شاہ بلیغ الدین رحمہ اﷲ
ماں کی پریشانی دیکھ کر بچے کو چھوڑ دیا گیا۔ وہ قید سے چھوٹا تو خوشی سے دوڑتا کلیلیں بھرتا اپنی ماں سے جا ملا۔ کچھ نہ پوچھنے کہ خوشی سے دونوں کا کیا حال ہوا۔ دونوں کو نئی زندگی مل گئی۔ بچے کو چھوڑنے والا آگے بڑھ گیا۔ ماں بچے کو لے کر لوٹ گئی لیکن تھوڑی دیر کے بعد وہ رکتی اور دور جاتے ہوئے اپنے محسن کی طرف دیکھتی رہی۔ کوئی اس کی نظریں دیکھتا تو معلوم ہوتا کہ اس میں اپنے محسن کے لیے کیسا پیار، کیسی عقیدت اور دل سے نکلنے والی دعاؤں کی کتنی روشن جھلک تھی، وہ بچے کو چھوڑ نے والا جب بھی مڑتا اور یہ منظر دیکھتا تو بے اختیار اس کا دل بھر آتا اور وہ سوچتا کہ بچے کو ماں سے چھڑا کر اس نے کیسا ظلم کیا تھا۔ وہ اﷲ تعالیٰ کا شکر ادا کرتا کہ اس نے اس کے دل میں رحم ڈال دیا، ورنہ امتنان و تشکر کا یہ منظر دیکھنے کو کہاں ملتا۔
رحم اﷲ تعالیٰ کی صفتوں میں بہت بڑی صفت ہے۔ عدل سے بھی بڑی صفت۔ قرآن میں آیا کہ: ’’اَنْتَ خَیْرُ الرَّا حِمِیْن‘‘ کہ رحم کرنے والوں میں وہ سب سے بہتر رحم کرنے والا ہے۔دنیا جہاں میں سینکڑوں باتیں رحم کی سننے میں آتی ہیں اور رحم کرنے کے بہت سے واقعات ہماری آنکھوں کے سامنے ہوتے رہتے ہیں یہ سب رحمت خداوندی کا عکس ہیں۔ حضور صلی اﷲ علیہ وسلم میں یہ صفت کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی اسی لیے اﷲ تعالیٰ نے آپ کے بارے میں فرمایا کہ ’’حَرِیْصٌ عَلَیْکُمْ بالْمُؤْمِنِیْنَ رَؤُفٌ رَّحِیْم‘‘ کہ وہ بہتری کے بڑے شائق اور مسلمانوں پر بہت شفیق اور بہت مہربان ہیں یہی صفت اﷲ تعالیٰ نے صحابہ کرام میں بھی پیدا کردی تھی چنانچہ ارشاد فرمایا کہ ’’رُحَمَآءُ بَیْنَھُمْ‘‘ کہ وہ ایک دوسرے سے بڑی محبت کرنے والے ہیں۔کوئی شخص اگر یہ کہے کہ صحابہ الطاف و کرم کا مظاہرہ کرنے کے بجائے کبھی زمین پر کبھی عہدوں پر آپس میں لڑتے رہتے تھے تو وہ قرآن کا جھٹلانے والا اور پکا منافق ہے۔ اگر کسی کتاب یا تاریخ میں یہ بات لکھی ہو تو وہ کتاب غلط اور وہ تاریخ جھوٹی ہے رحم تو مسلمانوں کا خاص وصف ہے۔ صحابہ کرام اس سے مالا مال تھے۔
اب اس شخص کی قسمت دیکھئے جس نے بچے کو چھوڑ دیا تاریخ فرشتہ میں ہے کہ اسی رات اسے خواب میں حضور اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم کی زیارت نصیب ہوئی۔ ارشاد ہوا کہ ’’اے ناصر الدین! تیرا عمل اﷲ کی بارگاہ میں قبول ہوا اس لیے اب تجھے چاہیے کہ اﷲ تعالیٰ کی اس خوشنودی کے احترام میں کبھی رحم کو اپنے ہاتھ سے جانے نہ دے۔ یہی دین و دنیا کا سرمایہ ہے۔ جامع الحکایات اور تاریخ فرشتہ میں ہے کہ ناصر الدین ،الپتگین کا ملازم تھا۔ اس کے پاس بس ایک ہی گھوڑا تھا۔ دن رات وہ اسے دوڑاتا رہتا اور جنگل میں شکار کھیلا کرتا تھا۔ وہ کمال کا شکاری تھا۔ ایک دن اس نے ایک ہرنی اور اس کے بچے کو چرتے اور بھاگتے دیکھا تو گھوڑا ان کے پیچھے ڈال دیا اور بچے کو زندہ پکڑ کر اپنی زین سے باندھ کر گھر لوٹنے لگا۔ ابھی وہ جنگل ہی میں تھا اور خوش خوش چلا جارہا تھا کہ اس نے مڑ کر دیکھا کہ ہرنی کا بچہ ساتھ آ رہا ہے یا نہیں؟ وہ برابر ساتھ آرہا تھا لیکن اس کے پیچھے پیچھے اس کی ماں بھی آرہی تھی۔ کبھی سر پٹکتی، کبھی کراہتی، سوار اسے بھی پکڑ سکتا تھا لیکن ایسا معلوم ہوتا تھا کہ ماں کو اپنی محبت میں اس بات کی فکر ہی نہیں تھی کہ اس کا کیا ہوگا۔ اب ناصر الدین نے بار بار مڑ کر اسے دیکھنا شروع کیا۔ ماں کی ممتا چھپ نہیں سکتی۔ بے زبان تھی لیکن وہ ہرنی اپنی پریشانی اور غم کا ہر ممکن اظہار کیے جارہی تھی حتیٰ کہ ناصر الدین ماں کے غم کو دیکھ نہ سکا۔ انصاف اور رحم کا تقاضا یہ تھا کہ ہرنی کا بچہ چھوڑ دیا جاتا ۔ یہ خیال آنا تھا کہ ناصرالدین نے اپنی زین سے بندھی ہوئی رسی کھول دی اور بچے کو آزاد کردیا۔ اس وقت کوئی ہرنی کی حالت دیکھتا فرط مسرت اور شدت جذبات سے اس کے آنسو نکل آئے تھے۔
ماں باپ کی محبت اولاد کے لیے بڑی بے پایاں ہوتی ہے اسی لیے ہمارے دین نے کہا کہ باپ کے راضی رکھنے میں اور ماں کی خوشی میں جنت ہے۔ ناصرالدین کو اﷲ نے اس کا صلہ یہ دیاکہ وہ سبکتگین بن کر اس علاقے کا حکمران بن گیا۔
(مطبوعہ: طوبیٰ)
فُضَیل ابنِ عیاض رحمہ اﷲ کی نصیحت
سفیان ثوری رحمہ اﷲ ایک روز فُضَیل بن عیاض رحمہ اﷲ کے پاس گئے تو ان سے کہا کہ ابو علی مجھے کچھ نصیحت فرمائیے اس پر فُضَیل رحمہ اﷲ نے فرمایا کہ میں آپ حضرات کو کیا نصیحت کروں (آپ خود اہل علم ہیں مگر اتنا کہتا ہوں کہ) اے علماء کی جماعت تم چراغ تھے تم سے ملکوں میں روشنی حاصل کی جاتی تھی سو اب تم سراسر تاریکی ہوگئے اور تم ستارے تھے تم سے ظلماتِ جہل میں راستہ معلوم کیا جاتا تھا۔ سو اب خود تم سراپا حیرت ہوگئے تم میں سے ایک شخص ان حکام کے دروازوں پر جاتا ہے۔ (ایک غلطی) پھر ان کے فرشوں پر بیٹھتا ہے، (دوسری غلطی) اور ان کا کھانا کھاتا ہے (تیسری غلطی) پھر ان کا ہدیہ قبول کرتا ہے (چوتھی غلطی) پھر اتنی غلطیوں کے بعد (ہادی بن کے) مسجد میں جاتا ہے (اور اس میں ) مسند درس و وعظ پر بیٹھتا ہے اور کہتا ہے کہ ہم سے فلاں نے بیان کیا وہ فلاں سے روایت کرتے ہیں وہ جناب رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم سے یہ مضمون روایت کرتے ہیں (کس قدر نازیبا بات ہے) واﷲ! علم یوں نہیں طلب کیا جاتا (بلکہ اس کا طریق یہ ہے کہ اول خود عمل کرے پھر دوسروں کو بتلا دے) راوی کہتے ہیں کہ سفیان رحمتہ اﷲ علیہ (یہ سن کر اتنے روئے کہ ہچکی بندھ گئی اور اس کے بعد) چپکے چلے گئے۔ (احوال الصادقین، علامہ عبد الوہاب شعرانی)