حا فظ محمد عزیز الرحمن خورشید (جامع مسجد فاروقیہ ملکوال)
ان الذین جاؤا بالافک عصبۃ منکم لا تحسبوہ شر الکم بل ھو خیر و لکم:النور
ترجمہ:جو لوگ لائے ہیں یہ طوفان تمھی میں ایک جماعت ہیں ۔تم اس کو نہ سمجھو برا اپنے حق میں بلکہ بہتر ہے تمہارے حق میں (ترجمہ شیخ الہندؒ)
اس آیت اور اس سے اگلی آیات صرف سیدہ عائشہ رضی اﷲ عنہا کی پاکدامنی آپ کی عظمت اور عزت و وقار کے تحفظ کے لیے اور اظہار کے لیے نازل ہوئی تھیں ۔سیدہ کی پاکدامنی کے سلسلہ میں جب سورۃ نور کی آیات نازل ہوئیں تو حضرت عبداﷲ بن عباس رضی اﷲ عنہ نے فرمایا کہ آپ کی شان میں قرآنی آیات نازل ہوئیں جو ہر منبر و محراب میں شب و روز تلاوت کی جاتی ہیں ۔
سیدنا رضی اﷲ عنہا، ابوبکر صدیق رضی اﷲ عنہ کی پیاری بیٹی تھیں ۔رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کی محبوب بیوی اور مسلمانوں کی معزز ترین ماں تھیں ۔آپ کا شمارصف اوّل کی صحابیات میں ہوتا ہے، عمر کے لحاظ سے تمام ازواج مطہرات میں سب سے چھوٹی لیکن مرتبے کے لحاظ سے سب سے بڑی تھیں ۔
شاعر دربار نبوی صلی اﷲ علیہ وسلم حضرت حسان بن ثابت رضی اﷲ عنہ نے بے ساختہ شعر کہا ،جس کا ترجمہ یہ ہے
عائشہ نہایت عقل مند اور پاک دامن ہیں ہر عیب سے دور اور بڑی نیک بخت ہیں
ایک عام اندازے کے مطابق آپ رضی اﷲ عنہا کی مرویات کی تعداد دو ہزار دو سو دس ہے ۔صدیقہ بنت صدیق کی برکت کی وجہ سے خالق کائنات نے امت کے لیے تیمم کی سہولت پیدا فرما دی ۔جب تیمم کا حکم نازل ہوا تو مسلمان خوشی سے جھوم اٹھے اور اماں عائشہ ؓ کو دعائیں دینے لگے ۔ایک صحابی ؓ نے کتنی پیاری بات کہی فرمایا”اے ابوبکر ؓ کی بیٹی اسلام میں تیری یہ پہلی برکت نہیں اس سے پہلے بھی تیرے طفیل بر کتوں کا نزول ہو چکاہے”۔
اور سیدنا صدیق اکبر ؓ جو چند لمحے پہلے اپنی بیٹی کو سخت سست کہہ رہے تھے فرما یا “کہ مجھے خبر نہ تھی کہ تو اتنی بابرکت ہے کہ تیری وجہ سے خدا نے مسلمانوں کو یہ عظیم سہولت عطا فرما دی “۔
آپ ؓ نے ہمیشہ رحمت دو عالم ﷺ کی رفاقت کو ترجیح دی ۔چنانچہ جب امہات المومنین ؓ نے آپ کی خدمت میں اپنے کھانے اور کپڑے میں اضافے کی درخواست کی تو حضور ﷺ نے انھیں اختیار دیا کہ جذبات کی رو میں بہہ کر فیصلہ نہ کرنا۔ اچھی طرح سوچ لو اپنے والدین سے مشورہ کر لو اگر تمہیں دنیاوی زندگی اور اس کی آرائش کی ہوس ہے تو میں تمہیں کچھ مال و زر دیکر رخصت کیے دیتا ہوں ۔حضور صلی اﷲ علیہ وسلم نے سب سے پہلے حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا کو فرمایا کہ تم اپنے ابا سے مشورہ کر لو تو آپ رضی اﷲ عنہا جواب میں فرمایا کہ میں اماں اور ابا سے کیا مشورہ کروں میری تو ایک خواہش ہے
نکل جائے دم تیرے قدموں کے نیچے یہی دل کی حسرت یہی آرزو ہے
آپ کو نہ صرف اہل ایمان قدرو منزلت سے دیکھتے ہیں بلکہ خدا کے مقرب فرشتے بھی آپ کی بارگاہ میں سلام پیش کرتے ہیں اس پر حدیث کے الفاظ شاہد ہیں
ان النبی ﷺ قال لھا ان جبریل یقرأ علیک السلام قالت قلت و علیہ السلام ورحمۃ اﷲ
حضور ﷺ نے حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا سے فرمایا کہ جبریل علیہ السلام آئے ہیں اور تمہیں سلام کہتے ہیں سیدہ نے جواب میں فرمایا کہ ان پر بھی سلام اور اﷲ کی رحمت ہو ۔
اسلام کا اولین معرکہ جس کو قرآن نے یوم الفرقان کے نام سے تعبیر کیا ہے یعنی غزوہ بدر اس موقع پر آپ رضی اﷲ عنہاکی اوڑھنی کو آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے پرچم بنا کر لہرایا ۔زندگی کے آخری لمحات میں نبی امی صلی اﷲ علیہ وسلم آپ سے تکیہ لگا کر بیٹھے ۔آپ رضی اﷲ عنہا کا حجرہ روضۃ من ریاض الجنہ میں بنا ۔آپ نے وصیت فرمائی کی میرا جنازہ رات کی تاریکی میں اٹھایا جائے ۔
۱۷ رمضان المبارک ۵۸ھ سڑسٹھ برس کی عمر میں منبع علم و عرفان جن کے در دولت پر بڑے بڑے جلیل القدر صحابہ رضی اﷲ عنہم دینی علوم کے لیے حاضری دیتے تھے اس دار فانی سے کوچ فرما گئیں ۔
شاعر نے کس خوبصورت انداز میں حضرت عائشہ ؓ کی منقبت بیان کی
تیری پاکیزگی پر نطق فطرت نے شہادت دی تجھے عظمت عطا کی عافیت بخشی فضیلت دی
خدائے لم یزل کا بار ہا تجھ پر سلام آیا مبارک ہیں وہ لب جن پر ادب سے تیرا نام آیا
رسول اﷲ نے رکھا ہے صدّیقہ لقب تیرا فقط فرشی نہیں عرشی بھی کرتے ہیں ادب تیرا
شرف تیرے دوپٹے نے یہ جنگ بدر میں پایا اسے پرچم بنا کر مخبر صادق نے لہرایا
تیرا حجرہ امین خاص ہے ذات رسالت کا بساط ارض پر یہی ہے ٹکڑا باغ جنت کا
اس میں رحمت العالمین رہتے تھے سو رہتے ہیں تیرا حجرہ ہے جسے گنبد خضریٰ بھی کہتے ہیں
اس سے حشر کے دن سرور کونین ؐ اٹھیں گے مگر تنہا نہیں اٹھیں گے مع شیخین اٹھیں گے
شفاعت کی تیرے رحمت کدہ سے ابتدا ہوگی اسی پر امتوں کی مغفرت کی انتہا ہوگی