پروفیسر محمد اکرام تائبؔ
سمجھ آتی نہیں گنجینۂ اسرار کی باتیں سبھی حیران ہیں سن کر خدا کے یار کی باتیں
عروجِ عظمتِ انساں وہی معراج کا قصہ معمہ ہیں بنی اب تک فلک سے پار کی باتیں
قمر کو توڑنا پھر جوڑنا سورج پلٹ آنا سبھی ہیں ماورائے عقل اس دلدار کی باتیں
کھلایا پیٹ بھر کر دوسروں کو خود رہے بھوکے زمانہ کس طرح بھولے ترے ایثارے کی باتیں
یہی اک آستانہ ہے سکونِ قلب کا مرکز مداوا ہر مرض کا ہیں مرے غم خوار کی باتیں
یہی جی چاہتا ہے رات دن سنتا رہوں تائبؔ کوئی کرتا رہے بیٹھا میری سرکار کی باتیں