پروفیسر محمد حمزہ نعیم
’’ پیروان اسلام (اصحاب رسول رضی اﷲ عنہم) نے صرف ایک سوسال میں ایران، عراق، شام، فلسطین، مصر ، مراکش، سپین اور سندھ فتح کر لیے تھے۔ اگر نصب العین کی بلندی اور نتائج کی درخشندگی کمال قیادت کا معیار بن سکتی ہے تو پھر محمد (صلی اﷲ علیہ وسلم) کے مقابلہ میں کسی اور رہنما کو پیش نہیں کیا جاسکتا‘‘ (معروف مستشرق کیمرٹین Camertene) تھامس کارلائل کہتا ہے: ’’روشن دماغ اور دور رس نگاہ والوں (اصحاب رسول رضی اﷲ عنہم) نے آنحضور صلی اﷲ علیہ وسلم کی بات سنی جبکہ جامد دماغ لوگوں نے آنحضور علیہ السلام کی توہین کی۔‘‘
نپولین بوناپارٹ نے لکھا: ’’محمد صلی اﷲ علیہ وسلم کی ذات ایک مرکز ثقل تھی کہ لوگ ان کی طرف کھچے چلے آتے تھے۔ اسلام کے ان پیرووں (اصحاب رسول رضی اﷲ عنہم) نے دنیا کو جھوٹے خداؤں سے چھڑالیا۔ چند ہی سالوں میں اسلام کا غلبہ نصف دنیا میں کرادیا۔‘‘
ایڈورڈ گبن لکھتا ہے: ’’ان کے ازواج و اصحاب نے ان کی خلوت و جلوت کے مآثر جمیلہ محفوظ کر رکھے ہیں۔‘‘
سرولیم میور کہتا ہے: ’’ جن لوگوں نے سب سے پہلے اسلام قبول کیا وہ سچے لوگ تھے۔ وہ آنحضور کے محرم راز دوست ابوبکر اورآپ کے خاندان کے لوگ (حضرت علی، حمزہ، جعفر طیار، حضرت عثمان، حضرت عمر اور دیگر قریشی چوٹی کے لوگ) [از مرتب]) تھے جو آنحضور صلی اﷲ علیہ وسلم کی پرائیویٹ زندگی سے کامل آگاہ تھے۔‘‘مشہور مورخ گین لکھا: ’’پہلے چار خلفاء کے اطوار یکساں صاف اور ضرب المثل تھے۔ یہی لوگ محمد (صلی اﷲ علیہ وسلم) کے ابتدائی کام میں شریک تھے۔ اوّل ہی اوّل تبدیلی مذہب کرنے سے ان کی سچائی ثابت ہوتی ہے اور دنیا کو فتح کر لینے سے ان کی لیاقت کا بخوبی اندازہ ہوتا ہے۔ محمد(صلی اﷲ علیہ وسلم) کے پیرووں نے اس کے بچاؤ میں اپنی جانیں خطرے میں ڈال کر دشمنوں پر اس کو غالب کردیا۔‘‘
سرولیممیور اصحاب رسول کی بالعموم تعریف کرتے ہوئے خلاصہ کے طور پر کہتا ہے ’’چاروں خلفا مجسمہ اخلاق تھے‘‘ ایک دوسرا مستشرق مورخ لکھتا ہے ’’اگر محمد (صلی اﷲ علیہ وسلم) سچے نہ ہوتے تو ابوبکر( رضی اﷲ عنہ) کو کوئی مجبوری نہ تھی کہ ان پر ایمان لائیں کیونکہ شریف ابوبکر کسی جھوٹے آدمی کو رسول ماننے کو ہر گز طیار نہ ہوتے، نہ کوئی مالی لالچ تھا نہ کوئی دباؤ تھا نہ آنحضرت کی کوئی حالت ان سے پوشیدہ تھی‘‘[بحوالہ اقبال وحب اصحاب و آل]
مہاتما گاندھی نے اپنے وزیروں سے خطاب کرتے ہوئے کہا: ’’اگر تم عالمی وقار چاہتے ہو تو صدیق و عمر کا نمونہ اختیار کرو جن کے قدموں میں دنیا کے خزانے ڈالے گئے مگر اس کے باوجود نہ ان کے پیوند لگے کپڑے چھوٹے، نہ جوکی روٹی اور نہ زیتون کا تیل چھوٹا۔‘‘
یہ پرائے لوگوں کی گواہی تھی جو کافر ہونے کے باوجود سیدنا محمد صلی اﷲ علیہ وسلم اور اصحاب محمد رضی اﷲ عنہم کی خوبیوں کے معترف ہیں۔ان مشہور مصنفین مؤرخین کے علاوہ سیکڑوں ہزاروں مداح غیر مسلموں میں موجود ہیں۔ اسلام نصیب نہ ہونے کے باوجود وہ مدح محمد اور مدح اصحاب محمد علیہ وعلیہم السلام میں پیچھے نہ رہے۔ اﷲ جل جلالہ نے ایک لاکھ چوبیس ہزار نبی بھیجے تو ہر ایک نبی سے آخری نبی پر ایمان لانے اور ان کی نصرت کرنے کا پختہ وعدہ لیا اور اصحاب محمد کے کیا کہنے کہ خود رب محمد صلی اﷲ علیہ وسلم نے اپنی مقدس کتاب میں جابجا ان کے تقدس، ان کے خلوص، ان کی پختگی ایمان اور ان کی حبِ رسول کی گواہی کے دلائل و شواہد پیش فرمائے۔ یہ بھی فرمادیا کہ ہم یہ باتیں صرف آخری مقدس کتاب کلام رب العالمین قرآن مبین ہی میں نہیں لکھ رہے ان کا ذکر مقدس تو بطور امثال تمام کتبِ الٰہی، تورات و انجیل میں ہم نے کردیا ہے۔ (سورۃ فتح)
اﷲ جل جلالہ نے مقدس اصحاب رسول رضی اﷲ عنہم کو نمونہ ایمان و عمل بنا کر اپنے انمٹ ابدی کلام میں اس کا اعلان بھی کردیا کہ دنیاوآخرت کی کامیابی، فوز وفلاح اور کامل رہنمائی انہی کی کامل پیروی میں ملے گی اگر اس سے منہ موڑیں گے تو ناکامی و نامرادی کے سو اکچھ نہ لے گا۔ (سورۃ بقرہ رکوع ۱۶)