پروفیسر محمد حمزہ نعیم
اﷲ کے آخری نبی خاتم المعصومین محمد رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا تھا اگر انسان کے پاس ایک وادی سونے کی ہو تو وہ ایک اور وادی کی خواہش کرے گا اور اگر دو وادیاں سونے کی ہوں تو وہ تیسری وادی کی طلب میں ہلکان ہوگا اور فرمایا انسان کا پیٹ تو قبر کی مٹی ہی بھرے گی (اوکما قال علیہ السلام) قرآن و حدیث میں جگہ جگہ اہل ضرورت پر خرچ کرنے کا حکم ہے۔ یہ بھی ہے کہ ’’ہم کوئی بدلہ لینے کے لیے تمہیں نہیں کھلاتے نہ ہی ہم کسی شکریے کے طلبگار ہیں‘‘۔ یہ بھی ہے کہ ’’سقر(جہنم) میں ڈالے جانے والے بتائیں گے کہ ہم نہ نماز پڑھتے تھے نہ مسکین کو کھانا کھلاتے تھے۔‘‘ خالق کائنات نے انسان کا تعارف یوں کرایا ہے کہ ’’انسان کو لالچی اور بخیل پیدا کیا گیا ہے۔ یعنی یہ اس کی ایک پیدائشی خامی ہے۔ خاتم المعصومین علیہ السلام نے فرمایا ’’مجھے مکارم اخلاق کو مکمل کرنے کے لیے بھیجا گیا ہے‘‘۔ صرف اﷲ سے مانگنا، کسبِ حلال کرنا،اپنی کمائی میں سے سائل اور محروم دونوں قسم کے مساکین کا حق ادا کرنا………… حکارم اخلاق ہیں۔ جب اپنی کسبِ حلال میں سے دونوں ہاتھوں سے خرچ کرے گا تو حرص اور بُخل کہاں رہے گا اور رشوت، غبن، غضب اور سود کے علاوہ بہنوں کو وراثت سے محروم کرنے جیسی برائیاں کہاں رہیں گی۔ ہاتھی بیچارہ تو گھاس کھا کر پیٹ بھر لیتا ہے لیکن قارون سے ڈھائی فیصد آخرت کے خزانے میں جمع کرانے کا کہا جائے ۔ انفاق اور ایثار تو دور کی بات ہے فریضہ زکوٰۃ ادا کرنانہایت مشکل ہے۔ نبوت پر الزام لگانا اسے آسان تر نظر آتا ہے۔ خزانوں کی چابیاں ایک گروپ اٹھاتا تھا مگر زکوٰۃ کی چھوٹی سی رقم اہل حقوق کو نہ دی نبوت پر الزام لگادیا۔یہی قارون کے پیرو کار خاتم المعصومین علیہ السلام سے کہنے لگے کیا یہ مطلب ہے کہ اﷲ فقیر ہے اور ہم اغنیاء لوگوں سے بھیک مانگتا ہے؟ قارون اپنے خزانوں سمیت زمین کی گہرائیوں میں دھنسا دیا گیا اور اس عذاب میں یوم حشر تک اسے رہنا ہوگا۔ اس کی سائنسی توجیہہ محبوب العلماء و الصلحاء حضرت ذوالفقار احمد نقشبندی مجددی نے اپنے ملفوظات میں دی ہے۔ دوسری طرف خاتم المعصومین علیہ السلام کی تیئیس سالہ تربیت سے ایسے مثالی انسان سامنے آئے کہ نزع کی حالت میں بھی وہ ایثار سے باز نہ آئے،العطش کی آواز پر پیاسے رہ کر پانی آگے بڑھا دیا اور دوسرے نے تیسرے کی خاطر عروسِ شہادت کو گلے لگالیا، پانی تیسرے تک پہنچاتو تیسرا بھی پہلے دونوں کی طرح جنت نشیں ہوچکا تھا۔ یہ زندگی تو دو دن کی ہے۔ اگر ہمیشہ کی عیش والی زندگی چاہتا ہے تو اے انسان ڈاکٹرکی بات مان لے ایک روٹی خود کھا لے دوسری پڑوسی ضرورت مند کی طرف بڑھا دے۔ ہلکا پھلکا رہ کر آسان زندگی گزارے گا اور پھر آواز آرہی ہوگی۔ اے نفس مطمئن !اپنے رب کی طرف رجوع کر، میرے بندوں میں شامل ہو اور میری جنت میں داخل ہوجا۔