مولانا محمد منظور نعمانی رحمتہ اﷲ علیہ
عَنْ اَبِیْ ھُرَیْرَۃَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اِذَا دَخَلَ رَمَضَانُ فُتِحَتْ اَبْوَابُ الْجَنَّۃِ وَغُلِّقَتْ اَبْوَابُ جَھَنَّمَ وَسُلْسِلَتِ الشَّیَاطِیْنُ وَفِیْ رَوَایَۃٍ اَبْوَابُ الرَّ حْمَۃِ (رواہ البخاری و مسلم)
ترجمہ: حضرت ابوہریرہ رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا کہ: جب رمضان آتا ہے تو جنت کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں اور دوزخ کے دروازے بند کر دیے جاتے ہیں اور شیاطین جکڑ دیے جاتے ہیں۔ (اور ایک روایت میں بجائے ’’ابواب جنت‘‘ کے ’’ابوابِ رحمت‘‘ کا لفظ ہے۔) (صحیح بخاری و صحیح مسلم)
تشریح: استاذ الاساتذہ حضرت شاہ ولی اﷲ رحمتہ اﷲ علیہ نے ’’حجۃ اﷲ البالغہ‘‘ میں اس حدیث کی شرح کرتے ہوئے جو کچھ تحریر فرمایا ہے اس کا حاصل یہ ہے کہ اﷲ کے صالح اور اطاعت شعار بندے رمضان میں چونکہ طاعات و حسنات میں مشغول و منہک ہوجاتے ہیں وہ دنوں کو روزہ رکھ کے ذکر و تلاوت میں گزارتے ہیں اور راتوں کا بڑا حصہ تراویح و تہجد او ر دعا و استغفار میں بسر کرتے ہیں اور ان کے انوار و برکات سے متاثر ہو کر عوام مومنین کے قلوب بھی رمضان مبارک میں عبادات اور نیکیوں کی طرف زیادہ راغب اور بہت سے گناہوں سے کنارہ کش ہوجاتے ہیں تو اسلام اور ایمان کے حلقے میں سعادت اور تقویٰ کے اس عمومی رجحان اور نیکی اور عبادت کی اس عام فضا کے پیدا ہو جانے کی وجہ سے وہ تمام طبائع جن میں کچھ بھی صلاحیت ہوتی ہے اﷲ کی مرضیات کی جانب مائل اور شروخباشت سے متنفر ہوجاتی ہیں اور پھر اس ماہ مبارک میں تھوڑے سے عمل خیر کی قیمت بھی اﷲ تعالیٰ کی جانب سے دوسرے دنوں کی بہ نسبت بہت زیادہ بڑھا دی جاتی ہے، تو ان سب باتوں کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ان لوگوں کے لیے جنت کے دروازے کھل جاتے ہیں اور جہنم کے دروازے ان پر بند کردیے جاتے ہیں اور شیاطین ان کو گمراہ کرنے سے عاجز اور بے بس ہوجاتے ہیں۔
اس تشریح کے مطابق ان تینوں باتوں یعنی جنت و رحمت کے دروازے کھل جانے) دوزخ کے دروازے بند ہوجانے او رشیاطین کے مقید اور بے بس کر دیے جانے) کا تعلق صرف ان اہل ایمان سے ہے جو رمضان مبارک میں خیر و سعادت حاصل کرنے کی طرف مائل ہوتے اور رمضان کی رحمتوں اور برکتوں سے مستفید ہونے کے لیے عبادات و طاعات کو اپنا شغل بناتے ہیں۔ باقی رہے وہ کفار اور خدا ناشناس اور وہ خدا فراموش اور غفلت شعار لوگ جو رمضان اور اس کے احکام و برکات سے کوئی سروکار ہی نہیں رکھتے اور نہ اس کے آنے پر ان کی زندگیوں میں کوئی تبدیلی ہوتی ہے ظاہرہے کہ اس قسم کی بشارتوں کا ان سے کوئی تعلق نہیں انھوں نے جب اپنے آپ کو خود ہی محروم کر لیا ہے اور بارہ مہینے شیطان کی پیروی پر وہ مطمئن ہیں تو پھر اﷲ کے یہاں بھی ان کے لیے محرومی کے سوا اور کچھ نہیں۔
رمضان کی آمد پر رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کا ایک خطبہ:
عَنْ سَلْمَانَ الْفَارِ سِیَّ قَالَ خَطَبَنَا رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَیْ اٰخِرِ یَوْمٍ مِّنْ شَعْبَانَ فَقَالَ یَا اَیُّھَا النَّاسُ قَدْ اَظَلَّکُمْ شَھْرٌ عَظِیْمٌ شَھْرٌ مُبَارَکٌ شَھْرٌ فِیْہِ لَیْلَۃٌ خَیْرٌ مِنْ اَلْفِ شَھْرٍ جَعَلَ اللّٰہُ صِیَامَہ فَرِیْضَۃً وَقِیَامَ لَیلِہٖ تَطَوُّ عًا مَنْ تَفَرَّبَ فِیْہِ بِخَصْلَۃِ مِّنَ الْخَیْرِ کَانَ کَمَنْ اَدّیٰ فَرِیْضَۃً فِیْمَا سِوَاہُ وَمَنْ اَدّیٰ فَرِیْضَۃً فِیْہِ کَانَ کَمَنْ اَدّیٰ سَبْعِیْنَ فَرِیْضَۃً فِیْمَا سِوَاہُ وَھُرَ شَھْرُ الصَّبْرِ وَالصَّبْرُ ثَوَابُہٗ الْجَنَّۃُ وَشَھْرُ الْمَوَاسَاۃِ وَشَھْرٌ یٔزَا دُفِیْہِ رِزْقُ الْمُؤْمِنِ مَنْ فَطَّرَ فِیْہِ صَا ئِمًا کَانَ لَہْ مَغْفِرَۃٌ لِذُ نُوْبِہٖ وَعِتْقُ رَقْبَتِہٖ مِنَ النَّارِ وَ کَانَ لَہٗ مِثْلُ اَجْرِہٖ مِنْ غَیْرِ اَنْ یُنْتَقَصَ مِنْ اَجْرِ ہٖ شَیْیٌقُلْنَا یَارَسُوْلَ اللّٰہِ لَیْسَ کُلُّنَا یَجِدُ مَا یُفَطِّرُ بِہٖ الصَّائِمَ فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یُعْطِی اللّٰہُ ھٰذَا الثَّوَابَ مَنْ فَطَّرَ صَائِمًا عَلٰی مَذْقَۃِ لَبَنٍ اَوْ شَرْبَۃٍ مِنْ مَاءٍ وَمَنْ اَشْبَعَ صَائِمًا سَقَاہُ سَقَا ہُ اللّٰہُ مِنْ حَوْ ضِیْ شَرْبَۃً لَا یَظْمَأ حَتیّٰ یَدْ خُلَ الْجَنَّۃَوَھُوَ شَھْرٌ اَوَلُّہٗ رَحْمۃٌ وَاَوْسَطُہٗ مَغْفِرَۃٌ وَاٰخِرُہٗ عِتْقٌ مِنَ النَّارِ وَمََنْ خَفَّفَ عَنْ مَمْلُو کِہٖ فِیْہِ غَفَرَ اللّٰہُ لَہْ وَاَعْتَقَہٗ مِنَ النَّارِ (رواہ البیہقی فی شعب الایمان)
ترجمہ: حضرت سلمان فارسی رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ ماہِ شعبان کی آخری تاریخ کو رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے ہم کو ایک خطبہ دیا۔ اس میں آپ نے فرمایا: اے لوگو! تم پر ایک عظمت اور برکت والا مہینہ سایہ فگن ہورہا ہے اس مبارک مہینہ کی ایک رات (شب قدر) ہزار مہینوں سے بہتر ہے اس مہینے کے روزے اﷲ تعالیٰ نے فرض کیے ہیں اور اس کی راتوں میں بارگاہِ خداوندی میں کھڑا ہونے (یعنی نماز تراویح پڑھنے) کو نفل عبادت مقرر کیا ہے (جس کا بہت بڑا ثواب رکھا ہے) جو شخص اس مہینے میں اﷲ کی رضا اور اس کا قرب حاصل کرنے کے لیے کوئی غیر فرض عبادت (یعنی سنت یا نفل) ادا کرے گا تو اس کو دوسرے زمانہ کے فرضوں کے برابر اس کا ثواب ملے گا۔ اور اس مہینے میں فرض ادا کرنے کا ثواب دوسرے زمانے کے ستر فرضوں کے برابر ملے گا۔ یہ صبر کا مہینہ ہے اور صبر کا بدلہ جنت ہے یہ ہمدردی اور غمخواری کا مہینہ ہے اور یہی وہ مہینہ ہے جس میں مومن بندوں کے زرق میں اضافہ کیا جاتا ہے ۔ جس نے اس مہینے میں کسی روزہ دار کو (اﷲ کی رضا اور ثواب حاصل کرنے کے لیے) افطار کرایا تو اس کے لیے گناہوں کی مغفرت اور آتش دوزخ سے آزادی کا ذریعہ ہوگا اور اس کو روزہ دار کے برابر ثواب دیا جائے گا، بغیر اس کے کہ روزہ دار کے ثواب میں کوئی کمی کی جائے۔ آپ سے عرض کیا گیا کہ : یا رسول اﷲ! ہم میں سے ہر ایک کو تو افطار کرانے کا سامان میسر نہیں ہوتا (تو کیا غرباء اس عظیم ثواب سے محرورم رہیں گے؟) آپ نے فرمایا کہ: اﷲ تعالیٰ یہ ثواب اس شخص کو بھی دے گا جو دوھ کی تھوڑی سی لسی پر یا صرف پانی ہی کے ایک گھونٹ پر کسی روزہ دار کا روزہ افطار کرادے (رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے سلسلہ کلام جاری رکھتے ہوئے آگے ارشاد فرمایا کہ) اور جو کوئی کسی روزہ دار کو پورا کھانا کھلا دے اس کو اﷲ تعالیٰ میرے حوض (یعنی کوثر) سے ایسا سیراب کرے گا جس کے بعد اس کو کبھی پیاس ہی نہیں لگے گی تا آنکہ وہ جنت میں پہنچ جائے گا۔ (اس کے بعد آپ نے فرمایا) اس ماہ مبارک کا ابتدائی حصہ رحمت ہے اور درمیانی مغفرت ہے اور آخری حصہ آتش دوزخ سے آزادی ہے (اس کے بعد آپ نے فرمایا) اور جو آدمی اس مہینے میں اپنے غلام و خادم کے کام میں تخفیف اور کمی کر دے گا اﷲ تعالیٰ اس کی مغفرت فرمادے گا اور اس کو دوزخ سے رہائی اور آزادی دیدے گا۔ (شعب الایمان للبیہقی)
تشریح: اس خطبۂ نبوی صلی اﷲ علیہ وسلم کا مطلب و مدعا واضح ہے تاہم اس کے چند اجزاء کی مزید وضاحت کے لیے کچھ عرض کیا جاتا ہے۔
۱۔ اس خطبہ میں ماہ رمضان کی سب سے بڑی اور پہلی عظمت و فضیلت یہ بیان کی گئی ہے کہ اس میں ایک ایسی رات ہوتی ہے جو ہزار دنون اور راتوں سے نہیں، بلکہ ہزار مہینوں سے بہتر ہے۔ یہ بات جیسا کہ معلوم ہے قرآن مجید سورۃ القدر میں بھی فرمائی گئی ہے۔ بلکہ اس پوری سورت میں اس مبارک رات کی عظمت اور فضیلت ہی کا بیان ہے اور اس رات کی عظمت و اہمیت سمجھنے کے لیے بس یہی بات کافی ہے۔
ایک ہزار مہینوں میں قریباً تیس ہزار راتیں ہوتی ہیں، اس لیلۃ القدر کے ایک ہزار مہینوں سے بہتر ہونے کا مطلب یہ سمجھنا چاہیے کہ اﷲ تعالیٰ سے تعلق رکھنے والے اور اس کے قرب و رضا کے طالب بندے اس ایک رات میں قرب الٰہی کی اتنی مسافت طے کر سکتے ہیں جو دوسری ہزاروں راتوں میں طے نہیں ہوسکتی ہم جس طرح اپنی اس مادی دنیا میں دیکھتے ہیں کہ تیز رفتار ہوائی جہاز یا راکٹ کے ذریعہ اب ایک دن بلکہ ایک گھنٹہ میں اس سے زیادہ مسافت طے کی جاسکتی ہے جتنی پرانے زمانے میں سیکڑوں برس میں طے ہوا کرتی تھی، اسی طرح حصول رضائے خداوندی اور قرب الٰہی کے سفر کی رفتار لیلۃ القدر میں اتنی تیز کر دی جاتی ہے کہ جو بات صاد ق طالبوں کو سیکڑوں مہینوں میں حاصل نہیں ہوسکتی وہ اس مبارک رات میں حاصل ہوجاتی ہے۔
اسی طرح اور اسی کی روشنی میں حضور صلی اﷲ علیہ وسلم کے اس ارشاد کا مطلب بھی سمجھنا چاہیے کہ اس مبارک مہینہ میں جو شخص کسی قسم کی نفلی نیکی کرے گا اس کا ثواب دوسرے زمانہ کی فرض نیکی کے برابر ملے گا، اور فرض نیکی کرنے والے کو دوسرے زمانہ کے ستر فرض ادا کرنے کا ثواب ملے گا۔ گویا ’’لیلۃ القدر‘‘ کی خصوصیت تو رمضان مبارک کی ایک مخصوص رات کی خصوصیت ہے لیکن نیکی کا ثواب ستر گنا ملنا یہ رمضان مبارک کے ہر دن اور ہر رات کی برکت اور فضیلت ہے۔ اﷲ تعالیٰ ہمیں ان حقیقتوں کا یقین نصیب فرمائے اور ان سے مستفید اور متمتع ہونے کی توفیق دے۔
۲۔ اس خطبہ میں رمضان کے بارے میں فرمایا گیا ہے کہ یہ صبر اور غمخواری کا مہینہ ہے دینی زبان میں صبر کے اصل معنی ہیں اﷲ کی رضا کے لیے اپنے نفس کی خواہشوں کو دبانا اور تلخیوں اور ناگواریوں کو جھیلنا۔ ظاہر ہے کہ روزہ کا اوّل و آخر بالکل یہی ہے اسی طرح روزہ رکھ کر ہر روزہ دار کو تجربہ ہوتا ہے کہ فاقہ کیسی تکلیف کی چیز ہے اس سے اس کے اندر اُن غرباء اور مساکین کی ہمدردی اور غمخواری کا جذبہ پیداہونا چاہیے جو بیچارے ناداری کی وجہ سے فاقوں پہ فاقے کرتے ہیں۔ اس لیے رمضان کا مہینہ بلا شبہ صبر اور غم خواری کا مہینہ ہے۔
۳۔ یہ بھی فرمایا گیا ہے کہ: ’’اس بابرکت مہینہ میں اہل ایمان کے رزق میں اضافہ کیا جاتا ہے‘‘۔اس کا تجربہ تو بلا استثناء ہر صاحب ایمان روزہ دار کو ہوتا ہے کہ رمضان مبارک میں جتنا اچھا اور جتنی فراغت سے کھانے پینے کو ملتا ہے باقی گیارہ مہینوں میں اتنا نصیب نہیں ہوتا، خواہ اس عالم اسباب میں وہ کسی بھی راستے سے آئے، سب اﷲ ہی کے حکم سے اور اسی کے فیصلے سے آتا ہے۔
۴۔ خطبہ کے آخر میں فرمایا گیا ہے کہ: ’’رمضان کا ابتدائی حصہ رحمت ہے، درمیانی حصہ مغفرت ہے اور آخری حصہ جہنم سے آزادی کا وقت ہے۔‘‘
اس عاجز کے نزدیک اس کی راحج اور دل کو زیادہ لگنے والی توجیہ اور تشریح یہ ہے کہ رمضان کی برکتوں سے مستفید ہونے والے بندے تین طرح کے ہوسکتے ہیں ایک وہ اصحاب صلاح و تقویٰ جو ہمیشہ گناہوں سے بچنے کا اہتمام رکھتے ہیں اور جب کبھی ان سے کوئی خطا اور لغزش ہوجاتی ہے تو اسی وقت توبہ و استغفار سے اس کی صفائی و تلافی کر لیتے ہیں تو ان بندوں پر تو شروع مہینہ ہی سے بلکہ اس کی پہلی ہی رات سے اﷲ کی رحمتوں کی بارش ہونے لگتی ہے۔ دوسرا طبقہ ان لوگوں کا ہے جو ایسے متقی اور پرہیز گار تو نہیں ہیں لیکن اس لحاظ سے بالکل گئے گزرے بھی نہیں ہیں، تو ایسے لوگ جب رمضان کے ابتدائی حصے میں روزوں اور دوسرے اعمال خیر اور توبہ و استغفار کے ذریعے اپنے حال کو بہتر اور اپنے کو رحمت و مغفرت کے لائق بنا لیتے ہیں تو درمیانی حصے میں ان کی بھی مغفرت اور معافی کا فیصلہ فرمادیا جاتا ہے۔ اور تیسرا طبقہ ان لوگوں کا ہے جو اپنے نفسوں پر بہت ظلم کر چکے ہیں اور ان کا حال بڑا ابتر رہا ہے اور اپنی بد اعمالیوں سے وہ گویا دوزخ کے پورے پورے مستحق ہوچکے ہیں وہ بھی جب رمضان کے پہلے اور درمیانی حصے میں عام مسلمانوں کے ساتھ روزے رکھ کے اور توبہ و استغفار کر کے اپنی سیاہ کاریوں کی کچھ صفائی اور تلافی کر لیتے ہیں تو اخیر عشرہ میں (جو دریائے رحمت کے جوش کا عشرہ ہے) اﷲ تعالیٰ دوزخ سے ان کی بھی نجات اور رہائی کا فیصلہ فرمادیتا ہے۔
اس تشریح کی بنا پر رمضان مبارک کے ابتدائی حصے کی رحمت ، درمیانی حصے کی مغفرت اور آخری حصے میں جہنم سے آزادی کا تعلق بالترتیب امت مسلمہ کے ان مذکورہ بالا تین طبقوں سے ہو گا۔ واﷲ اعلم
روزہ کی قدر و قیمت اور اس کا صلہ:
عَنْ اَبِیْ ھُرَیْرَۃَ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلََّمَ کُلُّ عَمَلِ ابْنِ اٰدَمَ یُضَا عَفُ الْحَسَنَۃُ بِعَشْرِ اَمْثَالِھَا اِلیٰ سَبْعَمِا ئَۃِ ضعْفٍ قَالَ اللّٰہُ تَعَالیٰ اِلَّا الصَّوْمُ فَاِنَّہٗ لِیْ وَاَنَا اَجْزِیْ بِہٖ یَدَ عُ شَھْوَ تَہٗ وَطَعَامَہٗ مِنْ اَجَلِیْ لِلصَّائِمِ فَرْحَتَانِ فَرْحَۃٌ عِنْدَ فِطْرِہٖ وَفَرْ حَۃٌ عِنْدَ لِقَاءِ رَبِّہٖ وَلَخَلُوْفُ فَمِ اِلصَّائِمِ اَطْیَبُ عِنْدَ اللّٰہِ مِنْ رِیْحِ الْمِسْکِ وَالصِّیَامُ جُنَّۃٌ وَاِذَاکَانَ یَوْمُ صَوْمِ اَحَدِ کُمْ فَلَا یَرْفَثْ وَلَا یَصْخَبْ فَاِنْ سَابَّہٗ اَحَدٌ اَوْقَاتَلَہٗ فَلْیَقُلْ اِنِّیْ اِمْرُءٌ صَائِمٌ۔ (رواہ البخاری و مسلم)
ترجمہ: حضرت ابوہریرہ رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے (روزہ کی فضیلت اور قدر و قیمت بیان کرتے ہوئے) ارشاد فرمایا کہ آدمی کے ہراچھے عمل کا ثواب دس گنا سے سات سوگنا تک بڑھایاجاتا ہے (یعنی اس امت مرحومہ کے اعمال خیر کے متعلق عام قانون الٰہی یہی ہے کہ ایک نیکی کا اجر اگلی امتوں کے لحاظ سے کم از کم دس گنا ضرور عطا ہوگا اور بعض اوقات عمل کرنے کے خاص حالات اور اخلاص و خشیت وغیرہ کیفیات کی وجہ سے اس سے بھی بہت زیادہ عطا ہوگا، یہاں تک کہ بعض مقبول بندوں کو ان کے اعمال حسنہ کا اجر سات سو گنا عطا فرمایا جائے گا۔ تو رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے اﷲ تعالیٰ کے اس عام قانونِ رحمت کا ذکر فرمایا) مگر اﷲ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ روزہ اس عام قانون سے مستثنیٰ اور بالا تر ہے وہ بندہ کی طرف سے خاص میرے لیے ایک تحفہ ہے اور میں ہی (جس طرح چاہوں گا) اس کا اجر و ثواب دوں گا۔ میرا بندہ میری رضا کے واسطے اپنی خواہش نفس اور اپنا کھانا پینا چھوڑدیتا ہے (پس میں خود ہی اپنی مرضی کے مطابق اس کی اس قربانی اور نفس کشی کا صلہ دوں گا) روزہ دار کے لیے دومسرتیں ہیں:
ایک افطار کے وقت اور دوسری اپنے مالک ومولیٰ کی بار گاہ میں حضوری اور شرف باریابی کے وقت اور قسم ہے کہ روزہ دار کے منہ کی بواﷲ کے نزدیک مشک کی خوشبو سے بھی بہتر ہے (یعنی انسانوں کے لیے مشک کی خوشبو جتنی اچھی اور جتنی پیاری ہے اﷲ کے ہاں روزہ دار کے منہ کی بو اس سے بھی اچھی ہے) اور روزہ (دنیا میں شیطان و نفس کے حملوں سے بچاؤ کے لیے اور آخرت میں آتشِ دوزخ سے حفاظت کے لیے) ڈھال ہے اور جب تم میں سے کسی کا روزہ ہو تو چاہیے کہ وہ بیہودہ اور فحش باتیں نہ بکے اور شورو شغب نہ کرے اور اگر کوئی دوسرا اس سے گالی گلوچ یا جھگڑا ٹنٹا کرے تو کہہ دے کہ میں روزہ دار ہوں۔
تشریح: حدیث کے اکثر وضاحت طلب اجزاء کی تشریح ترجمہ کے ضمن میں کردی گئی ہے۔ آخر میں رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے جو یہ ہدایت فرمائی ہے کہ: جب کسی کا روزہ ہو تو وہ فحش اور گندی باتیں اور شور و شغب بالکل نہ کرے اور اگر بالفرض کوئی دوسرا اس سے الجھے اور گالیاں بکے جب بھی یہ کوئی سخت بات نہ کہے، بلکہ صرف اتنا کہہ دے کہ بھائی میراروزہ ہے۔ اس آخری ہدایت میں ارشاہ ہے کہ اس حدیث میں روزہ کی جو خاص فضیلتیں اور برکتیں بیان کی گئی ہیں یہ انھی روزوں کی ہیں جن میں شہوت نفس اور کھانے پینے کے علاوہ گناہوں سے حتیٰ کہ بری اور ناپسندیدہ باتوں سے بھی پرہیز کیا گیا ہو ایک دوسری حدیث میں (جو عنقریب درج ہوگی) فرمایا گیا ہے کہ: جو شخص روزہ رکھے لیکن برے کاموں اور غلط باتوں سے پرہیز نہ کرے تو اس کے بھوکے پیاسے رہنے کی اﷲ کو کوئی احتیاج نہیں ہے۔
روزے اور تراویح باعثِ مغفرت:
عَنْ اَبِیْ ھُرَیْرَۃَ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مَنْ صَامَ رَمَضَانَ اِیْمَانًا وَاِحْتِسَابًا غُفِرَلَہٗ مَاتَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِہٖ وَمَنْ قَامَ رَمَضَانَ اِیْمَا نًا وَّاِحْتِسَابًا غُفِرَلَہٗ مَاتَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِہٖ وَمَنْ قَامَ لَیْلَۃَ الْقَدْرِ اِیْمَانًا وَّاِحْتِسَا بًا غُفِرَلَہٗ مَا تَقَدمَ مِنْ ذَنْبِہِ۔ (رواہ البخاری و مسلم)
ترجمہ: حضرت ابوہریرہ رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا کہ: جو لوگ رمضان کے روزے ایمان و احتساب کے ساتھ رکھیں گے ان کے سب گزشتہ گناہ معاف کردیئے جائیں گے اور ایسے ہی جو لوگ ایمان و احتساب کے ساتھ رمضان کی راتوں میں نوافل (تراویح و تہجد) پڑھیں گے ان کے بھی سب پچھلے گناہ معاف کر دیے جائیں گے اور اسی طرح جو لوگ شبِ قدر میں ایمان و احتساب کے ساتھ نوافل پڑھیں گے ان کے بھی سارے پہلے گناہ معاف کردیے جائیں گے۔
تشریح: اس حدیث میں رمضان کے روزوں اس کی راتوں کے نوافل اور خصوصیت سے شبِ قدر کے نوافل کو پچھلے گناہوں کی مغفرت اور معافی کا یقینی وسیلہ بتایا گیا ہے بشرطیکہ یہ روزے اور نوافل ایمان و احتساب کے ساتھ ہوں یہ ایمان و احتساب خاص دینی اصطلاحیں ہیں اور ان کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ جو نیک عمل کیا جائے اس کی بنیاد اور اس کا محرک بس اﷲ و رسول کو ماننا اور ان کے وعدہ و وعید پر یقین لانا اور ان کے بتائے ہوئے اجر و ثواب کی طمع اور امید ہی ہو کوئی دوسرا جذبہ اور مقصد اس کا محرک نہ ہو۔ اسی ایمان و احتساب سے ہمارے اعمال کا تعلق اﷲ تعالیٰ سے جڑتا ہے بلکہ یہی ایمان و احتساب ہمارے اعمال کے قلب و روح ہیں، اگر یہ نہ ہوں تو پھر ظاہر کے لحاظ سے بڑے سے بڑے اعمال بھی بے جان اور کھوکھلے ہیں جو خدانخواستہ قیامت کے دن کھوٹے سکے ثابت ہوں گے اور ایمان و احتساب کے ساتھ بندے کا ایک عمل بھی اﷲ کے ہاں اتنا عزیز اور قیمتی ہے کہ اس کے صدقہ اور طفیل میں اس کے برسہا برس کے گناہ معاف ہوسکتے ہیں۔ اﷲ تعالیٰ ایمان و احتساب کی یہ صفت اپنے فضل سے نصیب فرمائے۔
روزہ اور قرآن کی شفاعت:
عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ عَمْرٍ واَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ الصِّیَامُ وَالْقُرآنُ یَشْفَعَانِ لِلْعَبْدِ یَقُوْلُ الصِّیَامُ اَیْ رَبِّ اِنِّیْ مَنْعَتُہٗ الطَّعَامَ وَالشَّھْوَاتِ بِالنَّھَارِ فَشَفِّعْنِیْ فِیْہِ وَیَقُوْلُ الْقُرآنُ مَنْعتُہٗ النَّوْمَ بِالَّلیْلِ فَشَفِّعْنِیْ فِیْہِ فَیُشَفَّعَانِ۔ (رواہ البیہقی فی شعب الایمان)
ترجمہ: حضرت عبداﷲ بن عمر رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا روزہ اور قرآن دونوں بندے کی سفارش کریں گے (یعنی اس بندے کی جو دن میں روزے رکھے گا اور رات میں اﷲ کے حضور میں کھڑا ہو کر اس کا پاک کلام قرآن مجید پڑھے گا یا سنے گا) روزہ عرض کرے گا اے میرے پروردگار میں نے اس بندے کو کھانے پینے اور نفس کی خواہش پورا کرنے سے روکے رکھا تھا آج میری سفارش اس کے حق میں قبول فرما (اور اس کے ساتھ مغفرت و رحمت کا معاملہ فرما۔) اور قرآن کہے گاکہ میں نے اس کو رات کے سونے اور آرام کرنے سے روکے رکھا تھا خداوند آج اس کے حق میں میری سفارش قبول فرما (اور اس کے ساتھ بخشش اور عنایت کا معاملہ فرما)چنانچہ روزہ اور قرآن دونوں کی سفارش اس بندہ کے حق میں قبول فرمائی جائے گی (اور اس کے لیے جنت اور مغفرت کا فیصلہ فرمادیا جائے گا) اور خاص مراحم خسروانہ سے اس کو نوازا جائے گا۔
تشریح: کیسے خوش نصیب ہیں وہ بندے جن کے حق میں ان کے روزوں کی اور نوافل میں ان کے پڑھے ہوئے یا سنے ہوئے قرآن پاک کی سفارش قبول ہوگی، یہ ان کے لیے کیسی مسرت اور فرحت کا وقت ہوگا۔ اﷲ تعالیٰ اپنے اس سیاہ کار بندے کو بھی محض اپنے کرم سے ان خوش بختوں کے ساتھ کردے۔
رمضان کا ایک روزہ چھوڑنے کا نقصان ناقابلِ تلافی:
عَنْ اَبِیْ ھُرَیْرَۃَ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مَنْ اَفْطَرَ یَوْ مًا مِنْ رَمَضَانَ مِنْ غَیْرِ رُخْصَۃٍ وَلَا مَرَضٍ لَمْ یَقُضِ عَنہُ صَوْمَ الدَّ ھْرِ کُلِّہٖ وَاِنْ صَامَہٗ۔
(رواہ احمدوالترمذی وابوداؤد ابن ماجۃ والدارمی والبخاری فی ترجمۃ باب)
ترجمہ: حضرت ابوہریرہ رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : جو آدمی سفر وغیرہ کی شرعی رخصت کے بغیر اور بیماری (جیسے کسی عذر کے بغیر رمضان کا ایک روزہ بھی چھوڑ دے وہ اگر اس کے بجائے عمر بھر روزے رکھے تو جو چیز فوت ہوگئی وہ پوری ادا نہیں ہوسکتی۔
(مسند احمد جامع ترمذی، سنن ابی داؤد، سنن ابن ماجہ، سنن دارمی) (اور صحیح بخاری میں بھی بغیر سند کے ایک ترجمہ باب میں اس حدیث کا ذکر کیا گیا ہے)
تشریح: حدیث کا مدعا اور مطلب یہ ہے کہ شرعی عذر اور رخصت کے بغیر رمضان کا ایک روزہ دانستہ چھوڑنے سے رمضان مبارک کی خاص برکتوں اور اﷲ تعالیٰ کی خاص الخاص رحمتوں سے جو محرومی ہوتی ہے عمر بھر نفل روزے رکھنے سے بھی اس محرومی اور خسر ان کی تلافی نہیں ہوسکتی اگرچہ ایک روزے کی قانونی قضا ایک ہی دن کا روزہ ہے لیکن اس سے وہ ہرگز حاصل نہیں ہوسکتا جو روزہ چھوڑنے سے کھو گیا۔ پس جو لوگ بے پروائی کے ساتھ رمضان کے روزے چھوڑتے ہیں وہ سوچیں کہ اپنے کو وہ کتنا نقصان پہنچاتے ہیں۔
روزے میں معصیتوں سے پرہیز:
عَنْ اَبِیْ ھُرَیْرَۃَ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مَنْ لَمْ یَدَعْ قَوْلَ الزُّ وْرِوَا لْعَمَلَ بِہٖ فَلَیْسَ لِلّٰہِ حَاجَۃٌ اَنْ یَدَعَ طَعَامَہٗ وَشَرََابَہٗ۔ (رواہ البخاری)
ترجمہ: حضرت ابوہریرہ رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا کہ: جو آدمی روزہ رکھتے ہوئے باطل کلام اور باطل کام نہ چھوڑے تو اﷲ کو اس کے بھوکے پیاسے رہنے کی کوئی ضرورت نہیں۔ (صحیح بخاری)
تشریح: معلوم ہوا کہ اﷲ کے ہاں روزے کے مقبول ہونے کے لیے ضروری ہو کہ آدمی کھانا پینا چھوڑنے کے علاوہ معصیات و منکرات سے بھی زبان و دہن اور دوسرے اعضاء کی حفاظت کرے اگر کوئی شخص روزہ رکھے اور گناہ کی باتیں اور گناہ والے اعمال کرتا رہے تو اﷲ کو اس کے روزے کی کوئی پروا نہیں۔
عشرۂ اخیرہ اور لیلۃ القدر:
جس طرح رمضان المبارک کو دوسرے مہینوں کے مقابلے میں فضیلت حاصل ہے اسی طرح اس کا آخری عشرہ پہلے دونوں عشروں سے بہتر ہے اور لیلۃ القدر اکثر و بیشتر اسی عشرہ میں ہوتی ہے اس لیے رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم عبادت وغیرہ کا اہتمام اس میں اور زیادہ کرتے تھے اور دوسروں کو بھی اس کی ترغیب دیتے تھے۔
عَنْ عَائِشَۃَ قَالَتْ کَانَ رَسُوْلُ اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَجْتَھِدُ فِی الْعَشْرِ الْاَ وَاخِرِ مَالَا یَجْتَھِدُ فِیْ غَیْرِہَٖ (راوہ مسلم)
ترجمہ: حضرت عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم رمضان کے آخری عشرہ میں عبادت وغیرہ میں وہ مجاہدہ کرتے اور وہ مشقت اٹھاتے جو دوسرے دنوں میں نہیں کرتے تھے۔
عَنْ عَائِشَۃَ قَالَتْ کَانَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اِذَا دَخَلَ الْعَشْرُ شَدَّ مِیْزَ رَہٗ وَاَحْییٰ لَیْلَہٗ وَاَیْقَظَ اَھْلَہٗ۔ (رواہ البخاری و مسلم)
ترجمہ: حضرت عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہا سے روایت ہے کہ جب رمضان کا عشرۂ اخیرہ شروع ہوتا تو رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کمر کس لیتے اور شب بیداری کرتے (یعنی پوری رات عبادت اور ذکر و دعا میں مشغول رہتے) اور اپنے گھر کے لوگوں (یعنی ازواج مطہرات اور دوسرے متعلقین) کو بھی جگا دیتے( تاکہ وہ بھی ان راتوں کی برکتوں اور سعادتوں میں حصہ لیں)
شب قدر کی خاص دعا:
عَنْ عَائِشَۃَ قَالَتْ قُلْتُ یَارَسُوْلَ اللّٰہِ اَرَاَیْتَ اِنْ عَلِمْتُ اَیُّ لَیْلَۃٍ لَیْلَۃُ الْقَدْرِ مَا اَقُوْلُ فِیْھَا قَالَ قُوْلِیْ اَللّٰھُمَّ اِنَّکَ عَفُوٌّ کَرِیْمٌ تُحِبُّ الْعَفْوَ فَاَعْفُ عَنِّیْ۔ (رواہ احمد والترمذی وابن ماجۃ)
ترجمہ: حضرت عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہا سے روایت ہے کہ میں نے رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ مجھے بتائیے کہ اگر مجھے معلوم ہوجائے کہ کون رات شب قدر ہے تو میں اس رات اﷲ سے کیا عرض کروں اور کیا دعا مانگوں؟ آپ نے فرمایا یہ عرض کرو: ’’اَللّٰھُمَّ اِنَّکَ عَفُوٌّ کَرِیْمٌ تُحِبُّ الْعَفْوَ فَاعْفُ عَنِّیْ‘‘ اے میرے اﷲ! تو بہت معاف فرمانے والا اور بڑا کرم فرما ہے اور معاف کر دینا تجھے پسند ہے پس تو میری خطائیں معاف فرمادے۔
تشریح: اس حدیث کی بنا پر اﷲ کے بہت سے بندوں کا یہ معمول ہے کہ وہ ہر رات میں یہ دعا خصوصیت سے کرتے ہیں اور رمضان مبارک کی راتوں میں اور ان میں سے بھی خاص کر آخری عشرہ کی طاق راتوں میں اس دعا کا اور بھی زیادہ اہتمام کرتے ہیں۔
رمضان کی آخری رات:
عَنْ اَبِیْ ھُرَیْرَۃَ عَنِ النَّبِیّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اَنَّہٗ قَالَ یُغْفَرُ لِاُ مَّتِہٖ فِیْ اٰخِرِ لَیْلَۃٍ مِنْ رَمَضَانَ فِیْلَ یَارَسُوْلَ اللّٰہِ اَھِیَ لَیْلَۃُ القَدْرِ قَالَ لَا وَلٰکِنَّ الْعَامِلَ اِنَّمَا یُوَ فّٰی اَجْرُہٗ اِذَا قَضیٰ عَمَلَہٗ۔ (رواہ احمد)
ترجمہ: حضرت ابوہریرہ رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا کہ رمضان کی آخری رات میں آپ کی امت کے لیے مغفرت اور بخشش کا فیصلہ کیا جاتا ہے آپ سے دریافت کیا گیا۔ یارسول اﷲ کیا وہ شب قدر ہوتی ہے ؟ آپ نے فرمایا کہ شب قدر تو نہیں ہوتی لیکن بات یہ ہے کہ عمل کرنے والا جب اپنا عمل پورا کردے تو اس کو پوری اجرت مل جاتی ہے۔
تشریح: اس حدیث سے معلوم ہوا کہ رمضان مبارک کی آخری رات بھی خاص مغفرت کے فیصلہ کی رات ہے لیکن اس رات میں مغفرت اور بخشش کا فیصلہ انھی بندوں کے لیے ہوگا جو رمضان مبارک کے عملی مطالبات کسی درجہ میں پورے کر کے اس کا استحقاق پیدا کر لیں۔ اﷲ تعالیٰ ہم سب کو اس کی توفیق دے۔(آمین)
(مطبوعہ: معارف الحدیث، ص:۹۵ تا ۱۱۷)