سید صبیح الحسن ہمدانی
تصوف اور اہلِ تصوف کے بارے میں گفتگو کرتے ہوئے سب سے بڑی مشکل یہ در پیش رہتی ہے کہ اس منہج کے اصحاب لفظی بازی گری اور بے روح قول و کلام سے شدید بیزاری رکھتے ہیں۔ اور اس وجہ سے محض باتیں کرنے اور کتابیں لکھنے والوں میں سے نہیں۔ چنانچہ ہم ایسے اہلِ قال کا عمومی طرزِ عمل یہ ہوتا ہے کہ وہ اپنی معلومات وپسند ناپسند اور تعصبات کی بنیاد پر اہلِ تصوف کے مشرب و منہج کی اپنی پسندیدہ تشریح و تفسیر کرتے رہتے ہیں۔ کچھ لوگ کارل مارکس کے مطالعہ ٔتاریخ کے طبقاتی اصول کی روشنی میں منہجِ اہلِ قلب یعنی صوفیا کے مسلک و مشرب کی توضیح کرتے ہیں، کچھ لوگوں کے سامنے اپنا نیشنلسٹ بیانیہ ہوتا ہے جس کی روشنی میں وہ حضرات صوفیا کو بھی قوم پرست سیاست دان کی حیثیت سے روشناس کراتے ہیں۔ جن اہلِ فکر نے ہیومن ازم کو بطور ’’الحق‘‘ اور ’’الخیر‘‘ کے قبول کر لیا ہے وہ اہلِ تصوف کو محض اس وجہ سے تسلیم کرنے پر آمادہ ہوتے ہیں کیونکہ یہ لوگ ان کی نظر میں بہت انسان پرست ہیں۔ کچھ اہلِ قلم زبانوں سے یا بطورِ خاص کسی ایک زبان سے والہانہ محبت رکھتے ہیں تو ان کے ہاں صوفیاء کے مسلک و مشرب کی توضیح بلکہ صوفیا کو برداشت کرنے کی اکلوتی وجہ بھی کسی خاص زبان سے تعلق ہوتی ہے۔ (جیسے اکادمی ادبیات کے زیرِ اہتمام ملتان میں منعقد ہونے والی دو روزہ صوفی ادب کی قومی کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے ایک ’’دانشور‘‘نے کہا ہم اس کو صوفی نہیں مانتے جس نے ہماری زبان میں شاعری نہیں کی)۔ لیکن میں عرض کرنا چاہتا ہوں کہ علم و تحقیق سے تعلق رکھنے والے یا ادب کو اپنے اوقات عزیز کا مصرف بنانے والے اہل علم میں کم از کم اتنی دیانت اور اتنی علمی رواداری ضرور ہونی چاہیے کہ وہ کسی مشرب و مسلک کی تاریخی توضیح کرتے ہوئے اس منہج کے اربابِ فکرکے اپنے نقطۂ نظر کو بیان کرسکیں۔ ہمارا تصور خیر و شر کیا ہے؟ ہمیں کیا اچھا لگتا ہے یا کیا برا لگتا ہے یہ بتانے کے لیے ہمارے پاس بہت سے مواقع اور طریقے ہیں لیکن جب ہم صوفیا کی بات کریں تو ہم میں اتنی اخلاقی جرأت ہونی چاہیے کہ ہم ان کے مشرب کو اپنی پسند نا پسند کے ساتھ مخلوط نہ کریں بلکہ علمی خیانت سے بچتے ہوئے ان کے بارے میں وہ کہنے کی بہادری پیدا کریں جو وہ تھے نہ کہ وہ جو ہمیں پسند ہے۔
حضرات صوفیاء کرام نے ہمیشہ معاشرے کے ادنی اور پسے ہوئے طبقات کی دلداری کی مگر اس کا سبب ان کا مارکسسٹ ہونا نہیں تھا بلکہ ان کے سامنے اپنے آقا و مولیٰ کا ارشاد گرامی تھا کہ: أنا عِندَ المُنکَسِرۃِ قلوبُہم یعنی میں شکستہ دلوں کے زیادہ قریب ہوں، صوفیا مقامی زبانوں میں کلام کو اختیار کرتے تھے مگر اس کی وجہ کوئی لسانی عصبیت نہیں تھی بلکہ ان حضرات کو ان زبانوں میں حقانیت کو بیان کرنے کی صلاحیت نظر آتی تھی، حضرات اہلِ تصوف نے ہمیشہ انسان کی حرمت و عظمت کا خیال رکھا لیکن ہیومنسٹ نظریے کی وجہ سے نہیں بلکہ کیونکہ ان کو ہر انسان میں وہ نفخۂ ربانیہ نظر آتا تھا جو پہلے انسان سیدنا آدم علیہ السلام میں اﷲ تعالیٰ نے روح کی صورت میں پھونکا تھا۔صوفیا کے اعمال کا محرک اول و آخر ان کے محبوب رب کی رضا کا حصول تھا۔ یہی وہ سبب حقیقی ہے جس نے ان سے وہ سارے عظیم کارنامے سر انجام دلائے جن کو بیان کرتے ہوئے آج ہم مصنوعی تشریحات و توجیہات کا سہارا لینے پر مجبور ہو رہے ہیں۔ ہمیں کم از کم صوفیا کو ان کے اپنے اقوال و تشریحات کی روشنی میں ہی دیکھ سکنے کی برداشت پیدا کر لینی چاہیے۔ امہات کتب کی دستیابی کے اس زمانے میں کسی دوسرے کے منہج کو اپنے بیانیے کی روشنی میں تشریح کرنے کی استعماری و استشراقی روش خاصی پرانی ہو گئی ہے اور کسی قدر احمقانہ بھی لگتی ہے۔
حضرت شیخ الاسلام بہاء الدین زکریا اسدی قریشی ملتانی رحمہ اﷲ تعالیٰ اہلِ تصوف کے اعاظمِ رجال میں سے ہیں۔ آپ کا شمار اس محدود سی جماعت میں ہوتا ہے جس کے روز مرہ معمولات اور احوال و آثار سے اہلِ تصوف کے منہج و مشرب کی اصلیت کو متعین کیا جا سکتا ہے۔ آپ ہندستان کے چار بنیادی صوفی سلاسل میں سے ایک یعنی سلسلۂ سہروردیہ کے ایک گونہ بانی ہیں اور ایک دوسرے عظیم الشان سلسلے یعنی سلسلۂ چشتیہ کے اولین نقش گزار حضرت شیخ الشیوخ بابا فرید الدین مسعود گنج شکر کے معاصر، دلی محب و حبیب اور ہم صحبت ہیں۔ آپ کی شخصیت سے ہمارے دیار میں تصوف کے ایک بہت بنیادی اور مرکزی دھارے کا آغاز ہوتا ہے۔ میں چند لفظوں میں آپ کی ذات عالی اور آپ کے سلسلہ طیبہ کا تعارف کرا کر موضوع مقالہ کی طرف منتقل ہوتا ہوں۔
شیخ الاسلام ابو محمد زکریا بن محمد الھباری الأسدی القریشی الملتانی السہروردی نسباً اسدی قریشی ہیں، آپ کا انتساب قریش کی اس شاخ سے ہے جس میں ام المؤمنین سیدہ خدیجۃ الکبریٰ، حواری رسول سیدنا زبیر ابن العوام، حضرت ورقہ بن نوفل، حضرت ہبار بن الأسود رضی اﷲ عنہم جیسے عظیم رجالِ اسلام کا تعلق ہے۔آپ کی ولادت با سعادت سنہ 1172 عیسوی 566 ہجری میں (علی اختلاف الاقوال) کوٹ کروڑ (حال ضلع لیہ) میں ہوئی۔ آپ کے خاندان کی ہی ایک شاخ منصورہ سندھ میں مشہور ہباری اسلامی سلطنت کی حکمران رہی، مگر آنجناب ان حکمرانوں کے براہِ راست وارث نہ تھے۔ آنجناب نے لگ بھگ 30 برس کا عرصہ حصولِ علم و تزکیہ میں گزارا، اور اس کے بعد تقریبا 60 برس تک مسندِ رشد وہدایت پر جلوہ افروز رہ کے دعوت الی اﷲ اور تزکیۂ قلب کے فریضے کو سر انجام دیتے رہے۔ ملتان میں عظیم الشان مدرسہ بہائیہ قائم فرمایا، بہت زیادہ سیر و سفر و ہجرت و مجاہدہ کو اختیار فرما کر ملتان بلوچستان سندھ مارواڑ راجستھان اور علاقۂ افغانان میں تبلیغی سرگرمیوں میں حد درجہ مشغول رہے، سلاطین اسلام کے ساتھ ہمیشہ تواصی بالحق تواصی بالصبر اور الدین النصیحہ کی بنیادوں پر مستحکم تعلقات قائم رکھے، ناصر الدین قباچہ کے ظلم و مطلق العنانی کے خلاف سلطان شمس الدین التتمش کے زہد و اتقا اور علم و دین داری کی وجہ سے اس کے حق حکومت کی تائید کی، منصبِ شیخ الاسلام کو قبول فرمایااور تقریبا 96 برس کی عمر میں انتقال ہوا۔
سلسلۂ سہروردیہ کی سب سے بڑی امتیازی خصوصیت یہ ہے کہ اس کے اکابر میں دیگر سلاسل کے مقابلے میں اتباعِ شریعت اور ظواہرِ شریعت کی پابندی پر بہت زور تھا، یہی وہ چیز ہے جس کو قاضی جاوید نے ’’عقیدہ پرستی‘‘ اور شیخ محمد اکرام نے ’’شریعت کا جلالی رنگ‘‘ سے تعبیر کیا ہے۔مثلاً حضراتِ سہروردیہ سماع کو بطور آلۂ تزکیہ قبول نہیں کرتے، حتی کہ خود شیخ الاسلام بہاء الدین زکریا کی خانقاہ میں جب فخر الدین عراقی حالِ بے حالی میں کبھی اونچی آواز میں شعر گنگنانے لگتے تو سہروردی فقرا اس پر نکیر کرتے، اس پر حضرت شیخ الاسلام فرماتے یہ عمل باقی لوگوں کے لیے تو ممنوع ہی ہے مگر عراقی کو (اپنے غلبۂ حال کی وجہ سے معذور ہونے کی بنا پر) اجازت ہے۔ اسی ضمن میں ایک مشہور واقعہ سید مبارک میر خورداپنی کتاب سیر الاولیا میں ذکرکرتے ہیں کہ: شیخ الاسلام بہاء الدین زکریا ملتانی کا ایک فرزند ناگور میں آیا اور جب اس نے سنا شیخ حمید الدین ناگوری (خلیفہ خواجہ معین الدین اجمیری) نمازِ جمعہ میں شریک نہیں ہوتے تو شدت سے اعتراض کیا اور علما کی ایک جماعت کے ساتھ آپ کے مکان پر پہنچ کر آپ کو امر بالمعروف کیا۔
علمی وادبی خدمات:
حضرت شیخ الاسلام کا مزاج بلکہ بالعموم سہروردی تصوف اہلِ قلم کا تصوف نہیں ہے، ان حضرات میں حال کو قال پر اس قدر غلبہ رہا ہے کہ تصنیف و تالیف اور کتاب سازی بلکہ کتاب بازی سے انتہائی بے اعتنائی کو شعوری طور پر اختیار کیا گیا۔ لیکن اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ حضرات سہرورد اہلِ صدق و درد علومِ اسلامیہ سے بے بہرہ ہیں۔ خود حضرت شیخ الاسلام نے سات برس خراسان اور پندرہ برس بخارا میں علومِ اسلامیہ ظاہرہ کی ہی طلب و تحصیل میں گزارے اور اس کے بعد دولتِ تزکیہ حاصل کرنے کے لیے بغداد میں شیخ الشیوخ شہاب الدین سہروردی کے ہاں حاضر ہوئے اور وہاں صرف سترہ روز بعد اجازت و خلافت سے مشرف ہو کر وطن واپس ہوئے۔تذکرہ علمائے ہند میں مولوی رحمان علی صفحہ 131 پر لکھتے ہیں ’’وے را تصانیف عدیدہ خاصتاً بسلوک ہستند‘‘ (ان کی متعدد تصانیف، خاص طور پر علمِ سلوک و اخلاق کے موضوع پر پائی جاتی ہیں)۔ مگر حضرات سہروردیہ کے عمومی مزاجِ عملیت پسندی اور اقوامِ نا مسلم میں جوشِ تبلیغ کی وجہ سے یہ کتب بالعموم محفوظ نہیں رہیں۔ البتہ کم از کم ایک تصنیف بالیقین ایام زمانہ کی دست برد کا شکار ہونے سے بچ گئی۔
کتاب کا نام ’’الاوراد‘‘ ہے، نام سے بظاہر معلوم ہوتا ہے کہ یہ کوئی وظیفوں وغیرہ کی کتاب ہو گی مگر ایسا نہیں ہے۔ یہ ایک عظیم الشان تصنیف ہے جس میں علمِ فقہ اور علم حقائق الاعمال و علم اسرار شریعت کو جمع کیا گیا ہے۔ یعنی پہلے مسائلِ فقہیہ بیان کرتے ہیں پھر اعمالِ عبادت و عبودیت کی حقیقت اور تشریع کا سرّ تفصیلاً بیان فرماتے ہیں۔ ہر باب کو ’’ذکر‘‘ کے لفظ سے معنون کرتے ہیں، جیسے ذکر الصلاۃ، ذکر الصوم، ذکر الحج، وغیرہ۔زبان فارسی مخلوط بہ عربی ہے۔یہ کتاب اسلامک بک فاؤنڈیشن اور مرکز تحقیقات فارسی ایران و پاکستان کی طرف سے سنہ 1978ء میں لاہور سے شائع ہوئی۔کتاب کی تحقیق و تدوین ڈاکٹر محمد میاں صدیقی نے کی اور ترجمہ بھی کیا۔
بطور تبرک و استشہاد اس تصنیف میں سے ہم ایک مناجات نقل کرتے ہیں، حضرت شیخ الاسلام فرماتے ہیں:
’’پادشاہا! بنظر ِ رضا و رحمت بما نگر! خداوند! ظاہر و باطنِ ما را در طلبِ رضائے خود جمع دار!، تفرقہ و پریشانی و سرگردانی از راہِ ما واز راہِ ہمہ مسلماناں بدور دار!،عفو و عافیت را قرینِ وقتِ ما کن!، عنایت و رعایت را سابق و قائدِ ما گردان!، ما را بدستِ تفرقہ ما باز مدہ!، ما را بما باز مگذار!، مار بر ما مگمار!، ما را از شرِ ما نگاہدار!، کارِ ما و کارِ ہمہ مسلماناں در عافیت و در رضائے خود باصلاح آر!، کردۂ ما را در گذار و آئندہ را نگاہدار!، ہرچہ بہ بندہ بخشی و بینی با رضائے خویش قرینی بخش!، ما را بقہرِ خود مخزول مکن!، ما را بدونِ خود مشغول مکن!، ما را از یادِ خود معزول مگردان!، اگر پرسی حجّتے ندارم، واگر بسوزی طاقت نیارم، از بندہ خطا و زلّت است و از تو ہمہ عطا ورحمت، اے قدیم ِ لم یزل!! و اے عزیز بے بدل!! اﷲم اصلحنا وأصلح فسادَ قلوبنا‘‘
(ترجمہ) اے بادشاہِ ارض و سما ہم پر اپنی رضا و رحمت کی نگاہ فرما، اے مالک! اپنی رضا کی طلبگاری میں ہمارے ظاہر و باطن کو یکسو کر دے، ہم سے اور سب مسلمانوں سے پریشانیٔ خاطر و تفرقۂ دل اور سرگردانی کو دور فرما دے، ہمارے زمانے کو اپنی عافیت و معافی کا قرین بنا دے، اے مولا! ہمارے راستے میں ہمارا پیش رو بھی اپنی عنایت بے غایت کو بنا اور ہمیں پیچھے سے راہ یاد دلانے کے لیے بھی اپنی رعایت کو ہماراقائد بنا دے۔ ہمیں ہماری اپنی پریشاں خاطری کے ہاتھ نہ تھما، ہمیں ہماری ذات کے حوالے نہ کر، بارِ الٰہا ہمیں اپنی ذات کا سہارا کافی نہیں، ہمیں ہمارے شر سے پناہ دے۔ ہمارے اور سب مسلمانوں کے معاملے کو اپنی عافیت و رضا سے ٹھیک کردے، ہمارے اعمال سے درگذر فرما،اور آئندہ کے لیے حفاظت فرما، اے وھّاب اگر تو ہمیں کچھ بخشنے کا ارادہ فرماتا ہے تو ہمیں اپنی قربت اور قرینی بخش دے۔ہمیں اپنی شانِ قہّاری کی تجلی کے طور پر رسوا نہ فرمائیو، ہمیں اپنے ما سوا میں مشغول نہ فرمائیو اور اپنی یاد کے شرف سے معزول نہ فرمائیو، اگر تو سوال فرمانا چاہے تو مولا ہم بے جوابوں کے پاس کوئی حجّت نہیں، اور اگر تو عذاب دینا چاہے تو مالک ہم کمزوروں میں اس کے طاقت نہیں، ہم بندوں کے پاس صرف خطایا ہیں اور معصیت، تیرے پاس عطا ہی عطا ہے اور رحمت۔ اے قدیمِ لم یزل اے عزیز بے بدل اے اﷲ ہماری اور ہمارے قلوب کے فساد کی اصلاح فرما دے۔
نسب کے بارے میں آپ نے یقینی طور پر غلط بیانی سے کام لیا ہے .. شیخ السلام ہرگز ہباری نہیں ہیں اور نہ آپ کے خاندان کا ہباری سلطنت سے کوئی تعلق ہے.. آپ جناب اسد بن ہاشم کے فرزند حنین کی نسل سے تعلق رکھتے ہیں، اور خاندان رسالت ماآب سے تعلق رکھتے ہیں، جہاں آپ نے اتنی علمی اور تحقیقی بات کی، وہیں نسب پر ڈنڈی مارنا انتہائی غلط اور معیوب بات ہے!! ہبار بن الاسود وہ شخص تھا جس نے حضور ص کی بیٹی سیدہ زینب سلام الله علیھا کو زخم دیا ، ایسے شخص کے خاندان سے منسوب کرنا انساب کے معاملات سے دوری رکھنے جیسا ہے، دوسرا ہبار بن الاسود کا تعلق اسد بن عبد العزی سے بھی نہیں تھا، تھوڑی تحقیق کرلیں! شکریہ
نسب کے بارے میں آپ نے یقینی طور پر غلط بیانی سے کام لیا ہے .. شیخ السلام ہرگز ہباری نہیں ہیں اور نہ آپ کے خاندان کا ہباری سلطنت سے کوئی تعلق ہے.. آپ جناب اسد بن ہاشم کے فرزند حنین کی نسل سے تعلق رکھتے ہیں، اور خاندان رسالت ماآب سے تعلق رکھتے ہیں، جہاں آپ نے اتنی علمی اور تحقیقی بات کی، وہیں نسب پر ڈنڈی مارنا انتہائی غلط اور معیوب بات ہے!! ہبار بن الاسود وہ شخص تھا جس نے حضور ص کی بیٹی سیدہ زینب سلام الله علیھا کو زخم دیا ، ایسے شخص کے خاندان سے منسوب کرنا انساب کے معاملات سے دوری رکھنے جیسا ہے، دوسرا ہبار بن الاسود کا تعلق اسد بن عبد العزی سے بھی نہیں تھا، تھوڑی تحقیق کرلیں! شکریہ
السلام علیکم.
تمام احباب سے گذارش ہے مجھے شیخ الاسلام کے مستند کتب چاھییں.
اگر کسی دوست کے پاس اسکے متلق کچھ علم ہے تو ازراہ کرم ۰۳۰۴۸۸۱۵۸۴۵ پہ مطلع فرمائیں ……مہربانی