پروفیسر خالد شبیر احمد
’’پانامہ کیس‘‘ اور ’’ڈان لیکس‘‘ نے ہمارے نظام حکومت کی حقیقت کھول کر رکھ دی ہے۔ پوری قوم اس وقت خوف و ہراس کے اتھاہ سمند میں غوطے کھا رہی ہے۔ ہماری سیاسی زندگی کی یہ بات روایت ہو کے رہ گئی ہے کہ انتخاب سے پہلے بھی سیاسی بحران ہوتا ہے اور الیکشن کے بعد یہ بحران اور شدید ہوجاتا ہے۔ قومی انتخابات سے پہلے اس سیاسی بحران نے پوری قوم کو حیران و ششد ر کر کے رکھ دیا ہے۔ سیاست دانوں کی اس طفلانہ جنگ بازی نے پوری قوم سے سکھ چین چھین لیا ہے۔ حد تو یہ ہے کہ ہمارے سیاست دانوں کی ذاتی کدورت اور عداوت سے ملک کا ہر ادارہ مشکوک ہی نہیں بلکہ مغضوب و مطعون ہو کے رہ گیا ہے۔ حتیٰ کہ عدلیہ اور فوج جیسے اہم ترین ادارے سیاست دانوں کی زبردست تنقید کی زد پر ہیں۔ حب الوطنی احساس ذمہ داری خوف خدا کا کہیں نام و نشان تک نظر نہیں آتا۔جمہوریت کے نام پر مفاد پرستی کو فروغ حاصل ہوتا جارہا ہے۔ ہر ہوش مند پاکستانی اس صورت حالات پر نہ صرف پریشان و مضطرب ہے بلکہ سیاست دانوں کے عقل اور شعور کی پستی پر آنسو بہاتا نظر آتا ہے۔ سیاسی رقابت کی اس جنگ نے قومی اتحاد کو پارہ پارہ کر کے رکھ دیا ہے اور یوں محسوس ہوتا ہے کہ بحیثیت قوم ہمارا سب کچھ جبرِ جمہوریت کی زد پہ ہے۔ شدت احساس کا اظہار جب نثر میں ہوتا نظر نہ آئے تو پھر شاعری کا سہارا لینا پڑتا ہے۔ اس سہارے سے ہی موجودہ سیاسی اور معاشرتی صورت مزید کھل کر شدید صورت میں ابھر کر ہمارے سامنے آتی ہے۔
خزاں چمن پہ چھا گئی، بہار اشک بار ہے ادھر بھی انتشار ہے ادھر بھی انتشار ہے
یہ کیا تغیرات ہیں، یہ کیا ہوا یہ کیوں ہوا کہ دشت و کوہ غم زدہ، اداس آبشار ہے
یہ کیا زوالِ زیست ہے سوچتا ہے کون یہ کہ آدمی کا آدمی ہی کس لیے شکار ہے
ملا ہے دیں سے دوریوں کا خالدؔ ہم کو یہ صلہ نفاق و افتراق ہے شدید خلفشار ہے
ان دنوں ملک کی صورت حال یہ ہے کہ ملکی مسائل پر لکھتے ہوئے ہاتھ کانپتے ہیں، آنکھوں سے آنسو بہہ نکلتے ہیں اور دل بیٹھ بیٹھ جاتا ہے۔ کبھی یہ احساس بھی شدت سے ابھرتا ہے کہ ہم پاکستانیوں کا کوئی والی وارث نہیں بلکہ غیروں نے ہمارے ملک پر قبضہ کر رکھا ہے اور ان کا فیصلہ ہے کہ دکھی دل پاکستانیوں کو مزید دکھ پہنچایا جائے۔ ایسے میں ہر پاکستانی پریشان ہے اور ایک دوسرے کو دیکھ کر یہ کہتا نظرآتا ہے۔
شہرِ ظلمت میں غم کے ماروں کی کیا کبھی بھی سحر نہیں ہوتی؟
` یہاں پر ایسا کون ہے جس کے کردار و اخلاق پر انگلی نہ اٹھائی جاسکتی ہو ہر ایک سیاست دان کا ماضی داغدار حال مشکوک او رمستقبل معدوم نظر آتا ہے۔ ہر سیاست دان دوسرے سیاست دان کو کہنی مار کے آگے بڑھنا چاہتا ہے۔ اقتدار کی خواہش نے ان سیاست دانوں کو پاگل کر کے رکھ دیا ہے۔ ہماری سیاسی قیادت میں سرے سے کوئی جاذبیت رہ ہی نہیں گئی۔ قوم کا ہر فرد ان کی اس سیاسی رقابت سے پریشان ہی نہیں بلکہ خوف زدہ بھی ہے اور زبانِ حال سے یہ بھی کہہ رہا ہے۔
لے گئے لوٹ کے گھر بار محافظ میرے رہ گیا خوف فقط میرے مکاں میں رکھا
سیاسی قیادت میں جاذبیت اس وقت پیدا ہوتی ہے جب اس کے پاس کوئی موقف ہو، کوئی نصب العین ہو، کوئی مشن ہو اور اس مشن کی صداقت پر سیاسی قیادت کو لازوال یقین ہو۔ ایسے میں عوام بھی اپنی سیاسی قیادت کو عزت و احترام سے دیکھتی ہے اور ایسی قیادت پر جان تک نثار کرنے کے لیے تیار رہتی ہے۔ مگر یہاں پر تو معاملہ بالکل اس کے برعکس ہے۔ نہ قیادت، نہ موقف ، نہ کوئی منزل نہ ہی کوئی نصب العین اور اگر ہے تو فقط یہ کہ ہر جائز و ناجائز طریقے سے انتخاب جیتا جائے۔ پھر لطف کی بات یہ بھی ہے کہ سب کچھ یہ کہہ کے ہو رہا ہے کہ جمہوریت کو اچھے ہاتھوں میں لانا ہے اور ستم ظریفی یہی تو ہے کہ جمہوریت کو اچھے ہاتھوں میں لانے والے ہی یہ گل کھلا رہے ہیں۔ یہ سب دیکھ کر کہنا پڑتا ہے۔
کیسا عروجِ زیست پہ آیا زوال ہے قحط الرجال ہے یہاں قحط الرجال ہے
لابہ گروں کی زد پہ ہے تاج و سریر آج رہبر ہوئے ہیں گورکن اب ایسا حال ہے
اقبال تیرے خواب کی دنیا اجڑ گئی خطہ تیرے خیال کا روبہ زوال ہے
دکھ زندگی کے روح کی تہہ تک اتر گئے جینا محال ہے مجھے مرنا محال ہے
آخر ان برے دنوں کا مقابلہ کون کرے گا اور کس طرح ہوگا۔ یہی سوال اس وقت ہر ذی شعور فرد کے ذہن پر ہتھوڑے برسا رہا ہے۔ اس سے پہلے کہ ایسے حالات کے مقابلے کے لیے سوچا جائے ایسے ناگفتہ بہ ٖحالات اور صورت حال کے محرکات پرغور کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ ایسے خوفناک حالات کی بنیادی وجہ ہمارا شوقِ کرّ و فر خواہشِ اقتدار اور اس خواہشِ اقتدار کے حصول کے لیے ہر جائز ناجائز ذریعے کو عمل میں لانے کی عادت ہے۔ جو بھی سیاست دان میدان سیاست میں قدم رکھتا ہے اس کو خواہش اقتدار بے چین کیے رکھتی ہے کہ کس وقت لیلائے اقتدار اس کی ہم آغوش ہو کراس کے پہلو میں جلوہ افروز ہوگی اور کس وقت وہ ا پنے لیے شان و شوکت کا سامان حاصل کر کے اپنا دامن حرص و ہوس سے بھر سکے گا۔ اس کام کے حصول کے لیے سیاست دان ہر طرح کی بے ا صولی کو اصول جانتا ہے کوئی وعدہ کوئی معاہدہ اس کے لیے کوئی حیثیت نہیں رکھتا۔ وہ اپنی منزل تک پہنچنے کے لیے ہر طرح کی عیاری اور مکاری اپنی سیاست کا جزو اول قرار دیتا ہے۔ اسی لیے اب پاکستانی سیاست نے ایسے اصول بھی وضع کر لیے ہیں جن کا نہ تو انسانیت کے ساتھ کوئی تعلق ہے نہ اخلاق و کردار کے ساتھ۔ مثلاً سیاست میں کوئی دوست دشمن نہیں ہوتا۔ سیاست میں جعلی مذاکرات کے دروازے ہر وقت کھلے رہتے ہیں۔سیاست میں کوئی وعدہ معاہدہ قرآن حدیث کا درجہ نہیں رکھتا، سیاست میں آج کا دوست کل کا دشمن ہوسکتا ہے اور آج کا دشمن کل کا دوست بھی ہوسکتا ہے۔ ان جعلی اور مکروہ سیاسی اصولوں پر استوار ہونے والی سیاست اور جمہوریت کیا کیا گل کھلا سکتی ہے وہ آپ کے سامنے ہے۔ ایسے ہی مکروہ اصولوں کی وجہ سے ملکی سیاست محض تجارت بن کے رہ گئی ہے۔ اب ملکی سیاست میں فراست تدبر تحمل تفکر بردباری احساس ذمہ داری اور خوف خدا نام کی کوئی شے باقی نہیں رہ گئی۔ دین کی ہر خوبی کو نظر انداز کر کے صرف اور صرف دنیا کی ہر بے اصولی کو اپنی سیاسی زندگی کا مرکز و محور بنا لیا گیا ہے جبکہ حقیقت یہ ہے کہ مسلمان کے منہ میں اگر دین کی لگام نہ ہو تو پھر یہ مسلمان سرکش او ر خود سر ہو کر وہ سب کچھ کر گزرتا ہے جو اس وقت ہمارے ملک کے سیاست دان کر رہے ہیں۔ شاید علامہ اقبال نے اسی لیے یہ کہا تھا۔
دیں ہاتھ سے دے کر اگر آزاد ہو ملت ہے ایسی تجارت میں مسلماں کا خسارا
دوسری وجہ اس خلفشار کی یہ ہے کہ جمہوریت کو دین کی کرسی پر بیٹھا دیا گیا ہے اور دین کو ایک نظر یہ سمجھ لیا گیا ہے حالانکہ جمہوریت ایک نظریہ ہے جس میں تغیر و تبدل ہوتا رہتا ہے جبکہ دین مکمل ہوگیا ہے جس میں تغیر و تبدل سرے سے ممکن ہی نہیں ہے۔ اسی لیے تو ہم نے دینی تقاضوں کو نظر انداز کر کے صرف اور صرف جمہوریت کی راگنی الاپنی شروع کر دی ہے جس کے نتائج اب ہمارے سامنے ہیں۔ دین کا سیاست کے ساتھ تعلق نہ ہونے کے سبب ہماری سیاست ہماری معاشرت تباہ و برباد ہو کر ہمارے سامنے ’’پانامہ کیس‘‘ اور ’’ڈان لیکس‘‘ کی صورت میں ظاہر ہو کر ہمیں ایک جن اور بھوت کی طرح ڈرا رہی ہے ’’پانامہ کیس‘‘ دراصل دین کو سیاست سے جدا کرنے کا ثمرہ ہے جس پر ساری قوم ہی نہیں بلکہ عدلیہ، فوج اور خود سیاست دان اور سب سے زیادہ ملک کے عوام مضطرب و بے چین اور خوف زدہ ہیں۔ اقبال نے اسی لیے تو کہا تھا۔
جلال پادشاہی ہو کہ جمہوری تماشہ ہو جدا ہو دیں سیاست سے تو وہ جاتی ہے چنگیزی
¤ ایسے حالات میں ہم اپنے سیاست دانوں سے یہی اور صرف یہی کہہ سکتے ہیں کہ لوٹ آئیے ان اقدار کی جانب جو دین فطرت نے انسان کے لیے مخصوص کر دیے ہیں۔ اقدار کی سیاست سے ہی مسائل حل ہوگئے۔ اقتدار کی سیاست سے ہرگز نہیں۔
ہر چند میرے ذوق کی تسکین نہیں یہاں نغمہ سرا ہوں سازِ اذیت کی تال پر
صحن چمن میں کیوں نہیں پہلے سی چاندنی کھلتے ہیں گرچہ پھول بہت ڈال ڈال پر