شفقت رسول مرزا
پرفیسر خالد شبیر احمد بیک وقت ایک معروف سیاسی رہنما، شاعر، ادیب اور محقق ہیں۔ فن خطابت کی خوبیوں سے بھی مالا مال ہیں۔جس طرح دیکھی ہوئی شخصیتوں میں وہ امیر شریعت کے والا و شیدا ہیں اسی طرح ان دیکھی شخصیات میں وہ مولانا حسرت موہانی اور علامہ اقبال کو بھی اپنے فکر و نظر کا قائد و رہنما سمجھتے ہیں اور ان دونوں شخصیات کو آزادی سے ہم کنار کرنے کے میدان میں بھی اپنا آئیڈیل اور ہیرو جانتے ہیں۔
جس طرح وہ امیر شریعت کی قوت گفتار کے شیدائی ہیں بالکل اسی طرح مولانا ظفر علی خان کی روزنامہ ’’زمیندار‘‘ کے ذریعے، مولانا محمد علی جوہر کی ’’ہمدرد‘‘ اور’’ کامریڈ‘‘ کے ذریعے اور مولانا ابوالکلام آزاد کی ’’الہلال اور البلاغ‘‘ کے ذریعے صحافتی محاذ پر خدمات کو بھی جنگ آزادی کے سلسلے میں بنظر استحسان دیکھتے ہیں۔ یہ وہ شخصیات ہیں جو امیر شریعت کی ہر محاذ پر خدمات کو سراہتی ہیں۔
پروفیسر خالد شبیر احمد مجلس احرار اسلام کے اہم رہنماؤں میں شامل ہیں وہ کچھ عرصہ سے مجلس احرار اسلام پاکستان کے سینئر نائب صدر کے عہدے پر فائز ہیں۔
مجلس احرار اسلام کی داغ بیل دسمبر 1929ء میں ڈالی گئی جولائی 1931ء میں اس جماعت کا باضابطہ پہلا اجلاس حبیبیہ ہال اسلامیہ کالج ریلوے روڈ لاہور پرہوا جس میں مولانا ظفر علی خان نے شمولیت اختیار کی۔ اسی اجلاس میں تحریک کشمیر چلانے کا فیصلہ ہوا۔ اس تحریک میں تقریباً چالیس ہزار لوگوں نے اپنے آپ کو گرفتاری کے لیے پیش کیا اور تقریباً بیالیس کے قریب احرار کارکنوں نے جام شہادت نوش کیا۔ اگر برصغیر کی تاریخ کا مطالعہ کیا جائے تو کوئی دوسری سیاسی جماعت حتیٰ کہ کانگرس تک قربانی و ایثار کے میدان میں ان کے مقابلے میں نظر نہیں آتی۔
عقیدہ ختم نبوت کے تحفظ کے میدان میں بھی تمام دینی و سیاسی جماعتیں اس بات کا اعتراف کرتی ہیں کہ احرار کی خدمات قابل رشک ہیں۔
مجلس احرار اسلام نے سرزمین پاک و ہند میں غریبوں کے حقوق و تحفظ کے لیے گراں قدر خدمات سرانجام دی ہیں کہ جنھیں الفاظ کے نرغے میں لانا نا ممکن نہیں تو مشکل ضرور ہے یہ لوگ برملا کہتے تھے کہ دنیا صرف امیروں کی عیش گاہ نہیں ہے۔ غریبوں کی ضروریات زندگی کا تحفظ بھی انسانی تقاضا ہے۔
مجلس احرار نے ہمیشہ یہ کہا کہ دین اسلام میں سرمایہ پرستی کا کوئی جواز نہیں۔سرمایہ بھی ایک آدمی کے پاس اﷲ کی امانت ہے اور ہر سرمایہ دار ان احکامات کا پابند ہے جو اﷲ تعالیٰ نے اپنے آخری نبی سیدنا محمد صلی اﷲ علیہ وسلم کے ذریعے ہم تک پہنچائے۔
مجلس احرار اسلام کا طرۂ امتیاز یہ بھی ہے کہ اس جماعت نے کبھی بھی صبرواستقامت کا ساتھ نہیں چھوڑا اور ہمیشہ ہر قسم کے تشدد، مصیبت اور مشکل کو خندہ پیشانی سے قبول کیا۔ اس جماعت کے لوگ تشدد کی طرف کبھی راغب نہ ہوئے۔ عدم تشدد کے اصول پر کار بند رہے اور پُر امن جدوجہدکی۔
مجلس احرار اسلام کی یہ خوبی بھی رہی ہے کہ اس جماعت میں کارکن او ررہنما کے درمیان کوئی پردہ حائل نہیں تھا۔ کارکن باقاعدہ اپنے رہنماؤں سے بحث کیا کرتے تھے، رہنما اور کارکن دلیل سے بات کرتے تھے۔ اس عمل سے کارکنوں کی ذہن سازی اور تربیت ہوتی تھی۔
پچھلے دنوں مجلس احراراسلام پاکستان کے سینئر نائب صدر جناب پروفیسر خالد شبیر احمد لاہور تشریف لائے تو انھیں روز نامہ جرأت کے فورم پر اظہار خیال کی دعوت دی گئی۔ ان سے ان کی جماعت کے شاندار ماضی اور حالات حاضرہ کے حوالے سے دلچسپ گفتگو ہوئی جو جرأت کے قارئین کرام کی نذر ہے۔
س: آپ کی شخصیت میں کئی رنگ اور کئی کیفیات ہیں۔ ہم بچپن سے لے کر بڑھاپے تک آپ کی زندگی کے بارے میں جاننا چاہتے ہیں۔ ہمیں کچھ بتائیے۔
ج: میری پیدائش اپریل 1934ء کی ہے۔ میں نے دوسری جنگ عظیم کے دوران زمین پر چلنا سیکھا۔ میرے والد محترم ایک سکول ٹیچر تھے۔ مجھے اچھی طرح سے یاد ہے کہ جب میں چھوٹا سا تھا اور دھوبی گھاٹ فیصل آباد میں رہائش پذیر تھا۔ 1935ء کے ایکٹ کے تحت پہلے عام انتخابات ہوئے۔ 1939ء میں ہمارے حلے ضمنی انتخاب ہوا جس میں مجلس احرار اسلام کی طرف سے میرعبدالقیوم ایڈووکیٹ اور مسلم لیگ کی طرف سے شیخ محمد امین بیرسٹر امیدوار تھے۔ ان دونوں امیدواروں کے درمیان کانٹے دار مقابلہ تھا۔ دھوبی گھاٹ کا سارا محلہ مجلس احراراسلام کے امیدوار کے حق میں تھا اور محلے میں ایک شاندار جلوس تھا اس وقت میری عمر چار پانچ سال کی تھی۔ میں نے اپنی زندگی میں پہلی دفعہ مجلس احرار اسلام زندہ باد کے نعرے لگتے سنے تو میں نے بھی مجلس احرار اسلام زندہ باد کے نعرے لگانے شروع کر دیے۔ اس وقت مجھے اس جماعت کے بارے میں کچھ پتا نہیں تھا۔
ہمارے محلے میں دھوبی گھاٹ کی ایک ہاکی ٹیم تھی وہ بھی ٹورنامنٹ میں جیت کر ایک جلوس کی شکل میں محلے میں گھومتی تھی۔ میں بھی اس جلوس میں شامل ہوجاتا تھا۔ جب میں کھلاڑیوں کے گلے میں پھولوں کے ہار دیکھتا تو میرے جی میں اٹھتا تھا کہ میں بھی بڑا ہو کر ہاکی کا کھلاڑی بنوں گا۔ اس لیے میں نے اپنے والد محترم سے تقاضا کرنا شروع کیا کہ مجھے بھی ہاکی لادیں۔ میرے گھر کے سامنے ایک بہت بڑا گراؤنڈ تھا جو اس وقت دوسہرا گراؤنڈ کے نام سے مشہور تھا۔
جب ابا جی نے مجھے ہاکی لا کر دی تو میں بھی ان کھلاڑیوں کے پاس چلا گیا کہ میں بھی ہاکی کھیلوں گا۔ دو کھلاڑی مختلف سمتوں میں کھڑے ہو جاتے اور مجھے درمیان میں کھڑا کر لیتے۔ جب میں ایک کے پاس جاتا تو وہ گیند دوسرے کی طرف پھینک دیتا اور جب دوسرے کے پاس جاتا تو وہ گیند پہلے کی طرف پھینک دیتا۔ اس طرح میں ان دونوں کے درمیان بھاگتا رہتا اور خوش ہوتا اور سمجھتا کہ میں ہاکی کھیل رہا ہوں۔ جب وہ خود کھیلتے تھے تو میں باہر بیٹھ کر ان کو کھیلتے ہوئے دیکھتا۔ یہ میرا ہاکی کا آغاز تھا۔ میں نے سکول سے یونیورسٹی تک تمام ہاکی کی ٹیموں کی نمائندگی کی۔ انٹریونیورسٹی ٹورنامنٹ میں پنجاب یونیورسٹی کی ہاکی ٹیم کی کپتانی کی۔ گورنمنٹ کالج لاہور سے اسی اعزاز کی وجہ سے مجھے رول آف آنر سے نوازا گیا۔ مجھے یہ بھی اعزاز حاصل ہے کہ میں نے ہاکی کی نیشنل چیمپن شب میں تین دفعہ شرکت کی ہے۔ میں اپنی ملازمت کے دوران ہر کالج میں ہاکی کا کوچ اور پریذیڈنٹ بھی رہ چکا ہوں۔ گورنمنٹ ایس ای کالج بہاولپور میں اپنی تعیناتی کے دوران چار سال تک میں نے سمیع اﷲ کی تربیت کی جو بعد میں فلائنگ ہارس کے لقب سے نوازے گئے۔
جب تک میں ہاکی کا کھلاڑی رہا میرا ادبی ذوق مغلوب رہا۔ جب میں نے ہاکی کھیلنی چھوڑی تو میں جہاں کہیں بھی گیا تو وہاں شاعروں اور ادیبوں کے درمیان ہی رہا۔ ان کی صحبت کے اثر کی وجہ سے میں نے نثر نگاری شروع کی۔ نثر میں کئی کتابیں لکھنے کے بعد میں نے شاعری کا بھی آغاز کر دیا۔ میرے اب تک دو شعری مجموعے شائع ہوچکے ہیں اور میرا تیسرا شعری مجموعہ زیر ترتیب ہے۔ ریٹائرمنٹ کے بعد میں نے اپنے آپ کو مجلس احرارِ اسلام کے لیے وقف کردیا۔ آٹھ سال تک میں مجلس احرار اسلام پاکستان کا جنرل سیکرٹری رہا اور اب اس وقت اس جماعت کا سینئر نائب صدر ہوں۔
س: آپ اپنے خاندانی پس منظر کے بارے میں کیا کہنا چاہیں گے؟
ج: پہلی بات تو یہ ہے کہ میں ایک ایسے خاندان سے وابستہ ہوں جو نہ صرف چنیوٹ بلکہ اس کے گرد و نواح میں بھی بڑی عزت اور احترام کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ میں یہاں اپنے دادا جان کا ذکر کرنا ضروری سمجھتا ہوں جن کا نام گرامی حافظ خدابخش صغیر ہے۔ جنھوں نے 1905ء میں چنیوٹ سے ایک ماہنامہ ’’المنیر‘‘ کے نام سے شائع کرنا شروع کیا۔ جس کا ذکر ڈاکٹر امجد ثاقب نے اپنی کتاب ’’شہر لب دریا‘‘ میں بڑی تفصیل کے ساتھ کیا ہے۔ میرے دادا جان پنجابی زبان میں شعر بھی کہا کرتے تھے۔ ’’گلزار مدینہ‘‘ میں ان کا شعری کلام موجودہے۔ میرے دادا جان کو یہ بھی شرف حاصل ہے کہ وہ مولانا ظفر علی خان اور امیر شریعت سید عطاء اﷲ شاہ بخاری رحمتہ اﷲ علیہ کے قریبی دوستوں میں شمار ہوتے تھے۔ مولانا ظفر علی خان اکثر میرے دادا جان کے مہمان بنتے۔ امیر شریعت کی چنیوٹ شہر میں پہلی دفعہ تقریر میرے دادا جان کی درخواست پر ہوئی تھی۔ چنیوٹ میں پہلے ہائی سکول کی تحریک بھی میرے دادا جان کی طر ف سے ہوئی جو آج بھی ان کے مکان کے سامنے گورنمنٹ اسلامیہ ہائی سکول کی صورت میں موجود ہے۔
میرے والد محترم نذیر مجیدی شاعر تھے۔ فکاہیہ غزلیں کہتے تھے اور فکاہیہ کالم بھی لکھتے تھے۔ ان کے کالم مختلف اخباروں میں ’’تلخ و شیریں‘‘ کے عنوان سے شائع ہوتے رہے۔ چنیوٹ کے ماہنامہ ’’ یاد خدا‘‘ میں ان کے کالم خصوصی طور پر شائع ہوتے۔ جب انھوں نے 1927ء میں گورنمنٹ کالج فیصل آباد میں گیارھویں جماعت میں داخلہ لیا تو ان کے ہم جماعتوں میں مولابخش خضر تمیمی اور ن م راشد جیسے معروف شعراء شامل تھے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اس وقت ن م راشد کا تخلص خضری ہوا کرتا تھا اور مولا بخش جو کہ خضر تمیمی کے نام سے معروف تھے ان کا تخلص خضر تھا۔ میرے والد محترم بتاتے تھے کہ لڑکے ن م راشد کو خضر کی خضری کہتے تھے۔ جس پر انھوں نے تنگ آکر اپنا تخلص تبدیل کر کے راشد کر لیا۔ن م راشد کے والد اسلامیہ ہائی سکول چنیوٹ میں ٹیچر تھے۔ اپنے والد کی اس ملازمت کی وجہ سے ن م راشد کا بچپن چنیوٹ میں گزرا۔
میرے والد بعد میں لاہور چلے آئے اور یہاں پر انھوں نے روزنامہ پاسبان نکالا جو ایک معروف اخبار تھا۔ میرے والد صاحب نے زمیندار اخبار میں مولانا ظفر علی خان کے ساتھ بھی کام کیا۔
س: آپ اپنی تصنیف و تالیف کے بارے میں ہمارے قارئین کو آگاہ کیجئے۔
ج: میری سب سے اہم کتاب تاریخ محاسبہ قادیانیت ہے جو کہ ایک ضخیم او رتحقیقی کتاب ہے۔ اس کتاب میں مرزا غلام احمد قادیانی کے خاندانی حالات سے لے کر اس کے دعا وی اور دعوہ نبوت تک کے حالات و واقعات قلم بند کیے گئے ہیں اور خصوصی طور پر ان شخصیتوں کا ذکر ہے جنھوں نے رد قادیانیت کے سلسلے میں بہت اہم کردار ادا کیا ہے۔ ان میں خصوصیت کے ساتھ پیر مہر علی شاہ، مولانا ثناء اﷲ امرتسری اور محمد حسین بٹالوی رحمہما اﷲ کا ذکر ہے میری دوسری کتاب ’’اقبال اور قادیانیت‘‘ ہے۔ اس کتاب میں قادیانی کتب سے میں نے وہ مواد جو علامہ اقبال کے خلاف لکھا گیا ہے ۔اس کا رد پیش کیا ہے اور یوں سمجھئے کہ میں نے اقبال کی وکالت کی ہے۔
میری تیسری کتاب ’’احرار تحریک کشمیر اور قادیانیت‘‘ کے نام سے شائع ہوئی ہے جس میں مجلس احرار اسلام کا فکری اثاثہ پیش کیا گیا ہے۔ احرار، مسلم لیگ اور کانگریس کا تجزیاتی جائزہ لیا گیا ہے۔ تحریک کشمیر میں مجلس احرار کے کردار اور کشمیر کوقادیانی ریاست بنانے کا تفصیلی جائزہ لیا گیا ہے۔
میری چوتھی کتاب ’’اسلام اور اقتدارِ اعلیٰ‘‘ ہے ۔ یہ کتاب علم سیاسیات سے تعلق رکھتی ہے اور خصوصی طور پر مسلم پولیٹیکل تھاٹ کا ایک اہم ماخذ ہے۔ جس میں جمہوری تصورِ اقتدار اعلیٰ اور اسلامی تصورِ اقتدار اعلیٰ کے درمیان فرق واضح طور پر پیش کیا گیا ہے۔
میں نے اپنی جماعت کے حکم کی تعمیل میں اپنی خود نوشت ’’ورق ورق زندگی‘‘ کے نام سے لکھی ہے جو ہماری جماعت کے ترجمان ماہنامہ ’’نقیب ختم نبوت‘‘ میں قسط وار شائع ہوچکی ہے۔
اس کے علاوہ ’’خواب خواب روشنی‘‘ میری غزلوں کا مجموعہ اور ’’حرف حرف بندگی‘‘ میرا نعتیہ مجموعہ ہے جو منصہ شہود پر آچکے ہیں ’’ جبکہ حرف حرف آگہی‘‘ کے نام سے میری غزلوں کا ایک اور مجموعہ ابھی شائع ہونے کے لیے تیار ہے۔
س: ادب کے کن درخشاں ستاروں سے آپ کی قریبی دوستی رہی؟
ج: میں اپنی ملازمت کے دوران مختلف جگہوں پر رہا۔ ملتان میں جابر علی سید، عرش صدیقی، ڈاکٹر اسلم انصاری، ڈاکٹر خیال امروہوی سے دوستانہ تعلقات قائم ہوئے۔ اسی طرح بہاولپور میں شہاب دہلوی، تابش الوری ، ظہور نظر، سہیل اختر اور عابد صدیق سے قرب حاصل ہوا۔
جب میں فیصل آباد آیا تو ڈاکٹر ریاض مجید، ڈاکٹر انور محمود خالد، ڈاکٹر احسن زیدی، افضل رندھاوا اور پیر آصف بشیر چشتی جیسے عظیم ادبی لوگوں سے مراسم قائم ہوئے۔ یہ وہ ادب کے درخشندہ ستارے ہیں جن سے میں نے فیض حاصل کیا۔
س: آپ نے مجلس احرار اسلام میں کب او ر کیوں شمولیت اختیار کی؟
ج: جسے آپ باقاعدہ شمولیت کہتے ہیں وہ تو میں نے ریٹائرمنٹ کے بعد 1994ء میں حاصل کی۔ ویسے تو میں فطری احراری ہوں۔ جیسے جیسے میرا شعور پختہ ہوتا گیا ویسے ویسے میرا جذبۂ احرار بھی جوان ہوتا چلا گیا۔
س: حضرت سید عطاء اﷲ شاہ بخاری رحمتہ اﷲ علیہ ایک ہمہ جہت شخصیت کے مالک تھے۔ آپ نے ان کو بہت قریب سے دیکھا ہے۔ آپ ان کی شخصیت کی کن خوبیوں سے زیادہ متاثر ہیں؟
ج: بقول شورش کاشمیری ’’امیر شریعت کوئی سمجھنے سمجھانے والی شخصیت نہیں، بس پیار کرنے والی شخصیت ہے۔ ڈاکٹر اسلم انصاری نے ان کے حوالے سے کیا خوب کہا ہے:
کوئی باور نہ کرے گا وہ سخن کا اعجاز
Oشاید اب کوئی نہ سمجھے گا کہ کیسا تھا وہ
¸ میں ان کی نجی محفلوں میں بیٹھا ہوں۔ میں نے ان کی بیسیوں تقریریں سنی ہیں۔ میں ان کے اتنا قریب تھا کہ وہ مجھے شبیر بیٹا کہہ کر پکارتے تھے۔ میں آج تک یہ نہیں سمجھ سکا کہ اتنی بڑی شخصیت کے میں کیسے قریب ہوگیا۔ جس نے ہندوستان کی جنگ آزادی کو اتنی کامیابی کے ساتھ پایہ تکمیل تک پہنچایا کہ انگریز جیسی طاقت جس کی سلطنت میں سورج غروب نہیں ہوتا تھا ہندوستان کو آزاد کرنے پر مجبور ہوگئی۔ ہندوستان کی آزادی کے ساتھ ہی رفتہ رفتہ تمام اقوام انگریزی جبرو استبداد سے نجات حاصل کر گئیں۔
امیر شریعت فرمایا کرتے تھے کہ انگریز کو ہندوستان سے نکلنے پر مجبور کردو، اس کے نکلتے ہی اقوام عالم آزاد ہوں گی۔
ان کی بہت بڑی خواہش تھی کہ جب ہندوستان آزاد ہو تو مؤرخ یہ لکھنے پر مجبور ہو جائے کہ اس جنگ کی آزادی شروع بھی مسلمانوں نے کی تھی اور اس جنگ آزادی میں جتنا مسلمانوں کا حصہ ہے اس کا عشر عشیر بھی کسی قوم کا نہیں ہے۔
ان کی پوری زندگی کا خلاصہ اس بات میں موجود ہے کہ مجھے انگریز سے نفرت اور قرآن سے محبت ہے۔
میں ان کی اس بات سے بھی متاثر ہوں کہ دین اسلام کے بنیادی عقیدہ ختم نبوت پر ایمان نہ رکھنے والے طبقے کے خلاف علماء کی تبلیغ کو انھوں نے ایک عوامی تحریک میں تبدیل کردیا اور حکومت وقت سے علامہ اقبال کے اس مطالبے کو منظور کروانے کے لیے سیسہ پلائی دیوار بن گئے جو انھوں نے برطانوی حکومت سے کہا تھا کہ ختم نبوت کے عقیدے پر ایمان نہ رکھنے والے مسلمان نہیں ہوسکتے انھیں غیر مسلم اقلیت قرار دیا جائے۔
س: امیر شریعت کے ان جانثار ساتھیوں کے بارے میں بتائیں جنھوں نے تحریک آزادی میں ان کے ساتھ مل کر اسے کامیابی سے ہم کنار کیا؟
ج: امیر شریعت کے چند نامور ساتھیوں میں سب سے پہلی شخصیت مولانا حبیب الرحمن لدھیانوی کی ہے جو ایک لمبے عرصے تک مجلس احر اسلام ہند کے صدر رہے ہیں۔ یہ شاہ صاحب کے وہ جانثار ساتھی تھے جن کی اکیلے کی قید تقریباً پندرہ سال بنتی ہے۔ ان کے علاوہ مفکر احرار چودھری افضل حق کا نام آتا ہے جو اردو ادب میں بھی ایک نامور شخصیت ہیں۔ ان کے بعد شیخ حسام الدین، ماسٹر تاج الدین انصاری، مولانا مظہر علی اظہر، مولانا محمد گل شیر شہید، قاضی احسان احمد شجاع آبادی اور آغا شورش کاشمیری کے نام قابل ذکر ہیں۔
س: مجلس احرار اسلام نے تشکیل پاکستان کی مخالفت کیوں کی؟
ج: اس بحث کا اب کوئی جواز نہیں، پاکستان کو بنے ستر سال ہوگئے ہیں، اب ہم سب پاکستانی ہیں اور پاکستان کی ترقی و استحکام کے بارے میں سوچتے ہیں۔ مجلس احرار اسلام نے ان لوگوں کے خلاف عدم اعتماد کا اظہار کیا تھا کہ جو لوگ لاالہ الااﷲ کا نعرہ لگا کر اور قوم کو یہ کہہ کر کہ آؤ ہمیں ووٹ دو ہم ایک ایسا ملک بنانے جارہے ہیں جس میں خلفائے راشدین کے دور کے نظارے ہوں گے۔ امیراور غریب کے درمیاب تفریق باقی نہیں رہے گی۔ امرا غریب پروری کا مظاہرا کریں گے اور غریب امرا کو عزت کی نگاہ سے دیکھیں گے۔ امیر شریعت کا خیال تھا کہ یہ ایسا نہیں کرسکیں گے۔ انھوں نے اپریل 1946ء میں اردو پارک کے وسیع میدان میں لاکھوں مسلمانوں سے خطاب کرتے ہوئے یہ تاریخی فقرہ کہا تھا کہ ’’مجھے اس بات کا یقین دلادو کہ کل کو ملک کے کسی کونے پر اسلام نافذ ہوگا تو میں سب کچھ چھوڑ کر تمہارا ساتھ دینے کے لیے تیار ہوں‘‘
احرار کا مؤقف تھا کہ قیادت اور نعرے میں تضاد ہے اور آج یہ مؤقف عملی طور پر سو فیصد درست ثابت ہوا ہے۔
س: جب پاکستان بن گیا تو آپ کے رہنماؤں کی کیا دلی کیفیات تھیں؟
ج: وہ ہماری جماعت کی رائے تھی جسے قوم نے مسترد کردیا۔ ہم نے قوم کی رائے کو دل و جان سے تسلیم کرتے ہوئے جنوری 1949ء کولاہور میں اپنی مکمل طاقت کا مظاہرہ کرتے ہوئے یہ اعلان کردیا کہ ہمیں پاکستان کی آزادی پر خوشی ہے اور اس کی جو بھی موجودہ شکل ہے اسے ہم دل و جان سے تسلیم کرتے ہیں۔ بعد میں ہماری جماعت نے عملی طور پر بھی اس کی تائید میں اپنے طرز عمل کو پیش کردیا۔
س: وہ جماعت جس کا 1931ء سے لے کر 1935ء تک پنجاب میں طوطی بولتا تھا بعد میں ایسی غائب ہوئی کہ عوام میں اس کا نام و نشان تک نہ رہا۔ اس کی کیا وجہ تھی؟
ج: جماعت وہ ہوتی ہے جس کا کوئی نصب العین ہو اور جو منظم طریقے سے اپنے نصب العین کی کامیابی کے لیے اپنے تن من دھن کی قربانی دے۔
مجلس احرار اسلام کا پہلا نصب العین ملک کی آزادی تھا جو کہ قید و بند کی صعوبتیں جھیل کر حاصل ہوا۔
دوسرا نصب العین وہ تھا جو سب سے پہلے علامہ اقبال نے انگریزوں کے دور میں ان لوگوں کے بارے میں کہا تھا جن کو عقیدہ ختم نبوت پر یقین نہیں ان کو غیر مسلم اقلیت قرار دیں۔ مجلس احرار نے اقبال کے اس مطالبے کے لیے تین تحریکوں کو جنم دیا۔
پہلی تحریک اکتوبر 1934ء میں قادیان میں داخل ہو کر ایک مضبوط مرکز بنا کر چلائی۔
دوسری تحریک 1953ء میں چلائی اور تیسری تحریک 1974ء میں چلی جس میں مجلس احرار اسلام نے بھرپور حصہ لیا۔
ان تحریکوں کے محرک تو احرار ہی تھے پھر یہ کیسے کہا جاسکتا ہے کہ آپ کہیں نظر نہیں آئے۔ پاک و ہند میں مجلس احرار اسلام ہی وہ واحد جماعت ہے جو اسمبلیوں میں گئے بغیر اپنے دو بڑے مطالبات کو تسلیم کروانے میں کامیاب ہوگئی۔ اب اگر عوام ہماری طرف توجہ نہیں دیتے تو اس کی وجہ یہ ہے کہ اب ہم انتخابی سیاست سے باہر ہیں۔
آپ مجھے یہ بتائیں کہ جو اس ملک میں سیاست ہو رہی ہے کیا اسے سیاست کہا جاسکتا ہے۔ کیا اس جمہوریت کو صحیح جمہوریت کہا جاسکتا ہے؟
س: کہا جاتا ہے کہ شاید ہی کوئی جماعت اتنے شعلہ بیان خطیبوں اور مقرروں پر مشتمل ہو جتنی کہ مجلس احرار اسلام تھی۔ آپ کا کیا خیال ہے؟
ج: یہ تو وہ حقیقت ہے جسے ہمارے مخالفین بھی تسلیم کرتے ہیں اور اس کی دلیل یہ ہے کہ اس وقت مسلم لیگ اور کانگریس دونوں احرار کی اس قوت گفتار سے خائف تھیں۔ یہ جماعتیں سوچتی تھیں کہ اس فن خطابت کی قوت کا کیسے مقابلہ کیا جائے۔
س: مجلس احرار اسلام نے غیر سیاسی ہونے کا فیصلہ کیوں کیا؟
ج: مسلم لیگ کو موقع دیا کہ وہ اپنے وعدے پورے کرے اور پاکستان میں اسلامی نظام نافذ کرے۔ اس کے لیے احرار نے مسلم لیگ کو اپنا تعاون پیش کیا۔
س: مجلس احرار اسلام کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ اس جماعت نے سب سے پہلے تحریک کشمیر کی قیادت کی۔ آپ کشمیریوں کی حمایت میں پاکستانی حکومت کے کردار سے مطمئن ہیں؟
ج: پچھلے کئی ادوار سے مقابلہ کرتے ہوئے ہم اس وقت کی حکومت کے کشمیر کے بارے میں موقف سے قدرے مطمئن ہیں۔ یہ بات خوش آئند ہے کہ اب حکومت نے اقوام متحدہ کی قرار داد کی روشنی میں کشمیریوں کو حق خود ارادیت دینے کے مطالبے پر زور دیا ہے۔ وقت کا تقاضا ہے کہ اقوام متحدہ کو بھی یہ بات تسلیم کر لینی چاہیے۔
س: اسلام کے نام پر ہونے والی اس دہشت گردی کے بارے میں آپ کی جماعت کا کیا موقف ہے؟
ج: استعماری قوتوں نے اسلام کو بدنام کرنے اور پاکستان کو کمزور کرنے کے لیے دہشت گردوں کی پشت پناہی کی۔ ان کا مقصد صرف اور صرف یہی ہے کہ پاکستان حقیقی معنوں میں اسلامی ریاست نہ بن سکے۔اسلام، امن و سلامتی کا دین ہے دہشت گرد اسلام کے نہیں عالمی استعمار کے نمائندے ہیں۔ مجلس احرارِاسلام عدم تشدد کی علم بردار جماعت ہے اوراپنے قیام کے دن سے ہی پُر امن ذرائع سے جدوجہد کی داعی ہے۔
مجلس احرار اسلام نے تحریک آزادی میں جو قربانیاں پیش کی ہیں اس کا تقاضا بھی یہ ہے کہ دہشت گردی کی ہر محاذ پر مذمت، مقابلہ اور حوصلہ شکنی کی جائے۔
س: پانامہ کیس کے حوالے سے سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد ملک کے سیاسی منظر نامے میں کیا تبدیلیاں رونما ہوں گی؟
ج: پانامہ کیس کے فیصلے کے بعد خواہ وہ کسی صورت میں بھی سامنے آئے ملکی سیاست میں کوئی انقلابی تبدیلی نہیں ہوگی اور نہ ہی ملک سے کرپشن کا مکمل خاتمہ ہو گا۔
س: 2018ء کے انتخابی معرکے میں آپ کی جماعت کا کیا کردار ہوگا؟
ج: مجلس احرار اسلام اپنے حق رائے دہی کا اظہار کرے گی اور جس جماعت کے منشور کو اپنے نظریات سے قریب تر سمجھے گی اس کی بھر پور حمایت کرے گی۔
س: آپ کے نزدیک آئیڈیل ریاست کس طرح کی ہونی چاہیے؟
ج: آپ کا یہ سوال جاگتے ہوئے سہانے خواب دیکھنے کے مترادف ہے، کیوں کہ ہم تو اسی نظام حکومت کو اپنے خواب کی تعبیر سمجھتے ہیں جو حضور اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم نے مدینے کے اندر قائم فرمایا تھا۔ یہ نظام اس وقت آیاتھا جب برطانیہ کا ڈارک پیریڈ تھا۔ چرچ اور سٹیٹ کے درمیان جنگ جاری تھی۔
انگلستان کی تاریخ میں 1215ء عیسوی میں میگنا کارٹا ایکٹ پاس ہوا جو جمہوریت کی طرف پہلا قدم قرار دیا جاتا ہے اور 1928ء میں عورتوں کو ووٹ دینے کا حق ملا۔
حق تنقید تو جمہوریت کو اسلامی حکومت کی عطا ہے۔ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کے عطا کیے ہوئے آئین میں قومی اسمبلی اور سینٹ کو ملا کر مجلس شوریٰ کہا جاتا ہے اور یہ مشاورت اور شوریٰ کے الفاظ بھی نظام خلافت کی عطا ہیں۔ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کا آئین بھی آپ سے اسی نظام کا تقاضا کررہا ہے۔
1973ء کے آئین کاصحیح معنوں میں نفاذ ہو جائے تو معاشرے میں خود بخود تقویٰ،پرہیز گاری، پارسائی، محبت، شفقت، دیانت داری، احساس ذمہ داری، خوف خدا جیسی خوبیاں پیدا ہوجائیں گی۔ آئین کی اسلامی دفعات اس کی ضمانت دیتی ہیں۔
س: موجودہ حالات کے تناظر میں آپ ہمارے ملک کے سیاسی رہنماؤں کو کیا پیغام دینا چاہتے ہیں؟
ج: جب میں پاکستان کی گزشتہ ستر سال کی تاریخ کا سیاسی جائزہ لیتا ہوں تو مجھے یہ کہنے میں کوئی جھجک محسوس نہیں ہوتی کہ اس ملک کو سیاست، معاشرت اور معاشی طور پر جتنا نقصان ملک کے سیاست دانوں نے پہنچایا ہے اس کا احاطہ الفاظ میں ممکن نہیں۔ اس کی تین بڑی وجوہات ہیں۔ پہلی وجہ یہ ہے کہ ہمارے سیاست دانوں میں احساس ذمہ داری اور خوف خدا کا فقدا ن ہے۔
دوسری وجہ خواہش اقتدار ہے اور تیسری وجہ ایسے لوگوں کا اقتدار میں آنا ہے کہ جن کے آباؤ اجداد میں کوئی ایسانہیں ہے کہ جس نے تحریک آزادی میں حصہ لیا ہو اور اس کے لیے قید و بند کی صعوبتیں برداشت کی ہوں جب کہ دوسری طرف میں آپ کو کئی ایسی مثالیں دے سکتا ہوں کہ جن ملکوں کی قیادت نے اپنی آزادی کے لیے تگ و دو کی اور ان کی قیادت میں ان کا ملک ترقی کرتا ہوا کہاں سے کہاں پہنچ گیا۔نیلسن منڈیلااورماؤزے تنگ اس کی زندہ مثالیں ہیں۔
میں اپنے ملک کے سیاسی رہنماؤں کے لیے دعا گو ہوں کہ اﷲ تعالیٰ ان میں احساس ذمہ داری پیدا کرے اور اپنے ذاتی مفادات کو ملک کے مفادات پر قربان کرنے کا شعور عطا فرمائے۔(آمین)
(روزنامہ’’جرأت‘‘لاہور، 6؍اپریل 2017ء)