گئے تو تیری بوتل کو بھی ڈھکن لگ جائیں گے۔ ” آئی جی نے اچانک بریک مارتے ہوئے کہا۔
” ارررے! گاڑی کیوں روک لی؟ ” ہوم سیکرٹری پریشان ہو گئے ۔
“یار ایک غلطی ہو گئی،واپس جانا پڑے گا سی ایم ہاؤس ! ”
” کیا ہوا ؟ سگریٹ تو نہیں بھول آیا ؟ ”
” نہیں یار !ہم درخواست میں یہ لکھنا بھول ہی گئے کہ کتنی فوج چاہئے؟مطلب ایک ڈویژن ایک بریگیڈ ،یا ون ٹو آل ” آئی جی نے پریشانی سے کہا۔
” کمال کرتے ہو یار! فوج اور برانڈی جتنی مل جائے اتنی ہی اچھی ہوتی ہے۔بھلے ساری کی ساری پلٹن آ جائے، تیری جان تو چھوٹے گی نا․․․ چلا گاڑی ! ”
اگلی صبح جناح گارڈن کے پیچھے سے سورج نے سر نکالا تو فوجی گاڑیاں شہر میں داخل ہو رہی تھیں۔ملکی تاریخ کا کالا سورج طلوع ہو رہا تھا!
لاٹھی چارج
3 مارچ ۔۔۔۔ 1953ء ۔۔۔۔ لاہور
شہر میں جُزوی کرفیو لگا دیا گیا۔صبح ہی صبح فوج کے دستے باغِ جناح ، سول لائن اور لوکوشیڈ میں گشت کرنے لگے ۔ کرفیو کا اثر شہر کی بیرونی سڑکوں پر ضرور تھا لیکن اندرون شہر انسانوں کا سمندر ٹھاٹھیں مار رہا تھا۔ پنجاب بھر کے دیہات اور شہروں سے عوام قافلوں کی صورت میں اب بھی مسلسل لاہور پہنچ رہے تھے ۔مارشل لاء لگتے ہی پولیس کا مریل گھوڑا بھی ہنہنا کر اٹھ کھڑا ہوا۔ شہر میں ہر طرف ڈنڈابردار فورس کی ٹولیاں مٹکنے لگیں۔دوپہر تک بارڈر پولیس ، خفیہ پولیس ، سی آئی ڈی ، ملٹری انٹیلی جنس ، اور جانے کون کون سی بلائیں شہر میں نازل ہو چکی تھیں۔مسجد وزیر خان کے معمولات میں بال برابر فرق نہ آیا۔مولاناعبدالستار نیازی کی شعلہ بیانیاں بھی جاری تھیں ، خلیل احمد قادری صاحب کا زورِ خطابت بھی عروج پر تھا ، صبح صبح مولانا غلام غوث ہزاروی اورامیرشریعت کے فرزند مولانا سید ابوذربخاری کو گولی مارنے کا آرڈرجاری ہوچکا تھا ،مگر وہ روپوش رہ کر بھی تحریک کو تازہ دم رضاکاروں کی کھیپ مہیا کیے جارہے تھے ۔سرفروشوں کے جلوس بھی روانہ ہو رہے تھے اور نعت خوانوں کے گلہائے عقیدت بھی فضاء میں خوشبو بکھیر رہے تھے ۔
تیریاں تے صفتاں دا ، کوئی وی حساب نئیں
Sتوں تاں کتھے ، تیریاں غلاماں دا جواب نئیں
Uحُوراں نُوں تُوں رُوپ ونڈیں ، حبشی بلال دا
Uمیں لبھ کے لیاواں کتھوں سوہناں تیرے نال دا
à نمازِ فجر کے بعد مسجدِ وزیرخان میں ہزاروں کے اجتماع سے مولانا عبدالستار نیازی کا خطاب جاری تھا:
” یہ کہتے ہیں مرزائیوں کا مسئلہ محض ایک مذہبی مسئلہ ہے ۔اسے مدارس میں سلجھاؤ۔ حکومت کو اِس میں مت الجھاؤ ۔اسے ایوان تک مت لے کر آؤ ۔ چار مولوی بیٹھ جاؤ ۔جسے چاہو مسلمان کہو ۔جسے چاہے کافر بناؤ ۔بس ہمیں مت چھیڑو ۔ یہ حکومت کا درد ِسر نہیں ہے ۔ میں کہتا ہوں تم لوگ اس تحریک کو یا تو سمجھ نہیں سکے، یا سمجھنا نہیں چاہتے ۔تحریک ختمِ نبوت کے بارے میں سب سے بڑی misconseption یہی ہے کہ اسے صرف ایک مذہبی تحریک سمجھا گیا ہے ۔دولتانہ صاحب ! تحریکِ ختم نبوت محض ایک مذہبی تحریک نہیں ہے۔ یہ ایک سیاسی تحریک بھی ہے ۔یہ ایک معاشی جدو جہد بھی ہے ۔کیا ایک مسلمان کا دین اس کی دنیا سے جدا ہے؟ کیا مسلمان کی سیاست اس کی عبادت سے الگ کوئی چیز ہے ؟ ہرگز نہیں ۔کیا ان غدّاروں کے خلاف ہمیں اُٹھنے کا حق نہیں جو نبوت کا نُور ملکۂ وکٹوریہ کے تاج سے کشید کرتے ہیں ؟ کیا ان اقتصادی رخنہ اندازوں کو روکنے کا ہمیں حق نہیں جو ملکی غلّہ ھندوستان کے راستے اسمگل کر کے ملک میں قحط کی صوتحال پیدا کر رہے ہیں جو پاکستان کو امریکی گوداموں میں سڑتی گندم کی منڈی بنانا چاہتے ہیں ۔ہاں ہاں یہ ایک مذہبی تحریک بھی ہے ۔جس طرح تحریک پاکستان ایک مذہبی تحریک تھی ۔تحریک کشمیر ایک مذہبی تحریک تھی اور مستقبل میں سود کی لعنت کے خلاف جو تحریک اُٹھے گی ۔وہ بھی ایک مذہبی تحریک ہو گی۔”
ڈی آئی جی میاں محمد انور نے تڑاخ سے کھڑکی بند کی اورکرسی پر آ کر ڈھیر ہو گیا۔
” یار ․․․․ ان مُلاؤں سے کب جان چھوٹے گی ۔سات دن ہو گئے۔ چین سے سو بھی نہیں پایا ؟”
” نیازی کو گرفتار کر لو ، تحریک خود بخود ٹھنڈی ہو جائے گی۔” ہوم سیکرٹری نے چھوٹی سی بوتل کا ڈھکّن کھولتے ہوئے کہا۔
“لیکن کرے گا کون !میرا باپ ؟ پچاس ہزار آدمی مسجد میں بیٹھا ہے ۔”
“فوج کو چاول چھولے کھانے بلایا ہے ؟؟ کدھر ہے تمہارا کرنل شیریں ! ”
اس دوران دفتر میں رکھا انٹرکام بج اٹھا۔
“کیا ہے ؟”
“سر کراچی سے ڈیفنس سیکرٹری اسکندر مرزا کی کال ہے۔ ” سیکرٹری نے کہا۔
آئی جی نے فون اٹھایا۔
” جی سر ․․․ کیا حالات ہیں؟ ”
” سُنا ؤ․․․ کتنی لاشیں گرائیں ؟”
” لاشیں ؟ فی الحال تو خود زندہ لاش بنے بیٹھے ہیں ۔ ”
“کیوں !کیا ہوا ؟ ”
“ہونا کیا ہے ․․․․ کہنے کو کرفیو لگائے بیٹھے ہیں، لیکن مُلا آزاد ہیں اور ہم دفتروں میں بند ۔”
“دیکھو ! جب تک شرافت دکھاتے رہو گے ، بندی بنے رہو گے ۔باہر نکلو۔ کوئی گولی وولی چلاؤ، لاشیں گراؤ۔ یوں دفتر میں بیٹھے رہو گے تو خاک امن قائم ہو گا۔”
ڈی آئی جی نے فون رکھا ہی تھا کہ سیکرٹری کا انٹرکام پھر بج اٹھا۔
” سر گورنر صاحب لائن پہ ہیں۔”
” سر انورعلی !” ڈی آئی جی نے فون اٹھاتے ہوئے کہا۔
” ڈی آئی جی صاحب ! گیدڑ کی طرح کھوہ میں چھپے رہو گے یا کچھ کرو گے بھی ۔باہر نکلو اور جلوہ دکھاؤ ۔یہی حالت رہی تو مجھے ایک ڈی آئی جی کی قربانی دینا ہی پڑے گی ؟”
” سر آپ فکر نہ کریں۔ میں نے تمام ڈی ایس پیز کو بلایا ہے ! آج پولیس کھل کر اپنا جلوہ دکھائے گی سر! ”
” کل تک مجھے لاہور صاف چاہیے۔ ورنہ اپنی قربانی پکی سمجھو !”
“سس․․․ سر ․․․ بس ایک موقع اور دیں ․․․ کل تک صاف ہو جائے گا شہر!”
“پھر ایسا کرو کہ اپنے محکمے سے ایک نکھٹو قسم کا جانور ڈھونڈو اور اس کی قربانی کر ڈالو ۔سوکھی لکڑیاں جلنے سے انکار کر دیں تو فیول ڈالنا ہی پڑتا ہے۔ ”
“یس سر ․․․ سمجھ گیا سر ․․․․ ہو جائے گا سر ! ”
آئی جی نے فون رکھتے ہی بیل بجائی۔
“ڈی ایس پی فردوس شاہ اور ایم اے چودھری کو بلاؤ فوراً۔ ”
“یس سر” اردلی کھڑاک سے سلیوٹ کر کے باہر چلا گیا۔
تھوڑی ہی دیر بعد فردوس شاہ مونچھوں کو تاؤ دیتا ہوا آفس میں وارد ہوا۔ اس کے پیچھے پیچھے ڈی ایس پی ایم اے چودھری تھا۔ دونوں نے پاؤں مار کر زمین پھاڑ سلیوٹ کیا۔
” ڈی ایس پیز ! میں پوچھتا ہوں۔ کیا تم لوگوں کے باپ آئے ہوئے ہیں شہر میں ؟”
“نن ․․․ نو سر !! ” فردوس شاہ نے بیلٹ اوپر کرتے ہوئے کہا۔
“کوئی بھائی ․․․․ بیٹا ․․․․ چچا ․․․ تایا ․․․ سالا ․․․ سالی وغیرہ ؟؟ ․․․․ کیوں چودھری ؟”
“نو سر ؟”
“تو پِھر لاٹھی چارج کیوں نہیں کرتے بے غیرتو!” آئی جی پوری قوّت سے دھاڑا۔
“سر ․․․ پپ ․․․․پر امن ․․․․ مظاہرین ․․․․”
“ماں کی آنکھ ! ․․․․ پر امن مظاہرین !سات دن سے شہر بند پڑا ہے۔ لوکوشیڈ بند ہے۔ سیکریٹریٹ بند ہے۔ ریل نہیں چل رہی۔ ہوائی اڈّہ بند ہے۔ پرامن مظاہرین ؟ ”
دونوں ڈی ایس پیز پتھر کے بُت بن گئے ۔
” اب کاٹھ کے اُلوؤں کی طرح میرا منہ کیا دیکھ رہے ہو ! جاؤ اور لاٹھی چارج کرو۔کل تک مجھے شہر خالی چاہیے۔کرا سکتے ہو تو ٹھیک، ورنہ انہیں مظاہرین میں شاملCID کے لوگ تمیں بلوے میں مار ڈالیں گے۔سمجھے کہ نہیں ؟ ”
” سر ․․․سس ․․․ سمجھ گئے سر ! ”
” ناؤ گیٹ آؤٹ۔ آئی وِل کیپ یُو آن مانیٹرنگ ! ” آئی جی نے ٹوپی پہنتے ہوئے کہا۔
“سر ․․․․ سر ․․․․” ڈی ایس پی سلیوٹ مار کر رخصت ہو گئے ۔
اسی اثناء میں وائرلیس نے کھٹ پٹ کی۔
” ایچ کیو ون․․․․․ ٹولٹن پوسٹ اوور”
“یس ایچ کیو ون ․․․․ گو اَہیڈ ” ڈی آئی جی نے کہا۔
“نیلا گنبد کی طرف سے جلوس آ رہا ہے سر ․․․ کیا آرڈر ہے ؟”
” آغا ہوٹل سے بریانی کی دیگ منگواؤ اور شرکاء میں بانٹو، سؤر کی اولاد۔ آرڈر پوچھ رہے ہو ؟ ․․․․ بُل شِٹ! ․․․ لاٹھی چارج کرو ۔ہڈیاں توڑدو اُن کی ! ”
“یس سر ․․․․ یس سر ! ”
(جاری ہے)