شاہ بلیغ الدین رحمتہ اﷲ علیہ
منافق کی پہچان کئی طرح ہوتی ہے۔ حضرت عبداﷲ بن مسعود رضی اﷲ عنہ نے بھی منافق کی ایک پہچان بتائی ہے۔ حضرت عبداﷲ بن مسعود رضی اﷲ عنہ بڑے جلیل القدر صحابی تھے۔ قریش کو سب سے پہلے اونچی آواز سے قرآن سنانے والے وہی تھے۔ اس کے لیے انھیں بڑے سخت امتحان سے گزرنا پڑا لیکن ایمان کے آگے امتحان کی پروا کسے تھی۔ جب مقامِ ابراہیم کے پاس کھڑے ہو کر انھوں نے قریش کو سورۂ رحمن سنائی تو پہلے وہ ایک دوسرے سے پوچھتے رہے کہ یہ کیا پڑھ رہا ہے؟ کسی نے کہا یہ وہی ہے جو ان کے صاحب پر نازل ہوتی ہے! بس یہ سننا تھا کہ مشرکین ان پر ٹوٹ پڑے اور ان کے منہ پر اتنا مارا کہ منہ سوج کر کپا ہوگیا اور خون پانی کی طرح بہنے لگا۔ جب اہلِ ایماں میں واپس پہنچے تو کسی نے ان سے کہا کہ ابن ام عبد! اسی لیے ہم تمہیں منع کرتے تھے۔ اسدالغابہ میں ہے جواب دیا: یہ تو کچھ بھی نہیں۔ تم لوگ کہو تو میں کل پھر انھیں اﷲ کا کلام سنا کر آؤں! حالت یہ تھی کہ مار پڑنے کے ماوجود رکتے نہ تھے۔ برابر اﷲ کا کلام سناتے جاتے تھے۔ جب سورۃ تمام ہوئی تب ہی رکے۔ مارپٹائی کی ذرہ بھر پروا نہ کی۔ جب بھی ان دنوں کو یاد کرتے تو کہتے تھے کہ مشکرین مکہ اس دن سے زیادہ ان کی نظروں میں کبھی ذلیل نہ تھے۔
حضرت عبداﷲ بن مسعود کا کہنا تھاکہ منافق نماز سے بھاگتا ہے ورنہ ہم نے کسی مسلمان کو نماز سے جی چراتے نہیں دیکھا۔ یہاں تک کہ صحابہ کرام میں بعض ایسے بوڑھے او رکمزور حضرات بھی تھے جو دو آدمیوں کے سہارے آتے اور جماعت میں کھڑے ہوجاتے تھے۔
بزرگوں کا ارشاد ہے کہ صبح اور عشاء کی نمازوں میں حاضری ایمان کی نمایاں نشانی ہے وجہ اس کی یہ ہے کہ بعض صراحتوں کے مطابق صبح کا دوگانہ فرض تمام رات نمازیں پڑھنے سے بہتر ہے۔
اﷲ کے رسولِ آخریں کا ارشاد ہے کہ رب العزت کے نزدیک سب سے زیادہ محبوب عمل وقت پر نماز کا ادا کرنا ہے۔ ایک اور ارشاد گرامی کا مطلب ہے کہ بندوں کے اعمال میں سب سے پہلے نماز کی پوچھ ہوگی تارکِ نماز کا ایمان باقی نہیں رہتا اس لیے اس کی گواہی بھی قابل قبول نہیں۔
نماز ارکانِ ایمان کا سب سے بڑا، سب سے اہم اور سب سے زیادہ مفید رکن ہے۔ حضرت عمر رضی اﷲ عنہ کا کہنا تھاکہ اسلامی مملکت کے کاموں میں سب سے اہم نظامِ صلوٰۃ ہے۔ جو اپنی نمازوں کی حفاظت کرتے ہیں وہ اپنے دین کو محفوظ رکھتے ہیں۔ جو نماز کھودیتے ہیں وہ نماز کی برکتوں ہی سے محروم نہیں رہتے بلکہ اور بھی سب کچھ کھودیتے ہیں۔ حضرت عمر رضی اﷲ عنہ صاف کہتے تھے کہ جس نے نماز چھوڑ دی اس کے لیے اسلام میں کوئی حصہ نہیں ہے۔
حکم ہے کہ چھے سات سال کی عمر سے بچوں کو نماز کی طرف مائل کرو۔ جب وہ دس برس کی عمر کو پہنچ جائیں تو نماز نہ پڑھنے والے بچوں پر سختی کرنے اور انھیں مارنے کا حکم ہے۔ ساری بات گھر کے ماحول اور ماں باپ کی توجہ کی ہوتی ہے۔ ابن اثیر نے بنو عباس کے واقعات میں ہشام بن عبدالملک کے بارے میں لکھا ہے کہ وہ اپنے شہزادوں پر کڑی نظر رکھتا تھا۔ خاص طور پر یہ دیکھتا تھا ہ جمعہ کی نماز میں وہ مسجد میں حاضر ہوتے ہیں یا نہیں۔ ایک مرتبہ اس نے اپنے ایک بیٹے کو نماز سے غیر حاضر پایا۔ مسجد سے لوٹا تو سب سے پہلے اسے بلا کر پوچھا کہ جمعہ چھوڑنے کی وجہ؟ اس نے کہا وقت پر سواری نہیں پہنچی تھی۔ خلیفہ نے پوچھا کیا مسجد تک پیدل تک نہیں جا سکتے تھے؟ کچھ دیر خاموشی رہی تو حکم دیا کہ ایک سال تک اس کے لیے سواری بند۔ یہ نماز نہ پڑھنے کی ادنیٰ سزا ہے۔ غالباً یہ شہزادہ دس برس سے کم عمر کا تھا۔
بچوں کو نماز کا پابند بنانا ماں باپ کی ذمہ داری ہے۔ اسی طرح اپنے ماتحت کو نماز کا پابند بنانا حاکم کی ذمہ داری ہے جو اسے بھول جاتے ہیں وہ اﷲ تعالیٰ کے پاس جواب دہ ہیں۔ شوہر اور بیوی میں یہ ذمہ داری دونوں کی ہے کہ ایک دوسرے کو نماز کا پابند بنائیں نماز نہ پڑھنے والی عورت کو طلاق دے دینے کاحکم ہے چاہے اس کا شوہر مہر دینے سے عاجز ہو۔ لین دین اور کاروبار کی وجہ سے اگر کسی نے نماز ترک کردی تو اس کاحشر رأس المنافقین عبداﷲ بن ابی کے ساتھ ہوگا جس نے حکومت اور اقتدار کی کارروائیوں میں پھنس کر نماز چھوڑ دی وہ فرعون کا ساتھی بنایا جائے گا اور روپے پیسے کی افراط کی وجہ سے سے نماز کو بھول جانے والا قیامت میں قارون کے ساتھ اٹھے گا۔ (طوبیٰ، ص:۲۷۳،۲۷۵)