تازہ ترین خبریں
آپ کو مجلس احرار کیسی لگی؟

احادیثِ نزولِ عیسیٰ بن مریم علیہماالسلام اور منکرین حدیث کے اعتراضات کا علمی جائزہ

حافظ عبیداﷲ

(قسط:۱۳)

راویوں کا تعارف
زُہیر بن حرب: ان کا تعارف ہوچکا ۔
مُعلّیٰ بن منصور الرازي (ابو یعلیٰ) الحنفي نزیل بغداد
امام ذہبی نے ان کا تعارف یوں کرایا ہے ’’علامہ، حافظ، فقیہ اور بغداد کے مفتی‘‘۔ سنہ150ھ کے قریب پیدا ہوئے۔ ابوزرعہ نے کہا :’’معلی سچے ہیں‘‘۔ یحییٰ بن معین نے انہیں ’’ثقہ‘‘ کہا۔ امام عِجلی نے کہا کہ ’’وہ ثقہ اور صاحبِ سُنت اور قابل تھے، انہیں کئی بار قاضی بننے کی پیش کش ہوئی لیکن آپ نے انکار کیا‘‘۔ یعقوب بن شیبہ نے کہا : ’’وہ ثقہ، پختہ، سچے ، (جھوٹ سے) محفوظ اور فقیہ تھے‘‘۔ ابن سعد نے بھی انہیں ’’صدوق‘‘ (سچے) لکھا۔ ابن عدی کہتے ہیں کہ ’’ان کی حدیث لینے میں کوئی حرج نہیں، مجھے ان کی کوئی ایسی حدیث نہیں ملی جو منکر ہو‘‘۔ امام احمد بن حنبل نے کہا : ’’معلی بن منصور امام ابویوسف اور امام محمد کے بڑے اورنقل وروایت میں ان کے ثقہ اصحاب میں سے تھے‘‘۔ ابن حِبان نے بھی انہیں ’’ثقہ ‘‘ لوگوں میں شمار کیا ہے۔
(تہذیب التہذیب، ج10 ص238 / سیر اعلام النبلاء، ج10 ص365 /الجرح والتعدیل، ج8 ص334)
فائدہ: بعض نے امام احمد بن حنبل کے بارے میں نقل کیا ہے کہ آپ معلی بن منصور کی حدیث نہیں لیتے تھے، اس کی وجہ یہ بتائی جاتی ہے کہ معلی ’’اصحاب الرأی‘‘ (یعنی فقہاء) میں شمار ہوتے تھے، لیکن امام ابو زرعہ نے اس بارے میں یہ فرمایا کہ : ’’اﷲ احمد بن حنبل پر رحم فرمائے، مجھے یہ بات پہنچی ہے کہ ان کے دل میں معلی بن منصور کی احادیث کے بارے میں غصہ پایا جاتا تھا، جبکہ علی بن المدینی، ابو خیثمہ اور ہمارے دوسرے اصحاب نے معلی بن منصور سے حدیث لی ہے ، وہ سچے ہیں‘‘۔ بعض لوگوں نے امام احمد بن حنبل کے حوالے سے یہ نقل کردیا کہ انہوں نے معلی بن منصور کے بارے میں کہا کہ وہ کذب بیانی کرتے ہیں۔ امام ذہبی نے سیر اعلام النبلاء میں اس بات کو ’’غلط بلا ریب‘‘ (بغیر کسی شک کے غلط) کہا ہے۔
سلیمان بن بلال (ابو محمد) مولیٰ آل الصدیق
امام ذہبی نے انہیں ایک جگہ ’’ثقہ اور امام‘‘ اور دوسری جگہ ’’الامام المُفتي الحافظ‘‘ لکھا ہے۔ امام احمد بن حنبل اور امام نسائی نے انہیں ’’ثقہ‘‘ کہا ہے۔ یحییٰ بن معین نے انہیں ’’ثقۃ صالح‘‘ کہا۔ابن سعد نے کہا کہ ’’وہ ثقہ اور اچھی حدیث والے‘‘ تھے۔ خلیلی نے انہیں ’’ثقہ‘‘ کہا۔ ابن حِبان نے انہیں ’’ثقہ‘‘ لوگوں میں شمار کیا۔ ابن عدی نے بھی انہیں ’’ثقہ‘‘ کہا۔ (تہذیب التہذیب، ج4 ص175 / سیر اعلام النبلاء، ج7 ص425 /الکاشف، ج1 ص457)
سہیل بن ابي صالح (ابویزید) المدني
امام ذہبی نے ان کا تعارف یوں کرایا ہے : ’’الاِمام المحدِّث الکبیر الصادق‘‘ امام، عظیم محدث اور سچے۔ سفیان بن عیینہ کہتے ہیں کہ : ’’ہم سہیل بن ابی صالح کو حدیث میں پختہ (ثبت) سمجھا کرتے تھے‘‘۔ امام احمد بن حنبل نے کہا : ’’ان کی حدیث بہت اچھی ہے‘‘۔ امام نسائی نے کہا کہ : ’’ان کی حدیث لینے میں کوئی حرج نہیں‘‘۔ عِجلی نے کہا : ’’سہیل اور ان کے بھائی عباد دونوں ثقہ ہیں‘‘۔ ابن عدی نے کہا : ’’ میرے نزدیک وہ پکے ہیں اور ان کی حدیث لینے میں کوئی حرج نہیں‘‘۔ ابن حِبان نے بھی انہیں ’’ثقہ‘‘ لوگوں میں شمار کیا ہے۔ ابن سعد نے کہا : ’’سہیل ثقہ اور کثیر الحدیث‘‘ ہیں۔ یحییٰ بن معین نے ایک جگہ سہیل اور ان کے دونوں بھائیوں عباد اور صالح کو ’’ثقہ‘‘ کہا ہے، لیکن عباس الدوری نے یحییٰ بن معین سے یہ بات نقل کی ہے کہ انہوں نے کہا :’’سہیل اور علاء بن عبدالرحمن دونوں کی حدیث حجت نہیں ہے‘‘۔ یحییٰ بن معین سے یہ بھی منقول ہے کہ انہوں نے سہیل کو ’’ضعیف‘‘ کہا۔
(تہذیب التہذیب، ج4 ص263 / سیر اعلام النبلاء، ج5 ص458 )
فائدہ: ائمہ جرح وتعدیل کی اکثریت کے نزدیک سہیل بن ابی صالح ثقہ اور قابل اعتماد ہیں، یحییٰ بن معین سے دونوں باتیں منقول ہیں، کہیں ثقہ کہا اور کہیں ضعیف، لہٰذا جو بات جمہور ائمہ کے مطابق ہے اسے ہی لیا جائے گا۔
ذکوان السمّان الزیّات (ابو صالح) مولیٰ جویریۃ الغطفانیۃ
یہ پہلے بیان ہوئے ’’سہیل بن ابی صالح‘‘ کے والد ہیں، یہ تیل اور گھی کا کاروبار کرتے تھے اس لئے انہیں ’’سمّان اور زیّات‘‘ کہا جاتا ہے، امام ذہبی نے ایک جگہ ان کے بارے میں لکھا ہے کہ ’’وہ ثقہ اماموں میں سے ایک ہیں‘‘ اور دوسری جگہ لکھا ہے کہ ’’وہ حافظ اور حجت تھے‘‘۔ امام احمد بن حنبل نے ان کے بارے میں کہا : ’’وہ لوگوں میں سب سے زیادہ ثقہ اوربلند مرتبہ والے ہیں، وہ ثقہ ہیں ثقہ ہیں (دوبار فرمایا)‘‘۔ یحییٰ بن معین نے بھی انہیں ’’ثقہ‘‘ فرمایا۔ ابو حاتم رازی نے فرمایا :’’ذکوان ثقہ ہیں اور ان کی حدیث حجت ہے‘‘۔ ابوزرعہ نے فرمایا: ’’وہ مدنی ثقہ ہیں اور سیدھی حدیث والے ہیں‘‘۔ امام ساجی نے بھی انہیں ’’ثقہ‘‘ فرمایا۔ ابن حِبان اور عِجلی نے انہیں ثقہ لوگوں میں شمار کیا ہے۔ حافظ ابن حجر نے انہیں ’’ثقہ اور ثبت‘‘ فرمایا۔ امام ذہبی لکھتے ہیں کہ ان کی وفات سنہ101ھ میں ہوئی۔
(الجرح والتعدیل لابن ابی حاتم، ج4 ص263 / تاریخ الاسلام للذہبی، ج5 ص458 /الکاشف، ج1 ص386 /سیر اعلام النبلاء، ج5 ص36 / تہذیب التہذیب، ج3 ص219 / تقریب التہذیب،ص203)۔
تمنائی افسانہ اور بے بسی
تمنا عمادی صاحب کو کوئی ایسی بات نہ ملی ہوگی جس کو بنیاد بناکر اورپھر رائی کا پہاڑ بناکر وہ ’’ابو صالح ذکوان الزیّات‘‘ پر اپنی ’’تمنائی‘‘ جرح کے تیر چلا سکیں ، لیکن حدیث دشمنی کا تقاضا بھی تھا کہ کچھ نہ کچھ ضرور لکھا جائے تو انہیں تہذیب التہذیب میں ابن سعد کے حوالے سے یہ بات نظر آئی کہ ’’کان ثقۃ کثیر الحدیث، وکان یقدم الکوفۃ یجلب الزیت فینزل فی بني أسد‘‘ کہ وہ ثقہ اور کثیر الحدیث تھے، جب تیل لے کر کوفہ تشریف لاتے تھے تو قبیلہ بنی اسد کے ہاں ٹھہرتے تھے‘‘ تو عمادی صاحب کو ابن سعد کی اس بات کا پہلا حصہ ’’ثقۃ کثیر الحدیث‘‘ تو نظر نہ آیا ، لیکن ’’بنی اسد‘‘ کا لفظ دیکھا تو تقریباً تین صفحات (197 تا 200) یہ بتانے میں سیاہ کر ڈالے کہ یہ بنی اسد کا محلہ تو جھوٹے راویوں اور وضاعین کا اڈہ تھا، اور پھر عمادی صاحب نے اپنی تحقیق کے مطابق بہت سے ایسے لوگوں کے نام بھی گنوائے ہیں جن کا تعلق اس محلہ سے تھا اور تمنائی تحقیق کے مطابق وہ سب مجروح ہیں وغیرہ وغیرہ ۔ الغرض! عمادی صاحب بالواسطہ یہ کہنا چاہتے ہیں کہ ابوصالح الزیّات چونکہ اپنے بغداد کے سفر کے دوران بنی اسد کے محلہ میں قیام کرتے تھے لہٰذا وہ بھی ناقابل اعتبار ٹھہرتے ہیں۔
قارئین محترم! یہ ہے منکرینِ حدیث کے ’’محدث العصر‘‘ کا علم جرح وتعدیل، بنی اسد میں کوئی راوی جھوٹا ہوتا ہے تو ہو، اس سے تو بنی اسد کے محلہ میں مستقل رہنے والے ہر فرد کا جھوٹا اور ضعیف ہونا ہی ثابت نہیں ہوتا چہ جائے کہ ایک ایسے بالاتفاق ثقہ آدمی کو اس بناء پر مجروح ثابت کرنے کی کوشش کی جائے جو مستقل رہنے والا مدینہ کا ہے اور اپنے کاروبار کے سلسلے میں کوفہ آتا ہے ۔ عمادی صاحب کی کتاب کے سرورق پر لکھا ہے ’’انتظارِ مہدی ومسیح۔فنِ رجال کی روشنی میں‘‘ یہ کون سا فنِ رجال ہے جس میں کسی راوی کو اس بناء پر مجروح قرار دیا جائے کہ وہ اپنے کاروبار کے سلسلے میں ایسے شہر جاتا تھا جس میں جھوٹے لوگ بھی رہتے تھے؟
نا پختہ ذہانت سے غباوت اچھی

9 بگڑی ہوئی عقل سے حماقت اچھی
حدیث نمبر 11
’’(امام مسلم فرماتے ہیں) بیان کیا ہم سے ابوخَیثَمَۃ زُہیر بن حرب اور اسحاق بن ابراہیم اور ابن ابی عمر المکی ( لیکن الفاظ زہیر بن حرب کے ہیں) اسحاق (بن ابراہیم) نے کہا : ہمیں خبر دی ، اور باقی دونوں نے کہا : ہم سے بیان کیا سُفیان بن عیینہ نے ، اُن سے فُرات القزّاز نے، اُن سے ابو الطفیل (عامربن واثلۃ اللیثی) نے، اُن سے حضرت حُذیفہ بن اسِید الغِفاری ؓ نے ، آپ نے فرمایا کہ رسول اﷲ e ہم پر برآمد ہوے اور ہم باتیں کررہے تھے، آپ نے فرمایا: تم کیا باتیں کررہے تھے؟ ۔ ہم نے کہا قیامت کا ذکر کررہے تھے، آپ نے فرمایا: قیامت نہیں قائم ہوگی جب تک دس نشانیاں اُس سے پہلے نہیں دیکھ لوگے ۔ پھر ذکر کیا دُھویں کااور دجّال کا اور زمین کے جانور کا، اور سورج کے مغرب سے نکلنے کا، اور حضرت عیسیٰ u کے نازل ہونے کا، اور یاجوج ماجوج کے نکلنے کا، اور تین جگہ خسف ہونا(یعنی زمین میں دھنسنا) ایک مشرق میں، دوسرا مغرب میں، تیسرا جزیرہ عرب میں، اور دسویں نشانی ایک آگ پیدا ہوگی جو لوگوں کو یمن سے نکالے گی اور ہانکتی ہوئی محشر کی طرف لے جائے گی ۔‘‘
(صحیح مسلم، ح 2901 ، باب فی الآیات التی تکون قبل الساعۃ)
راویوں کا تعارف:
أبو خیثمۃ زہیر بن حرب: تعارف ہوچکا۔
اسحاق بن ابراہیم (بن راہویہ): تعارف ہوچکا۔
ابن ابی عمر المکی (ابو عبداللّٰہ محمد بن یحییٰ)
امام ذہبی نے ان کا تعارف یوں کرایا ہے: ’’الاِمام، المحدِّث ، الحافظ، شیخ الحرم‘‘۔ یہ اصل میں ’’عدن‘‘ کے رہنے والے تھے لیکن مکہ منتقل ہوگئے۔ احمد بن سہل اسفرائینی کہتے ہیں کہ امام احمد بن حنبل سے سوال ہوا کہ کن لوگوں کی حدیث لکھی جائے، تو آپ نے جواب میں فرمایا: ’’اگر مکہ میں ہو تو ابن ابی عمرکی حدیث ‘‘۔ ابن حِبان نے انہیں ’’ثقہ‘‘ لوگوں میں شمار کیا ہے۔ ابوحاتم نے کہا : ’’وہ نیک اور سچے آدمی تھے‘‘۔
(سیر اعلام النبلاء، ج12 ص96 / تہذیب التہذیب، ج9 ص518)
سفیان بن عیینہ: ان کا تعارف بھی پہلے ہوچکا۔
فرات بن ابي عبد الرحمن التمیمی البصری القزّاز ، نزیل الکوفۃ
یہ اصل میں بصرہ کے رہنے والے تھے لیکن بعد میں کوفہ منتقل ہوگئے۔ یحییٰ بن معین نے انہیں ’’ثقہ‘‘ فرمایا۔ ابن ابی حاتم نے بھی اپنے والد ابوحاتم سے نقل کیا ہے کہ انہوں نے کہا کہ ’’یہ صالح الحدیث (اچھی حدیث والے) ہیں‘‘۔ ابن حِبان نے انہیں ’’ثقہ‘‘ لوگوں میں شمار کیا ہے۔ عِجلی نے بھی انہیں ’’ثقہ‘‘ لکھا ہے۔ ابن شاہین نے بھی سفیان بن عیینہ کے حوالے سے انہیں ’’ثقہ‘‘ لکھا ہے۔ امام ذہبی لکھتے ہیں کہ ’’وثّقہ ابن معین وغیرہ‘‘ یحییٰ بن معین اور دوسرے لوگوں نے انکی توثیق کی ہے۔ اور ایک دوسری جگہ لکھا ہے کہ ’’وثّقوہ‘‘ انہوں نے (یعنی ائمہ جرح وتعدیل نے) انہیں ’’ثقہ‘‘ کہا ہے۔
فرات القزّاز کا تذکرہ مندرجہ ذیل کتابوں میں موجود ہے ، نہ ہی یہ کوئی مجہول شخصیت ہیں اور نہ ہی کسی نے انہیں ضعیف کہا ہے۔
(التاریخ الکبیر للبخاري، ج7 ص129 /الجرح والتعدیل لابن ابي حاتم، ج7 ص79 /تاریخ الاسلام للذہبي، ج3 ص479 /میزان الاعتدال، ج3 ص343 /الکاشف، ج2 ص119 /تہذیب الکمال ، ج23 ص150 /تہذیب التہذیب، ج8 ص258 /معرفۃ الثقات للعِجلي، ج2 ص204 /کتاب الثقات لابن حِبان، ج7 ص321 /تاریخ اسماء الثقات لابن شاہین، ص265 )۔
تمنائی غلط بیانی
قارئین محترم! آپ نے ’’فرات القزّاز‘‘ کے بارے میں تمنا عمادی صاحب کے دنیا میں آنے سے کئی صدیاں پہلے ہونے والے ائمہ اسماء الرجال کے اقوال ملاحظہ فرمائے، اب آئیے چودھویں صدی کے ان ’’محدث العصر‘‘ کی تحقیق بھی پڑھیے، لکھتے ہیں:
’’فرات القزّاز ایک مجہول الحال آدمی ہیں، نہ ان کا سال ولادت معلوم نہ سال وفات، یہاں تک کہ نہ ان پر کسی کی جرح ہے نہ تعدیل، چونکہ امام مسلم ان کی حدیث روایت کررہے ہیں اس لئے دوتین کوفیوں نے ان کو صرف ثقہ لکھ دیا اور بس‘‘۔ (انتظارِ مہدی ومسیح، ص210 – 211)
جہاں تک عمادی صاحب کا یہ کہنا ہے کہ ’’یہ مجہول الحال شخصیت‘‘ ہیں یہ سراسر ’’جھوٹ‘‘ ہے ، اگر کسی راوی کی تاریخ ولادت اور تاریخ وفات کتابوں میں نہیں لکھی تو اس سے وہ مجہول الحال نہیں بن جاتا، پھر اگر یہ مجہول ہوتے تو اسماء الرجال کے ائمہ کی ایک کثیر تعداد ان کا تعارف اپنی کتابوں میں نہ کراتی اور انہیں ثقہ نہ کہتی، یا کم از کم کوئی ایک تو انہیں مجہول لکھتا۔
نیز عمادی صاحب خود تضاد کا شکار ہیں، پہلے لکھتے ہیں کہ فرات القزّاز پر نہ کسی نے جرح کی ہے اور نہ ہی کسی نے ان کی تعدیل (یا توثیق) کی ہے، پھر خودہی تسلیم بھی کرتے ہیں کہ دوتین کوفیوں نے انہیں ’’ثقہ‘‘ لکھا ہے لیکن شاید اپنے اوپر ہونے والی ’’وحی‘‘ کی بناء پر فیصلہ صادر فرماتے ہیں کہ ان لوگوں نے صرف اس وجہ سے انہیں ’’ثقہ‘‘ لکھا ہے کہ امام مسلم ان کی حدیث روایت کرتے ہیں۔میں نے ’’وحی کی بناء پر‘‘ اس لئے کہا کہ یہ بات عمادی صاحب کے معرض وجود میں آنے سے پہلے کہیں نہیں ملتی، نیز جب ’’فرات القزّاز‘‘ خود کوفہ میں رہتے تھے تو ان کے بارے میں کوفہ کے ائمہ جرح وتعدیل ہی بہتر جانتے تھے نہ کہ ہندوستان کے صوبہ بہار کے علاقہ پھلواری کے رہنے والے بزعمِ خود فنِ رجال کے ماہرین۔
عمادی صاحب کی ان ’’تلبیسات‘‘ کو پڑھ کر ان کے ’’یارانِ طریقت‘‘ تو خوب داد دیتے ہوں گے، لیکن میں صرف یہ عرض کروں گا کہ:
جھوٹ بولا تو عمر بھر بولا

/تم نے اس میں ضابطہ رکھا
C ابوالطفیل عامرؓ بن واثلۃ اللیثي
حضرت عامر بن واثلہؓ بالاتفاق صحابہ کرامؓ میں سب سے آخر میں فوت ہونے والے صحابی ہیں۔ نبی کریم e کے وصال کے وقت آپ آٹھ نو سال کے تھے، آپ حضرت علی کرم اﷲ وجہہ کے ساتھ کوفہ میں رہے اور بعد میں مکہ آگئے ، وہیں آپ کی وفات سنہ100ھ اور 110 ھ کے درمیان (باختلاف اقوال) ہوئی۔ امام ذہبی سیر اعلام النبلاء میں لکھتے ہیں کہ :’’وکان أبو الطفیل ثِقۃً فیما ینقلہ، صادقاً، عالماً، شاعراً، فارساً، عُمِّر دہراً طوِیلاً، وشہِد مع علي حروبہ‘‘ ابوالطفیل ثقہ، سچے، عالم، شاعر اور اچھے گھڑ سوار تھے، آپ نے ایک لمبا زمانہ عمر پائی اور حضرت علی کرم اﷲ وجہہ کی جنگوں میں ان کے ساتھ رہے۔
آپ کا تذکرہ وتعارف مندرجہ ذیل کتب میں دیکھا جاسکتا ہے۔
(التاریخ الکبیر للبخاري، ج6 ص446 /الاستیعاب في معرفۃ الأصحاب، ج1 ص480 دار الفکر بیروت /أسد الغابۃ في معرفۃ الصحابۃ، ج3 ص143 دار الکتب العلمیۃ بیروت /الاصابۃ في تمییز الصحابۃ، ج5 ص536 قاہرہ مصر /الجرح والتعدیل ، ج6 ص328 /تہذیب الکمال، ج14 ص79 /تاریخ الاسلام للذہبي، ج2 ص1201 /سیر اعلام النبلاء، ج3 ص467 /تہذیب التہذیب، ج5 ص82 /معرفۃ الثقات للعِجلي، ج2 ص15 /کتاب الثقات لابن حِبان، ج3 ص291 وغیرہا من الکتب)
ایک وضاحت: حضرت ابوالطفیلؓ چونکہ حضرت علی کرم اﷲ وجہہ کے لشکر میں تھے اور آپ کے خاص آدمی تھے اس لئے کتابوں میں ان کے بارے میں لکھا ملتا ہے کہ ’’کان من شیعۃ علي‘‘ وہ حضرت علی ؓ کے شیعہ میں سے تھے یا لکھا ملتا ہے کہ وہ ’’شیعی‘‘ تھے ۔ اگرچہ یہاں اس کا صرف یہ معنی ہے کہ آپ حضرت علیؓ کی جماعت میں سے تھے ،لیکن ان لوگوں کے لئے جو علم اسماء الرجال سے واقفیت نہیں رکھتے یہ وضاحت ضروری ہے کہ اسماء الرجال کی کتابوں میں اگر کسی راوی کے بارے میں لکھا ہو کہ وہ ’’متشیع‘‘ تھا یا ’’شیعہ‘‘ تھا تو اس سے آج کے زمانے میں معروف شیعہ مراد نہیں ہوتا، متقدمین ائمہ کی اصطلاح میں ’’شیعہ‘‘ اور ’’رافضی‘‘ میں فرق ہے، اسی لئے اسماء الرجال کی کتابوں میں ’’شیعہ‘‘ اور ’’رافضی‘‘ کو الگ الگ بیان کیا جاتا ہے (جبکہ بعد میں رافضی کو ہی شیعہ کہا جانے لگا)، چنانچہ حافظ ابن حجر عسقلانی ؒ لکھتے ہیں :
’’فالتشیع في عرف المتقدمین ہو اعتقاد تفضیل علي علی عثمان، وأن علیاً کان مصیباً في حروبہ، وأن مخالفہ مخطيء، مع تقدیم الشیخین وتفضیلہما…… (الی أن قال)…… وأما التشیع في عرف المتأخرین فہو الرِفض المحض ‘‘ متقدمین کے عرف میں ’’شیعہ‘‘ ہونے کا مطلب صرف یہ اعتقاد رکھنا ہوتا تھا کہ حضرت علیؓ کو حضرت عثمانؓ پر فضیلت ہے اور حضرت علیؓ اپنی جنگوں میں درست موقف پر تھے اور ان کے مخالفین کا موقف غلط تھا جبکہ حضرات ابوبکر ؓ و عمرؓ تمام صحابہ کرام سے افضل اور مقدم ہیں…… جبکہ متأخرین کے نزدیک ’’شیعہ‘‘ اور ’’رافضی‘‘ ایک ہی ہیں۔ (تہذیب التہذیب، ج1 ص94 ترجمۃ: أبان بن تغلب)
ایسی ہی بات امام ذہبی ؒ نے بھی لکھی ہے، نیز انہوں نے تو یہ وضاحت بھی کی ہے کہ جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ حضرت عثمانؓ و حضرت علیؓ میں سے برتر اور افضل کون ہے تو صحابہ وتابعین میں سے بہت سے لوگ حضرت علیؓ کی افضلیت کے قائل رہے ہیں، ہاں جمہور امت کا یہ کہنا ہے کہ حضرت عثمانؓ کو برتری حاصل ہے (سیر اعلام النبلاء، ج16 ص457 – 458)۔
الغرض! تمنا عمادی صاحب جیسے لوگ کبھی یہ دھوکہ دیتے ہیں کہ ’’فلاں راوی کے بارے میں لکھا ہے کہ وہ شیعہ تھا‘‘ تو اس سے متقدمین کی اصطلاح والا شیعہ مرادہوتا ہے ، ہاں جس راوی کے بارے میں ’’رافضی‘‘ لکھا ہو اس سے آج کے زمانے میں معروف شیعہ مراد ہوگا۔
حذیفۃ بن اُسید بن خالد (ابوسریحۃ) الغفاريؓ
یہ بھی صحابی ہیں اور صلح حدیبیہ میں موجود تھے، یہ بھی لکھا ہے کہ بیعت رضوان کرنے والوں میں یہ بھی شامل تھے۔ ان کی وفات سنہ 42 ہجری میں ہوئی اور حضرت زید ؓ بن ارقم نے ان کی نماز جنازہ پڑھائی۔ ان کا تعارف مندرجہ ذیل کتب میں دیکھا جاسکتا ہے۔
(التاریخ الکبیر للبخاري، ج3 ص96 /الاستیعاب في معرفۃ الأصحاب، ج1 ص201 دار الفکر، بیروت /أسد الغابۃ في معرفۃ الصحابۃ، ج1 ص703 دار الکتب العلمیۃ بیروت /الاصابۃ في تمییز الصحابۃ، ج2 ص494 قاہرہ مصر /الجرح والتعدیل ، ج3 ص256 /تہذیب الکمال، ج5 ص493 /تہذیب التہذیب، ج2 ص219 /معرفۃ الثقات للعِجلي، ج1 ص289 /کتاب الثقات لابن حِبان، ج3 ص81 /تاریخ ابن عساکر، ج12 ص253 /الکاشف للذہبي، ج1 ص315 وغیرہا من الکتب) ۔
(جاری ہے )

Leave a Reply

Your email address will not be published.

Time limit is exhausted. Please reload the CAPTCHA.