(قسط:۱۰)
ظفر جی
عقل ہے محوِ تماشائے لبِ بام
صبح سویرے سورج نکلنے سے بھی پہلے ہم لاہور پہنچ گئے۔پلیٹ فارم سے نکلے تو پولیس کی بے شمار گاڑیاں نظر آئیں۔باہر سے آنے والے مسافروں کی تلاشی کا عمل جاری تھا۔ ہم نے پلیٹ فارم سے ہی ڈیلی” سول” کی دو کاپیاں خرید لیں اور انگریزی اخبار پڑھتے ہوئے بڑے آرام سے شہر میں داخل ہو گئے ۔بیرون باغ دہلی دروازہ پر عوام کا سمندر ٹھاٹھیں مار رہا تھا۔ یہ لوگ کراچی میں مجلس کے رہنماؤں کی گرفتاری پر برانگیختہ تھے ۔ جذبات کی لہریں اچھل اچھل کر کناروں سے ٹکرا رہی تھیں۔ لوگ اتنے غصّے میں تھے کہ قادیانیوں کے دفاتر اور مکانات کو جلا کر بھسم کر دینا چاہتے تھے ۔کچھ ہی دیر بعد سٹیج پر شیخ التفسیرمولااحمدعلی لاہوریؒکی آمد ہوئی۔ عوامی شور یک لخت تھم گیا :
” ختمِ نبوت کے پروانو ! ہم قربانیاں دینے آئے ہیں ۔جانوں کے نذرانے پیش کرنے آئے ہیں۔ قید ہونے کے لئے آئے ہیں۔ ختم نبوت کے لئے تکالیف برداشت کرنے آئے ہیں ۔ یہی امتحان کی گھڑی ہے۔ پر سکون رہئے اور حکومت کو کوئی ایسا موقع مت دیجئے کہ وہ ہماری پرامن تحریک کو متشّدد بنا سکے۔ ”
مولانا لاہوری کی تقریر سُن کر لوگ کسی قدر شانت ہو گئے۔ ہم بیرون باغ سے نکل ہی رہے تھے کہ ایک وین میں کچھ بزرگ بیٹھے نظر آئے۔ ان میں مجلس احرار کے مولانا داؤد غزنوی، اہلحدیث عالم مولانا محمد اسمعیل، مولانا امین اصلاحی اور مولانا عبدالستار نیازی شامل تھے۔ چاند پوری بھاگ کر وین کے پاس گئے، کچھ بات چیت کی، پھر مجھے بھی اشارہ کر کے بلا لیا۔ ہم وین میں بیٹھ گئے۔ یہاں ایک پرجوش نوجوان سے ملاقات ہوئی جو بزرگوں کو اپنی بپتا سنا رہے تھے۔
” والدِ محترم کی گرفتاری کی خبر مجھے بذریعہ ٹیلیفون موصول ہوئی۔ میں طبیہ کالج لاہور کا سٹوڈنٹ ہوں۔ 27 فروری سے ہی پنجاب بھر میں چھاپے اور گرفتاریاں شروع ہو چکی ہیں۔ ”
“بھائی آپ کا تعارف ؟ ” چاند پوری نے دریافت کیا۔
“سیّد خلیل احمد ․․․․․ میں مولانا ابوالحسنات سیّد احمد قادری کا بیٹا ہوں۔ ”
” ماشاء اﷲ!ایک عظیم باپ کا مشن ایک قابل فخر بیٹا ہی آگے بڑھا سکتا ہے۔ آپ کے والد محترم سے کراچی جیل میں ملاقات ہو چکی ہے۔ ” چاند پوری نے کہا۔
والد محترم کے ذکر پرمولانا خلیل قادری مزید پُرجوش ہو گئے اور کہا:
” اگرچہ حکومت پوری قوت لگا کر اس تحریک کو کچلنا چاہتی ہے، لیکن ہم اس تحریک کو تھمنے نہیں دیں گے۔ ہم قیادت کی تلاش میں ہیں۔ عوام سینہ تان کر گھروں سے نکل چکے ہیں اور باہر کوئی ایسا رہنمانہیں جو تحریک کی قیادت سنبھال سکے۔ لے دے کے جماعت اسلامی ہی بچی ہے۔ اس نے بھی چپ سادھ لی ہے۔ ”
“چپ سادھ لی ہے؟ ” چاندپوری نے حیرت سے پوچھا۔
” مودودی صاحب کے پاس کل بھی جا چکے ہیں۔ آج پھر جا رہے ہیں۔ خدا کرے، وہ حامی بھر لیں۔ ”
ٹھیک گیارہ بجے یہ وفد اِچھرہ میں مودودی صاحب کی رہائش پر پہنچ چکا تھا۔
مولاناابوالاعلیٰٰ نے وفد کا پرتپاک استقبال کیا۔ اور بزرگوں کو ایک کمرے میں قالین پر بٹھا کر چائے پانی کے لئے جانے لگے ۔
سیّد خلیل احمد نے کہا: ” حضرت والا! چائے پانی پھر کبھی سہی۔ پہلے ہماری بات سن لیجئے ۔”
“جی فرمائیے! ” وہ وفد کے سامنے تشہد کی حالت میں بیٹھ گئے ۔
” ہم کل بھی آئے تھے،آج پھر حاضر ہوئے ہیں۔آپ ہماری قیادت فرمائیں۔”
” لیکن یہ تو بتائیے کہ آپ تحریک کو کن خطوط پر چلانا چاہتے ہیں ؟”
” ہم روزانہ جلسے کریں گے اور گرفتاریاں پیش کریں گے۔ ”
” دیکھیں میں کل بھی آپ کے ساتھ تھااور آج بھی آپ کے ساتھ ہوں، لیکن جہاں تک ” ڈائریکٹ ایکشن” کا تعلق ہے ،فی الحال میں آپ کا ساتھ نہیں دے سکتا۔ اس لئے کہ عوام میں تحریک کے لئے ہمدردی کے وہ جذبات نہیں ہیں جو ایسی تحریکوں کا خاصا ہوتے ہیں۔یہ وقت عوامی شعور بلند کرنے کا ہے ،نہ کہ گرفتاریاں دینے کا۔”
” آپ میرے ساتھ باہر چلیں اور لوگوں میں شعورکی بیداری اوراُن کا جوش و خروش دیکھیں۔ عوام تو دل و جان سے تحریک کے ہمدرد ہیں اور ہر قربانی کے لئے تیار ہیں ۔” سید خلیل نے کہا۔
“دیکھو بھائی! مجھے تحریک سے ہمدردی ہے، لیکن میں ڈائریکٹ ایکشن کی تجویز سے فی الحال متفق نہیں ہوں۔” انہوں نے صاف گوئی سے جواب دیا۔
” ڈائریکٹ ایکشن کا فیصلہ کمیٹی نے کیا تھا حضرت اور آپ بھی اس کمیٹی کا حصّہ ہیں ۔اس نازک گھڑی میں ساتھ چھوڑنے کا مقصد؟ یہ تو سراسر دھوکا ہے! ”
“بھائی ایسی بات نہیں ہے۔ اگر سب لوگ ایجی ٹیشن کریں گے،گرفتاریاں دیں گے تو پیچھے لڑے گا کون ؟ قلمی محاذ پر بھی تو کوئی ہونا چاہیے۔ میرا خیال یہ ہے کہ کچھ لوگ سامنے آکر لڑیں اور کچھ انڈر گراؤنڈ چلے جائیں ۔تمام انڈے ایک ہی تھیلی میں رکھ دیے تو نقصان ہوگا ۔”
مولانا نیازی نے کہا:
“حضرت! صفِ اول کے لوگ تو بس یہی ہیں جو یہاں بیٹھے ہیں۔ اس میں سے کتنے انڈرگراؤنڈ جائیں گے؟کتنے فرنٹ پر لڑیں گے؟ اگر آپ خود آگے نہیں آنا چاہتے تو ہمیں اختیار لکھ کر دے دیں ۔ ”
مولانا مودودی نے جواب دیا:
” دیکھئے! میری تجویز یہ ہے کہ جماعت اسلامی ، جے یو آئی اور جمعیت اہلحدیث پیچھے رہ کر کام کریں۔ لٹریچر وغیرہ شائع کریں۔ باقی مجلس احرار اسلام، جمعیت علماء پاکستان اور ادارۂ تحفظِ حقوقِ شیعہ چونکہ محاذ کھول چکے ہیں، لہٰذاوہ فرنٹ لائن پہ لڑتے رہیں۔ ہم پیچھے رہ کر اُن کے لئے پروپیگنڈہ کرتے رہیں گے ۔”
اس پر اہلحدیث رہنمامولانا محمداسمٰعیل بول اٹھے :
” مجلس احراراسلام اس تحریک کی میزبان ہے،جبکہ جمعیت اہلحدیث بھی ڈائریکٹ ایکشن میں کود چکی ہے حضرت!فیصل آباد میں اہلحدیثوں نے گرفتاریاں پیش کر دی ہیں اور جے یو آئی کے مولانا لاہوری ؒابھی ابھی جلسۂ عام میں تقریر کر کے محاذ کھول چکے ہیں ۔اب تو لے دے کے آپ ہی بچے ہیں۔ اس وقت سب کی نظریں آپ پر ہیں۔”
” میں آپ کو اختیارات لکھ کر دے دیتا ہوں، تحریک ناکام ہونے لگے گی تو میں اسے سنبھال لوں گا، فی الحال ہم پیچھے رہ کر لٹریچر شائع کریں گے اورذہن سازی کریں گے ۔”
“آپ چلائیں مُنشی گلاب سنگھ کا چھاپہ خانہ!” سیّد خلیل قادری غصہ سے اُٹھ کھڑے ہوئے ۔ ” ہم چلائیں گے تحریک !ہم مار بھی کھائیں گے، گرفتاریاں بھی دیں گے اور جانیں بھی دیں گے۔ یہ ختمِ نبوت کا مسئلہ ہے۔ کوّے کے حلال ،حرام ہونے کا مسئلہ نہیں ہے کہ جس پر کاغذ سیاہ کئے جائیں!
ڈائریکٹ ایکشن
بیرون باغ جلسے میں اب مجمع کی تعداد دوگنی ہو چکی تھی۔اندرون پنجاب سے لوگ مسلسل لاہور پہنچ رہے تھے ۔ بڑے بڑے جلوس سیلاب کی طرح شہر میں داخل ہورہے تھے اور پولیس کا حفاظتی حصار کسی کچّے بند کی طرح ٹوٹ چکا تھا۔مولانا عبدالستارنیازی سٹیج پر تشریف لائے اور اعلان کیا:
” آج سے تحریک ختم نبوت کا نیا مرحلہ شروع ہو چکا ہے ۔ہماری مرکزی قیادت پابندِ سلاسل ہو چکی ہے، اب تحریک کی قیادت مولانا ابوالحسنات کے فرزند امین الحسنات سید خلیل احمد قادری کریں گے۔جبکہ مجلس احراراسلام کے سالارمیاں معراج الدین کی قیادت میں بیرون دہلی دروازہ میں رضاکاروں کی بھرتی کے لیے کیمپ کھول دیاگیاہے۔اس میں بڑھ چڑھ کر اپنانام لکھوائیں اورقربانیوں کی تاریخ رقم کردیں! ”
نعروں کی گونج میں سیّد خلیل احمد مائک پر آئے اور کہا:
” ختم نبوت کے جانثارو! میں کوئی واعظ یا مُفتی نہیں ہوں ۔طبیہ کالج کا طالب علم ہوں۔ فنِ تقریر سے بھی ناواقف ہوں اور میں آج آپ کے سامنے اس لئے نہیں کھڑا کہ میرے والدِ محترم قید ہو گئے ہیں،بلکہ سرکار مدینہ ﷺ کے تاج و تختِ نبوت کی حفاظت کا سوال ہے۔ اگر آج بھی ہم نہ اُٹھّے تو پھر کوئی نہ اٹھ سکے گا ! ”
دُور دُور تک انسانوں کا ایک سمندر موجزن تھا۔شام ساڑھے چار بجے مولانا غلام دین کی قیادت میں 25 رضاکاروں کا ایک جتھّہ گرفتاری دینے کے لئے چیئرکراسنگ کی طرف روانہ ہوا۔ سفید اُجلے لباس پہنے ، گلے میں پھولوں کے ہار ڈالے ، عاشقانِ ختمِ نبوت اپنے آپ کو زندانوں کے سپرد کرنے نکلے ۔ ان کے پیچھے کم و بیش ایک لاکھ مسلمانوں کا ٹھاٹھیں مارتا ہوا سمندر تھا۔سڑک کے دونوں جانب گھروں سے ان پر پھولوں کی پتیاں نچھاور کی جا رہی تھیں۔ جلوس کا نظم و ضبط حیرت انگیز تھا۔ جذبات پر قائدین کا مکمل کنٹرول تھا۔ دیکھنے والے دم بخود تھے کہ وہ کون سی طاقت ہے جو انسانوں کے اس متحرک جنگل کو سنبھالے ہوئے ہے ۔ نمازِ عصر کا وقت آیا تو میدان میں جس قدر لوگ سما سکتے تھے کھڑے ہوگئے ۔ مولانا غلام دین کی معیّت میں نمازِ عشق ادا ہوئی، پھر رضاکاروں نے خود کو گرفتاری کے لئے پیش کر دیا۔پولیس کی گاڑیاں قیدیوں کو لے کر شاہی قلعہ کی طرف روانہ ہو گئیں۔ سب کو معلوم تھا کہ گرفتاری کا مطلب اذیّت ناک قید،یا شہادت کے سوا کچھ نہیں۔ انتظامیہ کے اعلیٰٰ عہدوں پر مرزائی مسلط تھے ،مگر اس کے باوجود عاشقانِ پاک طینت کے قدم ایک لحظہ کے لئے بھی نہ ڈگمگائے ۔
اگلے روز اسٹیبلشمنٹ کے دجّال سر جوڑ کر بیٹھ گئے۔مرزائیت کے خلاف علماء کا اتحاد ،لاکھوں کے اجتماعات ،شہر شہر سے امڈتے جلوس اور قافلے ، یہ سب گورنمنٹ کی برداشت سے باہر تھا۔ وہ اس پرامن تحریک کو بہرصورت سبوتاژ کرنا چاہتی تھی۔ لاکھوں کے اس مجمع پر نہ تو لاٹھی چارج ممکن تھا اور نہ یہ آنسو گیس ان دنوں اتنی عام ہوئی تھی۔یکم مارچ 1953ء کو لاہور میں دفعہ 144 نافذ کر دی گئی۔دہلی دروازے پر اس روز بھی ساٹھ ہزار فدائین کا مجمع تیّار کھڑا تھا۔
” آج کون سے رہنما گرفتاری دیں گے۔ ” ہر کوئی ایک دوسرے سے پوچھ رہا تھا۔ اچانک مولانا احمد علی لاہوریؒلاٹھی ٹیکتے ہوئے سٹیج پر تشریف لائے ۔ سفید براق داڑھی ، چہرے پر بڑھاپے کا نور ، پیرانہ سالی اور مسلسل بیماری سے جسم لاغر !
” آج رضاکاروں کے ساتھ گرفتاری دینے میں جاؤں گا ! ”
فضاء نعرۂ تکبیر سے گونج اُٹّھی۔اعلاءِ کلمتہ الحق کی خاطرزندگی بھر انگریزوں کی جیلوں میں کی چکّی پیسنے والے مولانااحمد علی لاہوری ؒکو ربّ تعالی نے عشقِ محمّد ﷺ کی قید کے لئے قبول فرما لیاتھا۔ آپ نے اعلان کیا :
” حکومت جان لے کہ ایک مسلمان کے لئے ختمِ نبوت پر جان وارنے سے بڑی کوئی سعادت نہیں۔آج ہر وہ شخص جس کے دل میں ایمان کی رمق بھی موجود ہے ،تختِ محمدی ﷺکے دفاع کے لئے سینہ سپر ہے۔حکومت عوام سے ٹکرانے کا نتیجہ سوچ لے کہ یہ سراسر خسارے کا سودا ہے ! ”
مولانا لاہوریؒ نے رضاکاروں کو صبروتحمل کی تلقین کرتے ہوئے اﷲ کی راہ میں سختیاں برداشت کرنے کی ہدایات فرمائیں اور ہر قسم کی اشتعال انگیزی سے بچنے کی تاکید فرمائی۔آپ رضاکاروں کا قافلہ لے کر گورنمنٹ ہاؤس کی طرف چلے تو عوام کا ایک سمندر پیچھے پیچھے تھا۔ رضاکاروں کے گلے میں پھولوں کے ہار تھے اور سوائے درود و سلام کے مجمع سے اور کوئی صدا بلند نہیں ہو رہی تھی :
سلام اے آمنہ کے لال ، اے محبوبِ سبحانی
Mسلام اے فخرِ موجودات ، فخرِ نوع انسانی
Q فدایانِ ختمِ نبوت کی سج دھج اور مقبولیّت دیکھ کر حکومتی ایوان لرز اُٹّھے۔گورنر ہاؤس سے کچھ دُور ہی رکاوٹیں لگا کر جلوس کو روک لیا گیا۔آئی جی ، ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ ، کمشنر اورہوم سیکرٹری بذاتِ خود موجود تھے ۔آج پولیس نہایت ہی اوچھے ہتھکنڈوں پر اتری ہوئی تھی۔ جگہ جگہ رکاوٹیں لگا کر نہ صرف جلوس کو روکا جارہا تھا، بلکہ لاٹھی چارج سے مشتعل کرنے کی بار بار کوشش بھی کی جا رہی تھی۔جلوس کے شرکاء اگر چاہتے تو ایک جست میں ان رکاوٹوں کو خس و خاشاک کی طرح بہا سکتے تھے، لیکن صبروتحمل کا درس اس بحرِبے کراں کو روکے ہوئے تھا۔پولیس نے حضرت مولانا لاہوری ؒ،قاضی احسان احمد شجاع آبادی ؒور دیگر رضاکاروں کو پبلک سیفٹی ایکٹ کے تحت گرفتار کر لیا۔ گرفتار شدگان کے گرد پولیس نے گھیرا ڈال لیا۔ اس کے بعد پولیس کی گاڑیاں حضرت لاہوریؒ کو لے کر شاہی قلعے کی طرف روانہ ہو گئیں اور رضاکاروں کو دو ٹرکوں میں سوار کرکے ، لاہور سے 80 کلومیٹر دُور چھانگا مانگا میں جاکر اتار دیا گیا۔عِشق کے مسافر رات بھر بھوکے پیاسے ، سفر کرتے کرتے اگلے دن شام کو دوبارہ لاہور پہنچ گئے ۔
حکومت تحریک کو تھکا کرختم چاہتی تھی۔اس حکومتی عمل سے عوام کسی حد تک بدنظم ہو گئے ۔ چناچہ یکم مارچ کو سارا دن غیر منظم جلوس نکلتے رہے ۔ ہزارہا رضاکار ، پھولوں کے ہار پہن کر ، دورود شریف پڑھتے ہوئے نکلتے رہے اور پولیس طاقت کے زور پر انہیں منتشر کرتی رہی۔اس روز یہ ثابت ہو گیا کہ حکومت مجلس عمل کا چیلنج قبول کر کے بری طرح پِٹ چُکی ہے ۔ اور اس کے پاس اوچھے ہتھکنڈوں کے سوا اب کوئی ہتھیار نہیں رہا۔
کچّی مٹّی کا گھر
رات دس بجے ہم موتی بازار میں ایک پرانی بلڈنگ کے سامنے کھڑے تھے ۔سخت سردی کے باوجود شہر میں پولیس کا گشت بڑھا دیا گیا تھا۔ اس علاقے میں سڑک پر خال خال ہی لوگ نظر آ رہے تھے ۔
“وہ رہا روزنامہ’’ افلاک‘‘ کا دفتر ․․․ اوپر ۔ ” چاند پوری منہ سے بھاپ چھوڑتے ہوئے بولے ۔
” واہ، تو شاہیں ہے، بسیرا کر پہاڑوں کی چٹانوں میں ” میں نے سردی سے کپکپاتے ہوئے چوتھی منزل پر بنے ایک ڈربہ نماء آفس کی پدیرائی کی۔
“میں چاہ رہا تھا کہ اپنا چھاپہ خانہ یہاں سے شفٹ کردوں۔ آج کل چھاپوں کا سیزن چل رہا ہے۔”
“کوئی پاگل ہی ہوگا جو یہاں چھاپہ مارے گا۔ ”
“کل روزنامہ’’ زمیندار ‘‘کے آفس میں اچھی خاصی توڑ پھوڑ ہوئی ہے ۔ ”
” ’’زمیندار‘‘ کی بات الگ ہے ۔ویسے بھی وہ لوگ مولانااختر علی خان کے اچانک گاؤں چلے جانے پر برہم تھے ۔”
” وہ والدِ محترم کی تیمارداری کے لئے گئے ہیں۔ آج آ جائیں گے ۔بہرحال ہمیں اپنا چھاپہ خانہ آج ہی اٹھا لینا چاہیے۔ ”
” لیکن شفٹ کہاں کریں گے ؟لاہور میں تو اب کوئی بھی ٹھکانہ محفوظ نہیں رہا۔”
” بابا غوث محمد چھولے والے کے پاس ”
” بابا غوث تو مہاجر ہے ۔اُس کے پاس ٹھکانہ کہاں ؟ ”
“وہ “تنگ بازار” میں چوکیداری کرتا ہے، رات کو وہیں بلڈنگ کی سیڑھیوں تلے سو جاتا ہے۔ وہاں کچھ کاٹھ کباڑ اکٹھا کر رکھا ہے اس نے ۔وہیں چھپا دیں گے ۔حالات بہتر ہوتے ہی واپس لے آئیں گے۔ ”
اسی دوران پولیس کی ایک گاڑی سائرن بجاتی ہوئی اِدھر سے گزری تو ہم بلڈنگ کی اوٹ میں ہوگئے۔دن بھر پولیس اور مظاہرین کے بیچ جھڑپیں ہوئی تھیں۔ پولیس نے جلوس پر لاٹھی چارج کیا تو مظاہرین میں سے کچھ نے بوتلیں اور ڈنڈے پھینکنے شروع کر دئے ۔ سارا دن مسجد وزیرخان سے اعلان ہوتا رہا کہ کارکنان اشتعال کا مظاہرہ نہ کریں، لیکن مظاہرین میں ایک ایسی اقلیّت بھی شامل ہو چکی تھی جو شرارت کا کوئی موقع ہاتھ سے نہ جانے دیتی تھی۔ان میں اکثر قادیانی تھے، جن کا مقصد انتشار پیدا کرکے تحریک کو سبوتاژ کرنا تھا۔ ہم ماچس کی تیلیاں جلاتے ہوئے سیلن زدہ عمارت میں داخل ہوئے ۔ بلڈنگ کے چیدہ چیدہ اپارٹمنٹس ہی آباد تھے ۔ لوگ سردی اور شہر کے حالات کی وجہ سے بستروں میں دبکے پڑے تھے ۔ کہیں کہیں سے ریڈیو بجنے کی آواز آ رہی تھی۔ ہم بلی کی طرح پنجوں پر چلتے چوتھی منزل تک پہنچے ۔ چاند پوری نے جیب سے چابیوں گچھانکالا اور کچھ دیر “کڑچ کڑچ ” کرنے کے بعد بھاری بھر کم تالہ کھول ہی لیا۔ دروازہ ایک غصیلی چرّاہٹ کے ساتھ کھلا۔اندر عجیب سی دواؤں اور سپرٹ جیسی بو پھیلی ہوئی تھی۔ کھڑکی سے آنے والی لائٹ پول کی روشنی میں ہم نے سائیکلو سٹائل مشین ایک گٹھڑی میں باندھی۔ پھر اسے اٹھا کر بمشکل نیچے لائے ۔ چاند پوری مجھے بلڈنگ کی سیڑھیوں کے پاس بٹھا کر گدھا گاڑی کی تلاش میں نکل کھڑے ہوئے ۔اس دوران وہاں سے دو بار پولیس وین گزری۔ پھر ایک نعت خوانوں کی ٹولی اونچی اونچی آواز میں نعت پڑھتی ہوئی گزری:
مدینے کو جائیں یہ جی چاہتا ہے
میں سیڑھیوں کے نیچے خاموش دبکا کھڑا رہا۔تقریبا نصف گھنٹہ بعد چاندپوری پلٹے تو سردی سے میری قلفی جم چکی تھی۔ہم نے ٹھنڈا ٹھار چھاپہ خانہ اٹھا کر گدھا گاڑی پر ڈالا اور خود بھی جست لگا کر بیٹھ گئے ۔جگہ جگہ پولیس کا ناکہ تھا، لیکن ہمیں کسی نے نہ پوچھا۔ اہلکارکمبل اوڑھے کونوں کھدروں میں رونق جمائے بیٹھے تھے ۔ کہنے کو شہر میں دفعہ 144 نافذ تھی لیکن پولیس اور مظاہرین آپس میں شیروشکر ہو چکے تھے ۔ کہیں چائے تیار ہو رہی تھی، کہیں بسکٹ بٹ رہے تھے تو کہیں حلوہ پوری تقسیم ہو رہی تھی۔لاہور کا درجۂ حرارت 8 ڈگری سینٹی گریڈ کو چھو رہا تھا۔ دُور دراز سے آنے والے فدائین بستر کمبل ہمراہ لائے تھے، مگر اہلیانِ لاہور نے بھی خدمت گزاری میں کسر نہ چھوڑی تھی۔لوگ گھروں سے بستر ، چادریں ، کمبل ،تکئے اور ضرورت کی چیزیں اٹھا اٹھا کر مہمانانِ ختم نبوت میں تقسیم کر رہے تھے ۔
حکومت نے دہلی دروازے اور موچی گیٹ کی حدود میں اجتماع پر پابندی لگائی تو فدائین نے مسجد وزیرخان کو آباد کر لیا۔ پنجاب بھر سے آنے والے رضاکاروں کے قافلے اب مسجد وزیرخان کا رخ کر رہے تھے ۔ آنے والوں میں نوجوان بھی تھے اور بوڑھے بھی۔ دفعہ 144 اور ہڑتال کے باوجود اتنی مخلوق کو سنبھالنا،ان کے کھانے پینے ، رہائش کے انتظامات کرنا ، ان کے مسئلے مسائل ، روزانہ کی بنیاد پر اُن کی ترتیب اور گرفتاریاں ، پولیس سے جھڑپیں تحریک کا سب سے مشکل اور کڑا مرحلہ تھا ۔جسے قائدینِ تحریک ختم نبوت بڑی جانفشانی سے نبھا رہے تھے ۔مجلس احراراسلام، جمعیت اہلحدیث اور جمعیت علماء اسلام کی مرکزی قیادت پس زنداں تھی۔ تحریک کی قیادت اب مولانا خلیل احمد قادری ، مولانا غلام غوث ہزاروی ، چودھری ثناء اﷲ بھٹّہ ، مولانا بہاء الحق قاسمی،مولانا سیدابوذربخاری اور مولانا عبدالستار نیازی کے ہاتھ میں تھی ۔لاہور کے درو دیوار کسی نعت خوان کی پُردرد آواز سے اب بھی گونج رہے تھے :
میں لجپالاں دے لَڑ لگیّاں
+میرے توں غم پرے رہندے
1مِری آساں، اُمیداں دے
%سدا بوٹے ہرے رہندے
Wخیالِ یار وِچ میں مست رہناں ہاں دِنّے راتی
مرے دل وِچ سجن وسدا مرے دِیدے ٹھرے رہندے
تقریبا نصف گھنٹہ لاہور کی مختلف سڑکوں پر گدھا گاڑی دوڑانے کے بعد ہم “تنگ بازار” کی ایک خستہ حال بلڈنگ کے سامنے جا رُکے ۔ مشین اتار کر نیچے رکھی اور ریڑھی بان کو تین پائی دیکر رخصت کیا۔
” بابا غوث ․․․بابا غوث” چاند پوری نے صدا لگائی۔ میرے دانت سردی سے گج گج کر رہے تھے
” بابا غوث ․․ او ․․ بابا غوث ”
اس دوران اوپر والی کسی منزل پر کھڑ پڑ ہوئی۔ پھر ایک کھڑکی کا نصف پٹ کھلا۔
” بابا غوث تے فوت ہو گئے نیں۔ ” ایک بزرگ نے کھڑکی سے جھانک کر کہا۔
” انا ﷲ وا انا الیہ راجعون۔کب فوت ہوئے؟ ” چاند پوری نے کہا۔
” ہفتہ ہویا۔ ” باباجی نے کہا۔
” افسوس! ہم کراچی گئے ہوئے تھے۔پتا ہی نہ چل سکا۔ ”
” سانوں وی نئیں پتا چلیا پتّر! صفائی کرن والے نے دسیا کہ بابا دو دِن توں اٹھیا نئیں۔ ویکھیاتے ہمیشہ واسطے اٹھ چکیا سی۔ــ
(بیٹا!ہمیں بھی نہیں پتا چلا۔صفائی کرنے والے نے بتایا کہ بابا دودِن سے نہیں اٹھا۔جب جا کر دیکھا تو وہ ہمیشہ کے لیے جاچکاتھا۔)
” کیا ہوا ؟ کوئی بیماری وغیرہ تھی ؟ ” میں نے سوال کیا۔
“سردی توں وڈی کیہڑی بیماری مہاجر نوں ․․․․ ”
(مہاجرکو سردی سے بڑھ کرکون سی بیماری ہوسکتی ہے۔) یہ کہہ کر بزرگ نے کھڑکی کے پٹ بند کر دئے ۔
ہم نے سائیکلو سٹائل مشین گھسیٹ گھساٹ کر سیڑھیوں کے نیچے رکھی اور تھکے قدموں سے مسجد وزیرخان کی طرف چل پڑے ۔ لاہور کی ویران سڑکوں پر چلتے ہوئے چاند پوری نے کہا:
” خدا بابا غوث کی مغفرت کرے ۔بے چارہ آزادی کی قسطیں چکاتے چکاتے تہہ خاک جا سویا۔ وہ لدھیانہ میں ایک خوبصورت گھر چھوڑ کر آیا تھا۔ خاندان رستے میں کٹ گیا۔جمع پونجی پاس تھی،نہ رہنے کو ٹھکانہ تھا۔ بس لے دے کے چھولوں کا ایک ٹھیلہ تھا ۔رات یہیں سیڑھیوں کے نیچے پڑ جاتا تھا۔اکثر کہا کرتا تھا کہ جس دن ربوہ کی زمین مسلمان مہاجروں کو ملے گی۔ اُس دن میں بھی پاکستان میں اپنا گھر بناؤں گا۔ ربوہ کی زمین تو نہ مل سکی، لیکن گھرآخر مل ہی گیا ․․․کچّی مٹی کا گھر ! ”
(جاری ہے)
٭……٭……٭