عادل یزدانی
مرے حبیب کا پر تو سخن سخن پر ہے مرے حبیب کا پر تو دہن دہن پر ہے
یونہی نہیں ہیں یہ صبحیں معطر و تازہ مرے حبیب کا پر تو کرن کرن پر ہے
نمو پذیر وفورِ کرم سے نخل و شجر مرے حبیب کا پر تو چمن چمن پر ہے
ہے سرو سرو پہ نوری جمال سایہ فگن مرے حبیب کا پر تو سمن سمن پر ہے
ردائے عالم امکان صاف کہتی ہے مرے حبیب کا پر تو شکن شکن پر ہے
حجاب و شرم و حیا کے لباس کی صورت مرے حبیب کا پر تو دلھن دلھن پر ہے
گواہی ملتی ہے تاریخ آدمیت سے مرے حبیب کا پر تو زمن زمن پر ہے
کھلا یہ شان صحابہ کو دیکھ کر عادلؔ مرے حبیب کا پر تو سجن سجن پر ہے