دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی
زکوٰۃ کن چیزوں پر فرض ہے؟
سوال: کن کن چیزوں پر زکوٰۃ فرض ہوتی ہے؟
جواب: مندرجہ ذیل چیزوں پر زکوٰۃ فرض ہے۔
(۱) سوناجب ساڑھے سات تولہ (87.479 گرام) یا اس سے زیادہ ہو۔
(۲) چاندی جب ساڑے باون تولہ (612.35 گرام) یا اس سے زیادہ ہو۔
(۳) نقد روپیہ اور مال تجارت، بشرطیکہ مال تجارت کی قیمت چاندی کے نصاب (ساڑھے باون تولہ چاندی) کے برابر ہو۔
مال تجارت سے مراد وہ چیزیں ہیں جن کو خریدتے وقت آگے بیچ کر نفع کمانے کا ارادہ ہو اور اب تک بیچنے کی نیت بھی برقرار ہو، لہٰذا مکان ، پلاٹ یا دیگر سامان جو بیچنے کے لیے خریدے گئے ہوں اور اب بھی یہی ارادہ ہو تو ان پر زکوٰۃ فرض ہوگی، ہاں اگر یہ سامان ذاتی استعمال کے لیے ہو، یا تجارت کے لیے خریدا گیا ہو لیکن بیچنے کا ارادہ نہ ہو یا مکان اس نیت سے خریدا ہو کہ کرایہ پر دے کر نفع حاصل کریں گے تو ان صورتوں میں زکوٰۃ فرض نہ ہوگی۔
(۴) مذکورہ بالا اشیاء کے مجموعے پر یعنی کسی کے پاس کچھ سونا ہے، کچھ چاندی ہے، تھوڑے سے نقد پیسے ہیں اور کچھ مال تجارت ہے اور ان سب کی مجموعی مالیت چاندی کے نصاب (ساڑھے باون تولہ) کے برابر ہے تو اس پر زکوٰۃ فرض ہے۔
واضح رہے کہ سونا ، چاندی اور مال تجارت کا چالیسواں حصہ (یعنی ڈھائی فیصد) زکوٰۃ دینا ضروری ہے۔
(۵) چرنے والے مویشیوں پر بھی زکوٰۃ فرض ہوتی ہے، اونٹ، گائے، بھیڑ اور بکری ، ہر ایک کا الگ مستقل نصاب ہے، مقامی علمائیکرام سے پوچھ کر اس پر عمل کیا جائے۔
(۶) زمین سے جو پیداوار حاصل ہوتی ہے اس پر بھی زکوٰۃ فرض ہوتی ہے جسے اصطلاح شریعت میں ’’عشر‘‘ کہا جاتا ہے، اگر زمین بارش کے پانی سے سیراب کی گئی ہے تو دسواں حصہ اور اگر کنویں (ٹیوب ویل) کے پانی سے یا نہری پانی خرید کر سیراب کی گئی ہے تو بیسواں حصہ عشر میں دینا فرض ہے۔
(۷) فیکٹریوں، ملوں اور کارخانوں کے شیئرز پر بھی زکوٰۃ فرض ہے بشرطیکہ ان کی قیمت چاندی کے نصاب (ساڑھے باون تولہ) کے برابر ہو۔ مشینری، فرنیچر اور استعمال کی چیزوں پر زکوٰۃ فرض نہیں۔
زیورات پر زکوٰۃ:
سوال:(۱) سونے اور چاندی کے زیورات پر زکوٰۃ فرض ہوتی ہے یا نہیں؟
(۲) عورت جو زیورات استعمال کرتی ہے اس میں کچھ زیورات والدین کی طرف سے ہوتے ہیں او رکچھ شوہر کی طرف سے تو ان زیورات کی زکوٰۃ کون ادا کرے؟ والدین، شوہر یا عورت۔
(۳) زیورات کی زکوٰۃ کب ادا کرنا فرض ہے؟
جواب:(۱) سونا اور چاندی سے بنی ہوئی چیز اگر نصاب کے برابر ہو تو اس پر زکوٰۃ فرض ہوتی ہے، مثلاً زیور، برتن، سونے اور چاندی کے بٹن وغیرہ، چاہے استعمال کرنے کے لیے ہوں یا تجارت کی نیت سے رکھے ہوئے ہوں یا کسی کو تحفے میں دینے کے لیے ہوں۔
(نوٹ): سونے اور چاندی کا نصاب پہلے سوال کے جواب میں درج ہے وہاں ملاحظہ فرمائیں۔
(۲) والدین اور شوہر کی فرف سے دیے گئے زیورات اگر عورت کو ملکیت کے طور پر دیے گئے ہیں تو ان کی زکوٰۃ عورت پرفرض ہے والدین اور شوہر پر نہیں ہاں اگر والدین اور شوہر خوشی سے بیوی کے کہنے پر بیوی کی طرف سے زکوٰۃ ادا کریں تو زکوٰۃ ادا ہوجائے گی۔
اور اگر صرف پہننے کے لیے والدین یا شوہر کی طرف سے عاریت کے طور پر دیے گئے ہیں تو والدین اور شوہر پر زکوٰۃ ادا کرنا فرض ہے۔
(۳) عورت جس دن صاحب نصاب ہو جائے اس وقت سے چاند کے بارہ قمری مہینے گزرنے پر زکوٰۃ فرض ہوجاتی ہے۔
گزشتہ برسوں کی زکوٰۃ ادا کرنے کا طریقہ:
سوال: اگر کئی سال سے زیورات کی زکوٰۃ ادا نہیں کی گئی ہے تو اب کس طرح زکوٰۃ ادا کی جائے؟
جواب: گزشتہ سالوں کی زکوٰۃ ادا کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ سونے اور چاندی کی جو مقدار پہلے سال تھی اس کا چالیسواں حصہ زکوٰۃ میں دیا جائے، پھر دوسرے سال چالیسواں حصے کی مقدار منہا کر کے بقیہ کا چالیسواں حصہ زکوٰۃ میں دیا جائے۔ اسی طرح ہر سال کا حساب لگا کر باقی ماندہ کا چالیسواں حصہ زکوٰۃ میں دیا جائے۔
بیٹی کے لیے رکھے ہوئے زیورات پر زکوٰۃ:
سوال: بیٹی کو جہیز میں دینے کے لیے والدین کے پاس جو سونا اور چاندی موجود ہے اس پر زکوٰۃ فرض ہے یا نہیں؟ اگر فرض ہے تو والدین پر یا لڑکی پر؟
جواب: اگر والدین نے بیٹی کو زیورات کا مالک بنا دیا ہے اور بیٹی بالغہ ہے تو سال گزرنے کے بعد اس پر زکوٰۃ فرض ہے اور اگر نا بالغہ ہے تو اس پر زکوٰۃ فرض نہیں ، بیٹی کو اگر مالک نہیں بنایا گیا ہے تو زیورات والدین کی ملکیت شمار ہوں گے اور والدین پر زکوٰۃ فرض ہوگی۔
قیمت فروخت کے مطابق زکوٰۃ ادا کرنا:
سوال: سونا، چاندی اور تجارت کی چیزوں کی قیمت خرید کا اعتبار کر کے زکوٰۃ کی جائے یا قیمت فروخت کا اعتبار کر کے؟
جواب: قیمت فروخت (یعنی زکوٰۃ فرض ہونے کے دن بازار کی قیمت) کے اعتبار سے زکوٰۃ ادا کی جائے۔
ضرورت سے زائد چیزوں پر زکوٰۃ:
سوال: ہمارے علاقے میں شادی کے موقع پر عورت کے جہیز کے سامان میں ایسے برتن اور ایسے بستر موجود ہوتے ہیں جن کے استعمال کی ضرورت بالکل نہیں ہوتی، نیز شادی بیاہ کے وقت عورت کے پاس چالیس سے پچاس تک کپڑوں کے جوڑے موجود ہوتے ہیں اور اس کے ساتھ ساتھ شوکیس اور الماری بھی موجود ہوتی ہے، کیا اس عورت پر زکوٰۃ قربانی فرض ہے؟
جواب: زیورات کے علاوہ استعمال کی چیزوں پر زکوٰۃ نہیں خواہ وہ ضرورت سے زائد ہوں البتہ اگر ضروریات اصلیہ سے زائدچیزوں کی قیمت نصاب زکوٰۃ کے برابر ہے تو مذکورہ عورت پر قربانی اور صدقہ فطر لازم ہے زکوٰۃ واجب نہیں اور اس نصاب پر سال کا گزرنا شرط نہیں۔
لیکن زیورات اگر بقدر نصاب ہوں اور ان پر سال گزرجائے تو ہر صورت میں زکوٰۃ فرض ہے خواہ وہ زیر استعمال ہوں یا نہ ہوں۔
گاڑی کی کمائی پر زکوٰۃ:
سوال: ایک شخص نے تقریباً 20لاکھ روپے کی ایک گاڑی کمائی کے لیے خریدی تو ان محبوس 20لاکھ روپے (جن سے گاڑی خریدی) پر زکوٰۃ ہے یا نہیں؟
یہی گاڑی جو کمائی کے لیے خریدی گئی اگر اچھے داموں میں بکتی ہے تو یہ شخص اس کو بیچتا بھی ہے، یعنی ایک لحاظ سے اس نے یہ گاڑی کمائی کے لیے خریدی ہے اور دوسرے لحاظ سے اگر اس کو بیچنے میں فائدہ ہو تو پھر بیچتا بھی ہے تو آیا اس میں زکوٰۃ ہے یا نہیں؟
اسی گاڑی سے جو کمائی کی جاتی ہے وہ گھر کے تمام اخراجات سے زیادہ ہے یعنی اس گاڑی کی کمائی کو یہ آدمی جمع کرتا ہے تو اس صورت میں گاڑی کے 20لاکھ میں زکوٰۃ ہے یا نہیں؟
جواب: تینوں صورتوں میں گاڑی کی اصل قیمت (جو 20 لاکھ ہے) پر زکوٰۃ نہیں، اس لیے کہ گاڑی حصول نفع کا آلہ اور ذریعہ ہے۔ البتہ گاڑی کی کمائی جب نصاب زکوٰۃ کو پہنچ جائے تو اس پر زکوٰۃ فرض ہوگی۔
رشتہ دارں کو زکوٰۃ دینا:
سوال: رشتہ داروں میں سے کس کو زکوٰۃ دینا درست ہے کس کو نہیں؟
جواب: والدین کا اپنی اولاد کو اور اولاد کا اپنے والدین کو زکوٰۃ دینا درست نہیں، اسی طرح میاں بیوی بھی ایک دوسرے کو زکوٰۃ نہیں دے سکتے، ان کے سوا باقی رشتہ دار مثلاً بھائی، بہن، چچا، ماموں، خالہ وغیرہ کو زکوٰۃ دینا جائز ہے بلکہ اس میں دگنا ثواب ہے ایک ثواب زکوٰۃ دینے کا اور دوسر صلہ رحمی کا۔
ائمہ مساجد کو زکوٰۃ دینا:
سوال: ہمارے ہاں مساجد میں ائمہ حضرات کو اس شرط پر مقرر کیا جاتا ہے کہ ان کو تنخواہ نہیں دیں گے بلکہ ان سے طے کیا جاتا ہے کہ آ کو زکوٰۃ دیں گے، فطرانہ دیں گے اور بقرہ عید کے موقع پر چرم قربانی (یعنی کھال) دیں گے، ائمہ مساجد کا ان چیزوں پر راضی ہو کر ان کو وصول کرنا شرعی نقطہ نظر سے کیسا ہے؟
جواب: ائمہ مساجد کو زکوٰۃ ، صدقات واجبہ بطور تنخواہ دینا اور لینا دونوں جائز نہیں، اگر کسی نے ان کو زکوٰۃ یا صدقات واجبہ بطور تنخواہ دے دیے تو اس کی زکوٰۃ ادا نہیں ہوئی، اس لیے کہ اگر یہ ائمہ غنی اور صاحب نصاب ہیں تو تمام کتب فقہ میں تصریح موجود ہے کہ غنی کو زکوٰۃ دینا درست نہیں، اگر صاحب نصاب نہ ہوں، تو عدم جواز کی وجہ یہ ہے کہ ان کو امامت کے عوض اجرت میں زکوٰۃ و صدقات واجبہ دیے جارہے ہیں،جبکہ زکوٰۃ و صدقات واجبہ کسی کو چیز کے عوض اور اجرت میں دینا جائز نہیں، زکوٰۃ ادا ہونے کے لیے شرط یہ ہے کہ دینے والے کی کوئی منفعت اس مال سے متعلق نہ ہو۔
مال زکوٰۃ کا گم ہوجانا:
سوال: میں نے زکوٰۃ کے پیسے رمضان کے مہینے میں نکالے تھے، اس میں سے مستحق لوگوں کو روپیہ دے رہا تھا اور وہ پیسے دکان پر رکھے تھے ایک تھیلی کے اندر اور اندازاً 2000روپے اس میں موجود تھے، اب وہ تھیلی دکان میں نہیں مل رہی یا تو ملازم نے چوری کر لی یا کوئی اور بات ہوگئی ہے۔ آپ بتائیں کہ جو زکوٰۃ کے روپے دکان سے غائب ہوئے ہیں وہ مجھے دوبارہ دینے ہیں یا میری زکوٰۃ ادا ہوگئی ہے؟
جواب: زکوٰۃ کی رقم میں سے جتنی مقدار فقیروں کو دی گئی ہے، زکوٰۃ کی اتنی مقدار ادا ہوگئی باقی جتنی رقم گم ہوگئی ہے انتی ہی رقم دوبارہ دینا ضروری ہے محض زکوٰۃ کی رقم الگ کرنے سے زکوٰۃ ادا نہیں ہوگی۔
پیشگی زکوٰۃ دینا:
سوال: مجھے معلوم یہ کرنا ہے کہ رمضان کے مہینہ میں زکوٰۃ نکالنی ہے اور اس کے لیے میں بہت پریشان ہوں اور زکوٰۃ بھی لازمی نکالنی ہے، لہٰذا زکوٰۃ کس طرح نکالی جائے؟ زکوٰۃ پیشگی بھی دی جاسکتی ہے یا نہیں؟
جواب: پیشگی زکوٰۃ دینا جائز ہے اور زکوٰۃ کے ادا کرنے کے لیے شریعت نے کوئی مہینہ مقرر نہیں کیا بلکہ جس وقت سے نصاب کا مالک ہوا اسی وقت سے سال پورا ہونے پر زکوٰۃ فرض ہوتی ہے اس میں بہتر یہ ہے کہ فوراً زکوٰۃ ادا کردی جائے لیکن اگر زکوٰۃ ادا کرنے میں تاخیر کردی تو بھی زکوٰۃ ادا ہوجائے گی۔
زکوٰۃ پہنچانے کا کرایہ مد زکوٰۃ سے دینا:
سوال: ایک شخص کتابوں کا کاروبار کرتا ہے، سال پورا ہونے پر کتابوں ہی کو زکوٰۃ میں ادا کرنا چاہتا ہے زکوٰۃ کی مد کی کتابیں دینی مدرسہ میں دینا چاہتا ہے، دریافت طلب امر یہ ہے کہ مدرسہ تک پہنچانے کے لیے جو کرایہ لگے گا وہ بھی زکوٰۃ کی مد میں سے دے سکتا ہے یا نہیں؟
جواب: زکوٰۃ کے لیے ضروری ہے کہ رقم مستحق زکوٰۃ کو مالکانہ طور پر تملیکاً بلا عوض دی جائے اور مال زکوٰۃ کو کرایہ میں دینا تملیک بلا عوض نہیں ہے، لہٰذا مال زکوٰۃ سے کرایہ ادا کرنا جائز نہیں۔
البتہ یہ صورت ہوسکتی ہے کہ آپ جس ادارے یا فرد کو کتابیں دینا چاہتے ہیں اس کے کسی آدمی کو بلا کر اور کتابوں میں سے کچھ کم کر کے اس کی جگہ کرایہ کی رقم کے بقدر مد زکوٰۃ میں سے اسے دے دیں ، وہ اپنے قبضے میں لے کر کرایہ پر خرچ کرے، یا کتابیں کچھ رقم کے ساتھ کسی کے ساتھ بھیج دیں وہ مستحق فرد دونوں چیزیں وصول کر کے پھر اسی رقم کو کرایہ میں ادا کردے۔
ہسپتال میں زکوٰۃ کا پیسہ لگانا:
سوال: کیا کسی خیراتی ہسپتال میں زکوٰۃ کی رقم اس طرح استعمال کرنا جائز ہے کہ اس رقم سے دوائیں خرید کر مریضوں کو مفت دی جائیں ہستپال کا عملہ اور ڈاکٹروں کو اس سے تنخواہ اور دیگر ہسپتال کی ضروریات پوری کی جائیں؟
نیز ایسے ہسپتال کو زکوٰۃ دینا جائز ہے یا نہیں جہاں زکوٰۃ مذکورہ بالا طریقہ پر استعمال ہوتی ہو؟
جواب: مذکورہ صورتوں میں صرف پہلی صورت میں زکوٰۃ ادا ہوجاتی ہے یعنی زکوٰۃ کی رقم سے دوائیں خرید کر مستحق مریضوں کے درمیان مفت تقسیم کی جائیں، مال زکوٰۃ سے ہسپتال کی تعمیر اور اس کے لیے آلات خریدنا ڈاکٹروں کو فیس اور ہسپتال کے عملہ وغیرہ کو تنخواہیں دینا جائز نہیں۔
البتہ اگر زکوٰۃ کی رقم پہلے مستحق مریضوں کو دی جائے پھر مریض ہسپتال والوں کے واجبات اس سے ادا کریں تو ہسپتال کے منتظمین جہاں چاہیں اس کو استعمال کرسکتے ہیں۔
بی سی پر زکوٰۃ دینے کا طریقہ:
سوال: کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلے کے بارے میں کہ بی سی پر زکوٰۃ کا طریقہ کار کیا ہوگا؟
جواب: بی سی کی حقیقت قرض کی سی ہے کہ مثلاً دس آدمی باہمی رضامندی سے ماہانہ ایک ایک ہزار روپے جمع کرتے ہیں اور یہ طے کرتے ہیں کہ ہر مہینہ ایک آدمی کو جمع شدہ رقم دی جائے گی اور آدمی کی تعیین قرعہ کے ذریعہ سے پہلے ہی کر لیتے ہیں کہ اس مہینہ فلاں آدمی ہے اور آئندہ دوسرا، اسی طرح دس کے دس مکمل ہوجاتے ہیں۔
اس سے یہ واضح ہوا کہ ہر آدمی بی سی ملنے سے پہلے قرض دینے والا ہوتا ہے اور بی سی ملنے کے بعد قرض لینے والا ہوتا ہے، مثلاً ایک آدمی کی باری پانچویں مہینہ میں آئی تو اب وہ آدمی پانچ مہینہ تک دوسروں کو قرض دے رہا تھا اور اب پانچویں مہینہ میں بی سی ملنے کے بعد وہ پانچ ہزار کا مقروض ہوجائے گا بقیہ دسویں مہینہ تک۔
اب بی سی پر زکوٰۃ کا طریقہ کار یہ ہوگا کہ جس دن اس شخص کی زکوٰۃ کا سال پورا ہوتا ہے، مثلاً یکم رمضان، اس دن اگر وہ بی سی وصول کر چکا ہے تو جتنے مہینوں کی رقم ادا کرنی باقی ہے اتنی رقم کے بقدر مقروض ہے اس قرض کو اپنے دوسرے قابل زکوٰۃ مال سے نکال کر بقیہ کی زکوٰۃ ادا کرے، اگر اس دن تک اس نے بی سی وصول نہیں کی تو جتنے پیسے وہ بی سی میں جمع کر رہا ہے گویا اس نے دوسروں کو قرض دیے ہیں اور قرض کی زکوٰۃ وصولی کے بعد دینی ہوتی ہے لہٰذا اس پر فی الحال اس رقم کی زکوٰۃ ادا کرنا فرض نہیں، بی سی وصول کرنے کے بعد اس میں سے جتنی رقم آئندہ بی سی میں بھرنی ہے اس کو نکال کر باقی گزشتہ سالوں کی بھی زکوٰۃ ادا کرے۔
(ماہنامہ ’’الفاروق‘‘ کراچی، ص:۲۳،۲۷)