سید محمد کفیل بخاری
پانامہ کیس کا ایسا فیصلہ آیا ہے کہ ’’کچھ نہ سمجھے خدا کرے کوئی‘‘سپریم کورٹ کے پانچ رکنی بینچ میں سے دو نے کہا کہ ’’دال میں کالاکالا ہے‘‘ تین نے کہا کہ کچھ ہے تو سہی لیکن مزید تحقیق کی ضروت ہے۔ چنانچہ جے آئی ٹی کو کالا کالا تلاش کرنے کی ذمہ داری سونپی گئی ہے۔ اس فیصلے پر فریقین نے مٹھائیاں تقسیم کیں، لڈو کھائے اور لڈی ڈالی، اپنے اپنے رہنماؤں پر پھول برسائے اور تعریف میں نعرے بلند کیے۔ ہمارے خیال میں شیخ رشید کا تبصرہ زیادہ دلچسپ ہے۔
’’دو میں فیل، تین میں پاس اور وہ کہتے ہیں پپو پاس ہوگیا‘‘
عمران خان تو اب بھی تصور پانامہ کیے بیٹھے ہیں، دیکھئے پانامہ کا اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے۔ دو مہینے جے آئی ٹی کا انتظار بھی کر لیں، نتیجہ یہی نکلے گا۔ عوام ووٹ انھی کو دیں گے اور حکومت پھر انھی کی بنے گی۔ سی پیک ان کی ضرورت ہے اور یہ سی پیک کی ضرورت ہیں ۔ البتہ ڈان لیکس کا فیصلہ باقی ہے۔ دل یاشکم!
الزامی سیاست اپنے عروج پر ہے، عمران خان کے نزدیک شریف برادران اور ان کے ساتھی سب کرپٹ ہیں۔ جبکہ شریف برادران کے نزدیک عمران دنیا کا جھوٹا ترین شخص ہے۔ زرداری دونوں کی لڑائی انجوائے کر رہے ہیں اور کبھی کبھی شیرا لگاتے رہتے ہیں۔جو ان کی سیاسی مجبوری ہے کہ الیکشن سر پر ہے۔ الزامات کا ایک شرمناک سلسلہ جاری ہے۔ عمران کے بقول انھیں چپ رہنے کے لیے 10؍ارب رشوت کی پیش کش کی گئی ۔اعتزاز احسن نے ہوا دی کہ ضرور ہوئی ہوگی لیکن عمران بھولا آدمی ہے۔ پی ٹی آئی حکومت کے خلاف کورٹ میں گئی تو اب مسلم لیگ نے بھی کورٹ میں جانے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ دونوں کورٹ کورٹ کھیل رہے ہیں، پی پی تماشائی ہے اور بے وقوف لوگ ہیں عوام، رہ گئے غلام کے غلام۔
قائد جمعیت مولانا فضل الرحمن انتہائی زیرک سیاست دان ہیں۔ ایسے ماحول میں انھوں نے جمعیت علماء اسلام کا صد سالہ عالمی اجتماع منعقد کر کے جہاں اپنی زبردست قوت کا مظاہرہ کیا وہاں حکمرانوں اور سیاست دانوں کو بھی مثبت پیغام دیا کہ اتنی بڑی قوت کو نظر انداز کر کے وہ اپنی من مانیاں نہیں کرسکیں گے۔ مولانا فضل الرحمن اس وقت دینی قوتوں کے سب سے مضبوط نمائندے ہیں۔ انھوں نے جس حکمت کے ساتھ دینی جماعتوں سے تشد کے رجحانات کو ختم کیا وہ بڑا کارنامہ ہے۔ متحدہ مجلس عمل مرحومہ کے دور میں بھی وہ ایک قوت تھے لیکن حالات کے تیور بتاتے ہیں کہ اس مرتبہ جمعیت علماء ایک بڑی سیاسی قوت بن کر ابھرے گی۔ جماعت اسلامی، کبھی متحدہ مجلس عمل میں جمعیت علماء کے ساتھ تھی۔ لیکن 2013ء کے انتخابی نتائج نے اسے پی ٹی آئی کے قریب کر دیا۔ جس کے نتیجے میں نہ خدا ہی ملا نہ وصال صنم کا مصداق بن گئے۔ چنانچہ جمعیت علماء کے صد سالہ اجتماع میں امیر جماعت جناب سراج الحق کا یہ فرمانا کہ:’’میں دینی جماعتوں کے اتحاد کی ذمہ داری مولانا فضل الرحمن کے سپرد کرتا ہوں‘‘ دراصل مولانا کی سیاسی قوت کو تسلیم کرنے کے مترادف ہے۔ اس وقت تمام دینی قوتیں مولانا فضل الرحمن کے ساتھ ایک پیج پر ہیں۔ امید ہے کہ جماعت اسلامی بھی آئندہ انتخابات میں مولانا کی حلیف ہوگی۔ دینی قوتوں کو موجودہ سیاسی افراتفری اور الزام و دشنام کے ماحول سے دور رہ کر اپنی سیاسی قوت کے اضافے پر توجہ دینی چاہیے۔
گزشتہ چند ماہ سے سوشل میڈیا پر جس بے غیرتی کے ساتھ توہین رسالت کی شرمناک مہم چلائی گئی وہ ہر مسلمان کے لیے لمحۂ فکریہ ہے۔ پہلے بلا گرز سامنے آئے تو جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے سخت نوٹس لے کر ان کا ٹیٹوا دبایا پھر ولی خان یونیورسٹی میں مشال خان کے قتل کا افسوسناک واقعہ پیش آیا اور اب چترال کی شاہی مسجد میں ایک شخص نے بھرے مجمع میں اسمٰعیلی مذہب کے پجاسویں امام کے ـظہور کا دعویٰ کردیا اور کہا کہ مجھ پر وحی آتی ہے۔ شاہی مسجد کے خطیب مولانا خلیق الزمان نے اسے پولیس کے حوالے کر کے انتہائی دانش مندی کا مظاہرہ کیا۔ یہ شرمناک حرکتیں یقینا کسی گہری استعماری سازش کا نتیجہ ہیں۔ جس کا مقصد پاکستان سے توہین رسالت کی سزا کا قانون ختم کرانا ہے۔ ہمارے خیال میں یہ واقعات قانون پر عمل نہ ہونے کا نتیجہ ہیں۔ حکومت کی ذمہ داری ہے کہ ایسے شرمناک واقعات کی روک تھام کے لیے قانون پر عمل داری یقینی بنائے۔
امریکہ نے افغانستان میں ایٹم بم کے بعد سب سے زیادہ طاقتور بم گرا کر سیکڑوں بے گناہ شہریوں کا قتل عام کیا ہے۔ غیر معمولی سانحے پر دنیا کی مجرمانہ خاموشی افسوسناک ہے۔ ہمارے حکمران بھی خاموش ہیں حالانکہ یہ پاکستان کے لیے بھی امریکی دھمکی ہے۔ افغانستان اور انڈیا کی دھمکیوں کے بعد اب ایران کے ماتھے پر بھی بل آگئے۔ گزشتہ دنوں پاک ایران سرحد پر سرحدی محافظوں کی ہلاکت پر ایرانی صدر نے پاکستان پر برہمی کا اظہار کیا ہے اور پاکستانی سفیر کو بلا کر احتجاج کیا ہے۔ سابق آرمی چیف جنرل راحیل شریف نے کلبھوشن کی گرفتاری کے موقع پر ایرانی صدر سے ملاقات میں بھی کلبھوشن کے ایران سے پاکستان میں داخلے کے علاوہ بعض دیگر حساس معاملات پر بھی ان سے بات چیت کی تھی۔ جسے برا منایا گیا۔حالانکہ حساس معاملات پر سنجیدگی سے غور و خوض اور ان کے حل کے لیے مثبت کوششوں کی ضرورت ہے۔ اگر سرحدی محافظوں کے قتل کا ذمہ دار پاکستان ہے تو ایرانی سرحد سے پاکستانی سرحد پر میزائل برسانے کا ذمہ دار کون ہے؟
یٔ یٔ یٔ یٔ