مولانا حبیب الرحمن کیرانوی
اﷲ والوں کے اخلاق میں سے ایک یہ بھی ہے کہ وہ لوگ خدا سے بہت ڈرتے ہیں کہ مباد ا خدا ان گناہوں پر عذاب دے جن کا انھوں نے اپنے نفس پر زیادیتاں کر کے یا دوسروں کی حق تلفیاں کر کے ارتکاب کیا ہے۔ اگرچہ اس حق تلفی کا تعلق ایک خلال کے تنکے یا ایک سینے کی سوئی سے ہو۔ بالخصوص اگر ان میں کوئی ایسا ہوتا ہے جس کی نظر میں اس کے اعمال صالحہ بہت کم ہوتے ہیں تو اس کو اور بھی زیادہ خوف اور بے چینی ہوتی ہے کیونکہ (اس کی نظر میں) اس کے پاس نیکیاں بھی نہیں ہوتیں۔ جن کو قیامت میں مدعیوں کو دے دے اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ایک مظلوم قیامت کے روز حرص کرے اور مال کی یا آبرو کی ایک حق تلفی یا ایک تھپڑ کے بدلے میں ظالم کے تمام اعمال صالحہ لے کر بھی رضا مند نہ ہو (پس ایسی حالت میں تو جتنی بھی نیکیاں ہوں کم ہیں اور ہر شخص کے لیے خوف لازم ہے۔ خواہ اس کے پاس تھوڑی نیکیاں ہوں یا زیادہ)
حدیث شریف میں آیا ہے کہ جناب رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ جانتے ہو کہ قیامت کے دن میری امت میں مفلس کون ہوگا۔ لوگوں نے عرض کیا کہ حضرت ہم تو مفلس اسے جانتے ہیں جس کے پاس نہ روپیہ ہو اور نہ اشرفی اور نہ سازوسامان۔ اس سے زیادہ ہم کچھ نہیں جانتے) تو آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مفلس وہ ہے جو قیامت میں نماز، روزہ، زکوٰۃ اور حج لے کر آئے گا۔ اور اس نے کسی کو گالی دی ہوگی کسی کا مال کھایا ہوگا کسی کا خون بہایا ہوگا کسی کو مارا ہوگا اور اس بنا پر کچھ نیکیاں اس کی ایک کو دے دی جاویں گی اور کچھ دوسرے کو پھر اگر اس کی نیکیاں ادائے حقوق سے پہلے ختم ہوجاویں گی تو مظلومین کے گناہ لے کر اس پر ڈال دیے جائیں گے اور اس کو دوزخ میں پھینک دیا جاوے گا۔
عبداﷲ بن انیس رضی اﷲ عنہ فرماتے تھے کہ حق تعالیٰ قیامت کے روز اعلان فرماویں گے کہ میں بدلہ دینے والا بادشاہ ہوں۔ لہٰذا نہ کوئی دوزخی جس کے ذمہ کسی کا حق ہو۔ دوزخ میں جاسکتا ہے اور نہ کوئی جنتی جنت میں داخل ہوسکتا ہے تا وقتیکہ اس سیاس کا بدلہ نہ لے لیا جائے۔
وہب بن منبہ رحمتہ اﷲ علیہ فرماتے ہیں کہ بنی اسرائیل کے ایک جوان نے تمام گناہوں سے توبہ کرلی اور خدا کی عبادت کرنے لگا اور ستر برس تک اس طرح عبادت کی کہ دن کو روزہ رکھتا اور رات کو شب بیداری کرتا اور نہ کبھی سایہ میں آرام کرتا اور نہ کبھی مرغن کھانا کھاتا۔ پس جبکہ اس کا انتقال ہوگیا تو اس کے کسی دوست نے اسے خواب میں دیکھااور دریافت کیا کہ خدانے تیرے ساتھ کیا معاملہ کیا اس نے جواب دیا کہ مجھ سے حساب لیا اور میرے تمام گناہوں کو معاف فرمادیا۔بجز ایک تنکے کے جس سے میں نے اس کے مالک کی اجازت کے بغیر خلال کرلیا تھااور اس کی وجہ سے میں اب تک جنت میں جانے سے رکا ہوا ہوں ۔ اور میں کہتا ہوں کہ اس کی تائید اس حدیث سے ہوتی ہے کہ اﷲ تعالیٰ نے تین چیزوں کو تین چیزوں میں مخفی کیا ہے۔ اپنی رضا کو اپنی اطاعت میں اور اپنے غصہ کو اپنی نافرمانی میں اور اپنے دوستوں کو اپنے بندوں میں۔ الی آخرالحدیث پس بسا اوقات حق تعالیٰ کسی بندہ پر اپنی ناراضی کوایسے گناہ میں مبتلا ہونے کے ساتھ وابستہ کردیتے ہیں۔ جو اس کی نظر میں بہت معمولی ہوتا ہے۔ جیسا کہ دانتوں کے لیے خلال لے لینا۔ یا ہاتھ دھونے کے لیے پڑوسی کی مٹی بلااجازت لے لینا جیسا کہ ابھی گزر چکا ہے۔و اﷲ اعلم
حارث محاسبی رحمہ اﷲ فرماتے تھے کہ ہمیں معلوم ہوا ہے کسی پیمانے والے نے ناپنے سے توبہ کر لی اور اﷲ تعالیٰ کی عبادت میں لگ گیا۔ پس جب اس کا انتقال ہوگیا تو اس کے کسی دوست نے اسے خواب میں دیکھا اور کہا کہ ارے فلانے خدانے تیرے ساتھ کیا معاملہ کیا تو اس نے کہا کہ مختلف غلوں کے پندرہ پیمانے جو میں نے ناپے تھے ان کے متعلق مجھ سے باز پُرس ہوئی۔ اور فرمایا کہ بتلاؤ یہ کیا بات ہے اس نے کہا قصہ یہ ہے کہ میں اس کا خیال نہ رکھتا تھا۔ کہ پیمانے کو غبار سے صاف کر لوں۔ اس لیے اس کی تلی میں کچھ مٹی جم گئی اور اس کے سبب ہر پیمانے اس مٹی کی مقدار کم ہوگیا جو اس کی تہہ میں جم گئی گئی تھی (اس پر مواخذہ ہوا)۔
ایسا ہی واقعہ ایک اورشخص کو پیش آیا جو ترازو کو پونچھ کر غبار صاف نہ کرتا تھا اور قبر میں اس کو اس پر سزادی گئی یہاں تک کہ لوگوں نے قبر میں اس کی چیخیں سنیں۔ حتی کہ بعض صلحاء نے اس کے لیے دعا کی اور ان کی دعاء مقبول ہوئی ہے۔‘‘
قاضی شریح رحمتہ اﷲ علیہ فرماتے تھے کہ خبردار رشوت نہ لینا کیوں کہ وہ دانا آدمی کو اندھا کردیتی ہے اور اسے انصاف و بے انصافی میں تمیز نہیں رہتی اور بعض روایتوں میں یہ ہے کہ وہ صحیح فیصلہ کی آنکھ پھوڑدیتی ہے۔
حسن بصری رحمتہ اﷲ علیہ جب کسی حاکم یا اس کے مددگار کو کسی محتاج کو خیرات دیتے دیکھتے تو فرماتے اے وہ شخص جو مساکین کو بہ نیت ترحم صدقہ دیتا ہے تو اس پر رحم کر جس پر تونے ظلم کیا ہے اور اس کا حق مغصوب واپس کردے۔ کیونکہ یہ فعل تجھے (صدقہ کی نسبت) زیادہ بری الذمہ کرنے والا ہے۔
میمون بن مہران رحمتہ اﷲ علیہ فرماتے تھے کہ جو شخص کسی کی حق تلفی کرے اور اس حق تلفی سے عہدہ برآنہ ہوسکے۔ تو چاہیے کہ ہر نماز کے بعد اس کے لیے استغفار کیا کرے۔ اس سے وہ انشاء اﷲ اس حق تلفی سے عہدہ برآء ہوجاوے گا۔
حذیفہ رحمتہ اﷲ علیہ فرماتے تھے کہ قرب قیامت کی نشانی ہے کہ حکام بدکار ہوں گے، علماء بے دین ہوں گے۔
میمون بن مہران رحمتہ اﷲ علیہ فرماتے تھے کہ آدمی نماز میں اپنے اوپر لعنت کرتا ہے اور اسے خبر نہیں ہوتی کہ میں خود اپنے اوپر لعنت کررہا ہوں۔ کسی نے ان سے پوچھا کہ حضرت یہ کیسے؟ آپ نے فرمایاکہ وہ پڑھتا ہے۔اَلا لَعْنَۃُ اللّٰہِ عَلَی الظَّالِمیْنَ’’اور وہ خود ظالم ہوتا ہے خواہ اس لیے کہ اس نے گناہ کر کے اپنے اوپر ظلم کیا ہے اور خواہ اس لیے کہ اس نے دوسروں کے مال لے کر اور ان کی بے آبروئی کر کے ان پر ظلم کیا ہے۔‘‘
حسن بصری رحمتہ اﷲ علیہ فرماتے تھے کہ خبردار تم کسی کے وصی نہ ہونا کیوں کہ وصی (اس زمانہ میں )وصیت کا حق ادا کرنے سے قادر نہیں ہے۔ اگرچہ وہ احتیاط میں مبالغہ کرے (کیونکہ آج کل کی احتیاط بوجہ غلبۂ بد دینی وحب دنیا کے کافی احتیاط نہیں)۔
مالک بن دینار رحمتہ اﷲ علیہ فرماتے تھے کہ خائن کا خزانچی بھی خائن ہے اور عشر وصول کرنے والے کاخزانچی بھی عشر لینے والا ہے (پس جو حکم خائن اور عشارکاہے ، وہی ان کے خزانچیوں کا جیسا کہ چوروں کا تھانگی چور ہوتا ہے۔)
یحییٰ بن معاذ رحمہ اﷲ فرماتے تھے کہ خبردار وصی نہ ہونا کیونکہ وصیت کرنے والا یہ چاہتا ہے کہ اپنا مال تیرے ذریعیسے درست کرے اور تیرا دین بگاڑ دے۔پس تجھے اپنے دین کی حفاظت کی اس کے مال کی حفاظت سے زیادہ حرص ہونی چاہیے۔
امام ابویوسف شاگرد امام ابوحنیفہ رحمھما اﷲ فرماتے تھے کہ پہلی مرتبہ وصیت میں داخل ہونا تو غلطی (وناتجربہ کاری) ہے۔ اور دوسری دفعہ صاف خیانت ہے اور اس میں کوئی شبہ نہیں (کیونکہ کہ اول مرتبہ کام کرکے اسے تجربہ ہوچکا ہے کہ میں اس کے حقوق ادا نہیں کرسکتا پھر باوجود اس کے جو وہ دوبارہ اس بار کو اپنے ذمہ لیتا ہے تو معلوم ہوتا ہے کہ اسے چاٹ لگ گئی ہے)۔
کعب احبار رضی اﷲ عنہ نے ایک شخص کو دیکھا کہ وہ جمعہ کے روز کسی پر ظلم کر رہا ہے تو آپ نے اس سے فرمایا کہ تجھے اس دن لوگوں پرظلم کرنے سے ڈر نہیں لگتا جس روز قیامت آوے گی۔ اور جس روز تیرے باپ آدم پیدا کیے گئے۔ (مقصد یہ ہے کہ یہ دن معظم ہے۔ اس دن کی حرمت کا تو خیال کرنا چاہیے۔)
عبداﷲ بن مسعود رضی اﷲ عنہما فرمایا کرتے تھے کہ جو شخص کسی ظالم کے ظلم پر اس کی اعانت کرے یا اسے ایسی دلیل تعلیم کرے جس سے وہ ایک مسلمان آدمی کا حق باطل کردے تو وہ خدا کا غضب لے کر پھرتا ہے۔
فضیل بن عیاض رحمہ اﷲ فرماتے تھے کہ جب اﷲ تعالیٰ یہ چاہتا ہے کہ اپنے بندہ کو کوئی تحفہ دے تو اس پر اس شخص کو مسلط کردیتا ہے جو اس پر ظلم کرے۔ اور حدیث شریف میں ہے کہ جو شخص کسی ظالم پر بد دعا کرے تو اس نے اپنا انتقام لے لیا ہے۔
یحییٰ بن معاذ رحمہ اﷲ فرماتے تھے کہ اگر مجھ پر کوئی ظلم کرلے اور میں اس کا بدلہ نہ لوں تو یہ مجھے پسند ہے۔
امیر المومنین علی (ابن ابی طالب کرم اﷲ وجہہ فرماتے تھے کہ حقیقت نہ کوئی کسی پر ظلم کرتا ہے اور نہ کوئی کسی سے برائی کرتا ہے۔ کیونکہ اﷲ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ جو اچھا کرتا ہے تو وہ بھی اپنے لیے کرتا اور جو برا کرتا ہے اس کا وبال بھی اسی پر ہے (پس ثابت ہوا کہ جو کوئی کسی پر ظلم کرتا ہے یا جو کوئی کسی سے برائی کرتا ہے وہ حقیقتاً اپنے ہی ساتھ کرتا ہے)۔
احمد ابن حرب رحمتہ اﷲ علیہ فرماتے تھے کہ بہت سے لوگ نیکیوں کی کثرت کے سبب دنیا سے دولت مند جائیں گے۔ مگر قیامت میں لوگوں کے مطالبات کے سبب بالکل خالی ہاتھ ہوجاویں گے۔
سفیان ثوری رحمہ اﷲ فرماتے تھے کہ تمہارا خدا کے پاس ایسے ستر گناہ لے کر جانا جن کا تعلق تم سے اور خدا سے ہو یہ زیادہ آسان ہے بہ نسبت اس کے کہ تم صرف ایک گناہ ایسا لے کر جاؤ کہ اس تعلق تم سے اور بندوں سے ہو (کیونکہ حق تعالیٰ اول تو غنی ہیں دوسرے رحیم ہیں اس لیے ان کے نزدیک ستر کیا ستر سو گناہ معاف کردینا کوئی بڑی بات نہیں۔ برخلاف بندوں کے کہ وہ نیکیوں کے محتاج اور اپنے گناہوں سے سبکدوش ہونے کے متمنی ہیں اس لیے ان سے ایک گناہ کی معافی کی بھی امید نہیں۔ پس اے بھائی تو بزرگان سلف کے خوف کو دیکھ اور اس میں ان کا اتباع کر کیونکہ تو ہلاکت کے کنارہ پر کھڑا ہے اور خوف اس سے بچنے کا ذریعہ ہے پس جو شخص ڈرتا رہا وہ ہلاکت سے بچ گیا والحمد اﷲ رب العالمین۔
(ماخوذ:احوال الصادقین،تصنیف:امام عبدالوہاب بن احمد شعرانی، متوفی:۹۷۳ء)