اور منکرین حدیث کے اعتراضات کا علمی جائزہ (قسط:۱۴)
حافظ عبیداﷲ
حدیث نمبر 12:
’’(امام مسلم فرماتے ہیں) مجھ سے بیان کیا ابو خیثمۃ زُہیر بن حرب اور محمد بن مہران الرازی نے (یہ دونوں کہتے ہیں) بیان کیا ہم سے ولید بن مسلم نے،وہ کہتے ہیں بیان کیا ہم سے عبدالرحمن بن یزید بن جابر نے، اُن سے یحییٰ بن جابر طائی نے، اُن سے عبدالرحمن بن جبیر بن نُفَیر نے، اُن سے ان کے والد جُبیر بن نُفیر نے، اُن سے حضرت نواس بن سَمعانؓ نے بیان کیا …… (طویل حدیث ہے جس میں دجّا ل اور یاجوج و ماجوج کے خروج کا بیان ہے، اسی میں نبی کریم e نے فرمایاکہ) اِذ بَعَثَ اللّٰہُ عیسیٰ بن مریم، فَیَنزِلُ عِندَ المَنارۃِ البَیضَاءِ شَرقَي دِمَشق……الی آخر الحدیث۔‘‘
(دجال اپنی شعبدہ بازیاں دکھارہا ہوگاکہ) اﷲ تعالیٰ حضرت عیسیٰ ابن مریم iکو بھیجیں گے پس آپ دمشق شہر کے مشرقی حصے میں سفید مینارے کے پاس نازل ہوں گے ۔
(صحیح مسلم، ح 110(2937)، باب ذکر الدجّال وصفتہ وما معہ)
فائدہ: یہی حدیث امام ابوداؤد نے اپنی سنن میں ’’ولید بن مسلم‘‘سے ’’صفوان بن صالح دمشقی‘‘ کے واسطے سے اور امام احمد بن حنبل نے بلاواسطہ ’’ولید بن مسلم‘‘ سے روایت کی ہے۔
(سنن ابي داود، حدیث نمبر: 4321 /مسند احمد، حدیث نمبر: 17629)
راویوں کا تعارف
ابو خیثمۃ زُہیر بن حرب: ان کا تعارف ہوچکا۔
محمد بن مہران الجَمَّال (ابو جعفر) الرازي
امام ذہبی نے ان کے بارے میں لکھا ہے: ’’الحافظ الثقۃ‘‘ (حدیث کے حافظ اور ثقہ)۔ ابو حاتم رازی نے انہیں ’’صدوق‘‘ (سچا) کہا۔ یحییٰ بن معین نے ان کے بارے میں کہا: ’’لیس بہ بأس‘‘ (ان کی حدیث لینے میں کوئی حرج نہیں)۔حافظ ابن حجر نے انہیں ’’ثقہ اور حافظ‘‘ کہا ہے۔ ابن حِبان نے انہیں ’’ثقہ‘‘ لوگوں میں شمار کیا ہے۔ ان کی وفات 239ھ کے قریب ہوئی۔
(الجرح والتعدیل، ج8 ص93 /تہذیب التہذیب، ج9 ص478 /سیر اعلام النبلاء، ج11 ص143 /تقریب التہذیب، ص509 /الثقات لابن حِبان، ج7 ص435 /التاریخ الکبیر، ج1 ص245)
صفوان بن صالح بن صفوان بن دینار الدمشقی أبو عبدالملک
سنن ابی داؤد کی سند میں ولید بن مسلم سے روایت کرنے والے صفوان بن صالح ہیں ، امام ذہبی نے ان کا تعارف یوں کروایا ہے : ’’الحافظ المحدث الثقۃ، مؤذن جامع دمشق‘‘ (حدیث کے حافظ،محدث، ثقہ، اور دمشق کی جامع مسجد کے مؤذن تھے)۔ امام ابوداؤد نے کہا : ’’یہ حُجت ہیں‘‘۔ ابوحاتم رازی نے کہا :’’صدوق‘‘ (سچے ہیں)۔ امام ترمذی، مسلمۃ بن قاسم اور ابوعلی الجیانی نے انہیں ’’ثقہ‘‘ کہا۔ ابن حِبان نے بھی ان کا شمار ’’ثقہ‘‘ لوگوں میں کیا ہے ۔ ابن حِبان کے مطابق یہ سنہ168 یا 169 ہجری میں پیدا ہوے اور ان کی وفات سنہ257 ہجری میں ہوئی۔
(الجرح والتعدیل، ج4 ص425 /تہذیب التہذیب، ج4 ص426 /سیر اعلام النبلاء، ج11 ص475 /تاریخ دمشق، ج24 ص137 /الثقات لابن حِبان، ج8 ص321 /التاریخ الکبیر، ج4 ص309 /تاریخ الاسلام، ج5 ص841 /الکاشف، ج1 ص503)۔
الولید بن مسلم : ان کا تعارف حدیث نمبر7 میں ہوچکا۔
عبدالرحمن بن یزید بن جابر(ابوعُتبۃ) الأزدي الدمشقي
امام ذہبی نے ان کا تعارف یوں کرایا ہے:’’الاِمام الحافظ، فقیہ الشام‘‘ امام، حافظ اور شام کے فقیہ، نیز لکھتے ہیں کہ ’’یہ اموی خلیفہ عبدالملک بن مروان کے دورِ خلافت میں پیدا ہوئے اور میرے خیال میں انہوں نے بعض صحابہ کو بھی دیکھا ہے‘‘۔ یحییٰ بن معین ، ابوحاتم، ابن سعد، نسائی، عِجلی، ابن حِبان اور دوسرے ائمہ نے انہیں ’’ثقہ‘‘ کہا ہے۔ ابن المدینی کہتے ہیں کہ ’’ان کا شمار صحابہ کے بعد فقہاء شام کے دوسرے طبقہ میں ہوتا ہے‘‘۔ امام ابوداؤد کہتے ہیں کہ : ’’ہو من ثقات الناس‘‘ وہ ثقہ لوگوں میں سے ہیں۔ خلیفہ بن خیاط اور ابن حِبان کے مطابق ان کی وفات سنہ153ہجری میں ہوئی۔ ان کا تعارف مندرجہ ذیل کتب میں موجود ہے۔
(الجرح والتعدیل، ج5 ص299 /التاریخ الکبیر للبخاري، ج5 ص365 /تہذیب الکمال، ج18 ص5 /تاریخ الاسلام للذہبي، ج4 ص132 /تذکرۃ الحفاظ، ج1 ص137 /سیر اعلام النبلاء، ج7 ص176 /تہذیب التہذیب، ج6 ص297 /معرفۃ الثقات للعِجلي، ج2 ص90 /الثقات لابن حِبان، ج7 ص81 /میزان الاعتدال، ج2 ص599 /الکاشف، ج1 ص568 وغیرہا من الکتب)
ایک وضاحت: حافظ ابن حجر نے تہذیب التہذیب میں لکھا ہے کہ ’’وقال الفلاس ضعیف الحدیث وہو عندہم من أہل الصدق، روی عند أہل الکوفۃ أحادیث مناکیر‘‘ فلاس (ابو حفص عمرو بن علی البصری) نے کہا ہے کہ وہ ضعیف الحدیث ہیں، جب کہ اُن (یعنی ائمہ رجال) کے نزدیک وہ سچے ہیں، کوفہ والوں کے نزدیک انہوں نے منکر احادیث روایت کی ہیں ۔ پھر حافظ ابن حجر نے خود ہی خطیب بغدادی کے حوالے سے لکھا ہے کہ : ’’قال الخطیب کأنہ اشتبہ علی الفلاس بابن تمیم‘‘ لگتا ہے کہ فلاس کو ’’عبدالرحمن بن یزید بن تمیم‘‘ کا شبہ ہوا ہے (ابن تمیم ضعیف ہیں نہ کہ ابن جابر)۔
تمنائی مفروضے اور مغالطے :
قارئین محترم!آپ نے ملاحظہ فرمایا کہ ائمہ رجال وجرح وتعدیل نے عبدالرحمن بن یزید بن جابر الأزدي کو ثقہ اور قابل اعتماد فرمایا، لیکن یہاں عمادی صاحب نے اپنے ’’فنِ تلبیس ‘‘ کا خوب مظاہر ہ کیا ہے، لکھتے ہیں: ۔
’’عبدالرحمن بن یزید بن جابر جو تنہا ذمہ دار ان حدیثوں کے ہیں وہ نہایت مجروح اور بالکل ناقابل اعتبار شخص ہیں۔ مگر ایسے موقع پر محدثین یہ کرتے ہیں کہ اس ایک شخص کو دو شخص قرار دے دیتے ہیں ، کنیت یا نسبت کا فرق پیدا کرکے یا دادا پردادا کسی کا نام بدل کر یہ ثابت کرتے ہیں کہ وہ جرحیں تو فلاں کے متعلق ہیں اور فلاں تو ثقہ ہے مجروح نہیں…… (پھرذرا آگے لکھتے ہیں)…… یہاں بھی عبدالرحمن بن جابر بن یزید (غالباً عمادی صاحب عبدالرحمن بن یزید بن جابر لکھنا چاہتے تھے۔ناقل) کو دو شخص قرار دے دیا ہے ، اور ایک کو تمیمی السلمی لکھ کر اس کو اُن جرحوں کا مستحق قرار دیا ہے جو جرحیں متقدمین ائمہ رجال نے عبدالرحمن بن جابر بن یزید (پھر غلط نام لکھا۔ناقل) پر کی ہیں اور جس کے نام کو تمیمی کی قید سے آزاد رکھا ہے ، مگر اس کو کیا کِیا جائے کہ باوجود اس کے تھوڑی بہت جرح کہ فلاس نے ان کو ضعیف کہا ہے اور اہل کوفہ کے پاس انہوں نے بہت سی منکر حدیثیں روایت کیں، اتنا ان کے متعلق بھی قلم سے نکل ہی گیا اور حقیقت یہ ہے کہ دونوں عبدالرحمن بن یزید بن جابر ایک ہی ہیں اور متقدمین ائمہ رجال کی ساری جرحیں انہیں ایک کے متعلق ہیں اور یہی تنہا ان حدیثوں کے ذمہ دار ہیں جو نواس بن سمعان سے مسلم ، ترمذی، ابو داؤد اورابن ماجہ میں روایت کی گئی ہیں اور ان کے ساتھ مل کر دوسرے دو تین شامیوں ، خراسانیوں نے نواس و سمعان کے نام گھڑے ‘‘۔
(انتظارِ مہدی ومسیح، ص208 – 209)
قارئین محترم! یہ تحریر عمادی صاحب کی غلط بیانیوں اور تلبیسات کا مجموعہ ہے، سب سے پہلے عمادی صاحب نے دعویٰ کیا ہے کہ ’’عبدالرحمن بن یزید بن جابرنہایت مجروح اور ناقابل اعتبار ہیں‘‘،ہم نہیں جانتے یہ بات عمادی صاحب کو الہام ہوئی یا ان پر وحی نازل ہوئی، کیونکہ اُن کے دنیا میں آنے سے پہلے گزرے ائمہ رجال تو ’’عبدالرحمن بن یزید بن جابر‘‘ کو ثقہ اور قابل اعتبار کہتے اور لکھتے ہیں جیسا کہ ہم باحوالہ بیان کرچکے ، پھر عمادی صاحب نے اپنے اس دعوے کی کوئی دلیل بھی پیش نہیں کی لہٰذا ہم یہ کہنے میں حق بجانب ہیں کہ عمادی صاحب کا یہ دعویٰ بلا دلیل اوران کی تلبیس کا شاہکار ہے ، ہم صرف اتنا عرض کریں گے کہ :
گو فکرِ خداداد سے روشن ہے زمانہ
Cآزادیِ افکار ہے ابلیس کی ایجاد
اس کے بعد عمادی صاحب نے دو الگ الگ شخصیتوں کو ایک بنانے کی اپنی مشہورِ زمانہ ’’شعبدہ بازی‘‘ دکھائی ہے، جس سے ان کے ’’یارانِ طریقت‘‘ نے تو خوب انہیں داد دی ہوگی لیکن افسوس علمی میدان میں خیالی قصے کہانیوں اور افسانوں کی کوئی حیثیت نہیں ہوتی، چودھویں صدی میں پیدا ہونے والا ایک شخص بغیر کسی دلیل کے صرف اپنے اٹکل پجو سے ہمیں یہ بتا رہا ہے کہ ’’عبدالرحمن بن یزید بن جابر الأزدی‘‘ اور ’’ عبدالرحمن بن یزید بن تمیم السلمی‘‘ ایک ہی شخصیت ہے،جبکہ ائمہ جرح وتعدیل ان دونوں کا تعارف الگ الگ شخصیت کے طور پر کراتے ہیں، پہلے کا تعارف تو آپ نے پڑھ لیا، اگر عبدالرحمن بن یزید بن تمیم السلمی کے بارے میں جاننا ہو تو مندرجہ ذیل کتابوں میں دیکھ لیا جائے:
(الجرح والتعدیل، ج5 ص300 /التاریخ الکبیر للبخاري، ج5 ص365/تاریخ الاسلام للذہبي، ج4 ص131 /سیر اعلام النبلاء، ج7ص 177 /تہذیب التہذیب، ج6 ص295)۔
پھرکتب اسماء الرجال میں ’’عبدالرحمن بن یزید بن جابر الأزدي‘‘ کے ایک بھائی کا بھی تعارف موجود ہے جن کا نام ’’یزید بن یزید بن جابر الأزدي‘‘ ہے ، اُن کی وفات سنہ133 یا 134ہجری میں ہوئی، احمد بن حنبل، نسائی، یحییٰ بن معین، سفیان بن عیینہ، ابوداؤد، ابن حبان اور عِجلی سب نے انہیں بھی ثقہ کہا ہے۔ ابن ابی حاتم نے اپنے والد ابوحاتم رازی سے نقل کیا ہے کہ آپ نے فرمایا: ’’ میں شام میں رہنے والوں میں سے زہری اور مکحول کے بعد سلیمان بن موسیٰ اور یزید بن یزید بن جابر کو پسند کرتا ہوں‘‘۔ تفصیل کے لئے دیکھیں:
(الجرح والتعدیل، ج9 ص296 /التاریخ الکبیر للبخاري، ج8 ص369/تاریخ الاسلام للذہبي، ج3 ص757 /سیر اعلام النبلاء، ج6ص 158 /تہذیب التہذیب، ج11 ص370 /معرفۃ الثقات للعِجلی، ج2 ص371 /ثقات ابن حِبان، ج7 ص619)۔
اسی طرح اِن ’’عبدالرحمن بن یزید بن جابرالأزدي‘‘ کے ایک بیٹے ’’ابو اسماعیل عبداللّٰہ بن عبدالرحمن بن یزید بن جابر ‘‘ کا ذکر بھی کتب رجال میں ملتا ہے اور یہ بھی یحییٰ بن معین، نسائی اور ابوحاتم کے نزدیک صالح الحدیث اور قابل قبول ہیں، ابن حِبان نے انہیں ’’ثقہ‘‘ کہا ہے ۔
(الجرح والتعدیل، ج5 ص98 /التاریخ الکبیر للبخاري، ج5 ص134/تاریخ الاسلام للذہبي، ج4 ص876 /تہذیب الکمال، ج15ص 221 /تہذیب التہذیب، ج5 ص298 /ثقات ابن حِبان، ج8 ص335)۔
کاش عمادی صاحب اس بارے میں بھی اپنی تحقیق پیش فرمادیتے کہ عبدالرحمن بن یزید بن جابر کے بھائی اور بیٹے بھی اصلی ہیں یا یہ بھی دوسرے ’’عبدالرحمن بن یزید بن تمیم السلمی‘‘ کے بھائی اور بیٹے ہیں۔
پھر عمادی صاحب نے محدثین کرام پر یہ بہتان لگایا کہ ’’ ایسے موقع پر محدثین یہ کرتے ہیں کہ اس ایک شخص کو دو شخص قرار دے دیتے ہیں ، کنیت یا نسبت کا فرق پیدا کرکے یا دادا پردادا کسی کا نام بدل کر یہ ثابت کرتے ہیں کہ وہ جرحیں تو فلاں کے متعلق ہیں اور فلاں تو ثقہ ہے مجروح نہیں‘‘۔ اس کے جواب میں ہم صرف اتنا عرض کریں گے کہ:
وہ فریب خوردہ شاہین کہ پَلا ہو کِرگسوں میں
Wاسے کیا خبر کہ کیا ہے رہ و رسمِ شاہبازی
ò ورنہ کہنے کو ہم بھی یہ کہہ سکتے ہیں کہ جب کسی ثقہ راوی کو ’’مجروح اور ناقابل اعتبار‘‘ ثابت کرنا ہو تو منکرینِ حدیث کے محدث العصر اُس کا ہم نام کوئی مجروح راوی ڈھونڈتے ہیں اور پھر یہ شوشہ چھوڑتے ہیں کہ وہ ثقہ اور یہ مجروح دونوں ایک ہی شخصیت ہیں ۔
خلاصہ کلام یہ کہ صحیح مسلم کی زیرِ بحث حدیث میں عبدالرحمن بن یزید بن جابر الأزدی علماء جرح وتعدیل کے نزدیک ثقہ ہیں، بلکہ صرف یہی نہیں ان کے بھائی اور بیٹے بھی ثقہ ہیں ، عمادی صاحب کی یہ ’’شعبدہ بازی‘‘ علمی دنیا میں کوئی حیثیت نہیں رکھتی۔
یحییٰ بن جابر الطائي القاضي الشامي (ابو عَمرو)
اس حدیث کے اگلے راوی ہیں ’’یحییٰ بن جابر الطائی‘‘، یہ حمص کے قاضی تھے۔ یحییٰ بن معین نے انہیں ’’ثقہ‘‘ کہا ہے۔ ابوحاتم رازی نے انہیں ’’صالح الحدیث‘‘ (اچھی حدیث والے) کہا ہے۔ عِجلی نے لکھا ہے ’’شامي تابعي ثقۃ‘‘ (یہ شامی ہیں اور ثقہ تابعی ہیں)۔ ابن حِبان نے بھی انہیں ’’ثقہ‘‘ لوگوں میں شمار کیا ہے ۔ ان کی وفات سنہ126 ہجری میں ہوئی۔
(تہذیب التہذیب، ج11 ص191 /معرفۃ الثقات للعجلی، ج2 ص349 /ثقات ابن حِبان، ج5 ص520)
عبدالرحمن بن جُبیر بن نفیر الحضرمي الشامي (ابو حمید)
امام ابوزرعہ، امام نسائی اور ابن سعد نے انہیں ’’ثقہ‘‘ کہا ہے، ابوحاتم نے انہیں ’’صالح الحدیث‘‘ (اچھی حدیث والے) کہا ہے۔ابن حِبان نے بھی انہیں ’’ثقہ‘‘ لوگوں میں شمار کیا ہے۔ ان کی وفات 118 ہجری میں ہوئی۔
(تہذیب التہذیب، ج6 ص154 /تاریخ الاسلام للذہبي، ج3 ص271 /ثقات ابن حِبان، ج5 ص791)
جبیر بن نفیر بن مالک الحضرمي (ابو عبدالرحمن)
یہ پہلے گزرے ’’عبدالرحمن بن جبیر‘‘ کے والد ہیں۔ ان کے بارے میں ابو حاتم رازی کہتے ہیں کہ ’’ثقۃ من کبار التابعین‘‘ یہ بڑے تابعین میں سے ہیں اور ثقہ ہیں۔ ابوزرعہ نے بھی انہیں ’’ثقہ‘‘ کہا ہے۔ امام نسائی کہتے ہیں کہ : ’’لیس أحد من کبار التابعین احسن روایۃ عن الصحابي من ثلاثۃ، قیس بن ابي حازم، وابي عثمان النہدي، وجبیر بن نفیر‘‘ کبار تابعین میں سے صحابہ سے سب سے اچھی روایت کرنے والے تین ہیں، قیس بن ابی حازم، ابوعثمان نہدی اور جبیر بن نفیر۔ ابن سعد نے انہیں ’’ثقہ‘‘ کہا ہے، ابن خراش نے کہا ہے : ’’ہو من أجل تابعي الشام‘‘ آپ شام کے جلیل القدر تابعین میں سے ہیں۔ امام ابوداؤد سے بھی ایسی ہی بات منقول ہے۔ ابن حِبان نے انہیں ’’ثقہ تابعین‘‘ میں شمار کیا ہے۔ عِجلی نے بھی انہیں ’’ثقہ تابعی‘‘ کہا ہے۔ انہوں نے نبی کریمe کا زمانہ پایا ہے لیکن اسلام حضرت ابوبکر صدیق رضی اﷲ عنہ کے زمانہ خلافت میں قبول کیا۔ ان کی وفات سنہ75 ھ میں ہوئی، بعض نے 80ھ بتائی ہے۔
(تہذیب التہذیب، ج2 ص64 /سیر اعلام النبلاء، ج4 ص76 /الجرح والتعدیل، ج2 ص512 وغیرہا)
نواس بن سمعان الکلابي (رضی اللّٰہ عنہ)
حافظ ابن حجر لکھتے ہیں کہ : ’’صحابي مشہور‘‘یہ مشہور صحابی رسول e ہیں۔ انہوں نے سنہ 50 ہجری کے قریب وفات پائی، ان کا تذکرہ اُن تمام کتابوں میں موجود ہے جو صحابہ کرامؓ کے تعارف پر مشتمل ہیں مثلاً دیکھیں:
(أسد الغابۃفي معرفۃ الصحابۃ، ج5 ص345 /الاستیعاب فی أسماء الأصحاب، ج2 ص319 /الاصابۃ فی تمییز الصحابۃ، ج11 ص136 /معجم الصحابۃ لابن قانع، ج3 ص163 /معرفۃ الصحابۃ لابي نعیم الاصبہاني، ج5 ص2701 /التاریخ الکبیر للبخاري، ج8 ص126 /الجرح والتعدیل، ج8 ص507 /تہذیب الکمال، ج30 ص37 /تاریخ الاسلام، ج2 ص445 /الوافي بالوفیات للصفدي، ج27 ص108 /تہذیب التہذیب، ج10 ص480 /تبصیر المنتبہ بتحریر المشتبہ لابن حجر العسقلاني، ج4 ص1427 /ثقات ابن حِبان، ج3 ص11/الکاشف، ج2 ص327، تقریب التہذیب، ص566 وغیرہا من الکتب) ۔
تمناعمادی کی خیالی منطق اور سینہ زوری
عمادی صاحب نے حدیث دشمنی میں حضرت نوّاسؓ بن سمعان کی صحابیت کا ہی انکار کردیا ہے اور اپنی کتاب میں حضرت نوّاس ؓبن سمعان کو ’’خود ساختہ صحابی‘‘ اور ’’من گھڑت صحابی‘‘ جیسے الفاظ سے یاد کیا ہے (دیکھیں صفحات 202، 267 ، 271اور 291 وغیرہ)۔ یقینا انہیں یہ بات الہام یا وحی کے ذریعے ہی معلوم ہوئی ہوگی اور ان کے ’’یارانِ طریقت‘‘ اپنے ’’محدث العصر‘‘ کے اس دعویٰ بلادلیل پر آنکھیں بند کرکے ایمان بھی لے آئے ہوں گے۔ لیکن علمی میدان میں ’’میں نہ مانوں‘‘ جیسی دلیل کی کوئی حیثیت نہیں ہوتی۔
عمادی صاحب نے دو تین ورق جن باتوں پر سیاہ کیے ہیں اُن کا خلاصہ یہ ہے:
(1)…… حضرت نوّاس ؓ بن سمعان کا جو سلسلہ نسب ائمہ کرام نے بیان فرمایا ہے اس میں ایک نام ’’عبدا ﷲ بن ابی بکر‘‘ آتا ہے ، کوئی کہتا ہے کہ یہ حضرت نوّاسؓ کے والد ’’سمعان‘‘ کے دادا ہیں اور کوئی کہتا ہے کہ اُن کے دادا کے دادا ہیں۔
(2)…… ان کے بارے میں کتابوں میں صرف یہ لکھا ہے کہ ’’ان کا شمار شامیوں میں ہوتاہے‘‘، لیکن یہ کسی نے نہیں بتایا کہ یہ شام کے قدیم باشندے تھے یا شام میں آکر بس گئے تھے، نیز یہ بھی کسی نے نہیں بتایا کہ یہ شام کے کس شہر یا گاؤں کے رہنے والے تھے۔ نیز کتبِ حدیث میں اِن سے کچھ احادیث ہی مروی ہیں اور وہ بھی اُن سے شامیوں کے سوا کوئی اور روایت نہیں کرتا۔
(3) …… پھر عمادی صاحب نے تاریخ کی بعض کتابوں میں مذکور حضرت نوّاسؓ کے والد ’’سمعان‘‘ کے اسلام لانے کا واقعہ ذکر کیا ہے، ساتھ ہی تاریخ طبری کے حوالے سے ان عورتوں کا ذکر لے بیٹھے ہیں جن کے بارے میں کہاجاتا ہے کہ آنحضرتe کے نکاح میں آئیں ، ان میں ایک ’’سمعان‘‘ کی بہن بھی ذکر کی جاتی ہیں (یعنی حضرت نوّاسؓ کی پھوپھی)
(4) …… آخر عمادی صاحب کی تان یہاں ٹوٹتی ہے کہ چونکہ ’’سمعان کی بہن کے ساتھ آنحضرت e کے نکاح کا واقعہ جھوٹ ہے‘‘ لہٰذا ثابت ہوا کہ ’’نوّاس‘‘ اور ’’سمعان‘‘ اور ان کی وہ بہن جن کا ذکر کیا جاتا ہے یہ سب ’’فرضی‘‘ لوگ ہیں۔
ہماری سمجھ میں یہ نہیں آتا کہ اگر حضرت نوّاس ؓ کی پھوپھی کے بارے میں کوئی واقعہ ذکر کیا جاتا ہے تو اس کے جھوٹے ہونے سے حضرت نوّاس ؓ کا فرضی شخصیت ہونا کیسے ثابت ہوا؟۔ اگر ان کے سلسلہ نسب میں تین چار پشتوں کے بعد ’’عبداﷲ‘‘ نامی شخص کے بارے میں یہ شک ہے کہ یہ ان کے والد کے دادا ہیں یا دادا کے دادا تو اس سے حضرت نوّاسؓ کی شخصیت ’’من گھڑت‘‘ کیسے ہوگئی؟۔ اگر حضرت نوّاس ؓ سے مروی احادیث کی تعداد بہت کم ہے تو اس سے یہ کیسے لازم آیا کہ یہ کوئی شخصیت ہی نہیں؟ عمادی صاحب بار بار ’’الاصابۃ‘‘ ، ’’الاستیعاب‘‘ اور ’’اسد الغابۃ‘‘ جیسی کتب کا تذکرہ کرتے ہیں ، کیا ان کتب میں مذکور تمام صحابہ کرامؓ سے احادیث کی کثیر تعداد مروی ہے؟ بلکہ ایک کثیر تعداد تو ایسی ہے جن سے ایک روایت بھی مروی نہیں، تو کیا اُن سب کو ’’فرضی شخصیت‘‘ قرار دے دیا جائے؟۔ اگرکتب رجال میں کسی شخصیت کے بارے میں یہ لکھا ہو کہ ’’یہ شامی ہے‘‘ لیکن اس کے گاؤں یا شہر کا نام نہ لکھا ہو تو یہ اس بات کی دلیل ہے کہ وہ شخصیت جعلی ہے؟۔ اگر مثلاً کسی مدنی راوی سے حدیث بیان کرنے والے صرف مدنی ہی ہوں اور کوئی نہ ہو تو اس سے یہ ثابت ہوگا کہ وہ ’’مدنی‘‘ کوئی شخصیت ہی نہیں؟۔ اس عقل پر رونے کے سِواکیا کِیا جاسکتا ہے۔عمادی صاحب کا تو یہ حال ہے:
ہم طالبِ شہرت ہیں ہمیں ننگ سے کیا کام
Sبدنام اگر ہوں گے تو کیا نام نہ ہوگا
دعویٰ تو یہ کیا کہ ’’نوّاس بن سمعان‘‘ ایک خودساختہ صحابی ہیں، اور دلیل کے طور پر غیر متعلقہ افسانے بیان کیے جارہے ہیں جن کا دعوے کے ساتھ دور دور تک کوئی واسطہ نہیں،حقیقت یہی ہے کہ حضرت نوّاسؓ ایک صحابی ہیں اسی پر تمام علماء رجال ومحدثین کا اتفاق ہے، لیکن:
آنکھیں ہیں اگر بند تو پھر دن بھی رات ہے
Qاِس میں بھلا قصور کیا ہے آفتاب کا ؟