محمد یوسف شیخوپوری٭
اہل السنت والجماعت کے ہاں رحمتِ عالم صلی اﷲ علیہ وسلم کے تمام صحابہ کرام رضی اﷲ عنہم اجمعین جس طرح ایمان کا حصہ ہیں بالکل اسی طرح رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کے اہل بیت عظام بھی ایمان کا حصہ ہیں۔ جیسے چہرے کی دونوں آنکھوں سے دیکھا جاتا ہے ایسے ہی ہم عقیدت کی نگاہ سے دونوں کو سرکاتاج سمجھتے ہیں اور یہ محض افسانہ یا الفاظ گوئی ہی نہیں بلکہ حقائق و براہین اس پر شاید ہیں ہمارا کلمہ وہ ہے جو ان دونوں کا تھا، نماز اور طریقہ نماز اوقاتِ نماز اور مقامِ نماز، زکوٰۃ، حج و عمرہ، صوم و دیگر تمام عبادات اور ان کے طریقے وہ ہی ہیں جو ان دونوں کے ہیں۔ صحابہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کے در پہ آئے ہیں، اہل بیت رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کے گھر میں آئے ہیں، ہم در والوں کے بھی غلام ہیں گھر والوں کے بھی غلام ہیں، ہماری تفسیر و حدیث اسی طرح تاریخ و رجال کی کتب میں جیسے مناقبِ صحابہ رضی اﷲ عنہم ہیں ایسے ہی مستقل ابواب اور فصلیں قائم کر کے اہل بیت کے فضائل و مناقب بھی موجود ہیں اس کی ادنیٰ سے جھلک ہدیہ قارئین ہے جس سے ہماری فراخ دلی اور وسعت ظرفی کا پتہ چلتا ہے۔
اہل سنت والجماعت کی کتب حدیث میں ایک مشہور روایت موجود ہے کہ ایک موقع پر رحمتِ دو عالم صلی اﷲ علیہ وسلم نے اپنی چادر مبارک کو پھیلایا اور اس کے نیچے چار حضرات، حضرت علی، حضرت فاطمہ، حضرت حسن اور حضرت حسین رضی اﷲ عنہم کو لیا اور یہ دعا فرمائی ’’اللّٰہم ھٰؤ لآء اَھْلُ بَیْتِی فَاذْ ھَبْ عَنْہم الرِّ جْسَ و طَہِّرْھُمْ تَطْہِیْرا‘‘ اے اﷲ یہ بھی میرے اہل بیت ہیں ان سے گناہوں کی آلودگی ختم فرما کر ان کو پاک کردے (ترمذی ومسلم) جس چادر کو رداء تطہیر کا نام دیا جاتا ہے بغیر اختلاف کے ہم تسلیم کرتے ہیں اور ہمارا عقیدہ ہے نبی بھی پاک ہیں اور آپ کی چادر بھی پاک ہے۔ ’’وَثیابَکَ فَطَہِّرْ ‘‘ (مدثر) اور پاک چادر کے نیچے آنے والے یہ چاروں حضرات پاک ہیں ہمارے ایمان کا حصہ ہیں۔
اب ذرا چشم انصاف سے احادیث کی دوسری طرف توجہ فرمائیں کاتب وحی، خال المؤمنین، امام تدبر و سیاست فاتح عرب و عجم، اسلامی بحری بیٹرے کے موجد، ہادی و مہدی امیرالمؤمنین سیدنا امیر معاویہ رضی اﷲ عنہ کے بارے میں جیسے اور بہت سی بشارتیں اور مناقب احادیث میں وارد ہوئے ہیں ان میں سے صرف چارکا ذ کر پیش خدمت ہیں۔
(۱) حضرت ابن عباس رضی اﷲ عنہ سے مروی ہے کہ حضرت امیر معاویہ رضی اﷲ عنہ کو یہ سعادت حاصل ہوئی کہ انھوں نے رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کے بال مبارک قینچی نما (لوہے کا آلہ جس سے بالوں کو کاٹا جاتا تھا) چیز سے کاٹ کر اپنے پاس سنبھال کر رکھے ہوئے تھے ’’عن ابن عباس رضی اﷲ عنہ عن معاویہ رضی اﷲ عنہ قال قَصَّرْتُ عَنْ رَأْسِ رسولِ اللّٰہ صلی اﷲ علیہ وسلم بِمِشْقَصٍ ‘‘(بخاری ومسلم) کس قدر حضرت معاویہ کا اعزاز ہے کہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کے موئے مبارک کاٹنے بھی نصیب ہوئے پھر اس کو سنبھال کر اپنے پاس آخر عمر تک رکھا۔
(۲) آپ رضی اﷲ عنہ کے پاس نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کے ناخن مبارک کے کچھ تراشے بھی تھے جو انھوں نے اپنے پاس محفوظ کر رکھے تھے اور بالوں اور ان ناخنوں کے متعلق وصیت فرمائی جب میرا انتقال ہو جائے تو ناخن مبارک کے تراشے اور موئے مبارک کو میرے کانوں کی زینت بنا دینا میری آنکھوں کا کاجل بنا دینا اور میرے ناک میں رکھ دینا امید ہے کہ ان کی برکت سے اﷲ رحمت فرمائیں گے۔ علامہ ابن عساکر اور بلاذری وغیرہ نے نقل فرمایا: ’’و قَلَّمَ اَظْفَارَہٗ فَاَخَذْتُ قُلاَ مَتَھاَ فَاَذِا مِتُّ (فَاَ لْبِسُوْ نِیْ الْقَمِیْصَ) فَا جْعَلُوْ ھَا فِیْ عَیْنِی و فی روایۃ اَنْفِیْ وَاُذُ نِیْ وَعَیْنِی وَفَمِیْ ……الخ‘‘
(۳) ایک دفعہ حضرت امیر معاویہ رضی اﷲ عنہ جناب نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کو وضو کروا رہے تھے دوران وضو آپ علیہ السلام نے شفقت فرماتے ہوئے فرمایا اے معاویہ کیا میں تجھے اپنی قمیص نہ پہناؤں؟ آپ نے عرض کیا میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں آپ ضرور عنایت فرمائیں تو آ پ نے قمیص مبارک آپ رضی اﷲ عنہ کو پہنا دیا حضرت معاویہ فرماتے ہیں میں نے وہ قمیص مبارک کچھ دیر پہنا اور پھر اپنے پاس اسے محفوظ رکھ لیا اور اس کے متعلق بھی یہی وصیت فرمائی کہ اس قمیص مبارک کو میرے مرنے کے بعد میرے کفن میں رکھنا اور یہ میرے جسم سے متصل ہونا چاہیے یعنی پہلے آقا علیہ السلام کی قمیص ہو پھر اس کے اوپر کفن کے کپڑے ہوں۔ علامہ بلاذری و ابن عساکر نے نقل کیا ہے:’’اَنَّ مُعَاوِیَۃَ قَالَ فِیْ مَرَ ضہٖ الذِیْ مَاتَ کُنْتُ اُوَ ضِّیُٔ رَسُوْلَ اللّٰہِ صلی اللّٰہ علیہ وسلم فَقَالَ لِیْ اَلَا اَکْسُوْ کَ قَمِیْصاً قُلْتُ بَلیٰ بِاَبِی وَاُ مِیّ فَنَزَعَ قَمِیْصاً کَانَ عَلَیْہِ فَکَسَانِیْہِ……الخ‘‘ اسی طرح تہذیب الاسماء میں امام نووی رحمتہ اﷲ علیہ نے نقل فرمایا ’’لَمَّا حَضَرَتہ الْوَفَاۃُ اَوْصیٰ اَنْ یُّکَفن فِی قَمِیْصٍ کَانَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کَسَاہٗ اِیَّاہٗ وَاَنْ یجعلَ مَایَلِیْ جَسَدَہٗ……الخ‘‘ یعنی جب حضرت امیر معاویہ رضی اﷲ عنہ کی وفات کا وقت آیا تو آپ رضی اﷲ عنہ نے وصیت فرمائی کہ تو مجھے رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کے قمیص مبارک میں کفن دینا جو انھوں نے مجھے پہنائی تھی اور آپ کے قمیص مبارک کو میرے جسم سے متصل رکھنا۔ (ماخوذ :’’سیرت امیر معاویہ ‘‘ مولانا محمد نافع رحمتہ اﷲ علیہ)
(۴) الاصابہ اور اسدالغابہ میں ہے کہ جناب رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کے دور میں ایک مشہور شاعر کعب بن زہیر بن ابی سلمیٰ رضی اﷲ عنہ تھے جب انھوں نے اسلام قبول کیا تو آپ علیہ السلام نے ان پرشفقت فرماتے ہوئے اپنی وہ چادر جو زیب تن فرمائے ہوئے تھے انھیں عطا فرمائی یہ چادر مبارک ان کے پاس محفوظ تھی حضرت امیر معاویہ رضی اﷲ عنہ نے اپنے دورِ خلافت میں ان سے خریدنا چاہا مگر انھوں نے انکار کردیا پھر ان کے انتقال کے بعد حضرت معاویہ رضی اﷲ عنہ نے ان کی اولاد سے بیس ہزار درہم کے عوض میں حاصل کر لی’’ فَکَسَاہٗ النَّبی صلی اللّٰہ وسلم بُرْدۃً لَہٗ فاَ شْتَرا ھَا مُعَاویۃُ (بن ابی سفیان رضی اللّٰہ عنہما) مِنْ وُّ لْدِہٖ‘‘
یہ چار نشانیاں تھیں جو رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کی آپ کے انتہائی معتمد اور منظور نظر سیکرٹری و منشی حضرت امیر معاویہ رضی اﷲ عنہ کے پاس آخر عمر تک محفوظ تھیں جن کے متعلق بحوالہ ذکر کردیا گیا ہے کہ آپ نے وصیت فرمائی کہ مرنے کے بعد ان کو میرے وجود پر رکھ دینا چنانچہ آپ رضی اﷲ عنہ کا انتقال ۶۰ھ میں دمشق میں ہوا او رمشہور صحابی رسول حضرت ضاکر بن قیس الفہری رضی اﷲ عنہ نے نماز جنازہ پڑھائی اور حسب، وصیت موئے مبارک اور ناخن مبارک کے تراشے اور قمیص مبارک آپ کے جسم مبارک پر رکھ کر کفن دے دیا گیا۔
ذرا انصاف فرما کر غور فرمائیں جس پر پیغمبر صلی اﷲ علیہ وسلم کا کپڑا حضرت علی ، حضرت فاطمہ، حضرت حسن اور حضرت حسین رضی اﷲ عنہم پرآیا ہے جسے رداءِ تطہیر کہا جاتا ہے تو پھر ان نشانیوں اور تبرکات نبوی کو کیا کہا جائے گا یہ بھی تو اسی پاک پیغمبر صلی اﷲ علیہ وسلم کے ہیں؟ ہمارا تو ایمان ہے جیسے نبی کا کپڑا پاک ہے ایسے ہی اس پاک کپڑے کے نیچے آنے والی یہ چاروں ہستیاں بھی پاک ہیں جیسے کپڑا اعلیٰ وارفع منزہ و مطہر و مکرم ہے ایسے ہی اس کے نیچے آنے والی یہ چاروں شخصیات اعلیٰ وارفع منزہ و معتبر مطہر و مکرم ہیں لیکن کپڑے کو جسم سے وہ اتصال و قرب نہیں ہوتا جو موئے مبارک اور ناخن مبارک کو ہوتا ہے پھر وہ اوپر کیا جانے والا کپڑا چادر مبارکہ تھی کساء مبارک تھی جبکہ ادھر حضرت امیر معاویہ رضی اﷲ عنہ کو تو آپ علیہ السلام نے اپنی اوڑھی ہوئی اور زیب تن فرمائی ہوئی قمیص مبارک پہنائی جس کو چادر سے کہیں زیادہ اتصال و وصل ہوتا ہے اور دوسری بات یہ بھی کہ وہاں کپڑا اور چادر ان چاروں ہستیوں کے اوپر کی اور دعا فرمائی پھر چادر کو ہٹا لیا تھا ۔ ہمیشہ ہمیشہ تو وہ چادر ان پر نہیں رہی لیکن حضرت معاویہ رضی اﷲ عنہ پر آقا علیہ السلام کی یہ نشانیاں اور تبرکات جب سے آ پ اپنی قبر مبارک میں آرام فرمائے ہوئے ہیں یقینا تب سے آ پ کے وجود مبارک پر ہیں اور کنزالعمال کی روایت کے مطابق ’’یَبْعَثُ اللّٰہ تَعالیٰ مُعَاوِیَۃَ یَومَ الْقِیاَمَۃِ وَعَلَیْہِ رِدَاءٌ مِّنْ نُورالِایمْان‘‘اﷲ معاویہ کو قیامت میں اس حالت میں اٹھائیں گے کہ معاویہ پر ایمان کی چاد رہوگی۔ میرا ذوق و وجدان کہتا ہے کہ مفسر اٹھے گا تفسیر کے لباس میں محدـث اٹھے گا حدیث کے لباس میں محقق اٹھے گا تحقیق کے لباس میں حافظ اٹھے گا حفظ کے لباس میں۔ لیکن قربان جائیں حضرت معاویہ رضی اﷲ عنہ کی عظمت پر آپ اٹھیں گے پیغمبر صلی اﷲ علیہ وسلم کے تبرکات میں ملبوس ہو کر۔
بالفرض اگر آ پ کے اور مناقب نہ بھی دیکھے جائیں تو کیا یہ کوئی کم فضیلت ہے ؟ جس پاک پیغمبر کے ایک بال پر پوری کائنات قربان ہو یقینا آپ کی چادر و کپڑا کسی پر اﷲ کی مرضی کے بغیر نہیں آتا نہ آپ کا کپڑا کسی پر مرضیِ خدا کے بغیر آتا ہے اور نہ ہی کوئی آپ کے کپڑے پر مرضی خدا کے بغیر آتا ہے اگر وہ چار ہستیاں جو اہل السنت والجماعت کے ایمان کا حصہ ہیں اور جن کی جو تیاں ہمارے سروں کا تاج اور جن کی جوتوں کے نیچے لگنے والی خاک ہماری آنکھوں کا سرمہ ہے اگر آقا کے کپڑے کے نیچے آنے سے اگرچہ وقتی طورتھا، پاک ہیں تو پھر حضرت معاویہ رضی اﷲ عنہ کے اوپر آنے والے کپڑے کو کیا کہیں گے؟ خود حضرت معاویہ کو کیا کہیں گے؟ جن پر صرف کپڑا نہیں بلکہ موئے مبارک، ناخن مبارک اور قمیص مبارک آئے اور اس وقت سے لے کر آج تک اور قیامت تک کے لیے ہیں خدارا انصاف فرمائیں! جیسے کپڑاآنے سے وہ پاک ہیں منزہ و معتبر ہیں ایسے ہی حضرت امیر معاویہ بھی پاک ہیں منزہ ہیں اعلیٰ ہیں ارفع ہیں مطہر ہیں جیسے وہ رداء تطہیر ہے ایسے ہی یہ رداء بھی تطہیر ہے جس سے روحانی وباطنی طہارت ہوئی تزکیہ نفس اور تطہیر باطن ہوئی۔
ماہ شعبان کے متعلق احکام اور فضائل
مفتی سید عبدالکریم گمتھلوی ؒ
یہ ماہ مبارک مقدمہ ہے رمضان شریف کا جیسا کہ ماہ شوال تتمہ ہے رمضان کا۔ قرآن شریف میں حق تعالیٰ نے جو ارشاد فرمایا ہے:
حٰمٓ وَالْکِتٰبِ الْمُبِیْنِ اِنَّا اَنْزَلْنٰہُ فِیْ لَیْلَۃٍ مُّبٰرَکَۃٍ اِنَّا کُنَّا مُنْذِرِیْنَ فِیْھَا یُفْرَقُ کُلُّ اَمْرٍ حَکِیْمٍ اَمْرًا مِّنْ عِنْدِنَا اِنَّاکُنَّا مُرْسِلِیْنَ
(ترجمہ): یعنی قسم ہے کتاب واضح کی کہ ہم نے اس (کتاب) کو ایک برکت والی رات میں اتارا ہے، بے شک ہم آگاہ کرنے والے ہیں، ایسی رات میں ہر حکمت والا معاملہ ہمارے حکم سے طے کیا جاتا ہے، بے شک ہم (آپ کو) پیغمبر بنانے والے ہیں۔
اس آیت میں برکت والی رات سے شعبان کی پندرہویں رات مراد ہے۔ (ھکذہ فسرہ عکرمۃ رواہ ابن جریر وغیرہ) پس اس آیت سے اس ماہ کی اور خاص کر پندرہویں رات کی بہت بڑی فضیلت ثابت ہوگئی اور اس ماہ کے متعلق شریعتِ مقدسہ کے چند احکام ثابت ہوئے ہیں۔
(۱) اس کے چاند کا بہت اہتمام کرنا چاہیے۔
(۲) پندرہویں شب کو عبادت کرنا اور پندرہویں تاریخ کو روزہ رکھنا مستحب ہے۔
(۳) نصف شعبان کے بعد روزہ رکھنا خلاف اولی ہے۔
(۴) یوم شک میں روزہ رکھنا منع ہے۔
یہ سب احکام او راحادیث میں مصرح ہیں۔ مختصر طور پر کچھ درج کیے جاتے ہیں:
(۱) ارشاد فرمایا رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے شمار رکھو شعبان کے چاند کی۔ رمضان کے لیے (یعنی جب ماہ شعبان کی تاریخ صحیح ہوگی تو رمضان میں اختلاف کم ہوگا (ترمذی)
(۲) رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم شعبان کا اتنا خیال رکھتے تھے کہ کسی ماہ (کے چاند) کا اتنا خیال نہ فرماتے تھے۔ (ابوداؤد)
ان دو روایتوں سے قولاً وفعلاً اس ماہ کے چاند کا اہتمام ثابت ہوگیا۔
(۳) ارشاد فرمایا رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے کہ جب آدھے شعبان کی یعنی پندرہویں رات ہو تو اس رات کو شب بیداری کرو اور اس کے دن میں روزہ رکھو کیونکہ اﷲ تعالیٰ اس رات غروب آفتاب کے وقت ہی سے آسمان دنیا کی طرف نزول فرماتا ہے اور فرماتا ہے کہ کیا کوئی مغفرت چاہنے والا ہے کہ میں اس کو بخش دوں کیا کوئی روزی مانگنے والا ہے کہ میں اس کو روزی دوں کیا کیا کوئی مصیبت زدہ ہے (کہ عافیت کی دعا مانگے اور) میں اس کو عافیت دوں کیا کوئی ایسا ہے؟ کیا کوئی ایسا ہے؟ (رات بھر یہی رحمت کا دریا بہتا رہتا ہے) یہاں تک کہ صبح صادق ہو جاوے۔ (ابن ماجہ)
(۴) حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا نے روایت کی ہے کہ میں نے اس رات (نفل) نماز کے سجدہ میں آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کو یہ دعا مانگتے ہوئے سنا:
اَعُوْذُ بعَفْوِکَ مِنْ عِقَابِکَ وَاَعُوْذُ بِرِ ضَاکَ مِنْ سَخَطِکَ وَاَعُوْذُبِکَ مِنْکَ جَلَّ وَجْھَکَ لَا اُحْصِیْ ثَنَاءً عَلَیْکَ اَنْتَ کَمَا اَثْنَیْتَ عَلیٰ نَفْسِکَ۔ (عن ماثبت بالسنۃ عن البیہقی وسنن النسائی:۱۲)
(ترجمہ) تیرے غصہ سے تیری رضا مندی کی پناہ لیتا ہوں اور تیرے عقاب سے تیرے درگز کرنے کی پناہ لیتا ہوں اور تجھ سے تیری ہی پناہ مانگتا ہوں، برتر ہے تو میں تیری تعریف پوری نہیں کرسکتا تو ویسا ہی ہے جیسے تو نے اپنی تعریف کی ہے۔
پھر صبح ہوئی تو میں نے اس دعا کا آپ سے ذکر کیا۔ اس پر آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ اے عائشہ (رضی اﷲ عنہا) اس کو سیکھ لے اور دوسروں کو بھی سکھا دے کیونکہ جبرائیل علیہ السلام نے مجھ کو سکھائی ہے اور کہا ہے کہ اسے سجدہ میں بار بار پڑھوں۔
فائدہ: اسی روایت کے دوسرے طریق میں اور دعا بھی ہے بخوفِ طوالت نقل نہیں کی گئی جس کو شوق ہو ماثبت بالسنۃ دیکھ لے۔حدیث سوم سے اس رات کی اور اس میں عبادت کرنے کی ونیز روزہ کی فضیلت ثابت ہوئی ہے اور حدیث چہارم سے ایک خاص دعا معلوم ہوگئی اور روایت مذکورہ کے علاوہ اور روایات بھی اس شب مبارک کی فضیلت میں وارد ہوئی ہیں چنانچہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے شعبان کی پندرہویں رات کے بارے میں ارشاد فرمایا ہے کہ اس رات میں وہ سب بنی آدم بھی لکھ لیے جاتے ہیں جو اس سال پیدا ہوں گے اور اسی میں وہ سب بنی آدم بھی لکھ لیے جاتے ہیں جو اس سال میں مریں گے اور اسی رات میں ان کے اعمال اٹھائے جاتے ہیں اور اسی میں ان کے رزق نازل ہوتے ہیں(بیہقی)
فائدہ: اعمال اٹھائے جانے سے مراد ان کا پیش ہونا ہے اور رزق نازل ہونے سے مراد یہ ہے کہ اس سال میں جو رزق ملنے والا ہے وہ سب لکھ دیا جاتا ہے اور یہ سب چیزیں پیشتر سے لوح محفوظ میں لکھی ہوئی ہیں مگر اس رات کو لکھ کر فرشتوں کے سپرد کردیا جاتا ہے۔ واﷲ اعلم
(۶) اور ارشاد فرمایا رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے کہ اﷲ تعالیٰ متوجہ ہوتا ہے شعبان کی پندرہویں رات میں۔ پس مغفرت فرمادیتا ہے سب مخلوق کی، مگر شرک اور کینہ والے شخص کے لیے (مغفرت نہیں فرماتا) (ابن ماجہ)
ایک اور روایت میں ہے مگردو شخص ایک کینہ رکھنے والا اور ایک قتلِ نا حق کرنے والا۔ اور ایک روایت میں ہے یا قطع رحم کرنے والا (عن ماثبت بالسنۃ عن سعد بن منصور) اور ایک روایت میں ہے کہ اﷲ تعالیٰ نظر (رحمت) نہیں کرتا ہے اس رات میں (بھی) مشرک کی طرف اور نہ کینہ والے کی طرف اور نہ قاطع رحم (یعنی رشتہ ناتہ والوں سے بلاوجہ شرعی تعلق توڑنے والے) کی طرف اور نہ پائجامہ (وغیرہ) ٹخنے سے نیچے لٹکانے والے کی طرف اور نہ ماں باپ کی نافرمانی کرنے والے کی طرف اور نہ ہمیشہ شراب پینے والے کی طرف (البتہ اگر کوئی توبہ کر چکا ہے تو رحمتِ خداوندی اس پر بھی متوجہ ہو جاتی ہے) عن ماثبت بالسنۃ عن البیہقی۔
ان کے علاوہ اور گنہگاروں پر بھی نظرِ رحمت نہ ہونا دوسری روایتوں میں آیا ہے۔ پس سب گناہوں سے توبہ کرنا چاہیے سب روایتوں پر نظر ڈالنے سے احقر کی فہم نا قص میں یہ آتا ہے کبائر بدوں توبہ معاف نہیں ہوتے اور صغائر سب اس رات کی برکت سے حق تعالیٰ معاف کردیتا ہے۔ واﷲ اعلم
(۷) ایک حدیث شریف میں آیا ہے کہ اﷲ تعالیٰ (اس رات میں) بنی کلب کی بکریوں کے عدد سے بھی زیادہ (لوگوں) کی مغفرت فرمادیتا ہے۔ رواہ ابن ابی شیبۃ والترمذی وابن ماجۃ والبیہقی قال فی جامع الاصول وزاد رزین ممن استحق النار ولیس فیہ حدیث فی الباب الاہذا وجاء نحوہ بطرق متعددۃ۔ یعنی ایک روایت میں یہ بھی آیا ہے کہ وہ لوگ اتنی کثیر تعداد میں ایسے ہوتے جو (ارتکاب معاصی کے سبب) عذاب النار کے مستحق ہوچکے ہیں۔
فائدہ: اس رات کا نام شب برأت (یعنی آزادی کی رات اسی واسطے رکھا گیا ہے کہ اس میں حق تعالیٰ گنہگاروں کو عذابِ جہنم سے آزاد کردیتا ہے۔ (وجاء الحدیث فی البیہقی بلفظ واللّٰہ عتقاء من النار)۔
(۸) آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا جب شعبان آدھا ہوجاوے تو روزہ نہ رکھو۔
(ابوداؤد والترمذی وابن ماجہ )
(۹) حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا نے فرمایا ہے کہ میں نے آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کو شعبان سے زیادہ روزہ رکھتے ہوئے کسی ماہ میں نہیں دیکھا اور ایک روایت میں ہے کہ آپ (کل) ماہ شعبان میں روزہ رکھتے تھے سوائے تھوڑے دنوں کے (متفق علیہ) اس روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ شعبان کے نصف اخیر میں بھی آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم روزہ رکھتے تھے اور اس سے پہلی روایت میں اس کی ممانعت آئی ہے اس لیے یوں کہا جائے گا کہ امت کے واسطے تو نصف اخیر کے روزے خلاف اولیٰ ہیں مگر حضور صلی اﷲ علیہ وسلم اس سے مستثنیٰ تھے اور یوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ جس کو نصف اخیر میں روزے رکھ کر ضعف ہو جاوے کہ رمضان کے روزے رکھنا دشوار ہوں اس کے لیے ممانعت ہے اور جس کو ضعف نہ ہو اس کے واسطے مضائقہ نہیں۔ واﷲ اعلم
(۱۰) ارشاد فرمایا رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے کہ تم میں سے کوئی شخص رمضان کے ایک یا دو دن پہلے سے روزہ نہ رکھے مگر یہ کہ وہ شخص کسی (خاص) دن کا روزہ رکھا کرتا ہو (اور رمضان کے ایک دن پہلے وہ دن ہو، مثلا ہر پیر کو روزہ رکھنے کا معمول ہے اور ۲۹ شعبان کو پیر کا دن ہے) تو وہ شخص اس دن بھی (نفل) روزہ رکھ لے(متفق علیہ) اس سے یوم شک کے روزہ کی ممانعت ثابت ہوگئی اور ایک یا دو دن کا یہ مطلب ہے کہ بعض مرتبہ تو شعبان کا چاند بلا اختلاف نظر آجاتا ہے ایسے موقع پر صرف ۳۰ شعبان کے متعلق شبہ ہوتا ہے اور بعض مرتبہ شعبان میں بھی اختلاف ہوجاتا ہے اس موقع پر ۲۹ کو بھی شبہ ہوتا ہے۔ غرض یہ ہے کہ شبہ کی وجہ سے نہ ۲۹ کو روزہ رکھے نہ ۳۰ کو بلکہ جب شریعت کے مطابق ثابت ہوجائے تب رمضان کو شروع سمجھا جائے۔ البتہ یوم شک میں یہ مستحب ہے کہ ضحوہ کبریٰ تک خبر کا انتظار کیا جائے۔ اگر کہیں سے معتبر شہادت آجائے تو روزہ کی نیت کر لے ورنہ کھا پی لے۔
منکراتِ ماہِ ہذا:
اس شب مبارک میں صرف دو تین باتیں ثابت ہیں، عبادت کرنا او رقبرستان میں جا کر دعائے مغفرت کرنا۔ اس کے علاوہ شریعت میں کچھ وارد نہیں ہوا حتیٰ کہ اس رات کو ایصال ثواب وغیرہ کی بھی کوئی اصل نہیں۔ اگر مفصل دلائل مطلوب ہوں تو ترجیح الراجح حصہ سوم فصل سوم ضرور قابلِ ملاحظہ ہے۔ مگر جاہل لوگوں نے عبادت کی جگہ بہت سی بے ہودہ رسمیں ایجاد کر رکھی ہیں۔ جن کو سید ی مرشدی حضرت حکیم الامت مولانا تھانوی دامت برکاتہم نے ’’اصلاح الرسول‘‘ میں بخوبی بیان فرمایا ہے۔ لہٰذا بعینہٖ اصلاح الرسوم کی عبادت درج ذیل ہے۔
شب برأت میں حدیث شریف سے اس قدر ثابت ہے کہ حضور صلی اﷲ علیہ وسلم بحکم حق تعالیٰ جنت البقیع میں تشریف لے گئے اور اموات کے لیے استغفار فرمایا۔ اس سے آگے سب ایجاد ہے جس میں مفاسد کثیرہ پیدا ہو گئے ہیں۔
(۱) بعض لوگ کہتے ہیں کہ حضور سرور عالم صلی اﷲ علیہ وسلم کا دندان مبارک جب شہید ہوا تھا آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے حلوہ نوش فرمایا تھا، یہ بالکل موضوع اور غلط قصہ ہے اس کا اعتقاد کرنا ہر گز جائز نہیں بلکہ عقلاً بھی ممکن نہیں ہے اس لیے کہ یہ واقعہ شوال میں ہوا نہ کہ شعبان میں۔
(۲) بعض لوگ کہتے ہیں کہ حضرت امیرِ حمزہ رضی اﷲ عنہ کی شہادت ان دنوں میں ہوئی ہے یہ ان کی فاتحہ ہے یہ بھی محض بے اصل ہے اور اول تو تعین تاریخ کی ضرورت نہیں دوسرے خود یہ واقعہ بھی غلط ہے آپ رضی اﷲ عنہ کی شہادت بھی شوال میں ہوئی تھی شعبان میں نہیں ہوئی۔
(۳) بعض لوگ اعتقاد رکھتے ہیں کہ شب برأت وغیرہ میں مردوں کی روحیں گھروں میں آتی ہیں اور دیکھتی ہیں کہ کسی نے ہمارے لیے کچھ پکایا یا نہیں۔ ظاہر ہے کہ ایسا امر مخفی بجز دلیل نقلی کے اور کسی طرح ثابت نہیں ہوسکتا اور وہ یہاں ندارد ہے۔
(۴) بعض لوگ سمجھتے ہیں کہ جب شب برأت سے پہلے کوئی مر جائے تو جب تک اس کے لیے فاتحہ شب برأت نہ کیا جائے وہ مردوں میں شامل نہیں ہوتا یہ بھی محض تصنیف یا راں اور بالکل لغو ہے بلکہ رواج ہے کہ اگر تہوار سے پہلے کوئی مر جائے تو کنبہ بھر میں پہلا تہوار نہیں ہوتا۔ حدیثوں میں صاف مذکور ہے کہ جب مردہ مرتا ہے، مرتے ہی اپنے جیسے لوگوں میں جا پہنچتا ہے، یہ نہیں کہ شب برأت تک اٹکا رہتا ہے۔
(۵) حلوے کی ایسی پابندی ہے کہ بدوں اس کے سمجھتے ہیں کہ شب برأت ہی نہیں ہوئی۔ اس پابندی میں اکثر فسادِ عقیدہ بھی ہوجاتا ہے کہ اس کو مؤکد ضروری سمجھنے لگتے ہیں، فساد عمل بھی ہوجاتا ہے۔ فرائض و واجبات سے زیادہ اس کا اہتمام کرنے لگتے ہیں اور ان دونوں کا معصیت ہونا فصل اول میں بالتشریح مذکور ہوچکا ہے۔ ان خرابیوں کے علاوہ تجربہ سے ایک اور خرابی ثابت ہوئی ہے، وہ یہ ہے کہ نیت بھی فاسد ہوجاتی ہے، ثواب وغیرہ کچھ مقصود نہیں رہتا۔ خیال ہوجاتا ہے کہ اگر اب کے نہ کیا تو لوگ کہیں گے کہ اب کی خست اور ناداری نے گھیر لیا ہے اس الزام کے رفع کرنے کے لیے جس طرح بن پڑتا ہے مرا کر کرتا ہے ایسی نیت سے صرف کرنا محض اسراف و تفاخر ہے جس کا گناہ ہونا بار ہا مذکور ہوچکا ہے کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ اس کے لیے سودی قرض لینا پڑتا ہے یہ جدا گناہ ہے۔
(۶) جو لوگ مستحق اعانت ہیں ان کو کوئی بھی نہیں دیتا یا ادنیٰ درجہ کا پکا کر ان کو دیا جاتا ہے اکثر اہل ثروت و برادری کے لوگوں کو بطور معاوضہ کے دیتے لیتے ہیں اور نیت اس میں یہی ہوتی ہے کہ فلاں شخص نے ہمارے یہاں بھیجا ہے اگر ہم نہ بھیجیں گے تو وہ کیا کہے گا۔ غرض اس میں بھی ریاء و تفاخر ہوجاتا ہے۔
(۷) بعض لوگ اس تاریخ میں مسور کی دال ضرور پکاتے ہیں اس ایجاد کی وجہ آج تک معلوم نہیں ہوئی، لیکن اس قدر ظاہر ہے کہ مؤکد سمجھنا بلاشک معصیت ہے یہ تو کھانے پکانے میں مفاسد ایجاد کرتے ہیں۔ ان کے علاوہ آتش بازی کی رسم اس شب میں شائع ہے۔ تیسرے زیادتی اس میں یہ کی گئی ہے کہ بعض لوگ شب بیداری کے لیے فرائض سے زیادہ اس میں لوگوں کو جمع کرنے کا اہتمام کرتے ہیں، ہر چند کہ اجتماع سے شب بیداری سہل تو ہوجاتی ہے مگر نفلی عبادت کے لیے لوگوں کو ایسے اہتمام سے بلانا اور جمع کرنا خود خلاف شریعت ہے۔ البتہ اتفاقاً کچھ لوگ جمع ہوگئے اس کا مضائقہ نہیں۔
(۸) بعض لوگوں نے اس میں برتنوں کا بدلنا اور گھر لیپنا او خود اس شب میں چراغوں کا زیادہ روشن کرنا عادت کر لی ہے۔ یہ رسم بالکل کفار کی نقل ہے اور حدیث تشبہ سے حرام ہے۔ چونکہ حضرت والا آتش بازی کا بیان باب اول کی فصل سوم میں تحریر فرما چکے ہیں اس واسطے دوبارہ اس کو تحریر کرنے کی حاجت نہ تھی مگر اس جگہ تتمیم فائدہ کی غرض سے اس رسم کے رد کو ضروری سمجھ کر ماثبت بالسنۃ سے کچھ مضمون لکھا جاتا ہے جو خاص طور پر حضرت شیخ عبدالحق صاحب محدث دہلوی قدس سرہٗ مولف ماثبت بالسنہ نے شب برات میں آتش بازی کا بے ہودہ مشغلہ کرنے والوں کے متعلق تحریر فرمایا ہے۔
’’اور بدعت شنیعہ میں سے وہ رسم ہے جس کا اکثر بلا دہند میں لوگوں نے رواج دے رکھا ہے یعنی چراغ جلانا اور ان کو مکانوں اور دیواروں پر رکھنا اور اس پر فخر کرنا اور آتش بازی کے ساتھ لہو و لعب کے لیے جمع ہونا کیونکہ یہ وہ امر ہے جس کی معتبر کتابوں میں کوئی اصل نہیں بلکہ غیر معتبر کتابوں میں بھی نہیں، او رکوئی ضعیف اور موضوع روایت تک بھی اس کے بارے میں وارد نہیں ہوئی اور نہ اس کا بلادہند کے سوا کسی ملک میں رواج نہ حرمین شریفین میں زاد ھما اللّٰہ تعالیٰ تعظیماً و تشریفاً اور نہ ان کے سوا عرب کے دیگر حصص میں اور نہ بلادِ عجم میں سوائے ہندوستان کے بلکہ ممکن ہے اور یہی ظن غالب ہے کہ ہندوؤں کی رسم دیوالی سے اس رسم کو لیا گیا ہے کیونکہ ہندوستان میں عموماً رسوم بدعیہ زمانہ کفر ہی کی باقی ہیں اور مسلمانوں میں (کفار کے ساتھ) میل جول کرنے اور کفار (کی نسل) میں سے باندیاں اور بیویاں رکھنے کے سبب پھیل گئی ہیں۔
بعض علماء متاخرین نے فرمایا ہے کہ خاص خاص راتوں میں بکثرت چراغ جلانے کا رواج بدعات شنیعہ سے ہے، کیونکہ حاجت سے زیادہ چرا غ جلانے کے رواج میں کسی موقع پر بھی کوئی اثر شرعی منقول نہیں اور علی بن ابراہیم نے کہا ہے کہ روشنی کی بدعت اول برامکہ سے شروع ہوئی وہ لوگ آتش پرست تھے۔ پس جب مسلمان ہوئے تو انھوں نے اسلام میں وہ بات داخل کر لی جس کو اپنی ملمع سازی سے اسلامی طریقہ قرار دے دیا اور (اس سے) ان کی اصل غرض صرف آتش پرستی تھی جب کہ مسلمانوں کے ساتھ ان چراغوں کی طرف سجدہ کرتے تھے ) یعنی مسجد میں صف سے آگے چراغ ہوں گے تو آتش پرستی بھی ہوجائے گی۔ نعوذ باﷲ مسلمان ہو کر بھی شرک کا روگ دلوں میں رہا) اور پھر اس کو جاہل اماموں نے صلوٰۃ غائب وغیرہ کی طرح عوام کو جمع کرنے کا اور ریاست و وجاہت حاصل ہونے کا جال بنا لیا اور قصہ خوانوں نے اپنی مجلسوں کو اس کے ذکر سے پر کردیا۔ پھر اﷲ تعالیٰ نے ائمہ ہدیٰ کو ایسے منکرات دور کرنے کے لیے کھڑا کیا تو وہ مٹ گئے اور آٹھویں صدی کے شروع میں بلاد مصر و شام سے بالکل اُٹھ گئے۔
فائدہ: اس تحقیق سے معلوم ہوا کہ روشنی اور آتش بازی کی رسم قبیح، اسراف، بے جا وغیرہ کی وجہ سے سخت حرام ہونے کے علاوہ رسوم شرکیہ میں سے ہیں اور جو شخص رسوم شرکیہ کا ارتکاب کرے اس کے متعلق بموجب حدیث مَنْ تَشَبَّہَ بِقَوْمٍ فَھُوَ مِنْھُمْ سخت اندیشہ ہے کہ ان مشرکین کے ساتھ اس کا حشر ہو جنھوں نے یہ رسوم شرکیہ جاری کی تھیں۔
کیا اب بھی لوگ ان خرافات سے باز نہ آئیں گے؟ حق تعالیٰ تمام رسوم بدعیہ و شرکیہ کو دنیا سے جلد مٹا دے اور اسلامی سنت کو جاری فرمادے۔( آمین ثم آمین)
یٔ یٔ یٔ یٔ