(مکتوب نمبر۱)
ڈاکٹر محمد آصف
عزیز احمدی دوستو!
آپ کا تعلق ایک ایسی جماعت سے ہے جو حقیقی دین اسلام پر قائم ہونے کا دعویٰ کرتی ہے۔ آپ یقینا اپنے آپ کو مسلمان سمجھتے ہیں، کلمہ پڑھتے ہیں، نماز پڑھتے ہیں اور اپنی جماعت کی ترقی کے لیے اپنی محدود آمدنی کے باوجود مالی طور پر ساری زندگی قربانی دیتے رہتے ہیں۔ آپ ذوق و شوق سے اپنے مربی حضرات کی باتیں سنتے ہیں۔ آپ دینی عقیدت کے جذبے سے اپنے خلیفہ صاحب کی ہر بات مانتے ہیں کیونکہ یہ بات آپ کے دل میں جاگزیں کر دی گئی ہے کہ آپ کے خلیفہ خدا کا انتخاب ہیں آپ کو اپنی جماعت کا منظم ماحول بھی دلکش دکھائی دیتا ہے اور یوں آپ جماعتی نظام کی اطاعت میں ساری عمر گزار دیتے ہیں۔ دہشت گردی اور فرقہ واریت کے واقعات کا سہارا لے کر آپ کو بتایا جاتا ہے کہ حقیقی اسلام صرف جماعت احمدیہ کے پاس ہے جو پوری دنیا میں پھیل رہی ہے۔ آپ کو یہ بھی بتایا جاتا ہے کہ علماء کرام ’’جاہل ملا‘‘ ہیں جو محض اپنی تنگ نظری اور ذاتی مفادات کی وجہ سے عوام الناس میں احمدیت کا غلط تعارف کراتے ہیں۔ وہ مرزا صاحب کی کتابوں کے غلط اور سیاق و سباق سے کاٹ کر حوالے دیتے ہیں اور یوں عوام کو گمراہ کرتے ہیں۔
یہ ’’مولوی‘‘ معاشرے میں نفرت پھیلاتے ہیں جبکہ جماعت احمدیہ Love for all and hattered for none جیسے اصول کاپرچار کرتی ہے۔ آپ کو یہ بتایا جاتا ہے کہ جماعت احمدیہ پر جو مشکلات آتی ہیں اور احمدی افراد کا جو سماجی بائیکاٹ کیا جاتا ہے وہ جماعت کی سچائی کی دلیل ہے کیونکہ ہر دور میں اہلِ حق کو ظلم و ستم کا نشانہ بنایا جاتا رہا ہے۔
یہ سب کچھ آپ کو اپنے اطمینان کے لیے کافی دکھائی دیتا ہے اور آپ اپنے آپ کو ایک سچی جماعت کا فرد سمجھتے ہیں اور کسی تحقیق و تفتیش کی کوئی ضرورت محسوس نہیں کرتے۔ لیکن کیا آپ واقعی مطمئن ہیں؟
کیا جماعت احمدیہ کا نظام، جو انسانوں کو معاشرتی اور نفسیاتی طور پر کنٹرول کرنے کے جدید ترین نسخوں اور ترکیبوں پر مبنی ہے آپ کے ذہن میں چند سوالات کو جنم نہیں دیتا؟
کیا آپ نے ملت اسلامیہ کا مؤقف جاننے کی دیانتدارانہ کوشش کی ہے؟
یا کیا آپ اس لیے احمدی ہیں کہ آپ کے دادا یا پردادا نے مرزا صاحب کی بیعت کر لی تھی اور بس؟
کیا آپ اپنے دل کے اضطراب اور شک کو زبان پر لانے سے اس لیے خوفزدہ ہیں کہ آپ کو جماعت میں مشکوک سمجھ لیا جائے گا۔
کیا ایمان جیسی اعلیٰ و ارفع قلبی کیفیت کی بنیاد خوف اور نفرت پر رکھی جاسکتی ہے؟
پیارے احمدی دوست!
آج ہم جس دور میں زندہ ہیں وہ علم اور تحقیق کا دور ہے۔ اگر اﷲ تعالیٰ کا فضل ہو تو علم اور تحقیق کے ذریعے سے انسان سچ اور جھوٹ میں فرق کرسکتا ہے۔ بس شرط یہ ہے کہ ہم کسی تعصب کا شکار نہ ہوں۔ مرزا غلام احمد صاحب نے جو دلائل دیے ہیں وہ بھی موجود ہیں اور سب سے بڑھ کر قرآن اور حدیث کی کتابیں موجود ہیں۔ ہم اﷲ تعالیٰ سے ڈرتے ہوئے، عقلِ سلیم کی روشنی میں اگر تحقیق شروع کریں تو ہدایت دور نہیں۔ اﷲ تعالیٰ ہم سب کوہدایت اور سلامتی عطا فرمائے، آمین!
آپ کا خیر خواہ
ڈاکٹرمحمد آصف