مولانا محمد طفیل کوہاٹی
مدرسہ دورِ جدید کی دجالی تہذیب کے مقابلے میں ’’حق‘‘ کا بہت بڑا مورچہ ہے، مدرسہ کی آبادی و شادابی تہذیب جدید کے نمائندوں کی آنکھ کا کانٹا ہے اور ان کے مالی و سائل کا ایک بڑا حصہ مدرسہ کے کردار کو غیر مؤثر کرنے کی کوششوں پر خرچ ہورہا ہے۔ کئی این جی اوز اس سے حوالے سے سرگرم ہیں، ان کے ارباب کو کبھی ایک دن بھی مدرسہ میں گزارنے کا اتفاق نہیں ہوا، لیکن وہ لاکھوں خرچ کر کے مدارس کی اصلاح کے لیے سیمینارز منعقد کر رہے ہیں اور جدید فاضل کو ’’حسی تمدن‘‘ اور ’’دجالی تہذیب‘‘ سے ہم آہنگی کا درس دے رہے ہیں، تاہم یہ بات واضح ہے کہ اگر مدارس میں خود احتسابی کا عنصر باقی ہو اور اپنی کمزوریوں کے ادراک اور تدارک میں تساہل نہ برتا جائے تو اس کے تشخص اور نظریہ کو دنیا کی کوئی طاقت بہ زور ختم نہیں کرسکتی اور اس کی آئندہ نسلیں پہلوں سے بڑھ کر میدان سنبھالنے کی اہل ہوں گی۔
جدید فاضل ہماری محنتوں کا ثمرہ اور نیک توقعات کا محور ہے۔ عصر جدید کی پیچیدہ ترین علمی و عملی تحدیات میں امت کی رہنمائی کا فریضہ اسی نے انجام دینا ہے، لہٰذا ضروری ہے کہ اس کی ذہنی و عملی استعدادیں اس درجہ قوی ہوں کہ وہ ان تحدیات کی مقا و مت اور ان سے بخوبی عہدہ برا ہونے کا فرض نبھا سکے۔ اس حوالے سے اپنے جدید فضلاء کی خدمت میں چند گزارشات پیش کرنی ہیں۔ امید ہے کہ معاشرہ میں ایجابی کام کے حوالے سے ان کی اہمیت محسوس کی جائے گی۔
(۱) ہم جس ماحول میں جی رہے ہیں یہ اپنی روح کے اعتبار سے اسلامی نہیں، اسلامی اقدار: دیانت، امانت، فرض شناسی، حیا، عدل و انصاف اور ایثار و مروت وغیرہ کی معاشرتی و ریاستی سطح پر پامالی مُشاہَد ہے۔ اس کی بنیادی وجہ عالمی طاقتوں کا جبراً مسلط کردہ دجالی نظام ہے جس کی بنا مادیت پرستی، نتائجیت پرستی، عقلیت پرستی اور جمہوریت پر قائم ہے۔ یہ اقدار اپنی ماہیت میں اسلامی اقدار سے بالکلیہ متصادم ہیں۔ فحاشی و عریانی کے چہار سو پھیلے مظاہر، شہوانی جذبات کی برانگیختگی کا سبب ہیں۔ ملاوٹ، دھوکہ دہی، کام چوری، حرام خوری، جھوٹ، حرص اور مادی ترقی کے لیے حلال و حرام کی تمیز کاخاتمہ اب کلچر کا حصہ بنتا جا رہا ہے۔ ان منفی اقدار کے اثرات سے حفاظت ایک مشکل او رکٹھن کام ہے۔ بڑے بڑے عبادت گزار اور دین دار کہلانے والے دانستہ یا نادانستہ ان کی زد میں ہیں۔
موجودہ مادی ثقافت سے ہم آہنگی تبھی ممکن ہے ہے جب یہ منفی اقدار طبع پرپوری طرح حاوی اور مزاج کا حصہ ہوں۔ ان کے مقابل اگر روحانی اقدار کو غلبہ دیا جائے تو عصر جدید کے مادی و حسی تمدن سے مقابلہ کے لیے عمل کی وہ قوت حاصل کی جاسکتی ہے جو مدرسہ سے حاصل شدہ علم کے عین مطابق ہوگی، لیکن اس ماحول میں فاضل کے لیے اپنے علم (قرآن و حدیث) اور عمل کے اندر کامل مطابقت پیدا کرنا ایک بڑا چیلنج ضرور ہے۔ ہمارا فاضل اس مقاو مت میں احساسِ کمتری کے باعث فکری و نظریاتی شکست اور تہذیبِ جدید سے ہم آہنگی کے میلانات کا شکار ہوجاتا ہے۔ اپنے آپ کومادیت کی ہمہ جہتی، چکاچوند اور حسی تمدن کے اثرات سے محفوظ رکھنا اس کے لیے مشکل ہوتا ہے۔ وہ فقرِ بوذر( رضی اﷲ عنہ) اور خوئے حیدری (رضی اﷲ عنہ) کا علم رکھنے کے باوجود اسے عملاً برتنے میں ناکام رہتا ہے۔ اسے بھی مادی آسائشوں سے مستفید ہونے اور اپنی دینی خدمات کی انجام دہی کے لیے مادی طرق اور حسی نمائشوں کو اپنانے میں دل چسپی پیدا ہوجاتی ہے۔ حالانکہ انبیاء کرام علیہم السلام، صحابہ کرام رضی اﷲ عنہم اور مجددین کی پوری تاریخ اس کی گواہ ہے کہ انھوں نے اپنے ادوار کے مادی اور حسی تمدن سے بغاوت کی ہے اور اسے اپنے مقاصد کے لیے سب سے بڑی آڑ سمجھا ہے۔ انبیاء علیہم السلام اور مجددین کے مقابل طبقات ہمیشہ سے مادی وحسی تمدن کے نمائندے رہے ہیں۔ حق کے غلبہ کے بعد ان اساطین نے اس مادی تمدن کے مظاہر سے مستفید ہونے کی بجائے اس کا خاتمہ اور اپنے متعلقین کو اس سے بچانے کی سعی کی ہے۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے مقابلے میں جب فرعون غرق ہوا تو آپ نے ان کے محلات کی طرف دیکھا تک نہیں۔ صحابہ کرام رضی اﷲ عنہم نے روم و فارس کے بڑے بڑے مراکز فتح کرنے کے باوجود اپنا تختِ خلافت مساجد کی چٹا ئیوں پر سجائے رکھا اور ان کے محلات اور آسائشوں کی طرف مطلق توجہ نہ کی۔ آج دین کی تبلیغ کے لیے مسجد کے بجائے ہوٹلوں کے ہالوں، منبر کی جگہ سٹوڈیو کاانتخاب اور مدارس کی تعمیر او رجلسوں میں حسی تمدن کی نقالی مادیت کے اسی ہمی گیر سیلاب سے تأثر کا نتیجہ ہے۔
ہمارے فاضل کی اس تمدن میں اپنا ایجابی کرادر ادا کرنے اور تحزُّب و تشتُّت سے بالاتر ہو کر اس کی تحدیات سے نبرد آزما ہونے کے لیے علم و عمل کی مطابقت کا جو معرکہ سر کرنا ہے اس کا واحد ذریعہ ’’تزکیۂ باطن‘‘ ہے۔ سنت اﷲ یہی ہے کہ اس کا حصول اہل اﷲ کی صحبت کے بغیر مشکل ہے۔
انسان زمین پر اﷲ کا خلیفہ ہے، اس کو دو جہان عطا کیے گئے ہیں: ایک جہانِ اصغر یعنی اس کی ذات اور ایک جہانِ اکبر یعنی خطۂ ارضی۔ ان دونوں جہانوں پر طاغوت کے غلبہ کا استیصال اور احکامِ الٰہی کا نفاذ ہی فریضۂ خلافت کا اوّلین تقاضا ہے۔ منصبِ خلافت کی انجام دہی کا کام جہانِ اصغر پر غلبہ کے سفر سے شروع ہوتا ہے۔ ذاتِ انسانی کے اندر نفس و شیطان کی کار فرمائی او رماحول کی معاونت سے رذائل اور شیطانی اقدار کا ایک پورا جہان آباد ہے۔ اس جہان کو ’’جہادِ اکبر‘‘ سے فتح کر کے مغلوب کرنا، تکبر، حرص، حبِ جاہ ومال، خیانت اور شہوت و غضب جیسی باغی اور مہلک قوتوں کی پامالی اور روح، نفس، قلب اور عقل جیسے اساسی اداروں کو اﷲ تعالیٰ کے قانون و دستور پر استوار کرنا قیامِ خلافت کا پہلا مرحلہ ہے، کیونکہ یہ باغی طاقتیں انسان کے اندر ’’اقتداری نفسیات‘‘ کی افزائش کرتی ہیں اور اسے آزاد اور بے لگام رکھنا چاہتی ہیں۔ اس نفسیات کے ہوتے ہوئے ’’عبودیت‘‘ کے تقاضے ہرگز پورے نہیں ہوسکتے اور عبودیت کا مزاج بنے بغیر احکام الٰہی کے امتثال کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔
مغربی تہذیب کا حاصل یہی ہے کہ انسان ہر مقتدر اعلیٰ سے آزاد اور خود مختار اقتدار کا مالک ہو،اس کے اندر شیطانی اقتدار پوری قوت سے کار فرما ہو اور اس کی ا قتداری نفسیات مضبوطی سے قائم ہوں۔ اسلام اسی نفسیات کے توڑنے کے لیے آیا ہے۔ کیونکہ ان نفسیات کے ہوتے ہوئے پانچ فٹ کے بدن پر احکام الٰہی کی تنفیذ ناممکن ہے، چہ جائیکہ عالم انسانی میں معروف کی ترویج او رمنکر کے خاتمے کا کٹھن کام کیا جاسکے، لہٰذا معاشرہ میں دعوت اور اقامتِ دین کی محنت اور شیطانی تہذیب کی تحدیات کا مقابلہ اسی پر موقوف ہے کہ ’’جہانِ اصغر‘‘ کی بہیمی قوتوں کو مغلوب کردیا جائے اور ان کا اقتدار چھین کر روحانی اقدار کے حوالے کردیا جائے۔ جب اپنے اعضاء و جوارح پر احکام کے نفاذ کا مرحلہ سر ہو تو خارجی ماحول کی مقاومت آسان اور اس کی تحدیات سے عہدہ برآء ہونا ممکن ہو جاتا ہے، لہٰذا جدید فاضل کی اولین ذمہ داری اپنی ذات پر ’’خلافت صغری‘‘ کا قیام ہے۔ اس کے بغیر عہدِ جدید کے طوفانوں اور تباہ کن اثرات سے بچاؤ ایک خواب تو ہوسکتا ہے حقیقت نہیں۔
اقامت دین کے لیے ہماری کاوشیں برنہ آنے کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ معاشرے میں اجتماعی نوعیت کے کاموں میں تن دہی ہمارا نصب العین بن جاتا ہے جب کہ علم و عمل کی مطابقت کا معرکہ تشنہ تکمیل رہتا ہے۔ یوں ان کاوشوں سے ’’خیر‘‘ اور ’’حق‘‘ کا بھرپور پرچار نہیں ہوپاتا، بلکہ ان سے تخریب و تفرقہ کی افزونی ہوتی ہے اور ہم اس ’’غرور‘‘ کا شکار رہ جاتے ہیں کہ خیر اور حق ہمارے ہی اندر دائر ہے۔
علم و عمل میں عدم مطابقت سے فاضل کی زندگی سینکڑوں مسائل و مشکلات کی آماجگاہ بن جاتی ہے۔ ہر وقت ذہنی دباؤ، مزاج میں عدم توازن، گفتگو میں بے احتیاطی، معمولی باتوں پر اشتعال، مداہنت و خوف کی نفسیات، احساسِ کمتری و احساسِ برتری کی کیفیات، عزیز و اقارب اور اپنے متعلقین سے کشیدگی اور احساسات کی نزاکت جیسے مسائل کا اسے سامنا رہتا ہے اور یہ دشواریاں اس کی زندگی کا ظاہر و روحانی سکون چھین کر اسے تلخ بنا دیتی ہیں۔
(۲) فاضل کے پیشِ نظر یہ بات بھی رہنی چاہیے کہ مدارس سے حاصل شدہ معلومات اور استعداد پر قناعت اپنے ساتھ بڑا دھوکہ ہے۔ ہمارا نصاب ’’عالم‘‘ نہیں بناتا، بلکہ علم کی ’’راہ‘‘ کھولتا ہے۔ اس کو پڑھ کر اپنے تئیں عالم باور کرانا ’’جہل‘‘ ہے۔ نصاب میں جن علوم و فنون کو پڑھا ہے ان کے مزید مطالعہ کا معمول اور جن کے پڑھنے کی استعداد پیدا ہوتی ہے ان کا بلاتاخیر حصول اولین اہداف میں سے ہونا چاہیے۔ ایک فاضل کو قرآن و حدیث ، فقہ و اصول فقہ، بلاغت وادب، منطق و فلسفہ اور ضروری جدید فنون سے نہ صرف مناسبت ہونی چاہیے بلکہ اپنی استعداد اس درجہ بڑھانی چاہیے کہ ان علوم و فنون پرجدید و قدیم ذخیرہ سے استفادہ ممکن بنا سکے۔ عصری اسالیب بیان سے واقفیت حاصل کر سکے اور ان علوم و فنون پر اٹھنے والے جدید اشکالات و مباحث کی درست فہیم اور حل پیش کر سکے۔
(۳) جدید فاضل کے لیے بہترین علمی صلاحیت کی افزائش کے ساتھ اپنے اندر ’’داعیانہ نفسیات‘‘ کی تشکیل بھی از حد ضروری ہے۔ داعی میں جس لگن، محنت، تڑپ اور فکر کا پایا جانا ضروری ہے، عموماً ہم اس سے محروم رہتے ہیں۔ ہمارا مزاج یہ ہے کہ ہم اپنے مخاطب کو بہت جلد ’’مخالف‘‘ ڈیکلیئر کر کے مخاصمانہ روش پر اتر آتے ہیں، جب کہ داعی اسے ’’مخاطب‘‘ ہی سمجھتا ہے۔ اس جوہری فرق کی وجہ سے ہم اپنے مخاطب کو زیادہ سے زیادہ قائل کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور اس کے لیے ’’دلیل‘‘ کو سب سے بڑا ہتھیار تصور کرتے ہیں، جب کہ داعی مخاطب کو قائل کرنے کی بجائے ’’مائل‘‘ بلکہ ’’گھائل‘‘ کرنے کی فکر میں رہتا ہے اور اس کے لیے دلیل سے بڑھ کر عمل، محبت اور دعا کو کام میں لاتا ہے۔ مغربی تہذیب نے نسل نو کی ذہنی ساخت و پرداخت جن واہی تباہی افکار پر تشکیل دی ہے، انھیں اس بھنور سے نجات کے لیے داعیانہ سوزو ساز کی ضرورت ہے۔ اس کی استعداد کسی طبقے میں اس قوت سے پائی جانا ممکن نہیں، جتنی حاملانِ قرآن و حدیث سے اس کی توقع کی جاسکتی ہے۔ جدید فاضل کے لیے اس سلسلے میں مولانا ابوالحسن علی ندوی رحمتہ اﷲ علیہ کی تصانیف سے اعتناء ضروری ہے۔
دعوتِ دین کے لیے جدید ذرائع خصوصاً الیکٹرانک میڈیا کا استعمال بھی آج کے جدید فضلاء پر بھوت کی طرح سوار ہے اور اسے مصالح اور ضرورت کی خاطر گوارا کیا جارہا ہے۔ یادرکھیں! مصالح کی حد درجہ رعایت تساہل و بے باکی کو جنم دیتی ہے۔ حضرت تھانوی رحمتہ اﷲ علیہ فرماتے ہیں کہ ’’مصالح‘‘ پیسنے کی چیزیں ہیں، ان کو پیس کر ہی دین میں مزا آتا ہے۔ مصالح کے نام پر الیکٹرانک میڈیا کو گوارا کرنا بدترین تساہل ہے۔ میڈیا اپنے اقدار کے اعتبار سے ایک خالص شیطانی آلہ ہے۔ اس کی بالکلیہ تطہیر ناممکن ہے۔ ایسے آلودہ آلات سے تبلیغ دین کا مبارک مقصد ہر گز حاصل نہیں ہوسکتا۔ تاریخ گواہ ہے کہ مجددین کی دعوت کا ثمرہ منصوص طرقِ دعوت کو اختیار کرنے سے سامنے آیا ہے۔ جن فقراء کے ہاتھوں پر لاکھوں لوگ اسلام لائے ہیں اور کفریہ معاشروں کی کایا پلٹی ہے وہ منصوص طرق سے سر مونہیں ہٹے۔
اس سے واضح ہوتا ہے کہ دعوتِ دین کے کام میں ذرائع کی حیثیت ثانوی ہے، اصل داعی کا اخلاص، ﷲیت، سوز و ساز اور تڑپ ہے۔ تبلیغ دین کا جو ذریعہ اسلامی اقدار سے متصادم ہو اس کی ہمہ گیریت کے باوجود اس سے ’’خیر‘‘ کا پھیلاؤ ممکن نہیں۔ جدید فاضل کو انبیاء کرام علیہم السلام و مجددین کی تاریخ سامنے رکھ کر دعوتِ دین کی حکمت عملی مستنبط کرنی چاہیے۔ گوکہ اس کا دائرہ محدود ہو لیکن اس کے اثرات ضرور ہمہ گیر ہوں گے۔
مشاہدہ یہی ہے کہ الیکٹرانک میڈیا پر دینی تبلیغ نے علماء کے وقار کو کم اور اباحت پسندی کے رجحانات میں اضافہ کیا ہے۔ علماء کی ایک بڑی تعداد اس کے باعث مادی سیلاب سے دو چار ہوئی ہے اور علمی و عملی تساہل کے نتیجے میں حقائق کی جگہ محض چرب زبانی او رلفظوں کے کھیل نے لے لی ہے۔
(۴) اس وقت علمی و عملی فتنوں کی بہتات ہے، جدید فاضل کے سامنے آئے دن نئے نئے افکار و خیالات آئیں گے۔ ان فتنوں سے بچاؤ کا واحد راستہ جمہور سلف کے فہم دین پر اعتماد ہے۔ نرا علم تعلّی اور دعویٰ کی جس نفسیات کو جنم دیتا ہے اس کو اعتدال پرلائے بغیر بھٹکنے کا خطرہ اور اپنے فہم کو حرف آخر سمجھنے کا جذبہ زوروں پر ہوتا ہے۔ عصر حاضر کے متجد دین ایسے فضلاء کی تاک میں رہتے ہیں جو تحقیق کے نام پر خود رائی کا شکار ہوسکیں اور سلف پر عدم اعتماد کی برملا جرأت کرسکیں۔ حالانکہ جو لوگ علم و تحقیق کے نام پر جمہور سلف سے جداگانہ راہ اختیار کیے بیٹھے ہیں، ان کی کوئی فکر نئی نہیں، بلکہ یہ بھی تاریخ کے ان آوارہ فکر افراد یا طبقات کی آراء کی جگالی کر رہے ہیں، جنھیں امت کا اجتماعی ضمیر بہت پہلے رد کر چکا ہے، بس ان کے افکار کو نیا لبادہ پہنانے کی کاوش ضرور ان کی ہے۔
ایسے لوگوں کی مساعی کا حاصل یہی ہوتا ہے کہ مشاہیر کے تفردات سے اپنے من پسند نتائج کشید کریں یا ماضی کے گمراہ طبقات کے افکار پر معاشرہ کی اجتماعی دینی ضروریات کی بنیاد رکھ کر ایک آزاد فکر پیش کرنے کی کوشش کریں۔ اسی سے انکار حدیث، اجتہاد کے نام پر تحریف و تاویل ، انکار اجماع، تقلید سے فرار اور اکابر پرعدم اعتماد کی فضاء ہموار ہوئی ہے۔
محض عمل کی غلطی سے تباہی نہیں آتی، ہاں! جب عمل کی کوتاہی کو سہارا دینے کے لیے ’’علم‘‘ غلط ہوجائے تو تباہی کئی نسلوں تک متعدی ہوجاتی ہے۔ یہ جدت پسند علم کی غلطی کا شکار ہو کر نسل نو کی بربادی کا سامان مہیا کر رہے ہیں۔
دین کے طے شدہ مسائل کا خود رائی کی بنیاد پر از سر نو جائزہ اور اس میں آزاد اور تساہل پسند افراد کی آراء کی اتباع عصر حاضر کا فیشن بن چکا ہے۔ علم و دانش کے افلاس کا یہ عالم ہے کہ ایسے افراد کو ’’محقق‘‘ سمجھا جاتا ہے اور جس کی فکری آوارگی کا دائرہ جتنا وسیع ہو اسے اتنی ہی مقبولیت اور شہرت سے نوازا جاتا ہے۔
ان متجددین میں ایک بھی ایسا نہیں جس نے امت کو درپیش تحدیات کا کوئی معقول حل پیش کیا ہو اور سیاسیات، معاشیات یا عمر انیات کے درپیش جدید مسائل پر کوئی کام کیا ہو۔ ہاں! قدیم ذخیرے کو مشکوک بنانے، طے شدہ مسائل و احکام میں تساہل و آزادی کی راہ کھولنے اور ان کی مغربی تہذیب کے آثار و مظاہر سے مطابقت پیدا کرنے کی کوشش ضرور کی گئی ہے۔
(۵) ہمارے فاضل کو یہ بھی مسئلہ در پیش رہتا ہے کہ اس نے دینی خدمات کا اپنا ایک دائرہ مقرر کیا ہوتا ہے اور اس کے علاوہ کسی اور دینی کام یا محنت کے لیے اس کی طبیعت آمادہ نہیں ہوتی، بلکہ بعض اوقات دیگر کاموں سے استخفافی رویہ برتا جاتا ہے، مثلاً: مدارس کے کثیر طلبہ ’’تدریس‘‘ ہی کو اصل کرنے کا کام سمجھتے ہیں اور اس مغالطہ کا شکار رہتے ہیں کہ اگر تدریس نہ ملی تو ان کی استعداد ضائع ہوگی اور یہ ’’محرومی‘‘ کی علامت ہوگی، حالانکہ مطالعہ کی وسعت اور استعداد کی بقاء و جفاظت کا تعلق ذاتی ذوق و شوق اور علمی ماحول کے قیام پر ہے۔ بہت سے مدرسین ایسے ہوتے ہیں جو سال ہا سال سے کسی کتاب کا درس دے رہے ہوتے ہیں لیکن انھیں اس فن کے اضافی مباحث کی مطلق خبر نہیں ہوتی، وہ اپنے آپ کو ایک اردو شرح تک محدود رکھتے ہیں اور مدرسہ میں مطالعاتی ماحول نہ ہونے کے باعث درسیات کے خول سے باہر نہیں نکل پاتے۔
تدریس بہترین علمی خدمت ہے، تاہم اس کا دائرہ انتہائی محدود ہے، اس کی نسبت امامت اور مسجد کو اپنی دینی سرگرمیوں کا مرکز بنانا زیادہ مؤثر ثابت ہوا ہے۔ اسی طرح عامۃ الناس کے لیے مفید دینی تعلیمی پروگرام، درس قرآن و حدیث، خطابت اور دعوت و تبلیغ کی محنت بھی فاضل کے پیش نظر رہنی چاہیے، ان میں سے کل وقتی کوئی کام میسر نہ ہو تو حلال روزگار کی کوشش کے ساتھ جزوقتی سرگرمی اختیار کی جائے اور اسے غنیمت سمجھا جائے۔ اس کے ساتھ کسی ماہر استاذ کی نگرانی میں اپنے مطالعہ کو مسلسل وسعت دی جائے۔
(۶) یہ بات بھی پیش نظر رہے کہ معاشرہ میں مولوی کا مقام زوال پذیر ہے۔ اس کے کئی اسباب ہیں جو مستقل گفتگو کے متقاضی ہیں، تاہم ایک بڑا سبب ہمارے طبقہ میں دینی کاموں کی ترقی کی حرص میں معاشرہ سے ’’طمع‘‘ کا تعلق ہے۔ علم اور طبع کا باہم کوئی جوڑ نہیں اور اس جوڑ کو قائم کرنے کی کوشش ذلت و خواری پر منتج ہوتی ہے۔ مولوی کے اندر روز افزوں ’’طمع کی نفسیات‘‘ اس ذلت و خواری کا بڑا سبب ہے۔
دینی کاموں کا دائرہ اتنا ہی رکھنا چاہیے جس کے لیے اپنے منصب کے وقار کو ملحوظ رکھتے ہوئے وسائل مہیا کیے جاسکیں۔ بازاروں اور مسجدوں میں مدارس کی تعمیرات و اخراجات کے لیے اعلانیہ ہاتھ پھیلانے والوں کے ذمے اس حد تک جانا ہرگز واجب نہیں ہوتا لیکن وہ اس پر اپنے آپ کو آمادہ کر لیتے ہیں جس کا نتیجہ ’’منصب‘‘ کی بے وقعتی کی صورت میں نکلتا ہے۔ جدید فاضل کے لیے اس حوالے سے حضرت تھانوی رحمتہ اﷲ علیہ کے ملفوظات و خطبات میں رہنمائی کا کافی سامان ہے، اسے حرز جان بنانا چاہیے۔
(۷) جدید فاضل کو اپنے مقام و احترام کے حصول کے لیے معاشرہ اور متعلقین سے توقعات رکھنا بھی زیب نہیں دیتا۔ یہ جذبات ’’امتیازی شان‘‘ کی نفسیات پیدا کرتے ہیں۔ اس نفسیات کے حامل ہمہ وقت اس خوف کا شکار رہتے ہیں کہ کہیں ان کی ’’مقبولیت‘‘ کم یا متاثر نہ ہو، ان کی کاوشوں کا محور اپنے اسی خول کی حفاظت رہتی ہے اور وہ کوئی کارنامہ انجام دینے کے قابل نہیں رہتے۔ ایسے لوگ اپنے اور معاشرہ کے درمیان خلیجوں کو جنم دیتے ہیں اور اپنے مخصوص ماحول اور طبقہ سے بالاتر ہو کر سوچنے کے اہل نہیں رہتے۔
معاشرہ میں اکابر علماء کے احترام و مقام کی پشت پر طویل مجاہدات ہوتے ہیں۔ ان کی حالیہ زندگی دیکھ کر ان کی نقالی شروع کردینا کم ظرفی کی علامت ہے۔ معاشرے میں ایجابی کام وہی لوگ کرسکتے ہیں جو مجاہدات کی بھٹی سے گزر کر اور شدائد و مشکلات برداشت کر کے آگے بڑھے ہوں۔ آج اداروں اور تحریکات میں بغیر کسی مجاہدہ اور کردار کے ’’صاحبزادگان‘‘ کی گدی نشینی سے جو ہولناک نتائج سامنے آرہے ہیں، وہ کسی فہمیدہ شخصیت پر مخفی نہ ہوں گے۔ بغیر کسی تدریجی و ارتقائی سفر کے لیڈر اور مہتمم بننے والوں کو مخدومیت و مقبولیت کا منصب ملتا ہے تو وہ اسی خول میں بند ہو کر رہ جاتے ہیں، اس کا تحفظ اور بقاء ہی ان کا مقصد و حید ہوتا ہے۔ یوں رفتہ رفتہ ادارے اور تحریکات اپنا مقام کھودیتے ہیں۔
جدید فاضل کو اپنے مقام و حترام کی کوئی توقع معاشرے سے وابستہ نہیں کرنی چاہیے اور نہ اس نیت سے کام کرنا چاہیے۔ خلوص وﷲیت کے ساتھ جہد مسلسل کی خوڈالنی چاہیے۔ ان شاء اﷲ! محنت ومجاہدہ سے یہ سارے مراحل فطری طور سے طے ہوں گے اور دینی و دنیوی مقبولیت قدم چومے گی۔
(۸) خواہشات زندگی کے طول اور مغربی تہذیب کے تسلط کے نتیجے میں معیار زندگی کی جبری بلندی نے ہمارے طبقہ میں بھی اسراف و تبذیر اور عدم قناعت کا رجحان پیدا کردیا ہے، جس کے باعث ’’معاش‘‘ کا مسئلہ پیدا ہورہا ہے۔ اس میں شک نہیں کہ ہمارے طبقہ کے مالی وسائل بہت محدود ہوتے ہیں، ضروریات کا دائرہ دستیاب مالی وسائل کے اندر رکھنا ہی قناعت ہے اور فاضل سے یہی مطلوب ہے۔ ضروریات فقراء کی بھی پوری ہوجاتی ہیں اور خواہشات بادشاہوں کی بھی پوری نہیں ہوتیں۔
جدید فضلاء سے یہ چند بکھری باتیں اپنے نفس کو سامنے رکھ کر کی گئیں۔ امید ہے یہ مذاکرہ خیر کا باعث بنے گا۔ اﷲ رب العزت ہم سب سے اپنے دین متین کی مقبولیت خدمت لے۔
(مطبوعہ: ماہنامہ ’’بینات‘‘ کراچی، جولائی 2017ء)