فیروز الدین احمد فریدی
۴؍مئی ۱۷۹۹ء ہماری تاریخ کا وہ الم ناک دن ہے جب برصغیر پاک و ہند کا ایک غیرت مند سپوت اپنی مادرِ وطن پر یہ کہہ کر نثار ہوگیا کہ شیر کی ایک دن کی زندگی گیدڑ کی سو سالہ زندگی سے بہتر ہے۔ یہ سانحہ بیتے دو صدیاں بیت چکی ہیں لیکن آج بھی ہمارے کان یہ فقرہ ایک بار پھر سننے کو ترس رہے ہیں۔ یہ ملت آج اپنے ٹیپو سلطان کو تلاش کر رہی ہے۔ کسی کو کیا خبر کہ آج کس کو کس کا امتحان مقصود ہے؟
ٹیپو کے آباؤ اجداد کا تعلق بلوچستان کے ضلع خضدار کے قبیلے زرکزئی سے بتایا جاتا ہے جو آج بھی وہاں آباد ہے۔ ٹیپو کی والدہ کا نام فاطمہ اور والد کا نام حیدر علی تھا۔ سلطان حیدر علی کو قدرت نے جنوبی ہندوستان میں ایک وسیع و عریض سلطنت سے نوازا تھا جس میں بنگلور بھی شامل تھا۔ یہ شہر آج کمپیوٹر کی صنعت کا مرکز ہونے کی وجہ سے عالمی شہرت رکھتا ہے لیکن یہ شہرت آنی جانی ہے۔ بنگلور کی دائمی شہرت کی وجہ یہ ہے کہ یہ ٹیپو سلطان کی جائے پیدائش ہے۔
روایت ہے کہ حیدر علی نے جنوبی ہندوستان کے شہر ارکاٹ میں ایک ولی اﷲ ٹیپو مستان کے مرقد پر حاضری کے دوران اﷲ سے بیٹے کی دعا مانگی اور جب ۱۰؍نومبر ۱۷۵۰ء کو بیٹا پیدا ہوا تو اس کا نام ٹیپو رکھا۔
ٹیپو کے دادا کا نام فتح محمد تھا۔ ٹیپو نے اپنے ایک بیٹے کا نام فتح حیدر رکھا جو ٹیپو کے باپ اور دادا دونوں کے ناموں کا مرکب تھا۔ خود ٹیپو کا نام فتح علی خان مشہور ہوا جس کا پہلا لفظ ان کے دادا کے نام کا پہلا لفظ اور جس کا دوسرا لفظ ان کے والد کے نام کا آخری لفظ تھا۔ تاہم ٹیپو ان کا لقب نہیں بلکہ ان کا پیدائشی نام تھا۔ ان کی کنیت ان کے بیٹے فتح حیدر کی نسبت سے ابوالفتح تھی۔
ٹیپو سچے مسلمان اور عظیم سپاہی تھے وہ ہر وقت باوضو رہتے۔ نماز فجر کے بعد بلاناغہ قرآن پاک کی تلاوت کرتے۔ اپنے ہر شاہی فرمان کی پیشانی پر اپنے ہاتھ سے بسم اﷲ لکھتے۔ سلطنت کا نام سلطنتِ خداداد میسور تھا۔ آخری عمر میں جو پورے پچاس برس بھی نہ ہوسکی، پلنگ پر سونا چھوڑ دیا۔ زمین پر کھدر بچھا کر سوتے۔
ایک عظیم سپاہی کی حیثیت سے وہ اپنے زمانے کے تمام فنونِ سپہ گری مثلاً شمشیر زنی، تیر اندازی، نیزہ بازی، گھڑ سواری ، کشتی اور تیراکی میں مہارت رکھتے تھے۔ گھڑ سواری اور نیزہ بازی سے خصوصی شغف تھا۔ ہر جنگ میں اپنے سپاہیوں کے شانہ بشانہ ہوتے جو ایک جرنیل کا وصف ہوتا ہے۔ ہندوستان کے کسی حکمران کو بحریہ کی اہمیت کا احساس نہیں ہوا۔ ٹیپو سلطان برصغیر پاک و ہند کے پہلے حکمران تھے جنھوں نے بحریہ کی اہمیت کو سمجھا۔
وہ عالموں اور بزرگوں کی قدر کرتے۔ ٹیپو کو عربی اور فارسی زبانوں پر خاصا عبور تھا۔ انگریزی اور فرانسیسی زبانیں بھی سیکھ لی تھیں۔ مقامی ’’بولی کنڑی‘‘ سے بخوبی آگاہی تھی۔ اردو اس وقت جنوبی ہندوستان میں پنپ رہی تھی اور شہید سلطان کی اس نوخیز زبان سے بھی شناسائی تھی۔ ان کی فوج کے لیے جو رجزیہ ترانے تجویز کیے گئے ان میں اردو ترانے بھی شامل تھے۔
دکن میں اردو کا ذکر نکلا ہے تو یہ بات بتا دی جائے کہ اردو کے پہلے مشہور شاعر ولی دکنی اورنگ آباد (دکن) میں ۱۶۶۸ء میں پیدا ہوئے اور ٹیپو سلطان اس کے ۸۲ سالبعد ۱۷۵۰ء میں پیدا ہوئے۔ ولی دکنی نے ۱۷۴۲ء میں احمد آباد (گجرات) میں وفات پائی۔ ٹیپو اس وقت تک پیدا نہیں ہوئے تھے۔ ولی دکنی کا ایک شعر یہ ظاہر کرنے کے لیے یہاں درج کیا جارہا ہے کہ ان کے سترھویں اور اٹھارویں صدی عیسوی کے کلام میں استعمال کی جانے والی اردو پر کس قدر ۲۱ ویں صدی کی شاعری کا گمان ہوتا ہے۔ شعر یہ ہے
کہاں ہے آج یا رب جلوۂ مستانۂ ساقی
Uکہ دل سے تاب، جی سے صبر، سر سے ہوش لے جاوے
& جب ۷؍دسمبر ۱۷۸۲ء کو سلطان حیدر علی نے سرطان کے مرض سے وفات پائی تو ۲۶؍دسمبر ۱۷۸۲ء کو ابوالفتح فتح علی خان ٹیپو سلطان تخت نشین ہوئے۔ اس وقت ان کی عمر صرف ۳۲ سال تھی اور انھیں بیک وقت تین تجربہ کار اور طاقت ور حریفوں کا سامنا تھا۔ اولاً انگریز، ثانیا مرہٹے اور ثالثا ولی دکنی کا ہم وطن نظامِ دکن۔ ٹیپو سلطان نے اپنی خداداد بصیرت سے دیکھ لیا تھا کہ نہ صرف ان کے بلکہ برصغیر کے سب سے بڑے دشمن انگریز ہیں۔ان سے نمٹنے کے لیے سلطان نے سہ نکاتی حکمت عملی وضع کی۔ اس کا پہلا نکتہ اپنی بری فوج کو جدید خطوط پر منظم کرنا تھا جس کے لیے انگریز کے سب سے بڑے دشمن ملک فرانس کے ماہر فوجی افسروں کا چناؤ کیا گیا۔ فوج کے لیے ’’فتح المجاہدین‘‘ کے نام سے ایک کتاب لکھوائی جس میں نہ صرف وہ سب فوجی اصول اور قواعد درج تھے جو یورپ میں رائج تھے بلکہ سلطان کے اپنے جنگی تجربات پر مبنی عسکری قواعد بھی شامل تھے۔
بحریہ کی اہمیت بھانپتے ہوئے سلطان نے اپنی بحریہ قائم کی تاکہ وہ سلطنت کے مغربی ساحل کی حفاظت کر سکے۔ یہ خیال مرہٹوں کو آیا اور نہ نظام دکن کو۔ سلطان نے بحریہ کو جو اہمیت دی اس کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ وہ بحری جہازوں کے نقشے بعض اوقات خود تیار کرتے تھے۔ سمندر میں مقناطیسی چٹانوں سے بچاؤ کے لیے جہازوں میں لوہے کے بجائے تانبے کا استعمال ٹیپو کے ذہن رسا کا مرہون منت ہے۔ سلطنت کے چار شہروں میں ’’تارا مندل‘‘ کے نام سے چار اسلحہ ساز کار خانے قائم کیے گئے جن میں معیاری توپیں، بندوقیں اور ایسی ڈھالیں ڈھالی جاتی تھی جن پر گولی اثر نہیں کرتی تھی۔
حکمت عملی کا دوسرا نکتہ یہ تھا کہ سلطان نے اپنے ہم عصر ہم، وطن حکمرانوں کو جھنجھوڑ کر جگانے کے لیے بار بار اور بھر پور کوششیں کیں۔ مرہٹوں کو سمجھایا کہ اپنے مشترکہ دشمن کو پہچانیں۔ نظام حیدر آباد دکن کو لکھا کہ آپ پر تو میری امداد خصوصاً واجب ہے کیوں کہ میں مسلمانوں کو تقویت پہنچا رہا ہوں۔ مرہٹوں کی سیاست کا مرکزی کردار ان کا مشہور مدبر نانا فرنویس تھا جو سمجھانے کے باوجود نہیں سمجھا۔ رہ گیا نظام دکن تو اس مسلمان کہلانے والے حکمران نے بھی اپنے ہم مذہب، ہم قوم، ہم وطن اور فطری اتحادی ٹیپو کے بجائے سات سمندر پار بسنے والے انگریزتاجروں کو ترجیح دی۔ تاریخ کیسے خود کو دہراتی ہے اکیسویں صدی عیسوی کے مسلمان حکمران بھی اٹھارویں صدی کے نظام دکن کی روش پر چل رہے ہیں۔ وہ بھی نادان تھا، یہ بھی نادان ہیں۔
حکمت عملی کا تیسرا نکتہ یہ تھا کہ سلطان نے انگریزوں کے خلاف متحدہ محاذبنانے کے لیے فرانس، ترکی، ایران اور افغانستان میں خصوصی سفارتی وفود بھیجے۔ ان میں سے ایک کا ذکر دلچسپی کا حامل ہوگا۔ نوجوان نپولین بونا پارٹ، مصر فتح کرنے کے بعد اس وقت بحیرۂ قلزم کے ساحل پر خیمہ زن تھا۔ ۲۶؍جنوری ء کو (سلطان کی شہادت ۴؍ مئی ۱۷۹۹ء کو ہوئی) اس نے ٹیپو سلطان کے نام جو خط لکھا اس کا ترجمہ درج ذیل ہے:
’’میرے عزیز ترین دوست ٹیپو سلطان!
میں آپ کو انگریزوں کے آہنی شکنجے سے چھڑانے کے لیے ایک عظیم اور ناقابل شکست فوج کے ساتھ بحیرہ قلزم کے کنارے پر موجود ہوں۔ آپ کا سیاسی موقف جاننے کا دلی آرزو مند ہوں۔ کسی خصوصی معتمد کو جلد از جلد مذاکرات کے لیے سویز روانہ کریں۔ خدا آپ کی طاقت میں اضافہ اور آپ کے دشمنوں کو برباد کرے۔
نپولین بونا پارٹ‘‘
فرانس کے داخلی حالات کی وجہ سے نپولین کو جلد فرانس لوٹنا پڑا۔ اسی دوران لارڈ ولزلی ہندوستان کا گورنر جنرل بن کر آیا جس کے سگے چھوٹے بھائی ڈیوک آف ولنگٹن کے ہاتھوں ۱۸؍ جون ۱۸۱۵ء کو بیلیجیم کے ایک غیر معروف گاؤں واٹرلو میں نپولین کو شکست فاش ہوئی۔ جس طرح دوراندیش سلطان کے دفاعی نکتہ نظر کے مطابق برصغیر کو سب سے بڑا خطرہ انگریز سے تھا اسی طرح دوراندیش انگریز کی نظروں میں اس برصغیر میں ان کا اصل دشمن ٹیپو سلطان تھا۔ اپریل ۱۷۹۹ء کے آخری ہفتے میں انگریزوں اور نظام دکن کی متحدہ افواج نے انگریز جنرل ہیرس کی قیادت میں سرنگاپٹم پر جو دریائے کاویری کے درمیان ایک جزیرے پر واقع ہے فیصلہ کن حملہ کردیا۔
برصغیر میں کفر و دین کے درمیان کارزار میں ہمارے ترکش کا آخری تیر اپنے مذہبوں اور غیر مذہبوں کی اس ناپاک متحدہ فوج کے سامنے شیر کی طرح بے جگری سے ڈٹ گیا۔ یہ صحرا کی آخری اذان تھی۔ اس کے بعد ڈیڑھ صدی تک سناٹا رہا۔
اور پھر وہی ہوا جو مسلمانوں کی تاریخ میں ہوتا چلا آیا ہے۔ غیر تو خیر غیر تھے ہی اب سلطان کے اپنے بھی سفید چمڑی والوں سے مل گئے۔ ان میں تین نام نمایاں ہیں: میر صادق، قمرالدین اور پورنیا۔ ۱۸؍ویں صدی کے یہ نمک حرام کردار آج بھی مختلف ناموں کے ساتھ مسلمانوں کی صفوں میں چھپے ہوئے ہیں۔ یہ عناصر ۴؍مئی ۱۷۹۹ء کو بھی موجود تھے۔ آنے والے دور میں بھی موجود ہوں گے۔ صرف ان کے نام مختلف ہوں گے۔
ننگ ِ دیں، ننگِ قوم اور ننگِ وطن میر صادق اور متحدہ افواج کے جنرل ہیرس کے درمیان خفیہ طور پر یہ طے پایا کہ ۴؍مئی ۱۷۹۹ء کو دوپہر کے وقت، سرنگا پٹم کے قلعے کی فصیل میں بمباری کے نتیجے میں پڑجانے والے شگاف کے ذریعے یلغار کردی جائے۔ سلطان نے اس شگاف کی حفاظت کے لیے وہاں خصوصی فوجی دستے تعینات کیے تھے۔ غدار میر صادق نے دوپہر کا وقت جان بوجھ کر چنا تھا ۔ محافظ دستوں کو تنخواہ لینے کے بہانے سے بلا لیا گیا۔ نظام دکن اور انگریز کی متحدہ افواج کسی مزاحمت کے بغیر قلعے میں داخل ہوگئیں۔
اس وقت سلطان کے سامنے دوپہر کا سادہ سا کھانا رکھا تھا۔ ابھی ایک لقمہ بھی حلق سے نیچے نہ اترا تھا کہ باہر شور سنائی دیا۔ پوچھا کہ یہ کیا ہے؟ جب حقیقت سے آگہی ہوئی تو بھوکے شیر نے جو رات کو زمین پر کھدر بچھا کر سوتا تھا اپنی زندگی کے آخری کھانے سے ہاتھ کھینچ لیا،عمامہ سر پر رکھا جیبی گھڑی جیب میں ڈالی دور بین سنبھالی، تلوار پکڑی اور جنگ کے شعلوں میں کود گیا۔ عقل محو تماشا تھی کیوں کہ یہ صریح خود کشی تھی۔
بھوکے پیاسے شیر کے غیر معمولی لمبے چوڑے جسم پر پہلے ایک گہرا زخم سرخ گلاب کی طرح کھل گیا اور خون فوارے کی طرح پھوٹ پڑا۔ ٹیپو کی تلوار اور اس کا سردونوں بلند رہے۔ پھر دوسرا کاری گھاؤ کھایا اور سرنگاپٹم کی بھوری خاک میسور کے شیر کے ابلتے ہوئے خون سے سرخ ہوگئی۔ اس حالت میں ا یک گورے سپاہی نے شیرمیسور کے جڑاؤ شمشیر بند پر ہاتھ ڈالا۔ شیر کا سانس اکھڑ رہا تھا، نبضیں چھوٹ رہی تھیں لیکن جان بلب شیر نے لیٹے لیٹے حیدری تلوار کا بھر پور ہاتھ مارا گورنے نے فوراً پستول کی لبلبی دبادی۔ گولی دائیں کان سے ذرا اوپر لگی اور اس کے ساتھ ۴؍مئی ۱۷۹۹ء کو غروب آفتاب سے بہت پہلے میسور کا آفتاب بظاہر غروب ہوگیا، انا اﷲ وانا الیہ راجعون۔ شہادت کے وقت شہید کی عمر صرف ۴۸سال تھی۔
۴؍ سے ۶؍مئی تک سرنگاپٹم میں وہ لوٹ مار ہوئی کہ الامان والحفیظ ۔ لوٹ کا بیشتر حصہ فوجیوں کے حصے میں آیا۔ جو بچا وہ جہازوں میں لا د کر انگلستان بھیج دیا گیا۔ اس میں سلطان کے زیر استعمال رہنے والی اشیا کے علاوہ علم کے موتی یعنی عربی ، فارسی اور ہندی کے دوہزار قلمی نسخے بھی تھے جن میں شہید سلطان کے اپنے ہاتھ سے لکھی ہوئی اس کے خوابوں پر مشتمل ڈائری بھی تھی جو آج لندن کی برٹش لائبریری میں ہے اور اس کا نمبر شمار I.O.ISLAMIC-3563 ہے۔ ہیرے جواہرات سے کہیں بیش قیمت اس بے بہا قلمی نسخے میں شہید سلطان نے اپنے ۳۷؍خواب قلم بند کیے ہیں جو اس نے ۱۳؍برس کے دوران ۱۷۸۵ء اور ۱۷۹۸ء کے درمیان دیکھے تھے۔ یہاں یہ یاد دہانی ضروری ہے کہ سلطان ۲۶؍دسمبر ۱۷۸۲ء کو تخت نشین ہوا اور ۴مئی ۱۷۹۹ء کو شہید ہوا۔ اس طرح اس ڈائری میں شہید کی تخت نشینی کے تقریباً دو برس بعد سے لے کر شہادت سے کوئی ایک برس قبل تک کے اہم خواب درج ہیں۔ یہ ڈائری فارسی میں لکھی گئی ہے۔
اس ڈائری کے علاوہ سلطان کے زیر استعمال جو چیزیں برطانیہ پہنچیں وہ وکٹوریہ البرٹ عجائب گھر لندن میں شیشے کی ایک بہت بڑی الماری میں رکھی ہیں۔ راقم حروف نے ۱۵؍جون ۲۰۰۷ء کو انھیں دیکھا اور الماری کے سامنے کھڑے ہو کر ان کے کوائف قلم بند کیے جو یہ ہیں:
۱۔جیبی گھڑی:یہ گھڑی لندن کی کمپنی ایلیٹ (ELLIOT) کی ساختہ ہے اور سائز میں عام جیبی گھڑیوں سے دگنی ہے۔ اس پر گھنٹوں کے ہندسے رومن رسم الخط میں Iسے XIIتک اور منٹوں کے ہندسے انگریزی رسم الخط 5,5ہندسوں کے وقفے کے ساتھ “1” سے “ـ”60 تک درج ہیں۔ ۴مئی ۱۷۹۹ء کو ایک جونیئر انگریز فوجی افسر لیفٹیننٹ میکڈووَل نے اسے سلطان کے جسم پر پایا۔
۲۔دوربین:پیتل کی یہ دور بین جولندن کی کمپنی ریمسڈن (RAMSDEN) نے اٹھارویں صدی عیسوی کے اواخر میں بنائی تھی ۴ مئی ۱۷۹۹ء کو سلطان کے جسم پر پائی گئی۔
۳۔عمامے کے ہیرے اور فیروزے:۴مئی۱۷۹۹ء کو سلطان نے اپنے سر پر جو عمامہ پہن رکھا تھا اس میں ہیرے اور فیروزے لگے ہوئے تھے۔ہیرا انتہائی بیش قیمت پتھر ہے جبکہ فیروزے کا شمار نیم گراں بہا جواہر میں ہوتا ہے۔ تاہم سلطان نے اپنے عمامے کے لیے نیلم، پکھراج، یا قوت اور زمرد کے بجائے فیروزے کا انتخاب کیا جس کی کوئی وجہ ضرور رہی ہوگی۔انگریزوں نے عمامے سے یہ جواہرات نکال لیے جو بعد میں ایک میم صاحبہ کے جڑاؤ زیور (BROOCH) میں جڑ دیے گئے۔
۴۔تلوار:فولاد کی اس چمک دار اور خم دار تلوار پر سونے کی پتری چڑھی ہوئی ہے۔ دستے کے نیچے طلائی حروف میں ٹیپو سلطان لکھا ہے۔
۵۔دوتوڑے دار پستول:یہ ۹۶۔۱۷۹۵ء میں بنائے گئے۔ ان پستولوں کاگھوڑا دبانے سے پستول کے اندر نصب چقماق کا پتھر فولاد کے نصب شدہ ٹکڑے سے رگڑ کھا کر آگ کا شعلہ پید ا کرتا تھا جس سے پستول میں بھرا ہوا بارود سلگ اٹھتا تھا۔ پستولوں پہ شیر کا سنہری سر بنا ہوا ہے جس پر اسد اﷲ الغالب رقم ہے۔
۶۔خود:فولاد کے بنے ہوئے اس خود پر بھی سونے کا کام ہے اور گردن کی حفاظت کے لیے فولادی زرہ لٹک رہی ہے۔
۷۔چھڑی:یہ ملائشیا میں پائی جانے والی بھوری لکڑی سے بنی ہے اور غیر معمولی لمبی ہے۔ دستے پر تقریباً چار انچ لمبا اور ابھرا ہوا سونے کا پترا اورنیچے آخری سرے پر تقریباً دو انچ لمبا چاندی کا پترا چڑھا ہوا ہے۔نوک لوہے کی ہے۔
۸۔زین کا کپڑا:سواری کے لیے زین کا یہ کپڑا تقریباً سوا میٹر لمبا اور سرخ ریشم کا بنا ہوا ہے جس پر بھاری طلائی کام ہے۔
۹۔شیشے کی الماری میں غیر ملکی سیاحواں کے لیے خصوصی دلچسپی کا حامل وہ چیتا ہے جو ٹیپو کا چیتا کہلاتا ہے۔ یہ سائز میں زندہ چیتے کے برابر ہے۔ اس کا ڈھانچہ جس پر ہلکا زرد رنگ پھیر کر درخت کے سبز پتوں کے نقش بنائے گئے ہیں میسور کی لکڑی سے بنا ہے۔ اس کے ساتھ اور اس کے شکم میں یورپ میں بنے ہوئے صوتی اور میکانکی آلات نصب ہیں۔ چیتے کے سامنے ایک انگریز لیٹا ہوا ہے جس نے سرخ لمبا کوٹ، چست پتلون، سیاہ ٹوپ اور سیاہ جوتے پہن رکھے ہیں۔ اس زمانے میں یہ انگریز فوجی افسروں کی وردی ہوا کرتی تھی۔ چیتا انگریز کے سینے پر سوا ر ہے اور اس کے خوں خوار دانت انگریز کی گردن پر ہیں۔ انگریز فوجی کی آنکھیں دہشت سے پھٹی ہوئی ہیں۔ اس کا دایاں بازو اس کے جسم کے ساتھ لگا ہے جبکہ اس کے بائیں بازو کی انگلیاں اس کی ناک پر رکھی ہیں۔ چیتے کے شکم میں ایک ہینڈل لگا ہے جسے گھمانے سے ایک طرف میکانکی آلات کے ذریعے انگریز کے دونوں بازو حرکت میں آجاتے تھے اور دوسری طرف صوتی آلات کے ذریعے اس کے منہ سے چیخیں نکلتی تھیں۔
۴؍مئی ۱۷۹۹ء کو سلطنتِ خدادادِ میسور ختم ہوگئی۔ اس کے بعد ڈیڑھ صدیاں بیتیں تب کہیں ۱۴؍اگست ۱۹۴۷ء کی تاریخ ساز تاریخ آئی۔ کسی قوم اور ملک کی تاریخ میں ایسی تاریخیں صدیوں بعد ہی آتی ہیں۔
(اردو ڈائجسٹ، مئی ۲۰۰۹ء)