سید محمد کفیل بخاری
۲۰؍ مئی ۲۰۱۷ء کو امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اپنے پہلے غیر ملکی دورہ پر سعودی عرب پہنچے، جہاں انھوں نے ریاض میں منعقدہ عرب امریکا اسلامی سربراہ کانفرنس میں خطاب کرتے ہوئے کہا کہ:
’’امریکہ ایک نئے دور سے گزر رہا ہے، امن کے لیے ہمیں نئی شراکت داریوں کی جانب بڑھنا ہوگا۔ ایران دہشت گردوں کی پشت پناہی اور تربیت کر کے خطے میں دہشت گردی پھیلا رہا ہے۔ بشارالاسد ایران کے تعاون سے اپنے ملک کے بے گناہ شہریوں کو قتل کر رہا ہے۔مسلم دنیا انتہا پسندی کے خلاف آگے بڑھے، تعاون نہ کرنے پر ایران کو تنہا کر دیں۔ سعودی عرب نے دہشت گردی کے خلاف مسلم ممالک کو متحد کیا اور قربانیاں دیں، افغان افواج نے طالبان کو شکست دی، ہمارا مقصد دہشت گردی کے خلاف اتحاد کی تشکیل ہے۔ اسلام دنیا کا بہترین مذہب ہے۔ دنیا کے ۹۰؍ فیصد مسلمان دہشت گردی کا شکار ہیں۔
خادم الحرمین شاہ سلمان نے کہا کہ:
’’ایران دوسرے ملکوں کے معاملات میں مداخلت کر کے بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی کر رہا ہے۔ ہماری خاموشی کو کمزوری نہ سمجھا جائے۔ ہم نے داعش اور دیگر دہشت گرد تنظیموں کے خلاف اسلامی افواج کا اتحاد تشکیل دیا ہے ۔ دہشت گردی کے خلاف امریکا، اسلامی ممالک پارٹنرشپ کریں گے۔ اسلامی ممالک دہشت گردی کے خلاف امریکا کے ساتھ ہیں‘‘
امریکی صدر ٹرمپ نے اپنی انتخابی مہم میں اسلام اور مسلمانوں کے خلاف شدید غیظ و غضب کا اظہار کیا تھا۔ تب وہ مسلمانوں کو دہشت گردی کا ذمہ دار قرار دیتے تھے اور آج دہشت گردی کا شکار۔ دنیا کے بدلتے حالات نے ان کا بیانیہ بھی بدل دیا۔ انھوں نے شاہ سلمان کے آگے ضرورت سے زیادہ جھک کر سعودی عرب کا سب سے بڑا سول ایوارڈ ’’شاہ عبدالعزیز میڈل‘‘ بھی پہنا لیکن اس کے بدلے میں وہ عربوں سے امریکا کے لیے کیا کچھ لے گئے اپنی جگہ محل نظر ہے۔ سعودی عرب نے امریکا سے 350ارب ڈالر کے معاہدے کیے، جن میں 110ارب ڈالر کا اسلحہ خریدے گا۔ ٹرمپ کی بیٹی نے شاہی خواتین سے ویلفیئر کے نام پہ کروڑوں ڈالر کی دہاڑی لگائی اور ٹرمپ نے امریکا کے لیے امداد الگ وصول کی۔ اس کانفرنس میں صدر ٹرمپ اور شاہ سلمان نے دہشت گردی کے خلاف امریکا کے فرنٹ لائن، اتحادی پاکستان کا ذکر تک نہیں کیا۔ حالانکہ سب سے زیادہ جانی و مالی نقصان پاکستان نے اٹھایا اور قربانی دی ہمسایہ ممالک بھارت، افغانستان اور ایران کی ناراضی اور دشمنی اس پر مستزاد ہے۔ وزیراعظم نواز شریف کو ٹرمپ نے شیک ہینڈ اور کھوکھلی مسکراہٹ پر ہی ٹرخا دیا۔ سعودی عرب اسلامی ممالک کا قائد ہے۔امریکا، عرب اسلامی ممالک کے حالیہ معاہدوں کا امت مسلمہ کو کیا نفع ہوگا؟ یہ تو مستقبل میں نتائج پر موقوف ہے لیکن اس وقت تو سارا منافع امریکہ لے گیا ہے اور حالات تیسری عالمی جنگ کی نشاندہی کر رہے ہیں۔ اﷲ تعالیٰ امت مسلمہ کی حفاظت فرمائے۔ (آمین)
جب سے عالمی سرمایہ دارانہ نظام کے قائد امریکا کی قیادت ڈونلڈ ٹرمپ نے سنبھالی ہے بین الاقوامی سطح پر اقتصادی و معاشی اور سیاسی حالات کی تبدیلیوں میں بھی تیزی آرہی ہے۔ ’’سی پیک‘‘ عالمی اقتصادی راہ داری کا بنیادی منصوبہ ہے اور قدرتی طور پر پاکستان اس کا مرکز ہے۔ نئے عالمی سرمایہ دارانہ نظام میں اسے ’’گیم چینجر‘‘ قرار دیا گیا ہے اور نئی گریٹ گیم اسی کے گرد گھوم رہی ہے۔ روس،چین اور پاکستان کی ٹرائیکا مستقبل میں اس گریٹ گیم کے تحت جنوبی ایشیاء میں کیا کردار ادا کرے گی؟ الم نشرح ہے۔ افغان طالبان سے روس کا معاہدہ گریٹ گیم کا اہم نتیجہ ہے۔ آئندہ دنوں میں صورت حال مزید واضح ہوجائے گی۔ سی پیک سے جہاں پاکستان میں اقتصادی ترقی و معاشی خوشحالی کے دعوے کیے جارہے ہیں وہاں اس کے مضرات بھی پیش نظررہنے چاہیں۔ اگر سی پیک امریکا کو ہضم نہیں ہورہا تو بھارت، ایران اور افغانستان کو بھی شدید پریشانی لاحق ہے۔ جس کا وہ پاکستان پر حملوں کی صورت میں کھلا اظہار کر رہے ہیں۔ پاکستانی قیادت کو اس صورت حال کا ادراک کرتے ہوئے مشکلات کا حل بھی نکالنا ہوگا اور پیش بندی بھی کرنی ہوگی۔ پائیدار خارجہ پالیسی کے ذریعے ہمیں اپنے ہمسایوں سے بہر حال تعلقات بہتر بنانے ہوں گے اور ملکی سلامتی ہر حال میں مقدم رکھنی ہوگی۔
پانامہ کیس کا انجام کیا ہوگا؟ قوم کی نظریں سپریم کورٹ اور جے آئی ٹی پر لگی ہیں۔ ڈان لیکس پر فوج نے اپنا ٹویٹ واپس لے لیا ہے۔ وزیرداخلہ چودھری نثار کے بقول اس مسئلے کو انھوں نے حل کرایا ہے ۔ امید ہے کہ حکمرانوں کو درپیش باقی مسائل بھی وہ اسی طرح حل کرلیں گے۔ لیکن قوم کے مسائل جوں کے توں رہیں گے۔ عوام پستے رہیں گے، چند خاندان ملک کے سیاہ و سفید کے مالک بن کر ہم پر مسلط رہیں گے اور ترقی کی چڑیا دکھا کر قوم کو لوٹتے رہیں۔
آرمی چیف جنرل قمر جاوید نے ۱۸؍مئی کو جی ایچ کیو میں ایک سیمینار سے اہم خطاب کیا۔ سیمینار میں ملک کی تمام یونیورسٹیوں کے وائس چانسلرز اور ایچ ای سی کے چیئر مین نے بھی شرکت کی۔
آرمی چیف نے کہا کہ:’’ہر ذمہ داری فوج پر ڈالنے سے ملک آگے نہیں جاسکتا۔ کلبھوشن کیس میں وکیل ہم نے دیا۔ فوج اکیلے کچھ نہیں کرسکتی، دیگر حکومتی ادارے بھی اپنی ذمہ داری نبھائیں۔ انتہا پسندی کو دین دار طبقے سے جوڑنا مغرب کی تعریف ہے جو ناانصافی ہے‘‘
سپہ سالار کا بیان کن حالات کی نشاندہی کر رہا ہے؟اس سوال کا جواب حکمرانوں کے ذمے ہے۔ لیکن انصاف اور حق کا غماز ہے۔ دین دار طبقے کو بہر حال ہشیار رہنا چاہیے۔ بیانیہ تبدیل ہوا ہے فیصلے اور اقدامات تبدیل نہیں ہوئے۔ ہمیں عدم تشدد کی پالیسی پرکار بند رہتے ہوئے اور ملکی آئین کی پاسداری کرتے ہوئے دعوت دین اور غلبۂ دین کی پرامن جدوجہد جاری رکھنی ہے۔ ہمیں کسی گریٹ گیم کا حصہ بننے کی بجائے اپنے پرامن ایجنڈے پر ہی توجہ مرکوز رکھنی چاہیے۔ ماضی کی غلطیوں کے اعادے سے رہی سہی قوت بھی ختم ہوجائے گی۔ اﷲ تعالیٰ پاکستان کا حامی و ناصر ہو اور دینی قوتوں کی حفاظت فرمائے۔ (آمین)