شاہ بلیغ الدین رحمتہ اﷲ علیہ
ہجرت کے دوسرے سال بدر کی شاندار فتح سے حضور اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم لوٹے تو اس سے کوئی آٹھ دن بعد عیدالفطر آئی۔ رمضان کے روزے اسی سال شعبان میں فرض ہوئے تھے یہ مسلمانوں کے لیے خاص مسرت کا موقع تھا۔ کئی باتیں تھیں جن کی خوشیاں اکھٹی ہوگئی تھیں اور پھر مسلمانوں کی یہ پہلی عید تھی، اس سے پہلے مسلمانوں کے پاس اجتماعی خوشی کے اظہار کا کوئی تصور ہی نہ تھا۔ حضور اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم نے عید کا اہتمام فرمایا اور اس دن اپنا بہترین لباس زیب تن فرمایا۔ محدثین اور مؤرخین لکھتے ہیں کہ جمعہ اور عیدین کے موقع پر آپ صلی اﷲ علیہ وسلم غسل کرتے اور جو اچھا لباس موجود ہوتا پہنتے تھے۔ عید کے دن خود اچھا لباس پہننا اپنے متعلقین کو اچھا لباس پہنانا مستحب ہے۔
حضرت بریدہ رضی اﷲ عنہ فرماتے ہیں کہ: جناب رسالت مآب عیدالفطر کے دن کچھ کھا کر عیدگاہ جاتے، حضرت انس رضی اﷲ عنہ کہتے ہیں کہ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کھجور کھا کر عید گاہ تشریف لے جاتے تھے کھجوریں ہمیشہ طاق عدد میں یعنی تین یا پانچ یا سات کھاتے۔ترمذی میں حضرت علی رضی اﷲ عنہ کی روایت ہے کہ عید کی نماز کے لیے حضور اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم پیدل تشریف لے جاتے جس راستے سے تشریف لے جاتے اس سے واپس نہ ہوتے دوسرا راستہ اختیار فرماتے۔ اس کا ایک مقصد تو یہ ہوتا تھا کہ مسلمانوں کی چہل پہل کا نظارہ زیادہ سے زیادہ کافروں کے سامنے آئے تاکہ ان پر مؤمنین کی اجتماعی شان اور قوت کا اثر پڑسکے، دوسرے یہ کہ اس طرح راستہ بدلنے سے دونوں راستوں کے مکینوں کو سلام کرنے موقع نکل آتا۔
بخاری میں حضرت برا ء بن عازب رضی اﷲ عنہ کی روایت ہے کہ نماز عید کے لیے حضور اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم بقیع کی طرف تشریف لے جاتے۔ معلوم ہوتا ہے کہ اس زمانے میں جس میدان میں عید کی نماز پڑھی جاتی وہ جنت البقیع کے قریب ہی تھی۔ ادالمعاد میں ہے عید گاہ مدینے کے مشرقی سرے پر تھی حکم ہے عید کی نماز عید گاہ میں پڑھو محلے کی مسجد میں نہیں کمزوروں اور ضعیفوں کو اپنی محلے کی مسجد میں نماز پڑھنے کی اجازت ہے۔ حضور اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم جب نماز عید کے لیے گھر سے باہر تشریف لے جاتے تو ایک جلوس کی شکل سی بن جاتی۔ حضرت بلال رضی اﷲ عنہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے آگے آگے ہوتے۔ ان کے ہاتھوں میں وہ نیزہ ہوتا جو شاہِ حبشہ اصحمہ نے رسول مقبول صلی اﷲ علیہ وسلم کی خدمت میں روانہ کیا تھا۔
رمضان کے روزوں کے بعد ہر مرد و عورت اور بچے بڑے پہ فطرہ واجب ہے۔ امام شافعی رحمتہ اﷲ علیہ تو صدقہ فطر کو فرض قرار دیتے ہیں۔ بیوی بچوں کے فطرے کی ادائی سر پرست یا وئی خاندان کے ذمے ہے اگر بیوی بچے کماتے ہیں تو پھر یہ ان کا اپنا ذمہ ہے، اگر عید کے روزہ فطرہ ادا نہ کر سکیں تو اس کے بعد جب موقع ملے فطرہ ادا کرنا چاہیے۔ دینے میں اگر دیر ہو جائے تو اس سے فطرہ ساقط نہیں ہوجاتا کیونکہ یہ واجب ہے۔ کئی آدمیوں کا فطرہ ایک شخص کو اور ایک فطرہ ایک سے زیادہ آدمیوں کو بھی دیا جاسکتا ہے۔ صدقۂ فطر کی قیمت بھی دی جاسکتی ہے یاغلہ بھی دیا جاسکتا ہے، قحط کے زمانے میں غلہ دینا بہتر ہے۔ غلے میں عام طور پر سوا دو سیر گیہوں فی کس دیا جاتا ہے۔ اگر کوئی اس سے زائد دے تو اس کی طرف سے صدقہ ہوجائے گا۔
حضرت بلال رضی اﷲ عنہ نیزہ لیے عید گاہ میں داخل ہوتے تو اسے اس مقام پر گاڑ دیتے جہاں سے حضور اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم نمازِ عید کی امامت فرمانے والے ہوتے۔
ابن عباس رضی اﷲ عنہما فرماتے ہیں کہ عید کے موقع پر پہلے رسالت پناہ صلی اﷲ علیہ وسلم نماز پڑھاتے پھر خطبہ دیتے۔ ابن عمر اور ابن جریح رضی اﷲ عنہم کی روایت ہے کہ خطبے میں آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کثرت سے تکبیر کہتے۔ صحابہ کرام رضی اﷲ عنہم عید گاہ آتے جاتے تو اﷲ اکبر اﷲ اکبر لا الہٰ الا اﷲ واﷲ اکبر اﷲ اکبر وﷲ الحمد کا ورد کرتے رہتے۔ عیدالفطر میں اگر آہستہ آہستہ تکبیر کہتے ہوئے بھی جائیں تو مضائقہ نہیں، لیکن عیدالاضحی میں تکبیر زور سے کہنی چاہیے۔ جس طرح جمعہ کا خطبہ سننا واجب ہے اسی طرح عید کے خطبے کے وقت بھی سلام و کلام کی اجازت نہیں ہے۔
عورتیں اگر عید گاہ میں جائیں تو نمازِ عید میں شریک ہوسکتی ہیں۔ رسولِ خدا کے زمانے میں صحابیات عید گاہ جاتی تھیں۔ ویسے اکیلے میں عورتیں گھر پر نمازِ عید نہیں پڑھ سکتیں۔
عید کی نماز سے پہلے عید کی نماز کے بعد کوئی اور نماز پڑھنا مکروہ ہے۔ ہاں گھرلوٹ کر کوئی اور نماز پڑھی جاسکتی ہے لیکن عید کی نماز کے لیے نکلنے سے پہلے گھر پر بھی کوئی اور نماز پڑھنا مکروہ ہے اگر کسی کو عید کی نماز نہ ملی ہو اور سب لوگ پڑھ چکے ہوں تو وہ شخص تنہا نمازِ عید نہیں پڑھ سکتا نہ اس پر اس کی قضا واجب ہے۔ ہاں کچھ اور لوگ بھی اس کے ساتھ شریک ہوجائیں تو پڑھ سکتا ہے۔
اگر کسی عذر ِ شرعی کی وجہ سے پہلے دن نماز عید نہ پڑھی جاسکے تو عیدالفطر کی نماز دوسرے دن بھی پڑھی جاسکتی ہے۔ عیدالاضحی کے لیے بارھویں تاریخ تک وقت ہے۔ عذر کئی طرح کے ہوسکتے ہیں جیسے بارش کی شدت، امام کا نہ ملنا، تاریخ کے بارے میں شک۔ ایک مرتبہ بارش کی وجہ سے رسالت مآب صلی اﷲ علیہ وسلم نے مسجد میں نماز عید ادا فرمائی تھی۔
کتنے لوگ ہیں جو سمجھتے ہیں کہ عید میں سویاں نہ پکیں تو عید ہی نہیں ہوتی۔ یہ غلط بات ہے، ایسا کوئی شرعی حکم نہیں۔ یہ جو بعض لوگ تاویل کرتے ہیں کہ عیدالفطر کے موقع پر حضرت فاطمہ رضی اﷲ عنہا نے سویاں پکائی تھیں محض گھڑی ہوئی بات ہے، تاریخ سے اس کا کوئی حوالہ نہیں ملتا۔
عید کے موقع پر عیدی دینا بھی ایک رسم ہے جو ہم نے اپنے اوپر مسلط کر لی ہے بالخصوص شادی کے بعد پہلی عید پر سلامی دینا تو بعض خاندانوں میں فریضہ سمجھاجاتا ہے۔ یہ سب چاؤ چو چلے کی باتیں ہیں۔ شرع سے ثابت نہیں اگر کسی کو اﷲ نے دیا ہے تو وہ جی کھول کے دے لیکن صرف ناک اونچی رکھنے کی خاطر جو ایسا کرتے ہیں غلطی کرتے ہیں۔ سچ پوچھیے تو عیدی انھیں دینا چاہیے جو امداد کے مستحق ہوں۔
(مطبوعہ: روشنی)