پروفیسر محمد حمزہ نعیم
ایک ہندوستانی اپنے انگریز دوست کے ہمراہ گپ شب میں مصروف تھا۔ اس نے انکشاف کیا کہ ہم نے ایک ایسی چیز بنائی ہے جس سے ہم دیوار کے اس پار دیکھ سکتے ہیں۔ انگریز بولا واؤ! وہ کیا چیز ہے؟ اس نے اسے اپنی بیٹھک کی دیوار میں ایک خفیہ سوراخ دکھایا اور کہا آپ خود ملاحظہ فرما سکتے ہیں کہ دور تک دوسری طرف کے مناظر نظر آرہے ہیں۔
انگریز بیچارا اس کی بات سمجھا نہیں مگر چودہ صدیاں پہلے حضرت عمر رضی اﷲ عنہ سیکڑوں میل دور بہ مشیت الٰہی مجاہدوں کو دیکھ لیتے تھے، ان کو عسکری ہدایات دے لیتے تھے۔ بے دھڑک بِلا خوف بیت المقدس کے یہودیوں ، عیسائیوں کے سامنے جا کھڑے ہوتے تھے۔ اس زمانے کے یہودی عیسائی بھی اتنے نابینانہ تھے عمر کے لباس میں چودہ پیوند دیکھ کر بیت المقدس کے خزانوں کی چابیاں ان کے حوالے کردیا کرتے تھے۔ وہ تورات و انجیل اور آسمانی صحائف میں لکھی اصحابِ رسول (وَالذین مَعَہ) کی نشانیوں کا انکار نہیں کرتے تھے۔ ایک سوراخ دور تک کا منظر دکھا دیتا ہے تو آسمانی صحائف آج کیوں حقائق نہیں دکھاتے کاش سردار جی اور ان کے ساتھی حقائق کو دیکھنے کی کوشش کریں سابق آسمانی کتابیں جگہ جگہ آخری آنے والے کی باتیں سنا رہی ہیں۔ وہ صدیوں پہلے کھجوروں کے دیس میں آکر اسی لیے آباد ہوئے تھے کہ آخری آنے والے کا استقبال کریں گے۔ ان کی نصرت کریں گے۔ ان کے وجود مسعود کی برکت سے فتح یاب ہوں گے۔ پھر جب وہ آخری آنے والا آگیا۔ اسے پہچان بھی لیا مگر انکار کردیا۔
’’یہ ہمارے خاندان ہماری قوم میں سے کیوں نہ آیا؟‘‘ سردار ابن اُبَی نے دیکھ کر منافقت اپنائی اور اہل کتاب بنو قریطہ، بنو نضیر اور بنو قینقاع نے ’’واؤ‘‘ کرنے پر اکتفاء کیا۔ ہاں عبداﷲ بن سلام جیسے خوش نصیبوں نے حق کو دیکھا اسے قبول کیا اور معیار حق بن کر تاقیامت نشان منزل بن گئے۔ یہی خوش نصیب اصحابِ رسول وہ رہنمایان عرب و عجم بنے کہ جدھر رخ کیا ادھرروشنی پھیل گئی۔ ایران کی آتش بجھ گئی۔ یمن میں نور چھا گیا، روم اور شام کی تاریکیاں بستر لپیٹ کر ربع سکوں کے مغربی کناروں کی طرف بھاگتی نظرآئیں۔ لیکن آج اہل حق بھی مغرب کے اندھیروں میں حق ڈھونڈ رہے ہیں۔ اس لیے نہیں کہ حق موجود نہیں رہا بلکہ اس لیے کہ تہذیب جدید کی چکاچوند سے ان کی آنکھیں چندھیا گئی ہیں۔ آج بھی اگر حق کی روشنیوں کی تلاش ہے تو وہ ضرور مل سکتی ہیں مگر پہلے اہل حق کو ایک دوسرے کا حق ادا کرنا ہوگا آپ کا اتحاد، ایک دوسرے کی مدد اور نصرت بلکہ ایثار اور قربانی، صدق و صفا، امانت جرأت و استقامت، اپنی استطاعت کے مطابق باطل کے خلاف تیاری اور اس کے ساتھ ساتھ اﷲ کی مخلوق کے لیے رحمت پھر اس دنیا کے اس پار مومن کی جنتیں ضرور نظر آرہی ہوں گی۔ البتہ عدل و امن اور اعلاء کلمتہ اﷲ میں جہاں رکاوٹ پیدا کی جائے توبہ قول شاعر مشرق منظر کچھ یوں ہوگا۔
ہو محفل یاراں تو بریشم کی طرح نرم رزم حق و باطل ہو تو فولاد ہے مومن