سید محمد کفیل بخاری
وزیراعظم نواز شریف ۱۵؍ جون کو فیڈرل جوڈیشل اکیڈمی میں جے آئی ٹی کے سامنے پیش ہوگئے۔ تین گھنٹے کی پوچھ گچھ کے بعد وزیراعظم نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا:
’’سب کچھ سپریم کورٹ اور جے آئی ٹی کو دے چکے۔ انھوں نے جے آئی ٹی سے سوال کیا کہ بتایا جائے میں نے کون سی کرپشن کی ہے۔ اگلے برس بڑی عوامی عدالت لگنے والی ہے، اس میں بھی سرخرو ہوں گے۔
وزیراعظم کے ترجمان مصدق ملک نے کہا:
’’جے آئی ٹی سے تعصب کی بو آرہی ہے۔ ’’مسعود محمود‘‘ جیسا وعدہ معاف گواہ ڈھونڈنے کی کوشش ہورہی ہے۔ جے آئی ٹی نے انصاف کی بجائے دھونس، دھاندلی شروع کردی ہے۔‘‘
شہزادہ حماد بن جاسم نے کہا:
’’جے آئی ٹی قطر آئی تو شریف خاندان کو لکھے گئے خط کے تمام مندرجات کی تصدیق کروں گا‘‘
عمران خان کا کہنا ہے کہ:
’’نواز شہباز کا اصل گھر اڈیالہ جیل ہے، جو سمجھتے ہیں کہ کچھ نہیں ہوگا، وہ بھول جائیں بہت کچھ ہوگا‘‘
دو مہینوں سے جاری تماشے کا ڈراپ سین ہونے والا ہے۔ عوام ’’دیکھو اور انتظار کرو‘‘ کی کیفیت میں ہیں کہ جے آئی ٹی کا اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے۔ وزیراعظم، اُن کے دونوں بیٹے حسن اور حسین، ان کے بھائی شہباز شریف جے، آئی ٹی میں پیش ہو کر تفتیش کے مرحلے سے گزر چکے ہیں۔ سیاسی نجومیوں کی پیش گوئیوں کا سلسلہ جاری ہے۔ حکمرانوں کے تیور بتلاتے ہیں کہ وہ کلین چٹ لے کر پہلے سے بھی زیادہ قوت کے ساتھ میدان میں اتریں گے اور آئندہ انتخابات کا معرکہ بھی وہی سر کریں گے۔ اگرچہ وزیر اعظم کی نااہلی کے امکانات بھی موجود ہیں۔ اس صورت میں بھی وہ میدان نہیں چھوڑیں گے۔ رانا ثناء اﷲ کایہ کہنا کہ ’’اگر فیصلہ غلط آیا تو عوام قبول نہیں کریں گے‘‘ کس زمرے میں آتا ہے؟ جو دھمکی مسلم لیگ (ن) کے سابق سینیٹر نہال ہاشمی نے دی، (ن) لیگ کے رہنما بھی انداز بدل کر وہی آموختہ دہرا رہے ہیں۔ وزیراعظم، ان کے ترجمان اور شہباز شریف کا دھمکی آمیز رد عمل فکر انگیز بھی ہے اور محل نظر بھی۔ یہ بات جے آئی ٹی کے فیصلے پر موقوف ہے کہ ریاستی ادارے آزاد ہیں یا مقید۔
پیپلز پارٹی، ملکی پارٹی کی بجائے اب صرف سندھ کی پارٹی بن کر رہ گئی ہے۔ پنجاب میں پہلے ہی اس کی پوزیشن کمزور ہے لیکن آصف زرداری کی سیاسی بڑھکوں اور بلاول کی نابالغ چیخوں کے بعد صورت حال مزید ابتر ہوگئی ہے۔ امتیاز صفدر وڑائچ، فردوش عاشق اعوان اور دیگر پی پی رہنماؤں کی پی ٹی آئی میں شمولیت کے بعد مطلع مزید صاف ہوتا نظر آرہا ہے۔ باقی جو ہیں تیار بیٹھے ہیں۔
قمر زمان کائرہ، جنوبی پنجاب سے سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی اورمخدوم احمد محمود ہی آبچے ہیں۔ عمران خان، پیپلز پارٹی کی تھکی اور پٹی ہوئی باقیات کو ساتھ لے کر کیا تبدیلی لائیں گے؟ جن لوگوں پر وہ کرپشن کا الزام لگاتے نہیں تھکتے تھے اب انھیں اپنی پارٹی میں شامل کر کے انھیں پی ٹی آئی کا پرچم اوڑھا رہے ہیں۔ اے کاش! وہ اپنی پارٹی خواتین کو دوپٹہ اوڑھا دیتے۔ لیکن خان صاحب جس کلچر کی نمائندگی کر رہے ہیں اس میں دوپٹے کی گنجائش نہیں۔
مسلم لیگ (ن) پنجاب سے کسی صورت دستبردار ہونے کے لیے تیار نہیں۔ پی ٹی آئی انھیں پنجاب میں ٹف ٹائم ضرور دے گی لیکن مستقبل میں حکومت ن لیگ کی ہی بنتی نظرآرہی ہے۔ اسٹیبلشمنٹ اور (ن) لیگ دونوں سی پیک کا حصہ اور لازم و ملزوم ہیں اور سی پیک کا مستقبل انھی سے وابستہ ہے۔ مرکز میں بھی یہی لوگ نظر آرہے ہیں۔ پی پی پی اور ن لیگ کے مقابلے میں تیسری سیاسی قوت کے لیے گنجائش موجود تھی جسے عمران خان نے اپنی جلد بازیوں، نالائقیوں اور سیاسی نابالغی کی نذر کردیا۔
جمعیت علماء اسلام، اس وقت پاکستان کی تیسری بڑی پارلیمانی جماعت ہے۔ مولانا فضل الرحمن نے جس اعتدال، تحمل، تدبر، وقار اور سیاسی بصیرت سے اپنا سیاسی مقام بنایا، دینی قوتوں کو سہارا دیا وہ اپنی مثال آ پ ہے۔ خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں ان کی سیاسی محنت قابلِ رشک اور قابل داد ہے۔ لیکن دین اورملک دشمن قوتوں کو مولانا فضل الرحمن جیسا معتدل اور مفاہمت پسند سیاست دان بھی قبول نہیں۔ تین خود کش حملے مولانا پر ہوچکے ہیں، مولانا محمد خان شیرانی بھی خود کش حملے کی زد میں آچکے ہیں اور اب ۱۲؍مئی ۲۰۱۷ء کو مستونگ، بلوچستان میں جمعیت علماء اسلام کے سیکرٹری جنرل اور ڈپٹی چیئر مین سینٹ مولانا عبدالغفور حیدری پر بھی قاتلانہ حملہ ہوا۔ جس میں ۳۰؍افراد شہید اور ۴۰؍زخمی ہوئے۔ مولانا حیدری پر قاتلانہ حملہ بلوچستان میں جمعیت علماء اسلام کی بڑھتی ہوئی سیاسی قوت سے بوکھلاہٹ کا اظہار ہے۔ جو قابلِ مذمت بھی ہے اور قابلِ افسوس بھی۔ سیکورٹی ترجمان کے مطابق مستونگ حملہ میں داعش کے مقامی ایجنٹ ملوث تھے۔ آپریشن ردالفساد کے ذریعے مولانا عبدالغفور حیدری پر حملے میں ملوث دہشت گرد ہلاک ہوگئے ہیں اور بعض گرفتار کیے گئے ہیں۔ جبکہ داعش کے مراکز اور پناہ گاہیں تباہ کردی گئی ہیں۔ مولانا فضل الرحمن نے کہا ہے کہ ’’آئندہ انتخابات میں کس پارٹی سے اتحاد کریں گے یہ کہنا قبل از وقت ہوگا۔‘‘ لیکن مولانا کے تیور اور سیاسی قوت کے اظہار سے معلوم ہوتا ہے کہ آئندہ انتخابات کے نتیجے میں خیبر پختونخوا میں جے یو آئی ہی حکومت بنائے گی اور بلوچستان میں بھی، سیاسی جگلروں سے اقتدار کا نوالہ چھیننا مشکل ہے لیکن امید ہے کہ مولانا اپنی حکمت عملی سے ضرور کامیابی حاصل کریں گے۔ مولانا اس وقت (ن) لیگ کے اتحادی ہیں لیکن ناموسِ رسالت اور قادیانی ڈاکٹر عبدالسلام کے حوالے سے مولانا کے مطالبات میں سے وزیراعظم نے اب تک ایک بھی نہیں مانا۔ دیکھتے ہیں کہ مولانا اپنے مطالبات منوانے میں کہاں تک کامیاب ہوتے ہیں۔