ڈاکٹرعمرفاروق احرار
مجلس احراراسلام پاکستان کی مجلس شوریٰ کا اجلاس 4مئی کو دَارِ بنی ہاشم،ملتان میں ہوا۔جس کی صدارت ابن امیرشریعتؒ حضرت پیرجی سیّدعطاء المہیمن بخاری دامت برکاتہم نے کی۔نواسۂ امیرشریعتؒ حافظ سیّدمحمدکفیل بخاری مدظلہ‘ کی تلاوتِ قرآن مجیدکے بعدمجلس احراراسلام کے جنرل سیکرٹری جناب عبداللطیف خالدچیمہ نے گزشتہ سالوں کی کارکردگی کی رپورٹ پیش کی۔جس پر اَرکانِ شوریٰ نے اپنے اِعتمادکااظہارکیا۔بعداَزاں مرکزی اِنتخابات کا مرحلہ آیاتو قائداَحرارمدظلہ‘نے اپنی علالت کے پیش نظراَرکانِ شوریٰ سے آئندہ مدت کے لیے متبادل امیرکے انتخاب کا مشورہ دیا،مگرمجلس شوریٰ نے متفقہ طورپر حضرت پیرجی سیّدعطاء المہیمن بخاری مدظلہ‘ کی امارت پر اظہارِ اعتمادکرتے ہوئے انہیں دوبارہ امیرمرکزیہ چُن لیا۔جبکہ عبداللطیف خالد چیمہ کو ناظم اعلیٰ اور ڈاکٹر عمر فاروق احرار کو مرکزی سیکرٹری اطلاعات منتخب کیا گیا۔ پروفیسر خالد شبیر احمد، سید محمد کفیل بخاری اور مولانا محمد مغیرہ کو مرکزی نائب امیر ،میاں محمد اویس اور قاری محمد یوسف احرار کو مرکزی نائب ناظم مقرر کیا گیا ۔ سابق قادیانی رہنما ڈاکٹر محمد آصف کوناظم دعوت و اِرشاد کاعہدہ تفویض کیا گیا۔علاوہ ازیں مولانا مفتی عطاء الرحمن قریشی سندھ اور مولانا تنویر الحسن پنجاب کے سیکرٹریز نامزدہوئے۔
احرار کے مرکزی دفتر دارِ بنی ہاشم ملتان میں تین گھنٹے تک جاری رہنے والے اجلاس میں ملک کی مجموعی سیاسی صورتحال پربھی غور کیا گیا اور قرار دیا گیا کہ وطن عزیز کے خلاف دن رات سازشیں ایسے عناصر کر رہے ہیں جو اِسلام اور دستور پاکستان کے خلاف ہیں،حضرت پیرجی سید عطاء المہیمن بخاری دامت برکاتہم نے اجلاس کے شرکاء سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ قوم کو درپیش حقیقی مسائل سے توجہ ہٹانے کے لیے پانامہ اور ڈان لیکس جیسے غیر متعلقہ موضوعات میں لوگوں کو الجھایا جارہا ہے۔ انھوں نے کہا ملک کی معیشت کی زوال پذیری، کمر توڑ مہنگائی اور بدامنی نے موجودہ حکمرانوں کے دعوؤں کی قلعی کھول دی ہے،مگر اَپوزیشن بھی قوم کو درپیش اصل مسائل کو اُجاگر کرنے کی بجائے اقتدار پر قبضے کے لیے زور لگارہی ہے۔مرکزی نائب امیرسیّدمحمدکفیل بخاری نے کہا کہ مشال خان کے قابل مذمت قتل کو دینی طبقات سے جوڑنا ایک انتہائی مذموم فعل ہے۔ انھوں نے کہاکہ 295سی میں ترمیم کے نام پر ملک میں لاقانونیت اور اَنارکی پھیلانے کی کوشش کی جارہی ہے۔نومنتخب ناظم اعلیٰ عبداللطیف خالد چیمہ نے کہا کہ قابل افسوس امرہے کہ عقیدۂ ختم نبوت کے تحفظ کی بجائے منکرین ختم نبوت کی پشتیبانی کی جارہی ہے اور تحفظ ناموس رسالت کے مسئلہ پر قرآن و سنت اور اجماعِ امت سے اِعراض برتا جارہا ہے ۔اجلاس میں متعددذیلی کمیٹیوں کے قیام کی منظوری بھی دی گئی۔اجلاس میں تحریک تحفظ ناموس رسالت کی اسلام آباد اے پی سی کے تمام مطالبات کی تائید و حمایت کی گئی اور فیصلہ کیا گیا کہ قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے تحریک تحفظ ختم نبوت اور تحریک تحفظ ناموس رسالت کو بین الاقوامی سطح پر اُجا گر کیا جائے گا۔ تاکہ دنیا کے سنجیدہ حلقے قادیانی اورسیکولرلابی کے پراپیگنڈے کا شکارہونے کی بجائے صورت حال کا صحیح ادراک کر سکیں۔علاوہ ازیں اجلاس میں تنظیمی حوالے سے کئی اہم فیصلے بھی کیے گئے۔
اجلاس میں متعددقراردادیں بھی منظورکی گئیں۔جن میں کہا گیا ہے کہ قانون توہین رسالت میں بلا جواز اَور بلا ضرورت تبدیلی کی کوششیں بند کر کے توہین رسالت کے واقعات کی روک تھام کی جائے اور گستاخانِ رسالت کو کیفرکردار تک پہنچایا جائے۔ ایک قرار داد میں مطالبہ کیا گیا کہ سودی نظام کا خاتمہ کر کے سودی معیشت کا سدباب کیا جائے۔ ملک میں لوڈشیدنگ ختم کی جائے اور عوام کو بلا تعطل بجلی کی فراہمی کو یقینی بنایا جائے۔ایک اور قرارداد میں کہا گیا کہ سیاسی محاذ آرائی سے ملک میں بڑھتی ہوئی بے چینی واضطراب اور پاکستان کے داخلی محاذ پر کشیدگی کو ختم کیا جائے ۔ ملک کو لُوٹنے والے عناصر کا بے رحمانہ احتساب کر کے قومی دولت کو لٹیروں سے واپس لایا جائے۔اجلاس کے تمام شرکاء نے اس عزم کا اظہار کیا کہ اسلام کی سربلندی ، عقیدۂ ختم نبوت کے تحفظ اور وطن عزیز کی سلامتی کے لیے مجلس احرار اپنی پر امن جدوجہد جاری رکھے گی، اجلاس میں پاک فوج کی انسدادِ دہشت گردی کے لیے کوششوں کی مکمل تائیدکی گئی اوردہشت گردعناصر اوراُن کے سرپرستوں کو کیفرکردارتک پہنچانے کا مطالبہ کیا گیا۔دریں اثناء اجلاس میں اس امر کی وضاحت کی گئی کہ کالعدم’’ جماعت الاحرار‘‘ نامی کسی دہشت گردگروہ سے مجلس احرار اسلام کا کسی قسم کا ہرگز کوئی تعلق اورواسطہ نہیں ہے ،لہٰذا میڈیا اس سلسلے میں صحافتی بددیانیتی سے احتراز کرے اورمجلس احراراِسلام کے خلاف غلط فہمی پھیلانے سے بازرہے، اجلاس میں مرکزی عہدے داروں کے علاوہ شیخ الحدیث مولانا محمد اسحاق، محمد خاور بٹ، چودھری خادم حسین، مولانافقیراﷲ، حافظ گوہر علی، حافظ ضیاء اﷲ، مولانا عبدالغفور ، قاری علی شیر، مولانا محمد اکمل، مولانا فیصل متین، مولاناسید عطاء المنان بخاری،مفتی سیّدصبیح الحسن ہمدانی، رانا قمر الاسلام، مولانا عبد الغفار، عبد الکریم قمر سمیت پچاس ارکانِ شوریٰ اور دس مبصرین نے شرکت کی۔
ملک وقوم کو جن حالات کا سامنا کرنا پڑ رہاہے۔اِن حالات میں جمعیت کے صدسالہ اجتماع اورمجلس احراراسلام کی مجلس شوریٰ کا اجلاس انعقادپذیرہونا دینی قوتوں کے لیے حوصلہ افزاپیغام ہے،کیونکہ دہشت گردی کو اِسلام اورمسلمانوں کے ساتھ جوڑکر اِسلام کو بدنام کیاجارہاہے اورعملاً مسلمانوں کے ساتھ تعصبانہ رویہ اختیارکرنے میں بظاہرسیکولرنظر آنے والے اوردرحقیقت عیسائی معاشرے پیش پیش ہیں۔یہودیوں کے فلسطین میں دہشت گردانہ اقدامات اورعیسائی ممالک میں حجاب،داڑھی اورپگڑی کے خلاف انتہاپسندی کا اظہارکھلے عام موجودہے،لیکن بین الاقوامی میڈیاپر چھائے ہوئے بنیادپرست صیہونی ومسیحی عناصرمسلمانوں کی مظلومیت کا چہرہ دکھانے سے انکاری ہیں۔یک طرفہ پراپیگنڈہ اورجانبدارانہ بے بنیادتجزیے اوررپورٹیں محض ظالم کو مظلوم بناکردُنیاکو دکھانے کے درپے ہیں۔جہاں اِن مخدوش اورنازک حالات میں امن پسنداورمعتدل نظریات کی حامی ایسی دینی جماعتوں کے اجتماعات اوراجلاس روشنی کی کرن ہیں،وہیں اسلام پسندطبقوں کے لیے بھی یہ پیغام ہے کہ ملکی قوانین اورآئین کی پاسداری کرتے ہوئے اشتعال وجارحیت سے ہٹ کرہی دینی جدوجہدکوجاری رکھنا وقت کا اہم تقاضا ہے۔تاکہ کسی رکاوٹ اورتعطل کے بغیرمسلمانوں کی درست سمت میں رہنمائی کے ساتھ ساتھ قیامِ حکومت الٰہیہ کی محنت وسعی کا کام انجام پذیرہوتارہے ۔جس کا نفاذ تمام دینی کارکنوں کی دلی تمنا اورحقیقی منزل ہے۔