عبدالرشید قمر
مردان کی’’’ولی خان یونیورسٹی‘‘ میں غیر مذہبی طلبہ کے ہجوم کے ہاتھوں توہین مذہب کے نام پر ایک غیر مذہبی نوجوان مشال خان کا سفاکانہ قتل…… انتہائی افسوس ناک اور شرمناک ہے، مقتول توہین مذہب کا مرتکب ہوا تھا یا نہیں اس بحث سے قطع نظر کسی بھی فرد کو یا گروہ کو شریعت اسلامیہ یہ اختیار نہیں دیتی کہ وہ خود خدائی فوج دار بن کر اپنی عدالت لگائے اور سزائیں دیتا پھرے،……اسلامی ریاست میں حدود اﷲ کا نفاذ……سزا و تعزیر کی تنفیذ میں اتھارٹی یا توحاکم وقت ہو سکتا ہے یا عدالتیں ہوا کرتی ہیں…… مذہب کے نام پر ایسے کسی بھی قتل کو جسٹی فائی نہیں کیا جاسکتا۔ اس ضمن میں کچھ باتیں غور طلب ضرور ہیں جن پر مکالمہ ہونا چاہئے۔۔۔ بہرحال یہاں موضوع سخن یہ ہے کہ یہ بات سب جانتے ہیں کہ مشال خان کا قتل کسی مسجد کے صحن اور مدرسے کے احاطے میں نہیں ہوا……مشال خان کو داڑھی اور عمامے والوں نے نہیں مارا……اس پر حملہ کسی اسلامی جمعیت نے بھی نہیں کیا……،اور نہ ہی کسی مولوی نے اسے گستاخ ڈکلئیرکیاتھا……،بلکہ ابتدائی رپورٹس کے مطابق حملہ کرنے والا گروہ قوم پرست تنظیم ’’پختون سٹوڈنٹس فیڈریشن‘‘ سے تعلق رکھتا ہے۔ جو فکری طور پر لبرل ذہنیت پر مبنی تنظیم ہے۔ جو کالجوں اور یونیورسٹیوں میں مخلوط ناچ گانے کی محافل پر یقین رکھتی ہے۔ لیکن اس واقعے کے بعد لبرلز اور مذہب بیزار تمام عناصر کی توپوں کا رخ ملا اور مسجد کی طرف ہوگیا ہے۔ لبرل اور موم بتی مافیا اس واقعے کو کیش کرانے کے لیے سارا ملبہ مُلا پر ڈال رہا ہے اور لٹھ لے کر مولویت کے پیچھے پڑگیا ہے۔ حالانکہ مشال خان کا قاتل مولوی نہیں مسٹر ہے پھر بھی مولوی کو مورد الزام ٹھہرانا انتہائی قابل مذمت ہے۔ مگر ’’پختون سٹوڈنٹس فیڈریشن‘‘ کا مذہبی نہ ہونے کے باوجود یہ اقدام اس لیے بھی باعث تعجب نہیں کہ نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کی ذات بابرکات کے بارے میں پاکستانی قوم بہت ہی حساس ہے۔ تاریخ کے صفحات میں یہ عجیب حقیقت مرقوم ہے کہ ہمارے ایک معروف شاعر اختر شیرانی نے شراب کے نشے میں دھت ہونے کے باوجود نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کی ذات کے خلاف سوال اٹھانے پر ایک گورے صحافی کے سر پر شراب کا گلاس دے مارا تھا۔ لہٰذا پاکستانی سماج میں رہتے ہوئے پاکستانی قوم کی اس حساسیت کو ملحوظ خاطر رکھنابہت ضروری ہے۔ لیکن افسوس کہ سوشل میڈیا پر موجود دیسی لبرل اور ملحدطبقہ اس واقعے پر جس طرح مذہب کو آڑے ہاتھوں لیے ہوئے ہے اس کا لازمی نتیجہ یہ ہوگا کہ لوگ مشتعل ہوں گے اور یوں پھر کوئی ناخوشگوار واقعہ رونما ہوسکتا ہے۔ بہر حال یہ انتہائی قابل مذمت امر ہے کہ چند سر پھرے عقل سے پیدل افراد سوسائٹی میں اپنی نجی عدالت لگا کر فیصلے کرنے لگیں لیکن اس کے ساتھ یہ بھی ایک افسوس ناک حقیقت ہے کہ جہاں ریاست کی گرفت کمزور ہو ریاست کے نظام عدل و انصاف پر لوگوں کو اعتماد اور بھروسہ نہ ہو وہاں اس طرح کے کسی سانحے کا رونما ہوجانا کوئی اچھنبے کی بات بھی نہیں ہے، کیونکہ بدقسمتی سے پاکستانی عدلیہ کی کارگردگی سب کے سامنے ہے۔ جہاں سے آج تک توہین مذہب کے مرتکب کسی ایک بھی فرد کو سزا نہیں ہوئی۔ ابھی کل کی بات ہے کہ گستاخانہ پیجز چلانے والے قانون کو ٹھنگا دکھا کر بلا روک ٹوک ملک سے باہر فرار ہوگئے ہیں۔ جبکہ ان کے وکیل اور سہولت کار صبح و شام بعض ٹی وی چینلز پر مذہب کو کوسنے ملا کو للکارنے اور مدارس کو جلی کٹی سنانے میں مصروف ہیں۔ انھیں اس مذموم آزادی اظہار کی چھوٹ آخر کس نے دے رکھی ہے؟ اسی طرح ہماری عدلیہ محترمہ کا حال بھی کسی سے ڈھکا چھپا نہیں۔ جس نے 5ارب کی کرپشن کرنے والے شرجیل میمن، 470 ارب کی کرپشن کرنے والے ڈاکٹر عاصم، 8ارب 80کروڑ کی کرپشن کرنے والے حامد سعید کاظمی کو باعزت بری کر دیا جبکہ صرف ایک ہزار روپے کا دھنیا چوری کرنے والا درجن بھر بچوں کا مجبور باپ جیل میں سڑ رہا ہے۔ ہماری اخلاقی پستی کا عالم یہ ہے کہ ایک غریب کا بچہ قابو آجائے تو پولیس مار مار کر اس کا حلیہ بگاڑ دیتی ہے۔ جبکہ لشکارے مارتی ایان علی کو عدالت میں پیش کرتے وقت پولیس والے اس کا میک اپ بکس اٹھائے آگے پیچھے گھومتے ہیں۔ ذرا دل کی کہیے کہ ایسی عدلیہ اور ایسے قانون کے رکھوالوں پر عام آدمی کیوں اور کیسے بھروسہ کرسکتا ہے؟ چنانچہ اس صورت حال میں ملک سے تشدد کو ختم کرنے کے لیے اگر ہم سب سنجیدہ ہیں تو ہمیں سب سے پہلے اپنے نظام انصاف کو ٹھیک کرنا ہوگا۔ قانون کی بالادستی کو یقینی بنانا ہوگا۔ عدلیہ کے بارے میں معاشرے کے اعتماد کو بحال کرنا ہوگا توہین مذہب کے ملزموں کو کٹہرے میں کھڑا کرنا ہوگا او رجھوٹے الزام بازوں کو بھی آہنی شکنجے میں کسنا ہوگا۔ ورنہ یاد رکھیں ایسے واقعات رونما ہوتے رہیں گے۔ وما علینا الاالبلاغ
(مطبوعہ: روزنامہ ’’پاکستان‘‘ 24اپریل 2017ء)