پروفیسر خالد شبیر احمد
موجودہ ملکی حالات کا المیہ ایک تو یہ ہے کہ حالات انتہائی خطرناک تکلیف دہ، پریشان کن ہیں اور پھر اس سے بڑا المیہ یہ ہے کہ اس کا احساس ارباب اختیار ہوں یا حزب اختلاف دونوں میں سے کسی کو نہیں اورد رمیان میں ملک کی عدلیہ نے بھی ایسی صورت اختیار کر لی ہے کہ گویم مشکل وگر نہ گویم مشکل، کچھ کہا نہیں جا سکتاکہ وہ مسائل کو حل کرنے میں کامیاب ہوگی یا پھر حالات مزید خراب نہ ہونگے۔ جب ہم یہ دیکھتے ہیں کہ خود عدالت کے ارباب اختیار غصہ کی حالت میں ہوں تو پھر صورت احوال کی سنگینی کااندازہ کرنا مشکل نہیں رہتا۔اگر سوچا جائے تو یہ حالات ایک ایسا آئینہ بھی ہیں جس میں ہم بحیثیت قوم اپنی مکرہ شکل دیکھ سکتے ہیں اور اگر چاہیں تو ایسی وجوہات تک بھی پہنچ سکتے ہیں جن کی بدولت ہم بین الاقوامی سطح پر ایسے بے توقیر ہو کر رہ گئے ہیں۔
اس وقت دن رات ملک کے اندر رونما ہونے والے حالات و سانحات بطور آئینہ ہمارے سامنے ہیں لیکن ایسا نہیں کہ اس آئینے میں دیکھ کر ان ناخوش گوار، بلکہ د گرگوں حالات کی وجوہات تک پہنچنے کی کوشش اور غور کریں کہ ان مشکلات کی وجوہات کیا ہیں اور انھیں کس طرح دور کیا جاسکتا ہے۔کوئی نہیں پوچھتا کہ کیوں سیاسی جماعتیں ایک دوسرے کے گریبانوں تک پہنچ گئیں ہیں۔ کل کے ہیرو آج کے زیرو نظر آرہے ہیں۔ کیوں عدلیہ کی حالت ایسی ہوگئی ہے کہ اس پر سیاسی جماعتوں کو تحفظات ہیں ۔ کیوں حزب اقتدار یا پھر حزب اختلاف کے چہرے اتنے گھناؤنے اتنے وحشی اور اتنے غضبناک ہوچکے ہیں کہ انھیں دیکھ کر ہی کسی اور نوعِ حیوانی کا احساس ہوتا ہے۔ ایسے حالات میں ایسے لوگ ڈھٹائی اورضد کی وجہ سے انسان نہیں رہتے کچھ اور ہوجاتے ہیں جب احساسات سے عاری ہوجاتے ہیں تو پھر ان کے ارد گرد کیا ہو رہا ہے یہ سوچنے کی انھیں ضرورت ہی نہیں رہتی۔ ایسے لوگوں کے دل مردہ ذہن پتھر اور ہاتھ پاؤں شل ہوجاتے ہیں ایسے میں اگر حالات کے آئینے میں یہ لوگ جھانک بھی لیں تو انھیں کچھ اثر نہیں ہوتا کہ ہمارے ارد گرد ہماری وجہ سے کیا ہورہا ہے۔
رکھا تھا گرچہ آئینہ پتھر کے سامنے اس آئینے میں آیا نہ پتھر کو کچھ نظر
چہرہ نہیں ہے کوئی تو آئینے کس لیے اس شہرِ سنگ وخشت پہ روتا ہے شیشہ گر
آئینہ تو حقیقت کوواضح کر دیتا ہے۔ لیکن جو کچھ وہ واضح کرتا ہے وہ ہم دیکھنا نہیں چاہتے۔ قوم کے رہبر ہمیشہ اپنی ایمانداری، سچائی، حب الوطنی اور عوام دوستی کی قسمیں کھاتے ہیں۔ مگر ان کے اعمال ان کے ایسے دعووں کے برعکس ہیں۔ کوئی فکر مند شخص اپنی قلم یا پھر اپنی زبان سے اصل صورت حالات اگر بیان کرے تو تو ان کی جبینیں سلوٹوں سے بھر جاتی ہیں اور انھیں شکوہ ہوتا ہے ان افراد سے جو ان حضرات کو ان کے اصل چہرے سے متعارف کراتے ہیں۔ حالانکہ آئینے تو اصل حالات ہی بیان کر رہے ہوتے ہیں۔
مجھ پر مرے ہی عیب و ہنر کھولتا رہا کہتا تھا آئینہ وہی جو دیکھتا رہا
آپ دیکھ لیجئے جو کچھ اس وقت ہمارے ملک میں ہو رہا ہے وہ کیا ہے نشہ اقتدار، ہوس کی فضا، ضد، انتقام، نفرت، جھوٹ، بے شرمی، نظم و ضبط کا فقدان، قتل و غارت کا طوفان، فہم و تدبر کا فقدان، یہ سوچ ہی سرے سے غائب ہے کہ کہاں سے چلے منزل کیا تھی کہاں جار ہے ہیں۔
گھر سے نکلے تھے ستاروں پر کمندیں ڈالنے خاک کے ذروں پہ حوصلے رکتے رہے
گلستاں میں ہر روش پر غیرتوں کا خون ہے ہر کلی کے زخم میں ہم بے کلی بھرتے رہے
بے کسی کی دھند میں کیسے گھرے ہیں راہ میں اپنی قسمت پر فقط ہم ہاتھ ہی ملتے رہے
میں کہ اپنی ذات کی رعنائیوں میں گم تھا پاس میرے رفعتوں کے قافلے لٹتے رہے
رسمِ شبیری نبھاتے کس طرح کیونکر وہ لوگ چاہتیں بُنتے رہے جو وسوسے چُنتے رہے
„ یوں محسوس ہوتا ہے کہ پوری قوم اپنے ہی ملک کے خلاف بغاوت پر اتر آئی ہے جس کی وجہ صرف ایک ہے کہ جب انسان کے منہ سے روٹی کا لقمہ چھین لیا جائے اور اسے تمام ضروریاتِ زندگی سے محروم کردیا جائے تو پھر انسان بغاوت پر اتر آتا ہے اور اس کے ذمہ دار صرف اگلے پچھلے اور موجودہ حکمران ہی ہوتے ہیں۔ مشہور مفکر ارسطو سے کسی نے پوچھا تھا کہ انسان بغاوت کیوں کرتا ہے تو اس نے جواب میں یہی کہا تھا کہ: انسان بغاوت اس وقت کرتا ہے جب اسے انصاف سے محروم کردیا جاتا ہے۔
انصاف نہ ملنے کا ہے انجام بغاوت مظلوم بھی آخر کوئی پتھر نہیں ہوتا
آپ ایک نظر غلامی کے دور پر ڈالیے اور دیکھئے ہر طبقہ میں کیسے کیسے عظیم لوگ پیدا ہوئے اور ان لوگوں کی خدمات کا اندازہ اس امر سے لگایا جاسکتا ہے کہ انگریز جیسا زیرک، عیار اور پروفیشنل حکمران ان لوگوں کی پر عزم مزاحمت کی وجہ سے ایک سو سال اس ملک کو اپنے قبضے میں نہ رکھ سکا اور اسے اپنے اقتدار کا قالین یہاں سے لپیٹ کر یہاں سے رخصت ہونا پڑا۔ قیامِ پاکستان کو آج ستر برس گزر گئے۔وہی صورت حال ہے جو پہلے تھی ملک اور قوم کو ایسی قیادت نصیب نہ ہوسکی جو مسائل کو حل کرنے کی صلاحیت رکھتی ایامِ اقتدار بد قسمتی سے ایسے لوگوں کے ہاتھ میں ہیں جن کی بدیانتی، مفاد پرستی، خود غرضی اور بے راہروی اظہر من الشمس ہے اور وہ نسل در نسل منتقل ہوتی چلی آرہی ہے۔ حکمرانی کا ہر عہد ایسا ہی تھا جیسا آج ہے۔ وہی زور آزمائی، وہی خواہش اقتدار،وہی ایک دوسرے پر الزامات کی بارش، وہی معیار عدالت جو کہ آج ہے کل بھی تھا۔وہی سیاسی رقابت وہ تخریبی نعرے جو کل تھے وہی آج بھی ہیں۔ وہی روٹی کپڑے کی تنگی جو کل تھی آج بھی ہے۔ بس صرف چہرے بدلتے رہے ہیں۔ مگر کام وہی ہے جو کہ کل بھی تھا۔
ولولے سرد ہوئے جاتے ہیں یاں برف مثال موسم گل پہ وہی رنگ خزاں ہے کہ جو تھا
پاؤں میں میرے وہی جبر کی زنجیر قدیم ظلم ہر سمت یہاں رقص کناں ہے کہ جو تھا
کعبہ جاں میں سجا رکھے ہیں لات و منات نام اﷲ کا فقط وردِ زباں ہے کہ جو تھا
عادتِ حرص و ہوس آج بھی جواں ہے کہ جو تھی قصۂ فقرفقط زیبِ بیاں ہے کہ جو تھا
غنچہ و گل خاک پہ سرنالہ بلب ہے بلبل صحنِ گلشن میں وہی شورِ فغاں ہے کہ جو تھا
شوال کے چھے روزے
عَنْ اَبِیْ اَیُّوْبَ الْاَ نْصَاریِّ اَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ مَنْ صَامَ رَمَضَانَ ثُمَّ اَتْبَعَہٗ سِتًّا مِنْ شَوَّالٍ کَانَ کَصِیَامِ الدَّھْرِ۔ (رواہ مسلم)
ترجمہ: حضرت ابو ایوب انصاری رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جس نے ماہ رمضان کے روزے رکھے اس کے بعد ماہ شوال میں چھے نفل روزے رکھے تو اس کا یہ عمل ہمیشہ روزہ رکھنے کے برابر ہوگا۔ (صحیح مسلم)
تشریح: رمضان کا مہینہ اگر ۲۹ ہی دن کا ہو تب بھی اﷲ تعالیٰ اپنے کرم سے ۳۰؍ روزوں کا ثواب دیتے ہیں اور شوال کے ۶؍نفلی روزے شامل کرنے کے بعد روزوں کی تعداد۳۶؍ ہو جاتی ہے اور اﷲ تعالیٰ کے کریمانہ قانون ’’الحسنۃ بعشرامثالھا‘‘ (ایک نیکی کا ثواب دس گناہ) کے مطابق ۳۶؍ کا دس گناہ ۳۶۰ ہوجاتا ہے اور پورے سال کے دن ۳۶۰ سے کم ہی ہوتے ہیں۔ پس جس نے پورے مضان المبارک کے روزے رکھنے کے بعد شوال میں ۶ نفلی روزے رکھے وہ اس حساب سے ۳۶۰ روزوں کے ثواب کا مسحق ہوگا پس اجر و ثواب کے لحاظ سے یہ ایسا ہی ہوا جیسے کوئی بندہ سال کے ۳۶ دن برابر روزے رکھے۔
(معارف الحدیث ،مولانا محمد منظو رنعمانی)