ڈاکٹر عمر فاروق احرار
روزنامہ 92 نیوز لاہور کے 22؍ اپریل2017ء کے ادارتی صفحہ پر جناب ڈاکٹر طاہر مسعود کا کالم بعنوان ’’پھر یہ ہنگامہ اے خدا کیا ہے؟‘‘ پڑھا۔ فاضل کالم نگار نے عبیداﷲ علیم کا ایک شعرنقل کرکے تحریرکیاہے کہ ’’ہم نے علیم کا شعر نقل تو کر دیا، لیکن اک ذرا شرمندگی سی بھی ہے کہ [علیم] کا ایک اقلیتی فرقہ سے تعلق تھا اور اِن دنوں اِس فرقہ پر اپنے دین کے بے رحم عشاقوں کے ہاتھوں افتادٹوٹی پڑی ہے کہ کوئی دن جاتاہے کہ کوئی نہ کوئی اس فرقے کا مقتول ہو جاتا ہے۔‘‘ پھر ڈاکٹرطاہرمسعودنے فسادفی الارض کا تعلق مذہب سے جوڑنے اور’’مذہب کی آڑ میں فسطائی چیرہ دستیوں کے بے رحمانہ مظاہروں ‘‘ پر زورِ بیان صرف کیاہے۔جناب والا! پہلی بات تو یہ ہے کہ قادیانی ایک فرقہ نہیں بلکہ قادیانیت ایک مستقل مذہب ہے اورعلامہ اقبال کے بقول ’’قادیانی ایک علیحدہ امت ہیں،کیونکہ نیانبی تسلیم کرلینے سے امت بھی بدل جاتی ہے۔‘‘ دوسری بات یہ ہے کہ قادیانیوں پر جس اُفتادکا ذکر کیاگیا ہے کیا اُنھوں نے کبھی غورکیاہے کہ دیگرغیر مسلم اقلیتوں کے برعکس پاکستان میں صرف قادیانی ہی کیوں باعثِ نزاع بنے ہوئے ہیں؟جناب والا! یہ بات اظہرمن الشمس ہے کہ قادیانی اسلام کی رُوسے پہلے ہی غیرمسلم تھے،مگر 1974ء میں پاکستان کی قومی اسمبلی نے قادیانیوں کے کفریہ عقائد کے متعلق قرآن وسنت کے فیصلے کی توثیق کرتے ہوئے اُن کی آئینی حیثیت متعین کردی اوراُنھیں غیرمسلم اقلیت قرار دیا تھا، مگر قادیانی اپنی اِس متعینہ دستوری حیثیت کو تسلیم کرنے سے اب تک یکسر انکاری ہیں۔ اِس پر مستزاد یہ کہ وہ اپنے آپ کو مسلمان کہلاتے، اسلامی شعائرکا بے دھڑک استعمال کرتے اورمرزاقادیانی کی مکذوبہ نبوت کو حقیقی نبوت بتاتے ہیں۔جس پر فساد اور نزاع ہونا ایک فطری بات ہے۔ جس کے ذمہ دارصرف اورصرف خودقادیانی ہیں۔اِس ملک میں درجنوں دیگر غیر مسلم اقلیت بھی رہتی ہیں، لیکن اُن کے ساتھ مسلمانوں کے اِس طرح کے نزاعات تسلسل کے ساتھ کبھی نہیں دیکھے گئے،وہ اِس لیے کہ وہ اپنی متعینہ آئینی حیثیت کو تسلیم کرتی ہیں اورمسلمان اکثریت کے عقائدکا احترام کرتی ہیں۔اُن کے برعکس قادیانی مسلمان اکثریت کے جذبات واحساسات کی پروا کیے بغیراسلام اورمسلمانوں کی دل آزاری کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے۔ وہ دھڑلے سے مرزاقادیانی کو رَسول اﷲ،ان کی بیوی کو اُم المومنین ،اُن کے ساتھیوں کو صحابی اور قادیان کو مکہ اورمدینہ سے افضل لکھتے ہی نہیں، کہتے بھی ہیں۔ جس سے اشتعال کی فضاپیداہوتی ہے اوربعض اوقات بات قتل وغارت گری تک جا پہنچتی ہے۔ ہم کسی کو قانون ہاتھ میں لینے کی اجازت نہیں دے سکتے اورقادیانیوں کی ایسی اشتعال انگیز کارروائیوں کو قانون اورآئین کے دائرے میں لانے کے قائل ہیں،مگر قادیانی خوداَیسے خون ریزمواقع پیداکرتے ہیں اور جب اُن کا ردعمل آتاہے تو اپنے انسانی حقوق کا رونا روکر بیرونی ممالک میں پناہ حاصل کرتے ہیں اوروہاں سے اسلام اور پاکستان کے خلاف پراپیگنڈہ کرنے میں مشغول ہوجاتے ہیں۔
ازراہ کرم قادیانیوں کے حق میں آوازاُٹھانے سے پہلے زمینی حقائق پر بھی نظر کی جائے اورغیرمسلم اقلیت کی بے جا حمایت کی بجائے مسلم اکثریت کے حقوق اورجذبات کو بھی مدنظر رکھا جائے تو یقین ہے کہ قلم اورزبان سے حق اورسچ کے اظہار میں کسی دشواری اوررکاوٹ کاسامنا نہیں کرنا پڑے گااورکسی بھی طبقہ کی حق تلفی نہیں ہوگی۔