مولانا محمد منظور نعمانی رحمتہ اﷲ علیہ
خریدو فروخت کے متعلق احکام و ہدایات
پھلوں کی فصل تیاری سے پہلے نہ بیچی، خریدی جائے:
عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ عُمَرَ قَالَ نھیٰ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم عَنْ بَیْعِ الثِمَارِ حَتّٰی یَبْدُو صَلَا حُھَا نَھیَ الْبَائِعَ وَالْمُشْتَرِیْ۔ (رواہ البخاری ومسلم)
وَفِیْ رَوَایَۃٍ لِمُسْلِم نَھٰی عَنْ بَیْعِ النَّخْلِ حَتّٰی تَزْ ھُوَ وَ عَنِ السُّنْبُلِ حَتَّی یَبْیَضَّ وَیَا مَنَ الْعَاھَۃَ
حضرت عبداﷲ بن عمر رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے منع فرمایا پھلوں کی بیع سے اس وقت تک کہ ان میں پختگی آجائے آپ نے بیچنے والے کو بھی منع فرمایا اور خریدنے والے کوبھی۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم)
اور اسی حدیث کی صحیح مسلم کی ایک روایت میں ہے کہ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے منع فرمایا کھجوروں کی فصل کی بیع سے جب تک ان پر سرخی نہ آجائے اور کھیت کی بالوں کی بیع سے جب تک ان پر سفیدی نہ آجائے اور تباہی کا خطرہ نہ رہے۔
تشریح: جس طرح ہمارے ملک اور ہمارے علاقوں میں آم کے باغوں کی فصل آم تیار ہونے سے پہلے بہت پہلے بھی فروخت کردی جاتی ہے اسی طرح مدینہ منورہ وغیرہ عرب کے پیداواری علاقوں میں کھجور یا انگور کے باغات اور درختوں کے پھل تیاری سے پہلے فروخت کر دیے جاتے تھے اور کھیتوں میں پیدا ہونے والا غلہ بھی تیاری سے پہلے فروخت کردیا جاتا تھا۔ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے اس کی ممانعت فرمائی، کیوں کہ اس میں خطرہ اور امکان ہے کہ فصل پر کوئی آفت آجائے مثلاً تیز آندھیاں یا آسمان سے گرنے والے اولے غلہ کو یا پھلوں کو ضائع کردیں یا ان میں کوئی خرابی اور بیماری پیدا ہوجائے تو بیچارے خریدنے والے کو بہت نقصان پہنچ جائے گا پھر اس کا بھی خطرہ ہے کہ قیمت کی ادائیگی کے بارہ میں فریقین میں نزاع او رجھگڑا پیدا ہو۔ بہر حال اس بیع فروخت میں یہ کھلے ہوئے مفاسد اور خطرات ہیں اس لیے رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے اس کی ممانعت فرمائی۔ آگے درج ہونے والی حدیث میں اس کی مزید وضاحت ہے۔
عَنْ اَنَسٍ قَالَ نھیٰ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَم عَنْ بَیْعِ الِثّمَارِ حَتّٰی تَزْ ھِیَ، قِیْلِ وَمَاتَزْ ھِیَ؟ قَالَ حَتّٰی یَحْمَرَّ، وَقَالَ اَرَأَ یْتَ اِذَا مَنَعَ اللّٰہُ الثَمْرَۃَ بِمَا یَا خُذُ اَحَدُ کُمْ مَالَ اَخِیْہِ۔ (رواہ البخاری و مسلم)
حضر ت انس رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے پھلوں کی بیع سے منع فرمایا تا آنکہ ان پر رونق آجائے عرض کیا گیا کہ رونق آجانے سے کیا مطلب ہے آپ نے فرمایا مطلب یہ ہے کہ سرخی آجائے۔ (اس کے بعد) آپ نے ارشاد فرمایا کہ بتاؤ اگر اﷲ تعالیٰ پھل عطا نہ فرمائے (یعنی بحکم خداوندی کسی آفت سے پھل تیار ہونے سے پہلے ضائع ہوجائیں) تو بیچنے والا کس چیز کے عوض میں (خریدنے والے) اپنے بھائی سے مال وصول کرے گا۔ (صحیح بخاری ومسلم)
تشریح: علماء نے لکھاہے کہ اگر پھل میں ایسا نقصان ہوگیا ہے کہ خریدار کو کچھ بھی نہیں بچا سب برباد ہوگیا تو باغ فروخت کرنے والے کو چاہیے کہ قیمت بالکل نہ لے اور لے چکا ہے تو واپس کردے اور اگر ایسا نہیں بلکہ کچھ نقصان ہوگیا ہے تو اس کا لحاظ کر کے قیمت میں تخفیف اور کمی کردے۔ ان احکام کی روح یہ ہے کہ ہر ایک کی خیر خواہی اور مناسب حد تک ہر ایک کے مفادکی حفاظت کی جائے۔
چند سالوں کے لیے باغوں کی فصل کاٹھیکہ نہ دیا جائے:
عَنْ جَابِرٍ قَالَ نھیٰ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَنْ بَیْعِ السِّنِیْنَ وَاَمَرَ بِوَضْعِ الجَوائِح
(رواہ مسلم)
حضرت جابر رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے منع فرمایا (باغ کو) چند سالوں کے واسطے فروخت کرنے سے اور آپ نے حکم دیا ناگہانی آفات (کے نقصان) کو وضع کردینے کا۔ (صحیح مسلم)
تشریح: با غ کی فصل کئی سال کے لیے فروخت کرنے سے اسی لیے منع فرمایا گیا کہ معلوم نہیں کہ پھل آئے گا بھی یا نہیں اور باقی رہے گا یا خدا نخواستہ کسی ناگہانی حادثہ کا شکار ہوجائے گا۔ ایسی صورت میں بیچارے خریدار کو سخت نقصان پہنچے گا اور وہ قیمت ادا کرنا نہ چاہے گا جس سے نزاع اور جھگڑا پیدا ہوگا جو سوخرابیوں کی جڑ ہے۔ دوسرا حکم اس حدیث میں یہ دیا گیا کہ اگر باغ کی فصل فروخت کی گئی اور پھلوں پر کوئی آفت آگئی تو باغ کے مالک کو چاہیے کہ نقصان کا لحاظ کر کے قیمت میں کمی اور تخفیف کردے۔
ظاہر ہے کہ ان سب احکام کا مقصد اہل معاملہ کی خیر خواہی اور ان کو باہمی اختلاف و نزاع سے بچانا اور ایک دوسرے کی ہمدردی و غمخواری اور ایثار و قربانی کا عادی بنانا ہے۔
(مطبوعہ: معارف الحدیث، ج:۷، ص:۱۲۳تا ۱۲۵)