انصار عباسی
گزشتہ منگل کے روز جنگ اخبار میں شائع ہونے والی خبر کے مطابق وفاقی شرعی عدالت کے چیف جسٹس ریاض احمد خان نے سود کے متعلق کیس کو سنتے ہوئے ریمارکس دیے کہ جس وقت سود کی ممانعت کا حکم ہوا اس وقت کی معیشت آج سے مختلف ہے۔ چیف جسٹس شرعی عدالت نے کہا کہ سوال یہ ہے کہ اس وقت کے نظام کو آج کیسے نافذ کیا جاسکتا ہے۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ interest کی تعریف سود نہیں بلکہ نقصان کا ازالہ سمجھی جاتی ہے۔ یہ خبر پڑھ کر یقین نہیں آیا کہ یہ سوال شرعی عدالت کے چیف جسٹس نے اٹھائے ہوسکتا ہے کہ وہ سود کے متعلق ایک خاص طبقہ فکر کے ذہن میں موجود سوالات کا جواب حاصل کرنے کے لیے ایسے سوال اٹھارہے ہوں ورنہ ایک شرعی عدالت میں ایسی بات کیسے کی جاسکتی ہے کہ سود کے متعلق احکام کا تعلق اس دور کی معیشت سے تھا جب قرآن پاک نازل ہوا۔ یہ تو وہی بات ہوئی جو مغرب اور مغرب زدہ دیسی ترقی پسند اور ’’روشن خیال‘‘ بیان کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اسلام کو نئے دور کے ساتھ اپنے آپ کو بدلنا چاہیے۔ یہ وہی طبقہ ہے جس کے لیے کہا گیا کہ’’ خود بدلتے نہیں، قرآن کو بدل دیتے ہیں‘‘ ایک مسلمان کے لیے شرعی احکامات کی حیثیت اٹل ہے۔ جو حکم اﷲ اور اﷲ کے رسول صلی اﷲ علیہ وسلم کی طرف سے واضح طور پر آگیا وہ ہمارے ایمان کا حصہ ہے، اسے تبدیل نہیں کیا جاسکتا ہے اسی کے مطابق ہمیں ایک اسلامی معاشرہ تشکیل دینا ہے اور اس کے لیے وقت یا دور کی کوئی اہمیت نہیں۔ سود کے متعلق اسلام کے احکامات واضح ہیں اور اسی بنا پر وفاقی شرعی عدالت نے 1991ء میں اپنے فیصلہ میں پاکستان میں رائج سود کی تمام اقسام کو قرآن اور سنت کے خلاف قرار دیتے ہوئے اس کے خاتمہ کا حکم دیا تھا۔ اس فیصلہ کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیا گیا لیکن سپریم کورٹ نے بھی شرعی عدالت کے حکم کی تائید کرتے ہوئے حکومت کو سود کے خاتمہ کا حکم دیا۔ بعدازاں جنرل مشرف دور میں سپریم کورٹ نے یہ معاملہ دوبارہ وفاقی شرعی عدالت کے سپرد کردیا اور ہدایت دی کہ اس معاملہ کو دوبارہ دیکھا جائے۔ شرعی عدالت کے 1991ء کے فیصلہ کو لٹکانے اور پھرادھر سے ادھر بھیجنے کیاصل وجہ یہ تھی کہ کوئی حکومت سودی نظام کے خاتمہ کے لیے سنجیدہ نہ تھی۔ سال 2002ء میں یہ معاملہ شرعی عدالت کے سپرد کیا گیا اور آج سال 2017ء میں اسی کیس کو ابھی تک سناجارہا ہے۔ ان پندرہ سالوں میں شاید اس کیس کو پندرہ بار بھی نہیں سنا گیا اور معاملات جیسے چل رہے ہیں اگر ایسے ہی چلتے رہے تو محسوس ایسا ہوتا ہے کہ اس کیس کا فیصلہ آنے میں شاید ایک آدھ صدی انتظار کرنا پڑے۔ کیس کس سست روی سے چل رہا ہے وہ ایک الگ بحث ہے لیکن ماضی میں اس کیس سے جڑے ایک اہم فرد سے آج بات ہوئی تو ان کا کہنا تھا کہ سود کے متعلق شرعی عدالت اور پھر سپریم کورٹ میں نوے کی دہائی میں طویل بحث ہوئی اس میں ہر زاویے سے اس معاملہ کو گہرائی سے دیکھا گیا جس کے نتیجہ میں ملک کی اعلیٰ عدلیہ اس نتیجہ پر پہنچی کہ سودی نظام کو ختم کیا جائے کیونکہ یہ نظام معیشت اسلامی احکامات کی کھلی خلاف ورزی ہے۔ ان صاحب کا کہنا تھا کہ شرعی عدالت کو چاہیے کہ اپنے پرانے فیصلہ کے ساتھ ساتھ سپریم کورٹ اپیلیٹ بنچ کے فیصلے کو پڑھ لیں تو بہت سے سوالوں کے جواب مل جائیں گے۔ ورنہ اگر ہم مغرب یا مغرب سے مرعوب یہاں موجود ایک طبقہ کی سوچ کو اہمیت دینے بیٹھ جائیں گے تو سود کے ساتھ ساتھ دوسرے شرعی احکامات کے تقدس کی بھی پامالی ہوگی۔ کیا اسی طبقہ سے تعلق رکھنے والے افراد یہ بات نہیں کرتے کہ مسلمان خواتین کے لیے پردہ کا حکم تو اسی دور کے لیے تھا؟ یہ طبقہ تو اسلامی ریاست کو مانتا ہی نہیں اور ریاست کے سیکولر ہونے کی بات کرتا ہے تاکہ شرعی احکامات کے نفاذ کا کوئی سوال ہی نہ اٹھائے۔
(مطبوعہ: روز نامہ ’’جنگ‘‘13اپریل 2017ء)