امام فخرالدین رازی رحمتہ اﷲ علیہ،ترجمہ و استفادہ: صبیح ہمدانی
جان لو کہ اﷲ تعالی کی معرفت وہ جنت ہے جو عارفین کو موت سے پہلے ہی حاصل ہو گئی۔ گویا یہ قیامت کے بعد ملنے والی اس غائب از نظر اور موعودہ جنت کے مقابلے میں حاضر و موجود جنت ہے۔ وہ ایسے کہ جنت اسی کا نام ہے کہ تمھیں وہ حاصل ہو جائے جو تمھاری عقل کے ساتھ ساتھ تمھارے نفس کو بھی پسند ہو۔ اسی وجہ سے جنت سیدنا آدم علیہ السلام کے لیے جنت نہ رہی تھی کہ ان کی عقل یہ سمجھتی تھی کہ اس شجرۂ ممنوعہ سے استفادہ اچھا نہیں جبکہ ان کا جی اس درخت کا پھل کھانے کو چاہتا تھا، جہاں عقل اور جی کی چاہت میں جھگڑا ہو جائے اس مقام کو جنت نہیں کہہ سکتے۔ اور یہی وجہ ہے کہ قبر مومن کے لیے جیل خانہ نہیں ہو گی کیونکہ وہاں اسے ایسے احوال حاصل ہوں گے جو اس کی عقل کو بھی پسند آئیں گے اور اس کے نفس کی خواہش کے مطابق بھی ہوں گے۔پھر اﷲ تعالی کی معرفت ایسی چیز ہے کہ جس کی تلاش میں عقل بھی ہے اور نفس بھی اس کا پر شوق طالب ہے، چنانچہ جنت مطلقہ یہی ہے۔
ہم نے یہ جو کہا کہ عقل و نفس دونوں اس کی معرفت کے طالب ہیں اس کی وضاحت میں یہ سنو کہ عقل اس دنیا میں ہمیشہ ایک عدل اور ایک ترتیب کی ضرورت محسوس کرتی ہے، عقل کو ایسے حاکمِ عادل، ایک ایسے امین کی ضرورت ہے جس کے پاس نیکیاں جمع کرائی جا سکیں۔ جبکہ شہوتِ نفسانی ہمیشہ ایسے سخی کو ڈھونڈتی ہے جس کی بارگاہ سے جڑ کر اس کو لذتیں ملیں اور ملتی رہیں۔بلکہ عقل اس خود آگاہ انسان کی طرح ہے جو اپنی بلند ہمتی کی وجہ سے کسی کے سامنے خود کو جھکانے پر آمادہ نہیں ہوتا۔جبکہ خواہشِ نفس اس موقع پرست درباری کی طرح ہے کہ جہاں کہیں کسی بادشاہ یا کسی غنی کے آنے کی خبر سننا ہے تو اس کے دربار میں جا کر فائدہ یاب ہونے کے لیے کمر بستہ ہو جاتا ہے۔ بلکہ یوں کہا جائے کہ عقل اپنے مالک کی تلاش میں اس وجہ سے ہے کہ اب تک پانے والی نعمتوں پر اس کا شکریہ ادا کرے اور اسے بتائے کہ وہ خود کو اس کا احسان مند سمجھتی ہے، جبکہ نفس کواس کی تلاش اس وجہ سے ہے کیونکہ اسے لالچ ہے کہ اس کا مولیٰ اس کو آئندہ بھی سب لذتیں فراہم کرتا رہے گا۔
جب عقل و نفس دونوں کو اپنے مالک کا پتا معلوم ہوا، اور انھیں ادراک ہوا کہ وہ بالکل ویسا ہی ہے جیسے کی انھیں تلاش تھی… ان کے حال سے پوری طرح آگاہ، اور لا فانی و لا متناہی خزائن کا مالک… تو یہ دونوں اس کے دامانِ دولت و معدلت سے لپٹ گئے۔ عقل گویا ہوئی مولیٰ میں تیرے سوا کسی کی احسان مند نہیں ہوں اور شہوت نے کہا مالک میں تیرے دروازے کے سوا کسی پر دست سوال دراز نہ کروں گی۔
پھر شبہہ آیا اور عقل سے مخاطب ہو کر کہنے لگا: تو نے اسی ایک کو شکر کے قابل کیوں سمجھ لیا؟ شاید کوئی اور بھی اس جیسا ہو۔ اور خواہشِ سے کہا: تو نے اسی ایک دروازے کی گدائی پر اکتفا کرنے کا فیصلہ کیوں کر لیا؟ ہو سکتا ہے اس کے سوا کوئی اور بھی منعمِ لذات ہو۔اس پرعقل حیرت زدہ رہ گئی، اس کی ساری راحتِ وصال اور مقصود کو پا لینے کی خوشی بے کیفی میں بدل گئی، چنانچہ اس نے فیصلہ کیا کہ وہ استدلال کے سمندروں میں تب تک غوطہ زن رہے گی جب تک گوہر یقین اس کے ہاتھ نہیں آجاتا۔
اس پر حضرتِ حق جل اسمہ کو رحم آیا اور گویا وہ یوں فرمانے لگے: میں اپنے بندے کے عیش کو منغص کیسے کر دوں؟ اسے میری خدمت اور میرے شکر کی جو لذتیں حاصل ہوئی تھیں وہ کیونکر اس سے چھین لوں؟ چنانچہ انھوں نے اپنے پاک پیغمبر علیہ الصلاۃ والسلام کو اپنے بندے کے پاس بھیجا اور ان سے کہا کہ اپنی طرف سے اسے مت کہنابلکہ یوں کہنا کہ جس ذات کو تم نے سب سے صادق پایا ہے میرا سچا مالک وہی ہے اور اس کا مجھے حکم ہے: قل ہو اﷲ احد: جا کر کہہ دے کہ وہ اﷲ ایک ہی ہے۔ نہ اس کے سوا کوئی شکر واحسان مندی کے لائق نہ اس کے بابِ عالی کے سوا کسی دروازے میں میری حاجت روائی کی ہمت۔
تین محاذوں پر کام کرنے کی ضرورت
’’ہمیں اس ملک میں اس راہ کواختیار کرنے کی بڑی ضرورت ہے کہ ہمارے متعلق جو غلط فہمی ہے وہ دور ہو اور اسلام کو امن وسلامتی کا دین سمجھا جائے، اور ایسا انسانی معاشرہ بنایا جائے جس میں سب کو امن وچین حاصل ہو اور مسلمان انسانیت نواز اور امن وسلامتی کا رہبر سمجھے جائیں، اس کے لیے اصلاً تین محاذوں پر کام کرنے کی ضرورت ہے، ایک تو یہ کہ مسلمان اپنے اخلاق وسیرت کو اسلامی سانچے میں ڈھالنے کی طرف توجہ دیں، دوسرے یہ کہ ان کے متعلق غیر مسلموں میں جو غلط فہمیاں ہیں، ان کو دور کرنے کے متعلق تدابیر اختیار کریں، اور تیسرے میڈیا کا ذریعہ جس کو دنیا انسانیت کی تخریب کے لیے استعمال کر رہی ہے، ہم اس کو انسانیت اور انسان کے اخلاق وسیرت کی بلندی تک لے جانے کے لیے استعمال کریں، یہ تینوں ذرائع اگر ہم استعمال میں لائیں گے تو اس سے ہمارے متعلق دوسروں کی بد گمانی خوش گمانی سے بدل جائے گی اور ہم امن وسلامتی اور سربلندی کے ساتھ زندگی گذار سکیں گے۔‘‘
حضرت مولانا سید محمد رابع حسنی ندوی مدظلہٗ