پروفیسر خالد شبیر احمد
اس شہر بے وفا کی اب تو فضا ہے اور اندر ہے دل میں اور تو لب پہ دعا ہے اور
چرچے وفا کے ہوتے ہیں ہر سمت دہر میں ذکر وفا کچھ اور ہے پاسِ وفا ہے اور
میں تو غبار شوق میں گم ہو کے رہ گیا میری خطا کچھ اور ہے میری سزا ہے اور
پاؤں سے آپ باندھی ہے زنجیرِ بے بسی گرچہ شکستِ شوق کی کوئی سزا ہے اور
کیسے یقین کر لوں میں حالاتِ شہر پر نیت ہوا کی اور ہے شورِ ہوا ہے اور
چلنا ہے ساتھ میرے تو خالدؔ رہے خیال رکنا نہیں ہے راہ میں چلنا ہے اور اور